ابھی چند دن پہلے 25 دسمبر کو حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ جو میرے اس مضمون کا موضوع بنا اور مجھے احساس ہوا کہ عمران خان تیرہ مئی کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی اور آر اوز کے کردار کے بارے میں کیوں سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ پروگرام دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگا کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عمران خان قائد اعظم کے وہی الفاظ دہرا رہے تھے بلکہ لوگوں کو انتخابات اور ووٹ کے تقدس کے بارے میں قائد اعظم کے ذاتی خیالات سے آگاہ کر رہے تھے۔ مذکورہ ٹی وی چینل پر ایک خاتون‘ جو تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی سر گرم رکن ہیں‘ ٹی وی اینکر کو بتا رہی تھیں کہ جب ہندوستان میں عوام کی رائے جاننے کے لیے انتخابات ہو رہے تھے تو ووٹ ڈالنے کے بعد ہم لڑکیاں ایک گروپ کی صورت میں قائد اعظم کے پاس گئیں۔ بزرگ خاتون نے بتایا: ''قائد اعظم نے ہم سے پوچھا کہ کیا سب اپنا اپنا ووٹ کاسٹ کر آئی ہیں؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے تو برقعہ بدل کر تین ووٹ کاسٹ کئے ہیں۔ اس پر قائد اعظم سخت غصے کی حالت میں اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ابھی جائو اور اپنے دو نہیں بلکہ تینوں ووٹ کینسل کروا کر آئو... مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے جو دھاندلی اور جعلی ووٹوں کے ذریعے وجود میں آیا ہو۔ ہم سب نے دیکھا کہ ان کی طبیعت خاصی بیزار سی ہو گئی ہے۔ ہمیں سخت شرمندگی اور افسوس ہوا کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے‘ ہماری غلطی کی وجہ سے وہ پریشان ہو گئے ہیں۔ ہم فوری طور پر اپنے پولنگ سٹیشن پہنچیں اور قائد کے حکم کے مطا بق پولنگ سٹاف سے کہہ کر اپنے ووٹ کینسل کرا دیے‘‘۔
کہا گیا ہے 'اس نے اﷲ کو حق نہیں جانا‘ جس نے دوسروں کا حق نہیں پہچانا‘۔ یہ حق ووٹ کی صورت میں ان کا بھی ہو سکتا ہے جو گیارہ مئی 2013ء کو گھنٹوں تپتی دوپہر میں قطاروں میں کھڑے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے آئے تھے۔ جب ان کے یہ ووٹ ردی میں تبدیل کر دیے جائیں تو بلاشبہ وہ سوچیں گے کہ یہ کیسی جمہوریت تھی‘ یہ کیسے انتخابات تھے‘ جن میں ووٹوں کو گننے کی بجائے ردی کی طرح تول کر نتائج مرتب کیے گئے؟ فرض کریں کہ کوئی آپ کے جائز اور قانونی گھر یا دکان پر قبضہ کر لے تو کیا آپ خاموش بیٹھے رہیں گے؟ اگر کوئی آپ کی موٹر سائیکل یا گاڑی چوری کرنے کے بعد آپ کے سامنے ہی اس میں گھومتا رہے تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ اپنی چوری شدہ گاڑی کو حاصل کرنے کے لیے کیا آپ قانون کا ہر دروازہ نہیں کھٹکھٹائیں گے؟ یقینا اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے اور ناکامی کے بعد اگر شور مچانا شروع کر دیں اور اس گاڑی کے آگے لیٹ جائیں تو کیا اسے دہشت گردی یا ملک دشمنی کا نام دیا جا سکتا ہے؟
بہت سے مجرم خود کو اس قدر طاقتور سمجھتے ہیں کہ ان کا خیال ہوتا ہے‘ ہم تک کوئی پہنچنے کی ہمت ہی نہیں کر سکے گا‘ لیکن ایسے لوگوں کو بھولنا نہیں چاہئے کہ کوئی جرم چاہے کتنی ہی رازداری سے کیوں نہ کیا جائے‘ ایک دن سب کے سامنے آ کر رہتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ لوگوں کے حقوق چھین کر ان کے مال و متاع چھین کر ناجائز ذرائع سے حاصل کی جانے والی شان و شوکت دیرپا ثابت ہو‘ چاہے یہ اقتدار اور کسی کی طاقتور کرسی ہی کیوں نہ ہو؟ وہ جو خود کو طاقتور ترین سمجھتے تھے‘ وہ جو کبھی جواب دہی کا تصور بھی نہیں کر تے تھے‘ سب نے دیکھا کہ وقت کے ایک اچانک دھچکے نے سب کچھ خاک میں ملیامیٹ کر کے رکھ دیا اور یہ قانون قدرت ہے جو ہو کر رہتا ہے اور ہو کر رہے گا‘ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یا اس وقت جب خدا کی لاٹھی حرکت میں آئے گی۔
ووٹ کا حق چھیننا، ایسا ہی ہے جیسے کوئی گروہ الفاظ کے دھوکے میں لا کر کچھ لوگوں کی زمین‘ جائداد‘ گھر پر قبضہ جما کر بیٹھ جائے اور یہ سمجھے کہ ناجائز قبضے سے وہ گھر اور زمین اس کیلئے جائز ہو گئی ہے۔ بزور کسی کمزور اور بے بس شخص سے نا جائز طریقے سے قبضہ میں لی گئی اس زمین کو جتنا بھی جائز قرار دیا جائے ظلم ظلم رہے گا‘ نا حق ناحق رہے گا۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ناجائز قبضے کرانے میں بہت سے سرکاری اہل کار ملوث ہوتے ہیں۔ وہ حرام کی دولت کے لالچ میں آ کر یا قبضہ کرنے والے کسی با اثر شخص کی خوشنودی حاصل کرنے یا اس کی طرف سے کسی اچھی اور بہتر پوسٹنگ کی امید میں لوگوں کے ملکیتی کاغذات کو یا تو غائب کر دیتے ہیں یا ان میں ردو بدل کرکے جعلی ملکیتی کاغذات تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے بارے میں واضح ارشاد ہے: ''اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مدد گار نہ بنو اور اﷲ کے غضب سے ڈرو کیونکہ اﷲ کا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘۔ وہ
لوگ جو جعلی ریکارڈ بناتے ہیں اور غریبوں اور کمزوروں کی جائدادوں پر نا جائز قبضے کرانے میں مدد کرتے ہیں‘ اﷲ کی پکڑ سے بچ سکیں گے؟ رات کی تاریکی میں 35 پنکچر لگا نے والے کیا یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ عذاب قدرت سے بچے رہیں گے؟ ایسے لوگ ہی تو ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جو گناہ اور زیادتی کے کاموں میں کسی بھی طریقے سے ظالم کے جان بوجھ کر مدد گار بنیں وہ اﷲ کے غضب اور عذاب کا انتظار کریں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں کچھ لوگ لٹنے والوں کو یہ کہہ کر خاموش کروا دیتے ہیں کہ جو ہونا تھا‘ ہو گیا‘ اب پولیس کے پاس کارروائی کیلئے جانے کا کیا فائدہ؟ ایسے ہی لوگ برائی کو جنم دیتے اور اسے پروان چڑھانے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور در اصل یہی وہ لوگ ہیں جو ظلم اور زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اﷲ جو نہ تو اپنی ذات میں بے انصاف ہے اور نہ ہی ناانصافی کو پسند کرتا ہے کس طرح برداشت کرے گا کہ لٹنے والے مظلوم کو انصاف اس کی دہلیز پر نہ ملے؟ اﷲ کا یہ عدل ہو کر رہے گا اسے کوئی روک نہیں سکے گا کیونکہ صرف اﷲ کا دین ہی غالب رہنے والا ہے اور اس دین کی ایک ایک بات سچی اور لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔وہ لوگ جو دوسروں کا حق کسی بھی طریقے سے چھینتے ہیں وہ چند دن عیش کر لیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ۔۔۔۔ '' اس نے اﷲ تعالیٰ کو حق نہیں جانا جس نے لوگوں کا حق نہیں پہچانا‘‘۔