تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     16-01-2015

دہشت

دہشت کو انگریزی زبان میں Terrorاور عربی میں ''اِہراب‘‘ کہتے ہیں ، یعنی جب کوئی فرد، معاشرہ یا قوم خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوجائے، ہر وقت عدمِ تحفظ کا شکار رہے ، اس کا امن غارت جائے ، سکون چھن جائے، تو اسے دہشت زدہ (Terrorize)کہتے ہیں اور جس نے یہ کیفیت پیدا کردی ہو، وہ دہشت گرد ، Terroristاور اہرابی ہے ۔ یعنی دہشت ، قتل اور موت کے ہم معنی نہیں ہے، موت دہشت میں مبتلا کرنے کی متعدد صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ موت سے ہمکنار ہونے والا دہشت زدہ نہیں کہلاتا، وہ تو اس دنیا کے تمام غموں اور تفکرات سے آزاد ہوجاتاہے ، اُس جہان کی فکر یقینا اسے دامن گیرہوتی ہوگی۔ دہشت زدہ تو وہ ہوتے ہیں ، جو زندہ رہ جاتے ہیں اور قتل وغارت ، لوٹ مار، تخریب وفساد اورگھیراؤ جلاؤ کے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے دل ودماغ پر طاری کردیتے ہیں ۔
الغرض دہشت کے نتیجے میں معاشرے میں سراسیمگی اور سنسنی (Sensation) پھیلتی ہے ، خوف کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور پھر انسان کو اپنے سائے سے بھی خوف آنے لگتا ہے ۔ اگر معاشرہ بحیثیتِ مجموعی اس کی کیفیت میں مبتلاء ہوجائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور سماج اور نظام نے ذہنی طور پر شکست قبول کرلی ۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آرمی پبلک اسکول ،پشاور کے سانحہ کے بعد دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ فضا پیدا کردی گئی ہے ۔ میڈیا والے کیمرے لے کر چل پڑے اور ایک ایک اسکول کی تصویر شعلہ بار تبصروں کے ساتھ نشر کرنا شروع کردی کہ حکومت اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو Safe & Secureبنانے میں ناکام ہوگئی۔ ہر شخص کو معلوم ہوناچاہئے کہ پاکستان میں چند حساس اداروں کو تو اس طرح کی آئیڈیل سکیورٹی شاید دی جا سکے ، تمام اداروں کے لئے یہ جامع انتظامات عملاً ممکن نہیں ہیں، نہ ہماری حکومتوں کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ ہر تعلیمی ادارے کی چہاردیواری قلعہ نما بنا دے اور سکیورٹی چیک کا آئیڈیل نظام قائم کردے ، اس طرح کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے، کاغذ پر منصوبے بنائے جاسکتے ہیں ، لیکن ہمارے ہاں عملی دنیا میں ایسا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ ہر جگہ ایک ایک دو دو سپاہی کھڑا کرنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
میں سکیورٹی کا ماہر نہیں ہوں ، اناڑی ہوں، مُبتدی بھی نہیںہوں ۔ لیکن میرے نزدیک اصل کام یہ ہے کہ سیاسی قیادت اور سلامتی کے ادارے خود اعتماد کا مظہر بنیں اور قوم میں اعتماد پیدا کریں اور یہ احساس پیدا کریں کہ ہمیں ایک طویل جنگ لڑنی ہے ، ہمارا مقابلہ کسی سامنے مورچہ زن دشمن سے نہیں ہے بلکہ عَدُّوِّ مستور(Hidden Enemy) سے ہے، وہ اچانک کسی بھی کونے یا کمین گاہ سے برآمد ہوکر حملہ کرسکتاہے ، کیا آئے رو ز ہم میڈیا کے ذریعے یہ نہیں سنتے کہ پولیس یا رینجرز کے سپاہی سکیورٹی گشت پر تھے کہ عقب یا اطراف سے کسی دہشت گرد نے نشانہ بنادیا، بم پلانٹ کرنے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ 
پس اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام میں اعتماد پیدا کیا جائے تاکہ وہ سلامتی کے اداروں کی آنکھیں ، کان اور دماغ بنیں اور گاؤں ، قصبے، گلی محلے اور شہروں کی کمین گاہوں میں چھپے اجنبی اور مشکوک افراد کی نشاندہی کریں ، انہیں تحفظ ملے گا، سب لوگ مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اگر کوئی پکڑا ہوا شخص اپنی صحیح شناخت بتادے اور مطمئن کردے ، کوئی معتبر شخص اُس کی ذمے داری قبول کرے تو بلاوجہ اسے پریشان نہ کیا جائے، محض احمقانہ کارروائی ڈالنے کے بھی منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ 
حکمرانوں کی بوکھلاہٹیں اور بیوروکریسی کی شاطرانہ اور عیارانہ ذہنیت بھی حکومت اور عوام ومختلف طبقات کے درمیان نفرتیں اور دوریاں پیدا کرتی ہے۔ مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیرِصدارت علمائِ کرام کی میٹنگ کے بارے میں مضحکہ خیز خبریں ملیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم ایک پرعزم قوم نہیں ہیں۔ لاؤڈ اسپیکر کے بارے میں یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ تقاریر ، دروس اور خطابات اور عام جلسوں میں غیر محتاط اور بلاضرورت بلکہ وحشیانہ استعمال نہیں ہوناچاہئے۔ لیکن وہاں یہ ہدایات دی جارہی تھیں کہ اذان میں صرف ایک سپیکر کااستعمال ہو، اذان سے پہلے صلوٰہ وسلام نہ پڑھا جائے ،کیا ہم ذہنی طور پر اس حدتک دہشت زدہ اور مغلوب ہوگئے ہیںکہ اذان کے کلمات اور درود وسلام کے چند کلمات بھی ہمارے لئے خطرے ، فساد اور دہشت کی علامت ہیں ، فیالِلعجب !۔ کیا پاکستان کا ہر شخص روز روشن کی طرح اس حقیقت کو نہیں جانتا اور نہیں مانتا کہ درود وسلام اس ملک کی غالب اکثریتِ اہلسنت وجماعت کا مسلکی شِعار ہے اور درود وسلام پڑھنے والے اَمن پسند اور بے ضرر لوگ ہیں ۔ کیا اسے مسلکی اور اعتقادی امور میں مداخلت سے تعبیر نہیں کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ مسلم لیگ( ن) کی حکومت کا ایجنڈا ذان اوردرود وسلام بند کرانا ہے،ملک کو مصطفی کمال اتاترک کے شِعار کاتابع کرنا ہے۔ حضور والا! ذرا ہوش کے ناخن لیجئے! ، کامیاب حکمرانی محض طاقت کے بل پر اور منصبی اختیارات کے خول میں بند ہوکر نہیں کی جاتی ہے ، حکمت ودانش سے کی جاتی ہے۔ 
صد افسوس کہ ہم انتہا پسند لوگ ہیں ، اچانک یوٹرن لیتے ہیں ، ارتقااور اعتدال ہمارے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ہم ایک ہی جست لگا کر شرق سے غرب اور شمال سے جنوب پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہماری منزل ایک انتہا سے دوسری انتہا ہوتی ہے ۔ کامیاب اور فلاح یافتہ قوموں کا مزاج توسط واعتدال، حکمت وتدبر اور دانش وبصیرت کا ہوتاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود حکمت ودانش کے اسوۂ حکمرانی کا مثالی نمونہ پیش فرمایا ہے۔آپ ﷺ نے تو اپنی شدید خواہش کے باوجود ایک انتہائی پسندیدہ کام کو چھوڑ دیا، جس کے لئے آپ کے پاس وسائل بھی موجود تھے اور آپ کا ہر قول وفعل منشائے ربّانی تھا۔ یعنی بیت اللہ کی موجودہ عمارت کو شہید کرکے اسے دوبارہ بنائِ ابراہیمی پر تعمیر کرنا، لیکن آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ سے فرمایا : 
''اگر تمہاری قوم تازہ تازہ کفر کو ترک کرکے اسلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی، تو میں بیت اللہ کو منہدم کردیتا اور اسے دوبارہ بنائے ابراہیمی پر تعمیر کرتا اور پیچھے کی جانب بھی اس کا ایک دروازہ بناتایا ایک روایت کے مطابق میں اس کے دو دروازے بناتا‘‘۔ لیکن آپ نے اپنی اس انتہائی محبوب خواہش کو اس لئے پورا نہ کیا کہ بیت اللہ کی عمارت پر گینتی یا ہتھوڑا چلتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کے ایمان متزلزل نہ ہوجائیں کہ کیا اللہ کے گھر کو بھی گرایا جاسکتا ہے ؟۔ 
یہاں تک کہ زمانہ قبل از اسلام کی وہ اقدار جو اسلام کے متصادم نہیں تھیں یا اُن میں اسلام کے ساتھ مطابقت کی گنجائش تھی، آپ نے انہیں جاری رکھا۔ان میں عاقلہ کا نظام، قتل کی دیت ، قبائلی معاہدات اور حلیف وحریف کی تقسیم شامل ہے ، آپ نے کسی دین مقصد یا حکمت کے بغیر ان چیزوں کو ختم کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ خیر کے کام میں اگر کسی کے ساتھ مشابہت پیدا ہورہی ہے، تو خیر کو ترک کرنے کا حکم نہیں فرمایا بلکہ مشابہت سے گریز کی تدبیر فرمائی ، اس کی مثال عاشورِمحرم کا روزہ ہے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ: آج بھی اگر کوئی مجھے ''حِلْفُ الفُضول‘‘ کا حوالہ دے کر مدد کے لئے پکارے گا ،تو میں مظلوم کی مدد کے لئے پہنچ جاؤں گا۔
لہٰذا میری گزارش ہے کہ دہشت گردوں کی تزویری کارروائیوں کے مقابلے کے لئے سب سے پہلے امریکہ کی ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرز پر ایک مرکزی سراغ رسانی کے نظام کا قیام ہے ۔ وزیر داخلہ نے نیکٹا (National Counter Terrorism Authority)کا ادارہ تو قائم کیا، لیکن وہ فعال نظر نہیں آیا۔ سو سب سے بڑی کامیابی دشمن کو اِقدام سے پہلے گرفت میں لانا اور اقدام سے پہلے اُسے اس کے انجام تک پہنچانا ہے اور اگر خدانخواستہ اس میں کامیابی نہ ہواور وہ کوئی اقدام کربیٹھے، تو انتہائی ماہرانہ تکنیک اور واقعاتی شہادتوں (Forensic evidence)سے مدد لے کر اس کے پورے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرکے اُسے جڑ سے اکھیڑنا ہے۔ دوسرا اہم کام ایسی سریع الحرکت فورس (Rapid Deployment Force)کا قیام ہے، جو بروقت محلِ وقوع تک پہنچ کر یا تو دہشت گردوں کے اقدامات کو ناکام بناسکے یا اس کے ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کر سکے۔یہ بھی واضح رہے کہ یہ کوئی قلیل المدت جنگ نہیں ہے ،یہ طویل المدت منصوبہ ہے ،کسی کو شک ہو توامریکا سے پوچھ لے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved