قدیم دور سے لے کر اب تک دنیا کے کسی بھی شہر میں اتنا انسانی خون نہیں بہا جتنا یروشلم (بیت المقدس) کی گلیوں میں طویل عرصے تک بہتا رہا۔ یکے بعد دیگر ے کئی فاتحین اور حملہ آوروں نے اس شہر کو تاراج کیا تو دوسری طرف بہت سے حکمرانوں نے اس کی تعمیر نو کی۔ تینوں عظیم الہامی مذہب اس شہر کو مقدس گردانتے ہیں۔ زائرین، پادری، فقیر، درویش، مسیحا، ہیرو، قاتل، بادشاہ، الغرض ہر قسم کے لوگ اس شہر کی طرف اس طرح کھنچے چلے آتے ہیں جیسے چراغ کی طرف پروانے۔ اس سرزمین نے کئی ایک حکمران خاندانوں کا عروج و زوال دیکھا، تاریخ نے بہت سے اوراق پلٹے لیکن ایک بات کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ یروشلم کے اصل مالک کون ہیں۔ فی الحال جو قوم اس کے ساتھ سختی سے چمٹی ہوئی ہے، وہ یہودی ہیں۔
یہودیوں کے لیے دائود علیہ السلام کی اس شہر میں واپسی کا خواب اور اس کے حوالے سے ان کی مقدس کتاب کی آیات نے انہیں ایک قوم بنائے رکھا‘ اگرچہ وہ صدیوں تک دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرے رہے۔ یروشلم پانچ ہزار قبل مسیح سے آباد ہے۔ پندرہ سو قبل مسیح کے مصری تہذیب کے ریکارڈز میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک میں ایک غیر واضح تصور رکھتا تھا کہ یہ شہر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے مذہبی حوالوں میں کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اعتراف، کہ کچھ جاننے کے باوجود میں ان حوالوں کی کشش سے ناواقف تھا؛ تاہم سیمن سیبگ مونٹی فیور (Simon Sebag Montefiore) کی کتاب ''Jerusalem: A Biography‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ یروشلم کی سرزمین کیسے جذبات و احساسات کو ابھارتی ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب عظیم مقاصد، سکوپ اور علمیت کا احساس دلاتی ہے ۔ مونٹی فیور سٹالن پر لکھی گئی دو کتابوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اگرچہ ان کا خاندان انیسویں اور بیسویں صدی میں یہودیوں کے موقف اور یروشلم کے بارے میں ان کے عقائد کے ساتھ وابستہ رہا لیکن مسٹر مونٹی فیور نے بے لچک غیر جانبداری برقرا ر رکھی ہے۔ اس شہر کے حوالے سے مختلف مورخین اور مبصرین کی طر ف سے دیے جانے والے مختلف دلائل در دلائل کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے مصنف نے کسی طرف جھکائو ظاہر نہیں کیا۔
مسٹر مونٹی فیور اپنے قاری کو اس شہر اس کے قدیم دور سے لے کر جنگ و جدل سے لہو رنگ تاریخ کی بل کھاتی راہوں سے موجودہ دور تک لے آتے ہیں۔ دائود علیہ السلام کے حکمران خاندان کے بعد ایرانیوں، یونانیوں، رومنوں، میکابیز (Maccabees)، ہیروڈینز (Herodians) اور بازنطینی حکمرانوں کے ادوار کو دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسلامی دور آتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ 636ء میں ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کے لشکر نے اس شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اگلے سال یہ شہر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ عیسائی بشپ کے زوال کے بعد یہ شہر اسلامی ریاست میں شامل ہو جاتا ہے اور مسلمانوں نے یہاں رواداری (جتنی اُس زمانے میں ممکن ہو سکتی تھی) یقینی بنائی۔ یہ دور پہلی صلیبی جنگ (گیارھویں صدی کے اختتام) تک جاری رہا۔ 691ء میں اموی خلیفہ عبدالمالک نے ڈوم آف راک (قُبۃ الصخریٰ)، جہاں سے روایت کے مطابق پیغمبر اسلامﷺ معراج کے لیے تشریف لے گئے، تعمیر کرایا۔ دیگر مسلمان حکمرانوں نے بھی اس شہر میں مساجد بنانے اور ان کو توسیع دینے اور شاندار عمارات تعمیر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
اُس دور میں یروشلم بیت المقدس کہلاتا تھا اور مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس شہرتھا؛ تاہم بعد میں عیسائیوں نے ایسٹر (Easter) کے حوالے سے مغرب سے مشرق کی طرف سفر شروع کر دیا۔ پھر اُنہیں عیسیٰ علیہ السلام سے وابستہ بہت سے مقدس مقامات کا بھی علم ہونے لگا۔ اُن پر فاطمی حکمرانوں، جن کا پایۂ تحت قاہرہ تھا، نے بھاری ٹیکس عائد کیے۔ اکثر اوقات عیسائی زائرین کو عرب حملہ آوروں کا بھی خطرہ رہتا۔ 1000ء میں حاکم اپنے باپ عزیز کی جگہ بطور فاطمی خلیفہ مسند نشین ہوا۔ اس کے دور میں یروشلم میں روایتی برادشت اور رواداری دم توڑنے لگی۔ اُس نے یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد اُس نے اسلامی احکامات کو بھی نشانہ بنایا اور رمضان پر پابندی لگا دی۔ سنیوں اور شیعوں پر ظلم و جبر کو معمول بنا لیا۔ خوش قسمتی سے وہ نفسیاتی مریض خلیفہ صرف چھتیس برس کی عمر میں قاہرہ سے نکلا اور پہاڑیوں میں کہیں کھو گیا؛ تاہم اس کی تباہ کن پالیسی کے مضر اثرات کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ ان کی مہلک جھلک پہلی صلیبی جنگ کے دوران دکھائی دی‘ جب صلیبی افواج نے 1099ء میں یروشلم میں مسلمان دستوں کے دفاعی حصار کو توڑا تو انتہائی ہولناک قتل و غارت دیکھنے میں آئی۔ یہاں مونٹی فیور چشم دید گواہ کا بیان نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''حیرت انگیز مناظر سامنے تھے۔ ہمارے جوان اپنے دشمنوں کے سر اُڑا رہے تھے۔ گلیوں میں سروں اور انسانی اعضا کے ڈھیر لگ چکے تھے۔ گزرنے کے لیے آدمیوں کی لاشوں کے درمیان سے گزرنا پڑتا تھا اور گھوڑوں کی رکاب لہو کو چھو رہی تھی۔ یقینا یہ خدا کا شاندار فیصلہ تھا اور مسجد (مسجد اقصیٰ) منکرین خدا کے لہو سے بھر چکی تھی‘‘۔
1178ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس یعنی یروشلم کو دوبارہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد یہ شہر بیسویں صدی تک مسلمانوں کے پاس رہا‘ یہاں تک کہ پہلی جنگِ عظیم میں عثمانی سلطنت کی شکست کے بعد برطانیہ نے 1948ء میں فلسطین میں اسرائیل کی تخلیق کا منصوبہ سوچا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک اسرائیل اس شہر کو اپنا ''ابدی دارالحکومت‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی ریاست کا دارالحکومت بھی یہی شہر ہو گا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والے لامتناہی مذاکرات میں شریک کسی شخص نے کہا تھا کہ فلسطینی مواقع گنوانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ 1931ء میں ان کے پاس موقع تھا‘ جب برطانیہ نے تجویز پیش کی تھی کہ ستر فیصد علاقہ عربوں جبکہ بیس فیصد یہودیوںکو دے کر یروشلم کو انٹرنیشنل شہر قرار دے کر برطانیہ کی نگرانی میں دے دیا جائے۔ اُس وقت کے یہودی گروہوں کے سربراہ نے تجویز مان لی لیکن عربوں نے انکار کر دیا... باقی تاریخ ہے۔