تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     16-01-2015

جو فن عمران خان نہیں سیکھ سکے…!

جو کچھ پشاور میں ہوا، اس کا کچھ کچھ اندازہ مجھے تھا ۔
دن بھر میڈیا کے شادیانے بجانے کے بعد شام کو جب ٹی وی اینکر کاشف عباسی نے اپنے ٹی وی شو میں مجھ سے عمران خان کی شادی پر ردعمل پوچھا تھا تو میں نے جواب دیا تھا میں دیہاتی آدمی ہوں۔ اگر گائوں میں کوئی فوت ہوجائے تو چھ ماہ کوئی شادی کا سوچتا تک نہیں ۔ اگر تاریخ پہلے سے طے ہو تو چالیسویں کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پھر گائوں کے بزرگوں کا ایک پینل باقاعدہ اس گھر جا کر ان کی اجازت طلب کرتا ہے۔ یہاں تو پاکستانی تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہوئی تھی ۔ اس لیے عمران کو چالیسویں کا انتظار کرنا چاہیے تھا ۔ اس وقت یہ بات کہنا مشکل تھا کیونکہ پورا ملک اور میڈیا ایک اور لہر میں تھا۔ اس لیے مجھے باقاعدہ ایک طویل تمہید باندھنا پڑگئی تھی۔ کچھ کالم نگاروں نے بھی شادی کی ٹائمنگ پر اعتراض کرنے والوں کے لتے لیے اور طعنے دیے۔ 
مجھے یاد ہے جب میرے دوست ڈاکٹر شیر افگن نے 2002ء میں پیپلز پارٹی چھوڑی تھی تو اس کے پیچھے یہی وجہ تھی ۔ شیر افگن کا نوجوان بیٹا بیرم خان اسلام آباد میں ٹریفک حادثے میں فوت ہوگیاتھا ۔ ویسے تو شیر افگن اس دن ہی بیٹے کے ساتھ دفن ہوگیا تھا لیکن پھر بھی کچھ برس مزید جی گیا۔ کئی دفعہ رات گئے شیرافگن جیسے مضبوط انسان کو بیٹے کی یاد میں روتے اور تڑپتے دیکھا۔ بیٹھے بیٹھے شیر افگن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ میں نے بار بار اصرار کرکے پوچھا‘ پارٹی کیوں چھوڑی تو ایک رات بول پڑے ۔ دوبئی سے فون آیا کہ بینظیر بھٹو تعزیت کرنا چاہتی ہیں‘ فون خالی رکھا جائے۔ گھنٹوں فون خالی رکھا گیا مگر فون نہیں آیا ۔ سب رشتہ داروں اور دوستوں نے شیر افگن کا مذاق اڑایا اور جینا حرام کر دیا کہ تم کیسی پارٹی میںبیٹھے ہو جس کی لیڈر کے پاس تمہارے جوان بیٹے کی وفات پر تعزیت کے لیے چند منٹ تک نہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی شیر افگن کو پیپلز پارٹی چھوڑنا پڑگئی۔ 
میں نے ٹوئیٹرپر بھی کہا کہ عمران خان کو چاہیے‘ بے شک آرمی پبلک سکول فوجی علاقے میں ہے لیکن ہے تو پشاور کی حدود میں؛ لہٰذا اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پرویز خٹک کو کہیں وہ استعفیٰ دے دیں ۔ عمران نے خود کوریا کے وزیراعظم کی مثال دی تھی‘ لیکن جب اپنے امتحان کا وقت آیا تو زرداری اور نواز شریف کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔ 
عمران خان اس لیے بڑے لیڈر بن گئے ہیں کہ وہ ہائی مورال گرائونڈ کی بات کرتے ہیں اور انہیں اپنے مخالفین سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران مالی طور پر کرپٹ نہیں جیسے ان کے سیاسی مخالفین ہیں۔ عمران خان نے دھرنوں کے دنوں میں ہائی مورال گرائونڈز کا ذکر اس کثرت سے کیا کہ لوگوں کو لگا وہ دوسروں سے بہت مختلف ہیں۔ وہ لوگوں کی توقعات کا لیول بہت اوپر لے گئے تھے کہ قیادت کیا ہوتی ہے یا اُسے کیسا ہونا چاہیے۔ 
عمران سے زیادہ قصور ان لوگوں کا ہے جو ایک دفعہ پھر ایک اور لیڈراور اس کے نعروں کو سنجیدگی سے لے بیٹھے۔ مجھے دنیا ٹی وی کے پروگرام کے اپنے دوست سعید قاضی کا سنایا ہوا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک دفعہ بھٹو صاحب کی گاڑی ہجوم نے روک لی۔ بھٹوصاحب باہر نکلے تو ہجوم انقلاب کے نعرے لگا رہا تھا ۔ بھٹو جب واپس گاڑی میں بیٹھے تو ساتھیوں سے کہا‘ ہم انقلاب کے بارے میں سنجیدہ ہیںیا نہیں لیکن یہ لوگ تو واقعی سنجیدہ لگتے ہیں ۔
عمران خان بھی بھول گئے تھے کہ اس کی تحریک کی وجہ سے لوگ واقعی انقلاب کے لیے سنجیدہ ہیں اور وہ اپنے لیڈٖر سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ اس وقت شادی کر لے گا جب ان کے بچوں کی قبریں ابھی گیلی ہوں گی۔ عمران کو دیکھنا چاہیے تھا کہ پٹھان روایتی لوگ ہیں اور جس طرح میڈیا نے ان کی شادی پر گانے بجائے اور بھارتی گیتوں پر ان کی تصویریں دکھائی گئیں‘ وہ یقینا ان کے دل دکھائیں گی۔ ہو سکتا ہے عمران خان کے حامی کہیں کہ میڈیا نے ہی زیادہ جوش دکھایا تو ذہن میں رکھیں کہ پاکستانی ٹی وی چینلز کو روزانہ کی بنیاد پر ایک بڑی خبر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سارا دن وہ اسے چلاتے رہیں۔ جس واقعے کو چینل ایک دن اٹھائے گا اگلے دن کوشش کرے گا کہ اسے گرائے تاکہ اس دن چینل کا خالی پیٹ بھر جائے۔ انہی چینلز نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں کو بھرپور کوریج دی اور پھر سب نے دیکھا کہ ان دھرنوں کا مذاق اُڑانے والے بھی یہی چینل تھے۔ جو اینکرز سفارشیں کرا کے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے انٹرویوز کرتے رہے اور ان کے خیالات عوام تک پہنچاتے رہے، وہی بعد میں عمران خان اور ڈاکٹر صاحب کے دشمن بن گئے۔ وجہ بھی کوئی نہیں بتائی گئی کہ وہ عمران کے فین کیوں اور کب بنے اور دشمن کیسے بن گئے۔
عمران خان مسلسل غلطیاںکرتے آئے ہیں۔ انہیں اس لیے رعایت ملتی رہی کہ وہ اپوزیشن میں ہیں۔ دوسرے ان کے مخالفین کا گورننس ریکارڈ بدترین ہوچکا ہے۔ زرداری سے لے کر نواز شریف تک سب کا حشر لوگ دیکھ چکے ہیں ۔ ان کی دولت میں جو دن رات اضافہ ہورہا ہے‘ اس نے عام انسان کو ان سے بدظن کر دیا ہے۔ عمران خان خود کرکٹر رہے ہیں۔ انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ اچھا بیٹسمین وہ ہوتا ہے جس کی ٹائمنگ اچھی ہو۔ اس طرح سیاسی زندگی میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ میں دھرنوں کے دوران بار بار دنیا ٹی وی پر اپنے مارننگ شو میں یہ بات کہتا رہا کہ عمران خان کو دو مواقع ضائع نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ ایک دفعہ جب آرمی چیف نے انہیں بلایا اور پانچ شرائط منوانے کی پیشکش کی اور کہا کہ ابھی وزیراعظم کے استعفیٰ سے ہٹ جائیں، تب انہیں مان لینا چاہیے تھا ۔ دوسرے جب چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ اگر عمران خان عدالتی کمشن پر مان جائیں اور کمشن نے دھاندلی کا کہہ دیا تو پھر نہ صرف وزیراعظم بلکہ پوری پارلیمنٹ گھر جائے گی، اس وقت بھی انہیں شام کو کنٹینر پر یہ پیشکش قبول کر لینی چاہیے تھی۔ عمران نے وہ دونوں موقعے ضائع کیے اور اب ہر دروازے پر دستک دیتے پھرتے ہیں اور کوئی سننے کو تیار نہیں۔ 
عمران خان کو علم ہونا چاہیے تھا کہ ٹائمنگ ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ مخالف کو دبائو میں لا کر کچھ منوایا جا سکتا ہے اور جب وہ دبائو اپنا کام کر رہا تھا تو عمران خان مزید دبائو ڈالنے کے چکر میں پڑگئے؛ حالانکہ انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ نواز شریف کبھی اس طرح استعفیٰ نہیں دیں گے جب تک اس طرح کے حالات پیدا نہیں ہوں گے جیسے وزیراعظم گیلانی کو برطرف کرانے کے لیے نواز شریف اور شہباز شریف نے اس وقت کی فوجی قیادت اور عدالت کے ساتھ مل کر پیدا کیے تھے۔ نواز شریف کو ہٹانے کے لیے کوئی قانونی یا عدالتی راستہ اختیار کیا جانا چاہیے تھا اور وہ راستہ انہوں نے اختیار نہ کیا اور اپنے لاکھوں حامیوں کی دن رات کی محنت اور کوششیں ضائع کر بیٹھے۔ عمران خان یہ ذہن میں رکھیں کہ سیاست میں کسی سیاستدان کو بار بار مواقع نہیں ملتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو صرف ایک موقع ملا۔ بینظیر بھٹو تیسرا موقع ملنے سے پہلے ہی قتل کر دی گئیں۔ نواز شریف کو تیسری دفعہ موقع لینے کے لیے چودہ ماہ جیل اور کئی برس جلاوطنی کاٹنا پڑی تھی اور ہزاروں کمپرومائز کرنے پڑے۔ جنرل مشرف کے ساتھیوں کو گلے لگانا پڑا۔ عمران کو اقتدار میں آنے کے کچھ مواقع ملے بھی لیکن دھاندلی کر کے روک لیے گئے یا پھر عمران نے درست وقت پر فیصلے نہ کر کے خود ہی ضائع کر دیے۔ 
عمران خان کو علم ہونا چاہیے تھا کہ ان کی شادی ایک بہت بڑی خبر ہوگی اور اس تجسس کو ہوا بھی انہوں نے خود دی جب دھرنوں کے درمیان انہوں نے کہا کہ وہ جلد نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تاکہ شادی کر سکیں۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی پارٹی سے شادی کی ٹائمنگ پر ضرور مشورہ کرتے کیونکہ اس شادی کے اثرات پارٹی پر ضرور آنے تھے۔ لاکھ کہتے رہیں کہ یہ ان کی نجی زندگی کا معاملہ ہے۔ 
عمران خان ذہن میں رکھیں کہ وہ نواز شریف کی طرح خوش قسمت نہیں ہیں ۔ یہ کام نواز شریف ہی کر سکتے تھے اور بڑی صفائی سے اس میں سے نکل بھی سکتے تھے۔ انہوں نے آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو بچوں کے قتل عام کے اگلے روز پشاور میں ہونے والی اے پی سی میں بیٹھ کر جبکہ ابھی بچوں کے جنازے اٹھنے باقی تھے، عمران خان پر کنٹینرز کی جگتیں کسیں‘ جس پر سب سیاستدانوں نے قہقہے لگائے تھے۔ کیا فرانس کا وزیراعظم پیرس میں سترہ افراد کی ہلاکت کے بعد جگتیں کسنے کی جرأت کر سکتا تھا؟ کسی نے وزیراعظم نواز شریف کا گریبان نہیں پکڑا کیسے آپ بچوں کی لاشوں پر بیٹھ کر لاہوری انداز میں جگتیں کس سکتے ہیں۔ بڑا جرم کون سا تھا؟ نواز شریف کا پشاور میں بیٹھ کر جگتیں کسنا یا پھر عمران خان کا شادی کرنا۔ گریبان پھر بھی عمران خان کا پکڑا گیا ہے۔
لیکن یہ وہ فن ہے جو عمران خان نہیں سیکھ سکے...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved