میرا نام فرحان ہے‘ میں آرمی پبلک سکول پشاور میں نویں جماعت کا طالب علم ہوں۔16دسمبر2014ء کے سانحے میں‘ میں نے اپنے بہت پیارے دوستوں کو کھو دیا ہے‘ میری ٹیچر میری بہادر پرنسپل‘اس قیامت کی نذر ہو گئیں۔وہ ایڈیٹوریم جہاں میں اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ اور سکول کے دوسرے بچوں کے ساتھ جمع ہو کر سکول کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتا تھا‘اسے میری نظروں کے سامنے لہو سے بھر دیا گیا‘میرے دوستوں کو‘میرے پیارے بھائیوں کو گولیوں سے بھون ڈالاگیا۔میرے دوست زندگی سے بھر پور،بے وجہ قہقہے لگانے والے‘لہو میں لت پت‘آڈیٹوریم کی سیڑھیوں ‘ کرسیوں کے نیچے، بے حس و حرکت پڑے تھے اور میں ان چند خوش نصیبوں میں سے تھا‘جن کی جان خدا نے خون کی ہولی میں بھی بچا دی۔اُف میرے خدایا۔ میں وہ مناظر‘وہ لہو لہو مناظر‘بھولنا بھی چاہوں تو بھول نہیں پاتا۔ میرا سکول ‘ جو مجھے اپنا دوسرا گھر محسوس ہوا کرتا ‘اس روز‘جنگ کے میدان میں بدل گیا تھا۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ ۔دھماکے ‘آگ اور بارود کی بو۔میرے پیارے دوستوں کا بہتا لہو۔کاش یہ سب کچھ ایک بھیانک خواب ہی ہوتا‘مگر نہیں۔ یہ سب تو ایک خوفناک حقیقت کی طرح میرے سامنے تھا‘میرے سبز کوٹ پر لہو کے چھینٹے تھے۔ گولیوں کی اس بارش میں میں جو بینچ کے نیچے چھپا ہوا تھا‘ ایک گولی میرے بازو پر لگ چکی تھی۔لہو بہتا رہا۔شیطان اپنا کھیل کھیلتے رہے۔پھر ہسپتال کا بستر تھا۔ آس پاس مہربان ڈاکٹر تھے۔بارش کی طرح آنسو بہاتی میری ماں
تھی۔گم صم کھڑا میرا باپ تھا۔ہسپتال میں چاروں طرف مجھے اپنے ہی سکول فیلوزدکھائی دیے چند دن ‘ میں گھر آ گیا تھا۔ جسمانی زخم بہتر ہو چکے تھے۔ مگر جو زخم‘میرے ذہن‘میرے احساس‘ اور میری روح پر لگے تھے وہ ابھی تازہ تھے‘اُس سے لہو رس رہا تھا۔ ماں ساری رات میرے ساتھ جاگتی رہتی‘ کبھی دُعائیں پڑھ کر پھونکتی‘ کبھی میرا سر دبانے لگتی۔ مجھے نیند آتی‘ تو لہو لہو آڈیٹوریم میرے خواب میں آ جاتا۔ کہیں سے گولیوں کی تڑ تڑاہٹ‘ کی آوازیں میرے سر پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگتیں ۔ کئی دِن اسی طرح گزر گئے۔مجھے ٹی وی اور اخبار سے دور رکھا گیا‘ مگر میں جانتا تھا کہ میرا سکول بند ہے۔ اور ابھی کئی روز کے لیے بند ہی رہے گا۔سچی بات تو یہ ہے کہ سکول کے نام کے ساتھ ہی مجھے وہ بھیانک دن یاد آ جاتا ہے جب حقیقت کسی ہارر مووی سے زیادہ خوفناک تھی۔کبھی کبھی وہ خوشیوں بھرے دن بھی یادوں میں اپنی جھلک دکھاتے جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوب موج مستی کیا کرتا۔پڑھائی میں بھی ایک دوسرے۔ کے ساتھ خوب مقابلہ ہوتا۔ان خوب صورت یادوں کے درمیان میں بھی‘ کسی دھماکے کی آواز سنائی دیتی اور پھر سے میرے ان زخموں سے ٹھیس اٹھنے لگتی جو میری روح اور میرے احساس پر تاحال موجود تھے۔اور
جن کا درد میں ہر وقت محسوس کیا کرتا تھا۔ دسمبر گزر گیا۔ کبھی ہم دوست مل کر نئے سال کی آمد پر پارٹی کیا کرتے‘ ایک دوسرے کو مبار ک کے پیغامات بھیجتے، کسی ایک گھر میں جمع ہو کر خوب ہلا گلا کرتے‘ موج مستی کرتے۔ مگر اس بار سب کے دل خوف وحشت‘عدم تحفظ‘ اور بچھڑ جانے والوں کے غم سے بوجھل تھے۔ مجھے اپنے وہ ساتھی رہ رہ کر یاد آتے جو ظالموں کی درندگی کا شکار ہو گئے تھے۔ایسے ماحول میں نیا سال آیا اس وقت جو احساسات تھے۔ انہیں بیان کرنا مشکل ہے کئی روز گزر گئے۔ میرا سکول تاحال بند تھا۔سنا تھا کہ ملک کے دوسرے سکول بھی سکیورٹی خدشات کی بناء پر بند پڑے ہیں۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا‘ جب ایک روز پہلے ماں نے آنسوئوں اور دعائوں کے ساتھ میرا یونیفارم استری کیا اگلے دن12جنوری مجھے اپنے سکول جانا تھا۔Back to Schoolہمیشہ سے ایک خوبصورت مرحلہ ہوتا۔چھٹیوں کے بعد سکول جانا بہت اچھا لگا کرتا تھا۔کنڈر گارٹن میں ہم یہ نظم گایا کرتے تھے۔
School bells are ringing, loud and clear;Vacation's over, school is here.We hunt our pencils and our books,And say goodbye to fields and brooks,But we are glad school has begun,For work is always mixed with fun.
مگر اس بار بیک ٹو سکول‘ایک مختلف مرحلہ تھا‘ جو بیان سے باہر ہے۔ طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے والے دوستوں کے چہرے سامنے آتے ‘ کبھی محبت کرنے والی قابل پرنسپل میڈم طاہرہ قاضی کا خیال آتا۔طالبان کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہونے والی اپنی ٹیچر زیادہ یاد آتیں۔ ضبط‘رنج‘ دکھ‘ اور عدم تحفظ کے ملے جلے احساسات لیے میں بھی اپنے سکول کے اندر داخل ہوا۔طالب علموں کا حوصلہ بلند کرنے کو بہادر سپہ سالار راحیل شریف خود موجود تھے۔میڈیا کے کیمروں کا ہجوم تھا۔ مگر اس کے باوجود‘ ایک گہری اداسی‘ایک زرد ویرانی‘ ہر سو دکھائی دیتی تھی۔ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن بیک ٹو سکول کا مرحلہ کبھی اتنا کربناک اتنا تکلیف دہ بھی ہو گا۔ ہم اپنے دوستوں سے گلے ملنے اور خوش گپیاں کرنے کی بجائے‘انہیں آنسوئوں کے ساتھ یاد کر رہے ہوں گے۔عزیر جو نئے نئے ہیر سٹائل بنانے کا شوقین کہاں ہے۔؟ حسن‘جو سکول کا بہترین اتھلیٹ تھا۔وہاں کہاں ہے۔ موسیٰ۔ سکول کی سرگرمیوں کے ہر ہر محا ز پر آگے رہنے والا کہاں چلا گیا۔شیر خان جو ابھی سے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگایا کرتاکہ اسے ڈاکٹر بننے کا جنون تھا۔اس کے سارے خواب اس کے ساتھ مٹی میں دفن ہو گئے۔ میں چلتا ہوا آڈیٹوریم کی طرف بڑھا وہاں مجھے شاہ رخ نظر آیا۔اداس۔بے حد رنجیدہ۔ اُس کا دکھ کون سمجھ سکتا ہے۔ جس کی سارے کلاس فیلوز کو ظالموں نے موت کی نیند سُلا دیا۔ ''کیا میں خالی بنچوں پر اپنے دوستوں کے چہرے تلاش کروں گا؟میں تنہا کیسے اپنی کلاس میں قدم رکھ سکوں گا۔‘‘وہ فضا میں گھورتے ہوئے‘ سوچ رہا تھا اب اچھے نمبر لینے کا مقابلہ کس سے ہو گا۔؟
لڑائی کس سے ہو گی۔؟خوش گپیاں کن سے کروں گا۔ آہ۔ کہاں گئے میرے دوست یار۔ میرے سکول کے ساتھی۔!! جن سے میں پیار کرتا تھا‘ لڑتا تھا!جھگڑتا تھا۔ مقابلے بازی کرتا تھا۔ وہ چہرے کہاں سے لائوں گا۔ شاہ رخ سوچ رہا تھا۔ ہم سب ضبط کے عجیب مرحلوں سے گزر رہے تھے۔ اپنے آنسو چھپا کر دوسروں کو حوصلہ دے رہے تھے۔ یہ کیسا بیک ٹو سکول مرحلہ تھا ،دوست نہیں تھے دوستوں کی یادیں تھیں۔ ہنسی اور خوش گپیاں نہیں تھیں رنج تھا۔ضبط تھا‘آنسو تھے اور دبی دبی آہیں تھیں۔!!