میں نے لاہور پہلی بار 1974ء میں دیکھا تھا۔ یہ میرے بچپن کے دن تھے۔ مجھے دھندلا دھندلا یاد ہے‘ لاہور میں شاہراہ قائداعظم پر‘ جسے اس وقت مال روڈ لکھا اور پکارا جاتا تھا‘ ٹریفک بہت ہی کم تھی۔ پیدل چلنے والوں میں بھی کسی قسم کی دھکم پیل نہیں ہو رہی تھی۔ لوگ سُرخ بتی پر باقاعدگی سے رک رہے تھے اور جب بتی سبز ہوتی تو اپنا رستہ لیتے۔ میں اپنے والد غلام سرور میر کے ساتھ پنجاب اسمبلی ہائوس کے سامنے فٹ پاتھ پر کھڑا مال روڈ کا نظارہ کر رہا تھا۔ جہاں اسلامک سمٹ مینار ہے اس کے بالکل سامنے فٹ پاتھ پر ایک جوان سال لڑکی کھڑی تھی‘ جس نے سُرخ رنگ کا بیل باٹم اور اسی رنگ کی شارٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ لڑکی نے آنکھوں پر بڑے سائز کے گوگل لگا رکھے تھے‘ جس سے وہ اور بھی حسیں دکھائی دے رہی تھی۔ لڑکی سے چند قدم پر سکول یونیفارم پہنے چند بچے بھی کھڑے تھے۔ مجھے یاد ہے اس لڑکی نے چوڑے منہ کی ہائی ہیل پہنی ہوئی تھی۔ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چلائی جانے والی بس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس وقت تک لاہور میں ''ویگن گردی‘‘ شروع نہیں ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سٹاپ پر بس آ کر رکی تو لڑکی اور بچے بس میں سوار ہوکر چلے گئے۔ یوں تو یہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن ایک آزاد، روشن خیال اور صاف ستھرے میٹروپولیٹن شہر کی یہ جھلک میرے دل و دماغ پر نقش ہو گئی، جس میں ایک جواں سال لڑکی اور سکول کے بچے آزادی سے اپنے معمولات جاری رکھے ہوئے تھے۔
کالم نگار حامد میر نے اٹلی کے حکمران مسولینی اور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کی ایک ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ مسولینی نے اقبال ؒ سے نصیحت کرنے کیلئے کہا‘ تو فلسفی شاعر نے کہا: ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اسے حد سے بڑھنے نہ دیں۔ آبادی حد سے بڑھ جائے تو پھر نئی بستیاں بسائی جائیں۔ مسولینی نے حیران ہوکے پوچھا کہ اس میں کیا مصلحت ہے؟ علامہ اقبال ؒ نے جواب میں کہاکہ شہر کی آبادی میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے اس کی تہذیبی اور اقتصادی توانائی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ برائیاں لے لیتی ہیں۔ مسولینی حیران ہوا تو اقبال ؒ نے اسے بتایاکہ یہ ان کا نہیں بلکہ پیغمبر اسلامﷺ کا فرمان ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا تھا کہ جب مدینہ کی آبادی ایک حد سے بڑھ جائے تو شہر میں مزید لوگوں کا آباد کرنے کے بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔ ہمارا المیہ ہے کہ یوں تو ہم پر بہترین مسلمان اور مومن ہونے کا جنون سوار رہتا ہے لیکن ہم ان فرمودات اور خیالات کی طرف دھیان نہیں دیتے جن پر عمل پیرا ہوکر ہماری زندگیاں آسان ہو سکتی ہیں۔
گزشتہ دنوں جب میں کینیڈا اور امریکہ کے مختلف شہروں کے دورے پر تھا تو ایک دن اپنے بھائی عرفان میر کے ساتھ نیویارک سٹی سے شہر کے مضافات میں گیا۔ جونہی ہم نیویارک سے باہر نکلے تو ایک طرف قطار در قطار درختوں کے جھنڈ دکھائی دیے اور دوسری طرف لہراتا سمندر نظر آیا۔ ایک طرف سبزہ اور دوسری طرف نیلا سمندر‘ یوں لگ رہا تھا ہم بلندوبالا عمارتوں میں قید شہر اور ٹریفک کے ازدحام میں گھرے نیویارک سے بہت دور نکل آئے ہوں۔ عرفان میر صاحب نے بتایا کہ پچھلے 30 سال میں نیویارک سٹی کی ایک انچ زمین پر بھی کوئی تعمیر نہیں ہوئی۔ ایسا نہیں ہے کہ نیویارک کی آبادی میں اضافہ نہیں ہوا اور وہاں کسی قسم کی تعمیر کی ضرورت نہ تھی۔ نیویارک کے علاقہ بروک لین میں یہودیوں کی آبادی 6 لاکھ سے زیادہ بیان کی جاتی ہے۔ پاکستان، بھارت، فلپائن، کوریا، بنگلہ دیش، بلغاریہ، چین، جاپان، گھانا، میکسیکو، لبنان، شام، عراق، ایران اور روس سمیت دنیا کے ہر ملک کے باشندے نیویارک میں آباد ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق نیویارک میں 800 سے زائد زبانیں بولنے والے مختلف رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں۔ نیویارک میں نجی اور سرکاری طور پر ہر وقت تعمیرات جاری رہتی ہیں لیکن یہ Horizontal (سطح زمین کے متوازی) نہیں بلکہ Vertical (عموداً یعنی آسمان کی طرف) ہوتی ہیں۔ عمودی تعمیرات کے باعث زمین کم سے کم استعمال ہوتی ہے اور عمارتیں بلند تعمیر کرنا پڑتی ہیں۔ اس طرح کی تعمیرات کرتے ہوئے محنت کے ساتھ ساتھ تکنیک اور ایمانداری کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو ہمارے ہاں ناپید ہے۔ ہمارے ہاں تو لاہور میں موسم سرما کی پہلی بارش پر ایک شادی ہال کی دیوار گرنے سے 7 افراد جاں بحق ہو گئے‘ جن میں وہ لڑکی بھی شامل تھی‘ جس کے ہاتھوں پر مہندی لگی تھی اور اگلے روز اس نے پیا گھر سدھارنا تھا۔ دکھیارے بابل کے بین ٹیلی وژن پر دیکھتے ہوئے کلیجہ پھٹ رہا تھا، دکھ کی یہ داستان روزنامہ ''دنیا‘‘ کے رپورٹر میاں رئوف نے یوں بیان کی کہ ''ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے بابل اساں اُڈ جانا‘‘۔
اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات، حادثات اور سانحات کی سماجی، معاشی، اقتصادی اور سائنسی وجوہ پر غور کریں تو
پتا چلتا ہے کہ غربت، جہالت اور بددیانتی کے ساتھ ساتھ غیر ذمہ داری اور مجرمانہ غفلت بھی ہمارے دکھوں اور مصیبتوں کی بڑی وجہ ہے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں نیویارک میں تعمیر کئے گئے اوورہیڈ برجز کے کھلے پن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ امریکیوں نے آنے والے وقتوں کی وسعتوں کو کیسے ماپ لیا؟ دوسری طرف لاہور پر نگاہ ڈالیں تو اسے ہر روز ڈھا کر نیا تعمیر کیا جا رہا ہوتا ہے۔ لاہور میں دو سال قبل فیروزپور روڈ تعمیر کی گئی۔ ابھی ان سڑکوں کی تارکول خشک نہیں ہوئی تھی کہ میٹرو بس کے لئے سڑکیں، اوورہیڈ برجز اور جنگلوں پر قوم کا اربوں روپیہ صرف کر دیا گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اس پبلک سروس کو جنگلہ بس کا عنوان دیا۔ چوہدری صاحب نے پٹرول کے حالیہ بحران کو حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔ میاں اور چوہدری برادران ایک دوسرے کے سیاسی رقیب ہیں۔ یہ ایک دوسرے پر چاہے تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن ہم ان کے مابین اصل رشتے کو جانتے ہیں۔ عدم نے اسی رشتے داری کے متعلق کہا تھا:
دونوں باذوق آدمی ہیں عدم
میں ہوا یا مرا رقیب ہوا
کسی کو اونچا یا نیچا دکھائے بغیر اگر تجزیہ کیا جائے تو ہم ایک ''بادشاہ قوم‘‘ ہیں‘ جس کا آسان ترجمہ غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری اور فوجی حکمرانوں نے عوام کو رعایا سمجھا اور وطن عزیز کو اپنی بادشاہت۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں افغان جہاد کے وقت لگ بھگ چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجر کے طور پر پاکستان آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ افغان دنیا میں آبادی بڑھانے کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سوچئے! پینتیس سال پہلے آئے افغانی اس وقت تعداد میں کتنے ہو چکے ہوں گے؟ وزیر اعظم کو دی گئی ایک بریفنگ کے مطابق صرف پنجاب میں 90 سے زائد کالعدم تنظمیں دہشت گردی کے نیٹ ورک میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے کھرے کا سراغ لگاتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف برطانیہ پہنچے۔ داعش اور حزب التحریر کے رابطوں کے انکشاف کے بعد آرمی چیف نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات میں دہشت گردی کے معاملات پر انتہائی سنجیدہ ڈائیلاگ کیا۔ آرمی چیف نے حزب التحریر کے خلاف برطانیہ سے مدد طلب کی۔ یہ مطالبہ حزب التحریر کے ابوبکر البغدای کی زیر قیادت تنظیم داعش سے منسلک ہونے کے بارے میں خفیہ اطلاعات ملنے کے بعد کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق حزب التحریر جیسی تنظیم کے زیادہ تر رہنما پاکستان میں زیر زمین سرگرمیوں میں ملوث ہیں جبکہ وہ برطانوی ریکارڈ کے مطابق جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ فوجی ترجمان کے مطابق آرمی چیف نے حالیہ دورہ برطانیہ میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، سیکرٹری دفاع مائیکل فالن، قومی سلامتی کے مشیر کم ڈیروچ، سیکرٹری داخلہ اور محکمہ تحفظ اور انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات کے دوران پُرزور طریقے سے حزب التحریر کا معاملہ اٹھایا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بھی سعودی حکمرانوں سے کالعدم تنظیموں کی ''معاشی نس بندی‘‘ کے لئے کہہ رہے ہیں۔ پروردگار ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ ہم نے اپنے آپ کو لاحق کینسر کی تشخیص کرنے میں بڑی دیر کر دی ہے۔ میں نے اپنے دل سے لاہور کو پہلے جیسا دیکھنے کی تمنا نکال دی تھی لیکن زندہ دلان اور پاکستان کے دوسرے شہروں کو پُرامن دیکھنے کی خواہش ابھی زندہ ہے۔