تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-01-2015

گُڑیا کے بال

زندگی سے یہ شِکوہ بے جا ہے کہ اُس نے ہمیں دیا کیا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک فنکار ہمارے حصے میں آئے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ لے دے کر بس فلموں کے سِوا ہر شعبے میں ہمیں اعلیٰ درجے کے فنکار ہی ملے ہیں جن کی فنکاری دیکھتے اور جھیلتے زندگی بسر ہو رہی ہے۔ 
سیاست ہی کو لیجیے۔ کون ہے جو اپنی فنکاری سے ہمیں دم بخود کرنے کو بے تاب نہیں رہتا؟ سیاست کے بہت سے نو گزرے پیروں کی فنکاری اب ساحری کی حُدود میں داخل ہوچکی ہے۔ قدم قدم پر یہ ایسا افسُوں پھونکتے ہیں کہ دیکھنے والے گو مگو کی فضاء میں مُعلّق ہوجاتے ہیں کہ کس بات کی کتنی داد دیں! 
اب یہ جادو گری نہیں تو کیا ہے کہ بہت کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، پھر اچانک کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شور ایسا ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سُنائی دینے سے انکار کردیتی ہے۔ اور سُنائی دے بھی جائے تو سمجھ میں نہیں آتی۔ ابھی آپ شور کے ہاتھوں پریشان ہو ہی رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ایسا مُہیب سَنّاٹا چھا جاتا ہے کہ رہ رہ کر دِل میں ہَول اُٹھنے لگتا ہے! 
پاکستان کے نصیب میں پتہ نہیں کس کس مرحلے سے گزرنا لکھا ہے۔ کیفیت آن کی آن میں یُوں بدلتی ہے کہ اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ چند ماہ تک جاری رہنے والے احتجاجی تماشے ہی کو لیجیے۔ غلغلہ ایسا اُٹھا تھا کہ لوگ سوچنے لگے حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے مل کر احتجاج کا ایسا رنگ جمایا کہ اہلِ وطن حیران رہ گئے۔ حیران کیوں نہ ہوتے؟ سب جانتے ہیں کہ جو اچھی طرح جمایا جاسکے وہ رنگ کتنے کا آتا ہے! ہنگامہ احتجاج کا تھا، قوم کو تفریح کا سامان میسر آگیا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری چاہتے تھے کہ قوم اُنہیں سنجیدگی سے لے مگر قوم نے کب کسی بات کو سنجیدگی سے لیا ہے؟ اسلام آباد کے قلب میں ایسی دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی کہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کس بات کو ہنسی میں اُڑایا جائے اور کس بات پر مَلُول ہوا جائے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کہیں سے بھی مَلُول ہونے کا تو مَحل ہی نہ تھا۔ 
احتجاج کی بساط بچھانے والوں نے جب دیکھا کہ لوگ سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں تو جمہوریت کے بنیادی اُصول یعنی اکثریتی رائے کا احترام کرتے ہوئے خود بھی سنجیدہ ہونے کا خیال دل سے نکالا اور ذہن سے جھٹک کر، کُھرچ کر پھینک دیا۔ حکومت کو ختم کرنے کے نام پر جو کچھ کیا جارہا تھا اُس نے لوگوں کی پریشانی اور اَفسُردہ دِلی البتہ ختم کردی! چلیے، کچھ تو ہوا۔ کوئی بھی حکومت کے مخالفین کا کوئی بھی مخالف سینہ تان کر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسلام آباد کے قلب میں جو کچھ ہوا وہ ''کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کے مِصداق تھا! فی زمانہ یہ بھی بہت ہے کہ کوئی سیاسی ہنگامہ عوام کو کچھ دن کے لیے تفریح ہی فراہم کردے۔ 
مصیبت یہ ہے کہ جب لوگ کسی چیز کے عادی ہونے لگتے ہیں تو وہ ہٹالی جاتی ہے، چھین لی جاتی ہے۔ احتجاجی رونق میلے کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ؎ 
وہ یوں گئے کہ ہاتھ سے جاتا رہا یہ دل 
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا 
ڈاکٹر طاہرالقادری نے دو ڈھائی ماہ تک لوگوں کا لہو گرمایا اور جب محفل رنگ پر آگئی تو لوگوں کو چونکا دیا یعنی (بظاہر) کسی ''غیبی‘‘ اشارے پر برمحل بیمار پڑے، احتجاج کا بوریا بستر لپیٹا اور اپنی سیاسی گرم بازاری ختم کرکے علاج کی خاطر کئی سمندر پار ٹھنڈی فضاؤں میں پہنچ گئے۔ یعنی ایک بار پھر ع
آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہو گیا
احتجاجی اُخوّت کے رشتے میں بندھا ہوا بھائی چلا گیا تو عمران خان کو بھی اُداسی نے گھیر لیا۔ جب ایک پلڑا ہی غائب ہوگیا تو ترازو میں توازن کہاں سے رہتا؟ خان صاحب کو بھی احتجاج کی دُکان بند کرتے ہی بنی۔ مگر یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوگیا۔ سرکس حیوانی ہو یا سیاسی، راتوں رات نہیں لگایا جاسکتا۔ اور ظاہر ہے کہ راتوں رات ہٹایا بھی نہیں جاسکتا۔ مذاکرات کے ناٹک کو زحمت دی گئی۔ قوم کا اندازہ ایک بار پھر درست نکلا۔ مذاکرات کی آڑ میں آبرو بچانے کا اہتمام کیا گیا۔ مذاکرات کے ہر دور کے بعد میڈیا کے سامنے آگیا ایسے ایسے عُذر پیش کئے گئے کہ لوگوں کے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوگیا۔ کوئی بھی قوم ہر معاملے میں اداکاری کہاں تک ہضم کرسکتی ہے؟ ہاضمے کی حد تو کب کی ختم ہوئی، بدہضمی کی بھی تو کوئی حد مَقرّر کی جانی چاہیے! 
پھر وہی بات۔ سارے معاملات گُڑیا کے بال جیسے ہیں۔ گُڑیا کے بال تو آپ نے دیکھے ہی ہوں گے۔ چھوٹی سی پتیلی نُما مشین گرم کرکے شکر کے دانے ڈال کر جب مشین کو گھمایا جاتا ہے تو بہت باریک لَچّھے بنتے جاتے ہیں۔ ایک موٹے تِنکے پر اِن لَچّھوں کو لپیٹنے سے ''کینڈی فلاور‘‘ بنتا ہے جسے عُرفِ عام میں گُڑیا کے بال کہا جاتا ہے۔ سَر کے گھنے بالوں جیسا دِکھائی دینے والا گچّھا دبانے یا بھینچنے پر انگور کے دانے جتنا ہوجاتا ہے۔ ہماری سیاست کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جو معاملہ جتنا بڑا دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ اُتنا ہی چھوٹا سا نکلتا ہے۔ خان صاحب نے بھی موقع غنیمت جان کر احتجاج اور دھرنے پر لعنت بھیجی اور ایک طرف ہوگئے۔ کہاں تو وہ اسلام آباد سے ہٹنے کو تیار نہ تھے اور کہاں یہ حالت کہ اب اسلام آباد کے شہری اُن کی دید کو ترستے ہیں۔ 
مگر صاحب اب وہ خان صاحب کہاں؟ تبدیلی کی بات چلی تھی۔ شور برپا تھا کہ بہت کچھ بدل کر رہے گا۔ لوگ تبدیلی کا انتظار کرتے رہ گئے۔ لوگ بھی کتنے بَھولے ہیں۔ پوچھ تو لیتے کہ تبدیلی کہاں اور کیسے لائی جائے گی۔ خان صاحب نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ تبدیلی کا دعویٰ غلط نہ تھا۔ اُنہوں نے خیر سے گھر بسالیا ہے! اب اِس سے بڑی تبدیلی کیا ہوسکتی ہے؟ 
عوام بھی بہت سِتم ظریف ہیں۔ قوم کے رہبروں کو وہ خود ایک راستہ دکھاتے ہیں اور جب رہبر اُس راستے پر چل پڑتے ہیں تو اُن پر طعنے کَستے ہیں۔ خان صاحب نے دھرنے میں نئی نسل کا جو تماشا دیکھا وہ اُن کا ذہن تبدیل کرنے کے لیے انتہائی کافی تھا۔ اطلاعات آتی رہیں کہ دھرنے میں شریک ہونے والے جیون ساتھی بھی منتخب کر رہے ہیں۔ لڑکے لڑکیاں جمع تو احتجاج کے لیے ہوئے تھے مگر جب آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہو تو سارے طے شدہ عزائم راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں اور نئے اِرادے جنم لیتے ہیں۔ کئی جوڑوں نے جان پہچان، سلام دُعا، دوستی اور پارٹنر شپ کو ازدواجی رشتے میں بھی تبدیل کیا۔ خان صاحب بہت کچھ تبدیل کرنے نکلے تھے۔ اچھا ہوا کہ اُنہیں زیادہ سوچنا نہیں پڑا۔ نئی نسل نے کنٹینر کے سامنے آکر واضح کردیا کہ تبدیلی کیا ہوتی ہے۔ کیا یہ تبدیلی خان صاحب کا ذہن بدلنے کے لیے کافی نہ تھی! 
ہاں، یہ نُکتہ قابلِ غور ہے کہ خان صاحب آزادی کا نعرہ لگا رہے تھے مگر خود ''شرعی غلامی‘‘ کو گلے لگاکر ایک بار پھر گھر بار کے ہوگئے! جگرؔ مُراد آبادی کے شاگردِ رشید سید حبابؔ ترمذی نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا ہے ؎ 
ناخدا کا بارِ احساں کون اُٹھاتا اے حباب 
ہم نے ساحل کا تصور غرقِ دریا کردیا 
جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسے عوام ویسے حکمران۔ جیسے ہم ویسے ہمارے رہبر۔ ہم پیروی سے زیادہ رہبری پر تُلے رہتے ہیں۔ اِس روش پر گامزن رہنے کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔ 
اگر ہماری سیاست بیشتر معاملات کو گُڑیا کے بال کی طرح خوب پھیلاکر کچھ کا کچھ بنا دیتی ہے تو اِس میں حیرت کیسی؟ سیاست دان وہی کچھ کرتے ہیں جو لوگ چاہتے ہیں۔ سیاست بھی مارکیٹنگ کے اُصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ مارکیٹ میں وہی چیز پیش کی جاتی ہے جو چلتی ہے۔ لوگ بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ بہت کچھ دکھائی تو دے مگر درحقیقت کچھ بھی نہ ہو یعنی منظر پلک جھپکتے میں تبدیل ہوجایا کرے ع 
یونہی دُنیا بدلتی ہے، اِسی کا نام دنیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved