تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-01-2015

غور طلب معاملہ

فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو پر حملے کے خلاف عالمی لیڈر متحد ہیں۔ ''آزادیٔ اظہار‘‘ کے نام پر کئی دوسرے اخبارات نے بھی گستاخانہ اور دلآزار کارٹون شائع کیے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دہشت گرد کسے قرار دیا جائے ؟ حملہ آوروں کو یا انہیں اکسانے والوں کو ؟ دنیا کی ایک تہائی آبادی حضوؐر کو خدا کا آخری نبی تسلیم کرتی ہے ۔ایک گنہگار ترین مسلمان کے قلب میں بھی اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال سے کہیں بڑھ کر نبی آخر الزماںؐ کی محبت ہوتی ہے ۔ ایک مسلمان ملک میں توہینِ رسالت پر عدالت سزا سنا سکتی ہے۔ فرانس سمیت یورپ میں آزادیٔ اظہار کی آڑ میں ایسا ممکن نہیں ۔ شخصی آزادی کے قوانین موجود ہیں ۔ خاکہ بنانے والا‘ ایک عام شہری اور اس کے اہل و عیال کی تضحیک نہیں کر سکتا۔ کرے تو قانون مواخذہ کرے گا۔سیاسی شخصیات اور مذہبی ہستیوں کے بارے میں آزادیٔ افکار ابلیسی حدود کو چھو لیتی ہے ۔ دنیا کے ہر تیسرے شخص کے جذبات آپ بری طرح مجروح کرتے او راس کے بعد یہ امید رکھتے ہیں کہ کوئی پُرتشدد واقعہ پیش نہ آئے۔ کم از کم میں پیغمبرِ اسلامؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر حملے کو اس صورت میں دہشت گردی قرار نہیں دے سکتاکہ عدالت مجرموں کو سزا سنانے سے انکار بلکہ اس طرزِ عمل کو جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ عطا کر ے ۔
یورپ میں فرانس وہ پہلا ملک تھا، خواتین کے چہرہ ڈھانپنے پر جس نے پابندی عائد کی ۔ 70لاکھ آبادی کے ساتھ مسلمانوں کی 
سب سے بڑی تعداد فرانس ہی میں مقیم ہے ۔ یہ بات نہیں کہ برقع پوش خواتین وہاں پُرتشدّد کارروائیوں میں ملوّث تھیں ۔ یورپ کے چہرے سے نقاب اس وقت کھسکتا ہے ، جب دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کے قتلِ عام پر بات کی جائے ۔یہودیوں کی بڑی نسل کشی کے اس واقعے کو ''ہولو کاسٹ‘‘ کہا جاتاہے ۔ ہولوکاسٹ کا انکار یا مضحکہ اڑاناجرم ہے ۔ اس بارے میں آپ کو بڑے عجیب و غریب دلائل سے واسطہ پڑے گا‘ مثلاً یہ کہ ہولو کاسٹ ایک تاریخی صداقت جب کہ مذہب کی بنیاد ہی غیر سائنسی اور متنازع ہے ۔ ایک دو نہیں ہالی ووڈ میں آپ کو حضرت عیسیٰؑ کی تضحیک پر مشتمل کئی فلمیں نظر آئیں گی ۔ایک عام یورپی حضرت نوح علیہ السلام کے سیلاب کو غیر سائنسی سمجھتاہے ۔ خاص طور پر خدا کی ہدایت پر تمام جانوروں کے ایک ایک جوڑے کو کشتی میں سوار کرنے کا واقعہ ۔
مغرب کے اس طرزِ عمل کی بنیاد شاید چرچ کی طویل ظالمانہ حکومت ہے ۔یہ وہ زمانہ تھا، جس دوران مغربی دنیا پر جہالت کی تاریکی مسلّط تھی۔ چند روپوں کے عوض پادری جنّت کا ٹکٹ جاری کرتے ۔ شدید سردرد، مائیگرین کے مریضوں کے بارے میں کہا جاتا کہ شیطان ان کے جسم میں داخل ہو چکا اور واحد حل سر کچل ڈالنا ہے ۔ سائنسی تحقیق ممنوع تھی۔ سترہویں صدی کے 
ماہرِ فلکیات گلیلیو نے انکشاف کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو مذہب کے ٹھیکیداروں نے اُسے سزائے موت سنائی؛ تاہم گلیلیو کو پھانسی کے پھندے سے بچنے کے لیے توبہ کرنا پڑی۔ چرچ‘ ارسطو اور بطلیموس کے ان نظریات کا قائل تھا کہ کرّۂ ارض ساکن اور کائنا ت کا محو ر و مرکز ہے ‘ سورج، چاند اور ستاروں سمیت، سبھی ہماری زمین کے گرد متحرک ہیں ۔
چرچ کی حکومت جہالت اور پسماندگی کی صدیوں سے منسلک ہے ۔مشرق کے برعکس صوفی (Saint)کو وہاں ایک کمتر ، حقیر آدمی سمجھاجاتاہے ۔ ایک حد تک مغرب کی مذہب سے برگشتگی درست بھی ہے اور اس کی بنیادی وجہ بائبل میں بڑے پیمانے پر تحریف ہے ۔قرآن کے برعکس حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پہ نازل ہونے والی کتب اب اپنی اصلی الہامی شکل میں موجود نہیں۔ 
مذہب کے غیر سائنسی بنیادوں پہ استوار ہونے کا مغربی دعویٰ باآسانی باطل ثابت کیا جا سکتاہے ۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے : کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ زمین اور آسمان جڑے ہوئے تھے ، پھر ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا ۔ آغازِ کائنات کی ساری مغربی تحقیقات ایک عظیم دھماکے یا بگ بینگ سے آغاز کرتی ہے۔1927ء میں پہلی بار فرانسیسی سائنسدان Georges Lemaître نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ 1929ء میں عظیم ماہرِ فلکیات ایڈون ہبل نے مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ مخالف سمت میں بھاگ رہی ہیں۔ جیسا کہ کسی دھماکے نے انہیں اس پہ مجبور کر دیا ہو۔ بگ بینگ کو غیر متنازع شکل اختیار کیے ابھی ایک صدی بھی مکمل نہیں ہوئی ۔ قرآنِ کریم میں یہ انکشاف کب سے درج ہے ، بتانے کی ضرورت نہیں ۔ ابھی حال ہی میں سائنس کہکشائوں کی رفتار اور ان میں موجود مادے کا حساب لگانے کے بعد اس نظریے پہ پہنچی ہے کہ کوئی نہ نظر آنے والا مادہ بلیک میٹر اور بلیک انرجی کائنات کو پھیلانے کاباعث ہے ۔ ادھر پارہ نمبر 27،سورۃ الذاریات میں درج ہے : والسماء بنینھا باید و انا لموسعون۔ بے شک آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں ۔نظامِ شمسی کے اختتام پر سائنس یہ کہتی ہے کہ سورج پھیلے گا اور اس دوران پہلے دو تین سیاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ قرآن میں لکھا ہے : و جمع الشمس و القمر۔ سورج اور چاند اکٹھے ہو جائیں گے ۔ مراد یہ کہ سورج پہلے دو سیاروں کے ساتھ ساتھ چاند کو بھی اپنے اندر سمو لے گا۔ 
نبی کریمؐ جیسا کہ ایک زمانہ شاہد ہے‘ عربی‘ ہاشمی و مکی تھے‘ جن پر قرآنِ مجید نازل ہوا‘ جس میں بیان کردہ اکتشافات کی‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ سائنس تائید کرتی جا رہی ہے۔ لیکن ان سب حقائق کے باوجود ایک مخبوط الحواس انگریز ''تاریخ دان‘‘ کچھ عجیب و غریب مفروضے پیش کرتاہے۔اپنے ان جاہلانہ ''انکشافات‘‘ کے بعد ٹام حیران ہوتا رہا کہ اسے قتل کی دھمکیاں کیوں موصول ہو رہی ہیں ۔ یہ عیاری اور یہ معصومیت، کیا کہنے! 
ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔ ہولوکاسٹ کو تاریخی حقیقت سمجھنے والے مغرب کو اس پہ بھی غور کرنا چاہیے کہ 14 صدیاں پہلے پیغمبر محمدؐ کی آمد کے ساتھ ہی مذہبی ، جغرافیائی اور عسکری طور پر دنیا ایک عظیم الشان تبدیلی سے روشناس ہوئی تھی ، جس کے انمٹ اثرات کرّۂ ارض پہ ثبت ہیں ۔دنیا کی ایک تہائی آبادی اور قریب 57مسلم ممالک زوال کے اس دور میں بھی اس کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں ۔ ساتویں صدی میں اُموی خلافت ڈیڑھ کروڑ مربع کلومیٹر پہ محیط تھی۔ دنیا کی 29فیصد آبادی پہ قائم ایک مرکزی حکومت ۔ جب تک اپنے روّیے کے تضادات پہ مغرب غور نہیں کرتا، تشدّد جاری رہے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved