تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-01-2015

ایسا موقع دوبارہ نہیں

امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کا دورۂ پاکستان خصوصی نہیں تھا۔ صدر بارک اوباما کو بھارت کے دورے پر آنا ہے اور اس سے پہلے وہ بات چیت کی صورتحال پر ہرطرح کے حالات کا جائزہ لینے آئے تھے اور صدر اوباما نے‘ بھارت میں قیام کے دوران جو ہمہ جہتی معاہدے کرنا تھے‘ ان کے بارے میں بھارتی توقعات اور نئے تجارتی معاہدوں کے لئے حتمی مسودات کی تیاری جیسے معاملات شامل ہیں۔ جان کیری‘ جن معاہدوں کا جائزہ لینے آئے تھے‘ ان میں پرامن ایٹمی توانائی کے شعبے میں‘ تجارت کے دائرہ کار کا تعین کرنا ضروری تھا۔ ماہر سائنسدانوں کی جو ٹیم جان کیری کے ساتھ آئی تھی‘ اس کے چند ماہرین بھارت ہی میں رہ گئے ہیں‘ جو صدر اوباما کے آنے سے پہلے‘ ایٹمی شعبے کی تجارت کے معاہدوں کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے جان کیری کا یہ دورہ غیررسمی تھا۔ اس کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا اور نہ ہی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بھرپور طریقے سے معمول پر لانے کا ابھی فیصلہ کیا ہے۔ 2005ء سے پاک امریکہ تعلقات میں عدم اعتمادی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ ابھی تک اس کے خاتمے کا مرحلہ نہیں آیا۔ جنرل راحیل شریف کے دورے سے پہلے‘ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت وہی تھی‘ جس کا وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران مظاہرہ ہوا۔ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے وزیراعظم کے ساتھ‘ کسی سنجیدہ مسئلے پر بات چیت سے گریز کیاتھا۔ بعد کی صورتحال میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ اس لئے ابھی تک شدید سردمہری کا دور چل رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جب پاکستان کے اپنے دست و بازو پر‘ بھروسہ کرتے ہوئے‘ دہشت گردوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کا محاذ کھول دیا اور پاک افواج نے چند ہفتوں کے اندر اندر صورتحال بدل کر رکھ دی‘ تو امریکیوں کو احساس ہوا کہ پاکستان کی نئی فوجی قیادت درحقیقت کچھ کرنا چاہتی ہے اور یہ احساس پیدا ہوا کہ جب پاکستان نے خود آگے بڑھ کر دہشت گردی سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ تو اس کے عزائم اور منصوبوں سے آگاہی کے لئے‘ اس چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا چاہیے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کس حد تک جانے کو تیار ہیں؟ اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے وہ کیا عزائم رکھتے ہیں؟
امریکیوں کی طرف سے جنرل راحیل شریف کو دورے کی دعوت ملی تو وہ صرف سات دنوں کے لئے تھی‘ لیکن جب مذاکرات شروع ہوئے تو جنرل راحیل سے امریکیوں کی توقعات میں اضافہ ہونے لگا اور مذاکرات کا دائرہ پھیل گیا۔ پھر انہیں نہ صرف امریکہ کے مختلف دفاعی شعبوں کے سربراہوں سے ملنے کے مواقع فراہم کئے گئے بلکہ مذاکرات کی سطح بھی بلند ہوتی گئی۔ جنرل راحیل کے ساتھ بات چیت کے لئے‘ سات دن کا جو عرصہ رکھا گیا تھا‘ اسے ڈبل کر دیا گیا اور جنرل راحیل سے تفصیلی مذاکرات کے بعد اندازہ لگایا گیا کہ یہ پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی طرح دوہری پالیسی پر چلنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ جو کہہ رہے ہیں‘ کرنا بھی چاہتے ہیں۔ جنرل راحیل نے دہشت گردی کے خلاف جن منصوبوں کی تفصیل پیش کی‘ وہ بھی امریکیوں کو قابل عمل نظر آئی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جنرل راحیل کو آزمائشی طور پر تعاون مہیا کر کے‘ نتائج کا انتظار کیا جائے کہ وہ کس حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں اور اپنے ارادوں میں کتنے پختہ ہیں؟ آپ نے غور کیا ہو گا کہ امریکہ سے واپسی پر‘ آپریشن ضرب عضب میں نہ صرف تیزی آ گئی بلکہ دہشت گردوں کی پسپائی اور شکست کے واضح آثار نظر آنے لگے۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو توقعات پیدا ہوئی تھیں‘ جان کیری ان کی حقیقت‘ برسرزمین دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ بھارتی دورے کے ساتھ پاکستان میں ان کے مختصر قیام کا وقت نکالا گیا اور اس مرتبہ پاکستانی میزبانوں نے طویل عرصے کے بعد‘ پہلی مرتبہ دوطرفہ اعتماد کے ماحول میں بات چیت کی۔ فوج اور حکومت جس طرح سے مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک وسیع تر منصوبے پر عمل کر رہے ہیں‘ اسے دیکھ کر امریکیوں کے اعتمادمیں کچھ اضافہ ہوا اور طے ہوا کہ باہمی تعاون کے دائرے کو توسیع دینے کے لئے جو مزید انتظامات کرنا ہیں‘ ان کا جائزہ لے لیا جائے۔ جس خطے میں پاکستان واقع ہے‘ اس کے بارے میں برطانویوں کا تجربہ‘ مشاہدہ اور مطالعہ بہت گہرا اور وسیع ہے۔ وہ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصے تک اس خطے کے معاملات کو دیکھتے رہے ہیں اور تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ باقی ہندوستان کے معاملے میں‘ موجودہ پاکستان میں انگریزوں کے روابط‘ مطالعہ اور تجزیئے کہیں زیادہ موثر تھے۔ خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تو ایک ایک قبائلی ایجنسی کے ساتھ‘ معاملات چلانے کے لئے انگریز حکمرانوں کا تجربہ بہت وسیع اور قابل اعتماد تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد امریکہ اور برطانیہ کے ادارہ جاتی تعلقات میں ‘کافی گہرائی آ گئی ۔ مثال کے طور پر عالمی اور خصوصاً برصغیر کے امور میں امریکیوں کو ہرگز کوئی تجربہ نہیں تھا۔ انہوں نے اس خطے کے معاملات دیکھنے کے لئے انگریزوں سے مدد لی اور امریکہ کی پرائم ایجنسی‘ سی آئی اے کی بنیادیں ہی برطانوی ماہرین نے رکھیں اور بہت عرصے تک یہ ادارہ برطانوی ماہرین کی زیرنگرانی کام کرتا رہا۔ آج بھی شرق اوسط اور برصغیر کے معاملات میں امریکہ‘ برطانیہ پر دیگر اتحادیوں سے زیادہ اعتماد کرتا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کے عمل میں‘امریکہ حسب روایت برطانوی مہارتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جان کیری نے پاکستان کے حالیہ دورے میں مذاکرات اور مشاہدات سے جو نتیجہ اخذ کیا‘ اس کی روشنی میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو رپورٹ گئی ہو گی ‘ اس کی روشنی میں برطانوی حکومت اور دفاعی ماہرین‘ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے مذاکرات کریں گے۔برطانیہ میں انہیں جو شاندار پذیرائی ملی‘ وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی‘ اب پاکستان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق‘ ہمارے تعلقات میں ایک نیا اور معنی خیز موڑ آ گیا ہے۔ گزشتہ 10سال کے دوران‘ پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ‘ امریکی طرزعمل میں جو سردمہری بتدریج بڑھتی آ رہی تھی‘ اس نے عدم اعتمادی کی شکل اختیار کر لی تھی۔ امریکیوں نے پرویز مشرف‘ آصف زرداری‘ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور گزشتہ سال وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ جو سلوک کیا‘ وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ‘ ہمارے کردار سے مایوس ہو چکا تھا۔ اس مایوسی کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ پاکستان ازخود کوئی ٹھوس ثبوت پیش کر کے‘ ثابت کرے کہ اس مرتبہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہے۔ یہ ثبوت آپریشن ضرب عضب کی صورت میں سامنے آ گئے۔ اعتماد سازی کا موجودہ عمل‘ اسی کے نتیجے میں شروع ہوا ہے۔ ابھی تک ہم آزمائشی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ بڑے بڑے کاموں میں پیدا ہونے والی عدم اعتمادی کو بڑے بڑے ثبوتوں سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ 16دسمبر کے بعد پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف جس عزم و ہمت کا اظہار کیا ہے‘ اس کی روشنی میںامید کی جا سکتی ہے کہ اب عالمی برادری‘ ہمیں ایک اور موقع دینے کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صرف چند طاقتیں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس جنگ میں چین‘ روس‘ امریکہ‘ مغربی یورپ‘ بھارت اور جاپان‘ سب گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو ابتدا جنرل راحیل کے دورہ امریکہ سے ہوئی تھی‘ پرامیدی کے مرحلوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ امیدیں حقیقت میں کیسے بدلتی ہیں؟ اس کا اندازہ مزید کچھ عرصے بعد ہو سکے گا۔ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی جامد پالیسیوں کے نتیجے میں جس حالت کو پہنچ چکے ہیں‘ اس سے نکلنے کے لئے تنگ نظری‘ نفرت‘ عدم اعتمادی اور کم فہمی کے بنے بنائے سانچوں کو‘ توڑ کر ایک نئی طرززندگی اختیار کرنا پڑے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو ہمیں 2015ء کی صورتحال میں آ کے دیکھنا پڑے گا۔ افغانستان کے بارے میں سابقہ تمام تصورات کو ترک کرنا ہو گا۔ ریاست نے جتنی موذی بیماریاں‘ اپنے وجود کو لگا رکھی ہیں‘ ان سے شفا پانا ہو گی۔ ایک نئی دنیا تیزی سے جنم لے رہی ہے۔ ہمیں سیکھنا ہو گا کہ اس کے اندر ہم اپنے آپ کو کس طرح فٹ کر سکیں گے۔رشتے دو طرفہ ہوں یا عالمی‘ ان میں تمام فریقوں کو ایک دوسرے کے لئے گنجائشیں دے کربقائے باہمی کی راہیں تلاش کرنا پڑتی ہیں۔تبدیلیوں کے اس ابتدائی مرحلے پر میں زیادہ پرامید نہیں۔ ہم اپنے تعصبات‘ تصورات اور معتقدات‘ میں اس طرح سے جکڑے ہوئے ہیں کہ تبدیلی کے پہلے ہی جھٹکے میں‘ ہمارے حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں اور ہم ماضی کی آسودگیوں میں پناہ لے کراپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔جس طرح وقت ناقابل عبور مراحل کو چھوڑ کر آگے نکل جاتاہے یا پانی کسی بڑی رکاوٹ کے سامنے آ کر راستہ بدل لیتا ہے۔ اسی طرح حالات کا دھارا‘ ہمیں بھی پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گا۔تبدیلیوں کا حصہ بننے کے لئے ہمیں لپک کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ہم پہلے ہی بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اگر یونہی رہے‘ تو مزید پیچھے رہ جائیں گے۔یہ وہ صورتحال ہے‘ جسے علامہ اقبال ؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved