ہم مشکلات سے گھبرانے والے نہیں
مسائل حل کریں گے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم مشکلات سے گھبرانے والے نہیں‘ مسائل حل کریں گے‘‘ کیونکہ جو اصل یعنی دھرنے والی مشکل تھی‘ اس سے ماشاء اللہ نکل چکے ہیں بشرطیکہ یہ کام پھر نہ شروع کر دیا جائے کیونکہ جوڈیشل کمیشن قائم کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے اور ہم قومی مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اگرچہ بعض شرپسندوں کے مطابق ہمارا اقتدار میں ہونا بجائے خود قومی مفاد کے خلاف ہے‘ ہیںجی؟ انہوں نے کہا کہ ''ہم چیلنج سمجھ کر حکومت میں آئے ہیں‘‘ اگرچہ عوام نے جواب میں خود ہمیں چیلنج کر رکھا ہے اور اسی لیے ہماری ترجیحات آئے دن بدلتی رہتی ہیں اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ کون سی ترجیح یاد ہے اور کون سی نہیں جبکہ آپس کی بات یہی ہے کہ فی الحال ہماری یعنی شہباز صاحب کی پہلی ترجیح آج کل ایکسپریس وے کی تعمیر ہے جس سے گلبرگ کے غریب غرباء کو موٹروے تک پہنچنے میں آسانی رہے گی اور اس دوران جو ساڑھے 5 ہزار درخت گرائے جائیں گے‘ ایندھن کی کمی کے اس زمانے میں عوام کو سہولت رہے گی۔ آپ اگلے روز ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
آخری دم تک نظریاتی جنگ
لڑتے رہیں گے... آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''آخری دم تک نظریاتی جنگ لڑتے رہیں گے‘‘ کیونکہ بھٹو کا نظریہ تو مرحوم نے اپنی زندگی ہی میں دفن کردیا تھا اور اب اس نظریے کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں گی؛ چنانچہ مفاہمتی نظریے پر ہی اب تک گزارا کرنا پڑا ہے کہ جملہ فریقین کی دال روٹی چلتی رہے کیونکہ یہی سب کو سیاست میں کھینچ کر لاتی بھی ہے؛ چنانچہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو کوئی نیا نظریہ بھی متعارف کرانے کی کوشش کریں گے جس کے لیے میاں منظور احمد خان جیسے دانشور کی خدمات موجود ہیں‘ جن کی مدد کے لیے گیلانی صاحب کی جانکاری بھی مہیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے‘‘ اگرچہ خاکسار سمیت اب بھی کافی صحت مند اور پلے ہوئے افراد موجود ہیں جن کو قربانی دینی چاہیے کیونکہ سابقہ قربانیوں پر اب یہ گاڑی مزید نہیں چلائی جا سکتی۔ اس لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا جبکہ کارکردگی اس سے بھی مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی کو اپنی سوچ زبردستی مسلط نہیں کرنے دیں گے‘‘ کیونکہ ہمارے لیے اپنی سوچ ہی کافی ہے جس کی بدولت بخوبی گزارا ہو رہا ہے اور چار آنے پس انداز بھی کر لیے ہیں۔ آپ اگلے روز وزیراعلیٰ ہائوس کراچی میں پولیس شہداء کے لواحقین میں امدادی چیک تقسیم کر رہے تھے۔
ہم نے ناک کٹوا کر چہرہ
بچا لیا ہے... سید خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''فوجی عدالتوں کے قیام سے ہم نے ناک کٹوا کر چہرہ بچا لیا ہے‘‘ اگرچہ ناک کے بغیر یہ چہرہ عجیب سا لگ رہا ہے اور سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر آئندہ کبھی کوئی ناک کا مسئلہ پیدا ہوا تو اس کی نشاندہی کیسے کریں گے؛ تاہم ایک سہولت ضرور رہے گی کہ اگر حکمران مقدمات وغیرہ کے سلسلے میں ہمارا ناک میں دم کرنا چاہیں تو انہیں کافی مشکل پیش آئے گی‘ البتہ ہمارے لیے ایک مشکل یہ بھی ہوگی کہ اگر ناک سے لکیریں نکالنا پڑیں تو کیا کریں گے۔ علاوہ ازیں ناک کی سیدھ میں چلنا بھی ممکن نہیں رہے گا جس کے امکانات پہلے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان حکومت کو مضبوط کرنے کی بجائے پاکستان کو مضبوط کریں‘‘ کیونکہ حکومت کو ہم خود کافی مضبوط کر چکے ہیں‘ جب پاکستان کی باری آئی تو وہ بھی دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیوں سے پاکستان کا نقصان ہوگا‘‘ کیونکہ اگر اتنا بڑا دستر خوان بچھا ہے تو سب کو مل جل کر پیٹ پوجا کرنی چاہیے اور یہی ہمارے قائد کی مفاہمتی پالیسی کا تقاضا بھی ہے جس کا پھل ابھی تک دونوں پارٹیاں کھا رہی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
معاہدۂ عمرانی
ژاں ژاک رُوسو کا ''دی سوشل کانٹریکٹ‘‘ ہمیں پولیٹیکل سائنس کے نصاب میں بھی پڑھایا جاتا تھا؛ تاہم اس وقت اس کا کوئی آسان ترجمہ دستیاب نہیں تھا لیکن ممتاز مورخ پروفیسر کے کے عزیز نے ہماری یہ مشکل کافی آسان کردی تھی جو گورنمنٹ کالج میں اس مضمون کا درس دیا کرتے تھے۔ اب اس شہرۂ آفاق کتاب کا ڈاکٹر محمود حسین نے سلیس اردو میں ترجمہ کردیا ہے جسے بُک ہوم لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ طلبہ کے لیے یہ کتاب ایک ضروری اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حکومتی‘ سیاسی اور عمرانی مسائل سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی یہ کتاب ایک خوبصورت تحفے سے کم نہیں ہے۔
مکاتیبِ رفیع الدین ہاشمی
رفیع الدین ہاشمی صاحب کا نام اردو ادب و تنقید میں جانا پہچانا ہے اور وہ ایک عرصہ سے اس خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ خطوط انہوں نے کبھی اپنے شاگرد عبدالعزیز ساحرؔ کے نام لکھے تھے جو زیادہ تر رشد و ہدایات پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب الفتح پبلی کیشنز راولپنڈی نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 350 روپے رکھی ہے۔ اسے ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے مرتب کیا ہے جو خود محقق‘ نقاد‘ استاد اور سفرنامہ نگار ہیں اور آزاد کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس کتاب سے طلبہ بلکہ اساتذہ تک مستفید ہو سکتے ہیں۔
سرِ آئینہ
یہ مرزا احمد نور طائر چیئرمین کاروانِ قلم چکوال کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے ہمراہ انہوں نے خصوصی کرمفرمائی کرتے ہوئے ریوڑیوں کا پیکٹ بھی بھجوایا ہے جو بقول ان کے‘ چکوال کا خاص تحفہ ہے۔ یہ کالم تو کچھ زیادہ قابلِ مطالعہ نہیں ہیں کیونکہ اخباری کالم کی زندگی ویسے بھی ایک دن ہی کی ہوتی ہے‘ البتہ ساتھ بھجوائے گئے تین صفحی تعارف نامے کے مطابق وہ کافی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں‘ جو زیادہ تر مقامی ہیں البتہ دیہات سدھار قسم کے سماجی کارکن کی حیثیت سے ان کی ذات اور کارنامے قابلِ تعریف ہیں کہ بقولِ خود‘ انہوں نے اپنے گائوں کو پیرس بنا دیا ہے۔
لَے پالک بچے (ایک معاشرتی المیہ)
یہ کتاب ارشد محمود ناصر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو گوجرہ میں مقیم ہیں۔ یہ کتاب کہانیوں کی صورت میں تحریر کی گئی ہے جس کا پسِ سرورق ہماری دوست‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف کا تحریر کردہ ہے جس کے مطابق ارشد محمود ناصر نے یہ ایک ایسی کتاب تحریر کی ہے جس میں معاشرے کی سچی اور تلخ حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان کہانیوں میں رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑے والدین کا ذہنی کرب اور معاشرتی دبائو کھل کر سامنے آتا ہے۔ انہوں نے والدین کے دُکھ سُکھ‘ معاشرے کا رویہ اور رائج رسم و رواج پر قلم اٹھایا ہے۔ کتاب کی قیمت 250 روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مطلع
لفظ پتوں کی طرح اُڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف