قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہو گی کہ دور دور تک دیا جلتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔جو پچاس ساٹھ سال قبل سنا کرتے تھے اب لگتا ہے کہ وہ کہانیاں نہیں بلکہ آج کے دور کی منظر کشی تھی جسے پرانے وقتوں کے عقل مند آنے والے حالات کو کہانیوں کی صورت میں بتایا کرتے تھے ۔ گائوں میں ہمارے گھر کے سامنے ایک چوپال میں لوگ رات کا کھانا کھانے کے بعد حقہ وغیرہ پینے اور ارد گرد کے دیہات میں ہونے والی کسی بھی اہم بات سے با خبر رہنے یا آپس کے جھگڑوں کو نمٹانے کیلئے شام سات بجے کے قریب اکٹھے ہو جایا کرتے۔ ہمارے محلے کے ایک بزرگ چاچا میاں خان مرحوم گرمیوں کی راتوں میں اکثر کہانیاں بھی سنایا کرتے اوران کی کہانیاں انتہائی با مقصد اور دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔ وہ اپنی کہانی اس وقت تک سناتے ،جب تک آگے سے ہوں کا جواب آتا رہتا ۔ جب وہ دیکھتے کہ ان کی سنائے جانے والی کہانی کے دوران کوئی انہیں جواب نہیں دے رہا تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے جس کا مطلب یہ ہوتا اب سب کو چلنا چاہئے اور یہ سب اس وقت ہوتا جب ان سب کے درمیان گھومنے والا حقہ اپنی طاقت کھونے لگتا تھا۔بارہ اور تیرہ جنوری کو صبح سات بجے سے شام پانچ بجے تک مسلسل اور اس سے پہلے اور بعد میں ہر آدھ گھنٹے بعد بجلی کی بھاگ دوڑ دیکھتے ہوئے ایسا لگا کہ میرا وہ بچپن لوٹ آیا ہے جب ہمارے گائوں اور اس کے ارد گرد دور دور تک بجلی کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور لوگ اپنے ایک یا دو کمروں کے گھر وںکے اندر سرسوں کے تیل کا دیا جلاتے ۔اگر کوئی خوشحال لوگ ہوتے تو وہ اپنی حویلیوں اور چوباروں میں مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین کا استعمال کرتے تھے اور دیا جلانے والے بھی بس تھوڑی دیر کیلئے اپنے گھروں میں انہیں جلا پاتے تھے کیونکہ ان دنوں شام ڈھلے کھا پی کر سو جانے کی عادت ہوا کرتی تھی کیونکہ نہ کوئی ہوٹل نہ ٹی وی اور نہ ہی ریڈیو اور نہ ہی شام کے بعد بازاروں کی رونقیں۔ جو چند ایک دوکانیں تھیں وہ بھی جلد ہی بند ہو جاتی تھیں۔ ہمارے گائوں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر رات کو دور دور تک نظر پڑتی تو کہیں نہ کہیں سے دیئے کی ننھی منی سی روشنی دکھائی پڑتی تھی لیکن رات گئے وہ بھی بجھ جاتی تھی لیکن اس بارہ اور تیرہ جنوری کو سارا دن اور ساری رات یقین کیجئے کوئی لفاظی یا زیب داستان کیلئے نہیں لکھ رہا۔پہلے صبح سات بجے سے شام پانچ بجے اور اس کے بعد رات کو جس طرح بجلی نے بھاگ دوڑ دکھائی تو اس سے مجھے چاچا میاں خان مرحوم بہت ہی یاد آئے اور سوچنے لگا کہ اگر وہ اور والد صاحب مرحوم آج زندہ ہوتے تو انہیں بتاتا کہ چھتوں پر چڑھ کر دیکھ لیں ،کیا انہیں دور دور تک دیئے کی کہیں ہلکی سی روشنی بھی نظر آ رہی ہے؟۔ اور پھر ان سے پوچھتا کہ چچا میاں اب دیکھیں کون سا بادشاہ اپنی رعایا پر ظلم کرتا تھا ؟آج کا یا آپ کی کہانیوں والا بادشاہ ؟اور اس وقت بادشاہ کے دور حکومت میں تو قیا مت نہیں آ سکی لیکن اب لگتا ہے کہ روز ہی ایک نہ ایک قیا مت کا سامنا ہے۔نہ جانے ہمارے آج کے حکمران روشنی سے کیوں ڈرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ جو جنریٹر جلا کر بجلی کی سہولت حاصل کرتے ہیں ان کی سرکوبی کیلئے نواز لیگ نے پٹرول ہی نایاب کر دیا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔اگر قیامت کا نظارہ کرنا ہے تو پٹرول پمپس کے نظارے کر لیں جہاں سکولوں، کالجوں، دفتروں، ہسپتالوں، کچہریوں اور دکانوں پر جانے والے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر نظر آ ئیں گی۔
کچھ دن ہوئے اپنے دوست احسان خان کو فون کیا۔پہلے تو وہ کچھ لمحے خاموش رہے لیکن پھر ایک دھماکے کی طرح پھٹتے ہوئے بولے'' اگر جناح صاحب کو علم ہو جاتا کہ ان کے بنائے گئے پاکستان میں ایسی حکومتیں آئیں گی جن کی شہنشاہی میں عوام کو نہ پانی ملے گا نہ گیس اور نہ ہی بجلی تو ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان بنانے کا سوچنے کی بجائے دوبارہ خاموشی سے واپس برطانیہ چلے جاتے؟ مجھے احسان بھائی کی زبان سے ایسی باتوں کی امید نہیں تھی کیونکہ وہ تو ہمیشہ اپنے بوڑھے جسم میں پاکستان کی محبت کو عشق کی طرح سمائے رکھتے ہیں۔ان سے تو پاکستان بننے کی کہانیاں سن کر وطن کی محبت
اور بھی شدید ہو جایا کرتی تھی لیکن آج ان کی تلخ باتیں سننے کے بعد خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔۔۔۔چند لمحوں بعد وہ خود ہی بلکنے لگے کہ آج نہ جانے کتنے دن ہو گئے ہیں ہمارے گھر میں کھانا نہیں پک سکا !! یہ سن کر تو میرا دل اور بھی دھک سا ہو کر رہ گیا کہ اﷲ خیر کرے وہ تو میری طرح کے درمیانے درجے کے شخص ہیں۔اتنی غربت تو نہیں ہو سکتی کہ ان کے گھر کھانے پینے کیلئے بھی کچھ نہ ہو۔میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا: احسان بھائی ،میرے لائق کوئی خدمت؟ تو وہ زخمی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگے :کچھ اور نہ سمجھ لینا ۔۔۔گزشتہ دس دنوں سے ہمارے گھر میں گیس نہیں ہے ۔چولہے بند پڑے ہیں اور جس قد رمیں نے اور میرے بچوں نے ان دنوں نان، کلچے اور بازار کے کھانے کھائے ہیں ،زندگی میں نہیں کھائے ۔ہوٹلوں کے کھانے اور ناشتے دو چار دن سے زیا دہ کیسے کھائے جا سکتے ہیں ۔
احسان بھائی روہانسی سی آواز میں بولے :اب اگر آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو سنیں :میرے جیسے ٹیلرنگ کا کاروبار کرنے والے اب تو یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اپنے یہ ٹیلرنگ ہائوس بند کر کے گھر بیٹھ جائیں کیونکہ جب سارا دن بجلی نہیں آئے گی تو ہم اور ہمارے کاریگر کام کیسے کریں گے؟۔ شادیوں اور موسم کی مناسبت سے لوگوں کو جب وقت پر ان کے کپڑے نہیں ملیں گے تو وہ ہمارے گریبان نہ پکڑیں تو اور کیا کریں؟ ابھی آپ کے فون سے پہلے کسی نے شادی کیلئے کپڑے سلائی کیلئے دیئے تھے لیکن آج پانچواں دن ہے بجلی صرف تین گھنٹے کیلئے آتی ہے ،بتایئے ان تین گھنٹوں میں کیا کر سکتے ہیں۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ وعدہ خلافی اور جھوٹ سے بچنے کیلئے اپنے مستقل گاہکوں سے بھی ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں۔ جن جن سے وعدے کیے تھے، وہ یہ بہانہ سننے کو تیار ہی نہیں کہ بجلی نہیں ہے۔ان کا تو ایک ہی اصرار ہے کہ جب آپ نے وعدہ کیا تھا کہ فلاں تاریخ کو ہمارے کپڑے سلائی کر کے دے دیئے جائیں گے تو اب بہانے کیوں ؟ دوسری جانب کاریگر اپنے گھروں کے خرچے کیلئے ایڈوانس مانگتے ہیں اور کام ہو یا نہ ہو ان کی ڈیمانڈ ہمیں پوری کرنی پڑتی ہے۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہم نے نئی بکنگ لینی بند کر دی ہے اور یہ ہر ٹیلرنگ ہائو س کی حالت ہو چکی ہے۔ہم تو یہ سوچتے ہیں کہ مرد تو کچھ دیر بول کر یا برا بھلا کہہ کر چلے جاتے ہیں لیکن جو خواتین کے کپڑوں کی سلائی کا کام کرتے ہیں ان کے ساتھ کیا گزرتی ہو گی؟آ کر خود دیکھ لو۔مال روڈ نقی مارکیٹ کے آدھے سے زیا دہ لوگ اپنی دکانیں بند کر کے گھروں کو جا چکے ہیں۔جب چار بجے تک بجلی ہی نہیں آتی تو پٹرول کے بغیر کب تک لوگ جنریٹر چلائیں؟ ٹی وی چینلز پر ترجمانوں اور وزیروں کو عمران خان کے خلاف نعروں کی گونج تو خوب سنائی دے رہی ہے۔۔۔ لیکن گھروں میں گیس، بجلی اور پانی نہ ملنے پر انہیں پورے پنجاب کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے خالی دیگچے اوربرتن اٹھائے گلیوں بازاروں اور سڑکوں پر لگائے جانے والے نعرے سنائی نہیں دیتے،آخر کیوں ؟