تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-01-2015

خود کو بدل ڈالیے وگرنہ فنا ہے !

بڑے پیمانے کی تبدیلی ہماری راہ تک رہی ہے ۔ مستقبل کی ان بدلتی ہوئی جہتوں کو نظرانداز کرنے والی سیاسی جماعتیں اور لیڈرخسارے کا شکار ہوں گے ۔ 
عالمی کھلاڑیوں کے تیور بتاتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں کم از کم سطح پر برقرار رہیں گی ۔ 16ہزار ارب ڈالر کی دنیا کی سب سے بڑی امریکی معیشت اس میدان میں خود کفالت کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ گیس کی پیداوار میںدنیا کے سب سے بڑے تاجر روس کو امریکہ پچھاڑ چکا ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں کہ ایک دو برس میں تیل کی پیداوار میں سعودی عرب کو وہ پیچھے چھوڑ دے گا۔ پھر گاڑیوں سمیت کم توانائی خرچ کرنے والی ٹیکنالوجی میں امریکی پیش رفت کر رہے ہیں ۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں تیل کی پیداوار اور فروخت کا کام حکومتی سطح پر ہو رہا ہے ۔ امریکہ میں یہ کام نجی کمپنیاں انجام دے رہی ہیں ۔ گرتی ہوئی قیمتوں اور بڑے خسارے کے باوجود اوپیک ممالک کی طرف سے پیداوار میں کمی نہ لانے کا ایک بنیادی ہدف ادھار کے سرمائے پہ چلنے اور سود اداکرنے والی ان کمپنیوں اور چھوٹے کھلاڑیوں کو منہ کے بل گرانا ہے ۔ خم ٹھونک کر فریقین کھڑے ہیں ۔ پاکستانی عوام اور بالخصوص حکومت کے لیے یہ صورتِ حا ل بڑی مبارک ہے۔ 
چینی حکام سے رہ رسم رکھنے والے ایک مہربان کی اطلاع یہ ہے کہ گوادر تک رسائی کی نسبت چین اب بھارت سے گزرنے والی شاہراہِ ریشم کی طرف مائل ہے ۔ بھارت سے گزر کر بحری رستے سے افریقہ اور پھر یورپ جانے والی میری ٹائم سلک روڈ ایک بہت عظیم الشان منصوبہ ہے ۔ چینی سرحد سے گوادر تک سڑکوں اور ریل کے نظام کا 45.6 ارب ڈالر کا منصوبہ جس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ 9ہزار ارب ڈالر کی چینی معیشت کے لیے بڑے مثبت نتائج رکھنے والی اس سرمایہ کاری کا حجم بڑا معمولی ہے ۔ پھر چینی حکام کی طرف سے یہ منصوبہ ترک یا ملتوی کرنے کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ ابھی نومبر میں اپنے وعدے کی اس نے تجدید کی ہے ۔ چینی خسارے کا سودا کبھی نہیں کرتے او ربہت ناپ تول کر قدم بڑھاتے ہیں ۔ 23ہزار ارب کی ننھی سی پاکستانی معیشت کے لیے یہ منصوبہ گیم چینجر کی حیثیت اختیار کر لے گا۔
شمالی وزیرستان آپریشن طول اختیار کر گیا ہے اور اس کی وجوہ ہیں۔ سوات اور جنوبی وزیرستان کی نسبت، جغرافیائی طور پر یہاں کئی قسم کی رکاوٹیں درپیش تھیں۔ دریا، پہاڑ، جنگل ، شہری عمارتی علاقہ۔ سری لنکا سمیت، عام طور پر ریاستوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک آدھ قسم کی دہشت گردتنظیموں یا علیحدگی پسندوں سے واسطہ پڑتاہے ۔یہاں القاعدہ، تحریکِ طالبان ، افغان جنگجو، حقانی نیٹ ورک ، ازبک اور عرب جنگجوئوں سمیت دنیا بھر کے بدمعاش دندنا تے پھررہے تھے ۔ پھر آغازِ کار میں غیر معمولی تاخیر کے دوران خطے کو انہوں نے بارود سے بھر ڈالا تھا۔ 207شہید وں کا موازنہ 2100ہلاک دہشت گردوں سے کیا جائے تو ایک جوان بیس پہ بھاری ہے لیکن زیادہ نقصان جھڑپوں کی بجائے انہی بارودی سرنگوں کا نتیجہ ہے ۔انہیں ناکارہ بنانا کٹھن اور وقت طلب کام ہے ۔ بہرحال، 137ٹن بارود ناکارہ بنایا جا چکا ۔ 
بہرحال بڑی تیزی کے ساتھ دہشت گردی کے متعلق قوم کنفیوژن سے نکلی ہے ۔مذہبی سیاسی لیڈروں کی اکثریت اگرچہ اب بھی وہیں براجمان ہے ۔ پشاور سانحہ رونما ہونے کے بعد بھی یہ محترم سراج الحق کے الفاظ ہیں : امریکہ کو خوش کرنے کے لیے حکومت مذہب کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے ۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد! قومی اتفاقِ رائے کے مقابل ڈٹ کھڑے ہونے کی اس 70سالہ روایت کی وہ پاسداری کر رہے ہیں ، قیامِ پاکستان کے دوران جماعت کے بانی نے جس کی بنیاد رکھی تھی ۔ 
خوشخبری یہ ہے کہ پاکستانی قوم اور اس کی سخت جان مسلّح افواج نے دہشت گردوں کے مقابل ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے ۔ یہ جنگ اگلے کئی برس لڑی جائے گی ۔ عراق اور شام کے برعکس ریاست پہ قبضہ اور جنگجوئوں کی ایک متوازی حکومت کا قیام یہاں ممکن نہیں ۔ مبارک بات یہ ہے کہ اس طویل خوں ریز جنگ سے نکلنے والی پاکستانی قوم اور افواج لوہے کا چنا ہوں گی ۔ 
بھارت کے سخت گیر روّیے نے سول اور فوجی قیادت کو ایک پیج پہ لا کھڑا کیا ہے ۔ ہر حال میں بھار ت سے دوستانہ مراسم کی معصوم خواہش رکھنے والوں سے معذرت کے ساتھ ،ہر چیز کا ایک سلیقہ ہوتاہے ۔بندوق کی نوک پر رشتے جوڑے نہیں جاتے اور زبردستی کا نکاح حرام ہوتاہے ۔ جنرل مشرف کے دور سے شروع ہونے والے اس ایک عشرے کے دوران مسئلہ کشمیر سمیت ہرمعاملے پر ہر ممکن لچک دکھائی جا چکی ۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے دوران مشرقی سرحد پہ بھارتی روّیہ ہمارے سامنے ہے ۔ فوجی کارروائی کی طوالت کا ایک سبب مشرق کی یہ محاذ آرائی بھی ہے ۔ سدرن کمانڈ اور 11کور کے علاوہ پاک فوج کی تقریباً تمام دس کی دس کورز کسی نہ کسی سطح پر بھارت کی طرف متوجہ ہیں ۔ مجموعی طور پر تقریباً نصف افرادی قوّت!
گزشتہ چند ماہ میں نون لیگ او رتحریکِ انصاف کی سخت محاذ آرائی کے طفیل پیدا شدہ سیاسی بحران میں بھی اب پہلے کی سی شدّت باقی نہیں ؛اگرچہ جوڈیشل کمیشن نہ بننے کی صورت میں حالات بگڑنا بعید از قیاس نہیں ۔ آخری حد تک سیاسی عدم استحکام کے اس ماحول میں فوجی قیادت نے سیاست سے لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے بڑی دانائی کا مظاہر ہ کیا ہے ۔ اسی روش پہ گامزن رہتے ہوئے اور ملک دشمنوں سے کامیاب جنگ کے طفیل مستقل طور پر قوم کے دل میں وہ قیام پذیر ہوسکتی ہے ۔ 
جہاں تک دھاندلی اور عوامی مینڈیٹ کی چوری کا سوال ہے ، میرا خیال ہے کہ آئندہ نہیں تو اس سے اگلے الیکشن تک ٹیکنالوجی کے فروغ سے یہ جھنجٹ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ حلقہ این اے 122سمیت اہم حلقوں پر الیکشن ٹربیونل کے فیصلے اور نئے چیف الیکشن کمشنر کا طرزِ عمل فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ انتظامی فرائض رکھنے والے الیکشن کمیشن کے سربراہ کے سلب شدہ اختیارات واپس لوٹانا ہوں گے ۔دنیا کا کوئی کامیاب الیکشن کمیشن ایسی جمہوری بنیادوں پر استوار نہیں ، جہاں کثرتِ رائے کے ساتھ صوبائی ممبران چیف کو فیصلہ سازی سے روک سکیں ۔ 
خانہ جنگی کا شکار مشرقِ وسطیٰ ،یورپی اور امریکی اتحاد سے متصادم روس، احساسِ عدم تحفظ کے شکار عرب ممالک اورمعاشی شکست و ریخت سے گزرتا ایران ۔ ان سب کو دیکھیے اور پھر خود پہ نظر دوڑائیے ۔ لگتا ایسا ہے کہ ایک طویل عرصے بعد حالات کا دھارا اپنے باطن میں کچھ اچھی خبریں سمیٹے ہوئے ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور عمران خان سمیت، زندہ رہنے کی خواہشمند سیاسی قوّتوں کو ان بدلے ہوئے حالات میں اپنا ایک مستقل کردارڈھونڈنا ہوگا۔
پاکستان آگے بڑھنے کو ہے ۔ غفلت کے مرتکب ماضی کے ملبے تلے دبے رہ جائیں گے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved