سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دو فاضل جج صاحبان نے اس بات پر شدید برہمی کا اظہار کیا کہ عدلیہ کو مقدمات نپٹانے میں ہونے والی تاخیر کا باعث قرار دیا جارہا ہے۔ کہا گیاکہ ناقص تفتیش اور پراسیکیوشن پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اگر انتظامیہ اپنا فرض اچھی طرح ادا کرے تو صورت حال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ایک جج صاحب نے فوجی عدالتوں کے قیام پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا وہاں زیادہ باصلاحیت اور ذہین افراد بیٹھے ہوں گے۔ وزیراعظم کے اس بیان پر کہ سترہ لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اس تاخیر کی وجوہات کا تذکرہ نہیں کیا گیا‘ یہ عدلیہ کی وجہ سے نہیں، انتظامیہ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ اگر مقدمات کے چالان بروقت پیش نہیں ہوں گے، قانون میں موجود سُقم دور نہیں کئے جائیں گے، اہل تفتیشی افسران کام پر مامور نہیں ہوں گے، تو پھر نتیجہ وہی نکلے گا، جو ہم سب کے سامنے ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فاضل جج صاحبان کا نقطہ نظر وزن رکھتا ہے۔ انتظامیہ کو اپنی کمزوریوں کی طرف توجہ دینے کی توفیق نہیں ہوتی اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کسی مقدمے کو نپٹانے اور ملزموں کو سزا دلوانے کے لئے محض کاغذات کا ایک پلندہ جج کے سامنے پیش کر دینا کافی نہیں ہوتا۔ تفتیش کرنے اور مقدمات کا چالان تیار کرکے پھر ان کی پیروی کرنے کے لئے جس کمٹمنٹ اور مہارت کی ضرورت ہے‘ متعلقہ عملے میں اس کے فقدان کا رونا ایک عرصہ سے رویا جارہا ہے۔ پولیس میں بھرتی کے وقت اہلیت کا خیال نہیں رکھا جاتا، پراسیکیوشن کے لئے افراد کی تقرری کرتے ہوئے ان کی صلاحیت کو اولین ترجیح نہیں دی جاتی اور مختلف قوانین (خاص طور پر قانون شہادت) میں ترامیم کرکے ان کے اسقام دور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، نتیجہ یہ کہ بعض اوقات بڑے ملزم عدالتوں سے بآسانی رہا ہوجاتے ہیں۔ انہیں باعزت بری کردیا جاتا ہے اور وہ اپنی سرگرمیوں سے پھر معاشرے کو گدلا کرنے میں لگ جاتے ہیں ... لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اگر کسی ادارتی تعصب سے اوپر اٹھ کر دیکھا جائے، تو وکیلوں اور منصفوں کا کردار بھی مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخوں پر تاریخیں پڑتی چلی جاتی ہیں، ستم کا نشانہ بننے والے انصاف کا منہ دیکھنے کو ترستے رہتے ہیں۔
پاکستان میں جس آسانی کے ساتھ وکیل حضرات کسی مقدمے کی سماعت کو ملتوی کراسکتے ہیں، اس کی مثال دنیا کا شاید ہی کوئی اور ملک پیش کرسکے۔ وکلا کی ایسوسی ایشن اور ان کے باقاعدہ منتخب ادارے ذرا ذرا سی بات پر ہڑتال کا اعلان کردیتے ہیں۔ کسی عدالت کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور یوں انصاف وکیلوںکے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے زیریں عدالتوں کی موثر نگرانی تو کیا کی جاتی، خود ان میں بھی کسی مقدمے کی سماعت کو ملتوی کرانے کے لئے وکلاء کی چکنی چپڑی باتیں کافی سمجھی جاتی ہیں۔ وکیل صاحبان یہ بات بھولتے جارہے ہیں کہ وہ کسی ٹریڈ یونین کے نمائندے نہیں ہیں، نہ ہی کسی سرمایہ دار کے کارخانے میں کام کررہے ہیں، ان کو موکل باقاعدہ فیس دے کر اپنا مقدمہ سونپتا ہے۔ اس کی پیروی کرنے کو اولین ترجیح سمجھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ کسی بھی طور پر حق نہیں رکھتے کہ یک طرفہ طور پر اپنا فرض ادا کرنے سے انکاری ہوجائیں۔ کوئی وکیل جب مقدمہ لیتا ہے تو وہ دراصل اپنے موکل سے معاہدہ کرتا ہے، اس کے بعد اس کا وقت اپنا نہیں رہتا، وہ اس کے موکل کی امانت ہوتا ہے۔ اس امانت میں خیانت کے ارتکاب کی بڑی سزا مقرر ہونی چاہیے۔ دنیا کے کسی مہذب ملک تو کیا‘ غیر مہذب ملک میں بھی اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ ہڑتالیں کرکے عدالتوں کو بند کرادیا جائے، یا عدالتی عملے کے ساتھ ساز باز کرکے نئی تاریخ حاصل کرلی جائے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں وکلا کو طول طویل دلائل دینے کی کھلی چھٹی ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ کئی کئی ہفتے ضائع کرسکتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں وکلا تحریری دلائل پیش کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور انہیں پندرہ بیس منٹ سے زیادہ بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ امریکہ کی فیڈرل کورٹ میں اولاًتو کسی اپیل کی اجازت بہت غور و خوض اور چھان پھٹک کے بعد دی جاتی ہے۔ ثانیاً یہ کہ سماعت کا وقت مقرر کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں شاید یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ انصاف حاصل کرنا ہر شہری کا حق نہیں، بلکہ یہ عدالتوں اور وکیلوں کی ''کرم گستری‘‘ ہے۔ اگر وہ بروقت فیصلہ کرنے میں ایک دوسرے سے معاونت کریں تو اپنا فرض ادا نہیں کررہے، بلکہ متعلقہ فریق (یا پوری قوم) پر احسان کررہے ہیں۔ اگر یہ رویہ برقرار رہے گا تو پھر پاکستان میں انصاف اور قانون کے نام پر وہ کچھ ہوتا رہے گا، جو ہورہا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اوپر کی جانے والی ساری بحث عام حالات کی ہے، اگر کوئی غیر معمولی صورت حال پیدا ہوجائے تو پھر غیر معمولی اقدامات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ زمانہ جنگ میں زمانہ امن کے قوانین نہیں چل سکتے۔ اگر کوئی وبا پھیل جائے تو اس کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب میں چند سال پہلے جب ڈینگی بخار نے حملہ کیا تھا، تو پوری حکومت نے اس کے خاتمے کو اولین ترجیح بنایا تھا۔ دنیا کے ان ممالک سے ڈاکٹر اور ماہرین خصوصی طور پر بلوائے گئے تھے جو اس وبا کا سامنا کرچکے تھے۔ ہمارے ڈاکٹروں نے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا اور ان کی رہنمائی میں موثر اقدامات کئے۔ کئی محکموں کی معمول کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں، جنگی بنیادوں پر ڈینگی مچھروں اور ان کی افزائش گاہوں کو تلف کرنے کے لئے سر پر کفن باندھ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب روز و شب ڈینگی کے خلاف اقدامات کی نگرانی کررہے تھے اور ان کا نظام الاوقات اس حوالے سے تبدیل ہوگیا تھا۔ اگر پوری حکومتی مشینری کمر بستہ نہ ہوتی تو ڈینگی کی وبا پر شاید ہی اس طرح قابو پایا جاسکتا۔ ڈینگی زدہ ممالک کے ماہرین بھی اس پر حیرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اگر اس وقت ہر محکمہ اپنے معمول کی سرگرمی جاری رکھنے پر اصرار کرتا اور ڈینگی وبا کا سامنا کرنے کی ذمہ داری صرف محکمہ صحت کے سر ڈال کرمطمئن ہوجاتا، یا پاکستانی ڈاکٹر، غیر ملکی ڈاکٹروں کے مقابلے میں اپنی ڈگریاں نکال کر بیٹھ جاتے کہ ہم تم سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، تم کون ہوتے ہو ہمیں علاج کے طریقے بتانے والے یا ڈینگی مچھر کو تلف کرنے کی تدبیریں سمجھانے والے، تو آج پنجاب کیا پورا پاکستان اس کی لپیٹ میں ہوتا اور ہم ہر سال ہزاروں جنازے اٹھا رہے ہوتے... اپنی ادارتی مہارت پر نازکرنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وبا پھیل جائے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت کچھ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اترائے یا گھبرائے بغیر حقائق کا سامنا کرنے ہی میں سب کی بھلائی ہے، اکھیاں والیو، اکھیاں بڑی ''نیامت‘‘ ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)