تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-01-2015

میرا بھی ٹرائل ہوگا؟

ڈٖاکٹر بابر اعوان نے انکشاف کیا ہے کہ نئی ترمیم لائی جارہی ہے جس کے تحت دیگر جرائم کے علاوہ علاقائی تعصب کو بھی دہشت گردی قرار دے کر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکے گا ۔
ڈاکٹر بابر اعوان بہت کچھ جانتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا بتاتے رہتے ہیں۔ ان کی خبریں غلط نہیں ہو سکتیں‘ اس لیے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ شق نئے قانون میں رکھی جارہی ہے تو کسی کو اندازہ ہے کہ کیا ہوگا ؟ اگر یہ قانون بن گیا تو میرا خیال ہے مجھ پر سب سے پہلے مقدمہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ الزام میرے اوپر بھی لگ سکتا ہے کہ میں اپنی تحریروں اور باتوں کے ذریعے علاقائی تعصب پھیلاتا رہتا ہوں جس سے ملکی سلامتی کو خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔ میرا خیال ہے وزیراعظم نواز شریف پر اپنے بعض دوست ممالک کا اثرہونا شروع ہوگیا ہے جہاں آج کل ناقدین کو سخت سزائوں کا سامنا ہے۔ اب شاید پاکستان میں بھی اس طرح کی سزائوں پر غور ہو۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں بہت کچھ لپیٹنے کا پروگرام دکھائی دے رہا ہے۔ کیا اب اپنے علاقے اور خطے کے ساتھ ہونے والی مالی اور انتظامی زیادتی پر شور مچانا بھی دہشت گردی ہوگا؟ کیا یہ کہنا دہشت گردی ہوگا کہ چودھری پرویزالٰہی کے دور میں لیہ شہر میں دل کا ایک ہسپتال بن رہا تھا‘ میاں شہباز شریف نے لندن سے لوٹتے ہی سب فنڈز لاہور منگوا لیے۔ لیہ کا وہ ہسپتال اب کھنڈر بن گیا ہے۔ سرائیکی علاقے کی تمام ضلع کونسلز کا فنڈزبھی منگوا کر لاہور پر خرچ کر دیا گیا۔ 
اسی طرح کوئی یہ آواز نہیں اٹھا سکے گا کہ جب ہر سال ترقیاتی فنڈز تقسیم کیے جاتے ہیں تو بتایا تو جائے کس علاقے کو کیا ملتا ہے‘ کس بنیاد پر ملتا ہے اور کتنی ترقی ہوتی ہے یا جب پلاننگ ڈویژن سالانہ ترقیاتی پروجیکٹ بناتا ہے تو کس علاقے میں کون سے پروجیکٹ کہاں شروع ہوتے ہیں۔ پنجاب کو ہر سال نو سو ارب روپے این ایف سی سے ملتا ہے۔ سندھ کو پانچ سو ارب روپے ملتے ہیں۔ اگر کوئی یہ مطالبہ کرے گا کہ پنجاب کے نو سو ارب روپے شمالی پنجاب، مرکزی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں برابر برابر تقسیم کیے جائیں تو شاید یہ بھی دہشت گردی شمار ہو۔ 
جب میاں نواز شریف لاہور سے اسلام آباد موٹر وے کی تزئین و آرائش پر پچاس ارب روپے منظور کریں گے تو یہ قومی خدمت ہوگی‘ لیکن اگر کوئی یہ کہے گا کہ جب بہاولپور‘ ملتان‘ خانیوال سڑک کے لیے پیسے مانگے گئے تھے تو این ایچ اے کا کہنا تھا کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں؟ تو لاہور اسلام آباد موٹروے کی تزئین و آرائش کے لیے فنڈز کہاں سے آجاتے ہیں تو یہ بھی دہشت گردی ہوگی کیونکہ اس سے علاقائی تعصب کی بو آتی ہے؟ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے گا کہ میانوالی ملتان روڈ اس وقت بدترین حالت کا شکار ہے اور این ایچ اے سو رہا ہے جب کہ لاہور میں روزانہ نیا پروجیکٹ شروع ہورہا ہے اور کلمہ چوک ریکارڈ وقت میں تعمیر کرنے پر ایل ڈی اے کے ملازمین سمیت احد چیمہ کو پچاس لاکھ روپے انعام بھی ملتا ہے‘ تو یہ بھی علاقائی تعصب ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ جنوبی پنجاب کے کئی افسران شکایت کرتے ہیں کہ انہیں نہ تو اہم عہدوں پر لگایا جاتا ہے اورنہ ہی اگلے گریڈ میں ترقی دی جاتی ہے تو یہ بھی علاقائی تعصب ہوگا؟ یہ بھی شکایت ہے کہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں کے نوجوان مسلسل پنجاب پبلک سروس کمشن اور سی ایس ایس میں 
تحریری امتحانات میں اچھے نمبر لینے کے باوجود انٹرویوز میں جان بوجھ کر فیل کر دیے جاتے ہیں‘ اگر ان کی طرف سے احتجاج کیا گیا تو یہ بھی علاقائی تعصب ہوگا؟ اگر آپ اسلام آباد میں جاری تباہی پر تنقید کریں گے تو یہ بھی تعصب ہوگا کیونکہ آپ لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بو رہے ہوں گے۔ لاہور میں جو اربوں کھربوں کے پروجیکٹس بنے ہیں یا بنائے جانے ہیں وہ بھی شاید علاقائی تعصب ختم کرنے کے لیے شروع کیے گئے ہیں ؟ کم از کم لاہور کا تعصب تو ختم ہوہی جائے گا‘ چاہے باقی تیس اضلاع خوار ہوتے رہیں۔ 
کسی ضلع کو ترقیاتی فنڈز میں حصہ نہیں مل رہا‘ اب اس پر خاموش رہنا ہی بہتر ہوگا۔ کوئی بھی ڈسٹرکٹ حکومت کے قیام اور اس کے لیے ہر سال آبادی اور غربت کی بنیاد پر فنڈز نہیں مانگ سکتا ورنہ کہا جائے گا کہ آپ کو لاہور کی بیوروکریسی اور حکمرانوں پر اعتماد نہیں اور آپ ہر ضلع میں لاہور کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح تو آپ یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ وزیراعظم نے اپنے رشتہ داروں اور برادری سے پوری کابینہ اور حکومت بھر لی ہے کیونکہ اسے بھی علاقائی تعصب سمجھا جائے گا اس لیے کہ یہ سب معززین بھی لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ تلہ گنگ میں چودھری پرویزالٰہی نے ایک ہسپتال شروع کرایا تھا‘ اس کے فنڈز بھی شہباز شریف نے لاہور شفٹ کرا لیے اور آج تک وہ ہسپتال تعمیر نہیں ہوسکا۔ اس کے بارے میں بھی اگر آواز اٹھائی گئی تو یہ بھی علاقائی تعصب ہوگا ۔ فیصل آباد سے ملتان موٹروے کے فنڈز روکنے پر بھی کوئی بات نہیں کر سکے گا‘ ورنہ اسے بھی علاقائی تعصب سمجھا جائے گا ۔ سابق وزیراعظم گیلانی کے شروع کیے ہوئے منصوبوں کے فنڈز روکنے پر احتجاج کرنا بھی علاقائی تعصب کے زمرے میں آئے گا؟ اگر کسی نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ چین کے ساتھ جو اربوں روپے کے معاہدے ہوئے ہیں‘ ان پر دستخط دراصل میاں نواز شریف کے بہت قریبی ساتھی سیف الرحمن نے قطر میں بیٹھ کر کیے ہیں اور سب کچھ خود حکمرانوں کی جیب میں جارہا ہے تو‘ اسے ''عالمی تعصب‘‘ سمجھا جائے گا کیونکہ اس کا مطلب تو چینی دوستوں پر الزام لگانا ہے کہ وہ میاں صاحب کے فرنٹ مین کے ساتھ مل کر کاروبار کر رہے ہیں ؟ 
اگر کوئی کہے گا قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ سی ڈی اے نے پچھلے کچھ عرصے میں اسلام آباد کی تزئین و آرائش پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ کیے ہیں اور پھر بھی اسلام آباد کھنڈر لگ رہا ہے تو اس پر بھی مقدمہ بن سکتا ہے؟ اسی طرح اسلام آباد میں سی ڈی اے نے گھر گھر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام شروع کیا ہے جس کے لیے جدید مشینیں منگوائی گئی ہیں‘ لیکن یہ پراجیکٹ صرف سیکٹر 1-8/3 کے لیے ہوگا۔ اسلام آباد کے باقی سیکٹرز کے لوگوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔اگر کسی دوسرے سیکٹر کے رہائشی نے سیکٹر آئی ایٹ کے خلاف کوئی بات کی تو یہ بھی ایک طرح سے ''سیکٹرز تعصب‘‘ پھیلانے کے برابر ہوگا اور مقدمہ چلے گا ۔ یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ آئی ایٹ سیکٹر وہ ہے جہاں بڑے افسران خود رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہیں پچاس ڈی ایم جی افسران کو چار ارب روپے کے پلاٹ ملے تھے۔ یہ وہ افسران تھے جنہوں نے فیصل صالح حیات کے وزیرداخلہ ہونے کا فائدہ اٹھایا اور ڈپیوٹیشن پر وہاں چند ماہ تعینات رہے اور چار ارب روپے کے پلاٹ صرف پچاس بابو لے اڑے۔ ان پلاٹوں پر ان بابوئوں نے کوٹھیاں اور محل بنا لیے ہیں اور اب جدید مشینیں منگوا کر صرف ان کے گھروں کے باہر سے کوڑا کرکٹ اٹھایا جائے گا ۔ باقی اسلام آباد جائے بھاڑ میں جو اس وقت کھنڈر بن چکا ہے اور ایسا لگتا ہے‘ کوئی غیرملکی فوج اس شہر کو تاراج کر کے گزر گئی ہے۔ 
بلوچستان، سندھ اور خیبرپختون خوا نے بھی اگر کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو اسے بھی صوبائی اور علاقائی تعصب سمجھا جائے گا اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہوں گے۔ 
دراصل تعصب کا بل تو ان حکمرانوں کے خلاف منظور ہونا چاہیے اور ان کے لیے سزائیں مقرر ہوں جو اربوں روپے کے فنڈز ایک شہر اور مخصوص علاقوں پر خرچ کرتے ہیں ۔ بادشاہوں کی طرح ملک کو چلا کر یہ سب علاقائی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے مقدمات تو ان پر ہونے چاہئیں جو اس ملک کو عوام کی فلاح کے لیے نہیں، بلکہ اپنے رشتہ داروں، برادری اور دوستوں کی فلاح اور اپنے ذاتی کاروبار کی ترقی کے لیے چلا رہے ہیں...! 
علاقائی تعصب بل کی بات کرنے والے حکمران خود ہی یہ تعصب پھیلا رہے ہیں ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved