تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     19-01-2015

صحافی ۔۔۔ نقاد یا آلۂ کار؟

کسی جمہوریت پر فوج کی طرف سے شب خون اُس وقت شب خون نہیں ہوتا جب اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی ناجائز حکومت امریکی حکومت کے مفادات کے لیے موزوں ہو۔ اس طرح جب جنرل سیسی نے تین سال پہلے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹاتو آرمی کی مداخلت کو واشنگٹن نے شب خون قرار نہیںدیا۔ اسی طرح یوکرائن میں منتخب شدہ صدر وکٹر ینکووچ (Viktor Yanukovych) کو مشتعل ہجوم نے دفترچھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا ، اُس ہجوم کے پیچھے یقینی طور پر مغرب کی شہ تھی تومسٹر ینکووچ کے غیر قانونی جانشین کا اوباما انتظامیہ نے کھلے بازووں سے استقبال کیا۔ مغربی عوام کو بھی اس میں کوئی قباحت دکھائی نہ دی۔ 
جب1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت کا بوریا بستر گول کیاتو امریکیوں نے فوراً ہی پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ امریکی قانون اُن ریاستوں کی امداد روک لیتا ہے جہاں آمر منتخب شدہ حکومتوں کا تختہ الٹ دیں۔ تاہم جنرل سیسی اس لیے برے نہیں لگے کیونکہ وہ حماس اور اخوان کے جانی دشمن ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل کے لیے موزوں حکمران ہیں۔ اس طرح ینکووچ کا جانشیں بھی روس مخالف ہے، چنانچہ وہ یوکرائن میں پیوٹن کا اثر کم کرتے ہوئے مغرب کے لیے ساز گارہے۔ امریکی آئین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یوکرائن اور مصر میں قائم ہونے والی حکومتوں کو آمریت قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے صدر اوباماان کی مدد کررہے ہیں حالانکہ یہاں موجود دونوں حکمرانوں نے منتخب شدہ جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا تھا۔ تاہم نائن الیون سے پہلے کا پاکستان امریکہ کے لیے غیر اہم تھا ، اس لیے یہاں جمہوری رویے اختیار کرنے میںکوئی حرج نہ تھا۔ 
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مرکزی میڈیا بھی اس فکشن کو ہضم کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتا۔ نیویارک ٹائمز کے ایک تجربہ کارانوسٹی گیٹیورپورٹر، رابرٹ پیری کے جائزے کے مطابق یوکرائن میں پیش آنے والے واقعات 1951ء میں ایران اور 1954ء میں گوئٹے مالا کے حالات کی یاددلاتے ہیں جب سی آئی اے نے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے میںآمروں کی پشت پناہی کی۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔'' جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل میں پہلا قدم یہ تھا کہ شب خون کے اغراض و مقاصد کو دھندلا دیا گیا۔ 2013ء میں یوکرائن میں یہی صورت ِحال دیکھنے میں آئی جب طاقتور امریکی سیاست دانوں نے کہا کہ یوکرائن کو روس کے معاشی جال سے سے نکال کر یورپی یونین کے دائرے میں داخل کرنامقصود ہے۔ اُس وقت یوکرائن کے صدر، ینکووچ ، یورپ کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش میں تھے لیکن نومبر 2013ء میں اُن کا ہاتھ سردمہری سے جھٹک دیا گیاجب معاشی ماہرین نے اُنہیں Kiev میں بتایا کہ روس سے جداہونے پر یوکرائن کی معیشت کو 160 بلین ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔ مغرب کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ یوکرائن آئی ایم ایف کے سخت معاشی پلان کو منظور کرے۔جب روس نے پندرہ بلین ڈالر قرض اور رعایتی نرخوں پر قدرتی گیس کی فراہمی کی پیش کش کی تو ینکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو معطل کردیا۔ اُس وقت Kiev میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔‘‘ 
اس کے بعد دیکھنے میں آیا کہ امریکی افسران نے اُن مظاہروں کی حوصلہ افزائی کی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی وکٹوریہ نیولینڈنے مظاہرین میں کھانے پینے کی اشیا بھی تقسیم کیں۔ سینیٹر جان مکین بھی آگے بڑھے اور مظاہرین کو بتایا کہ امریکہ اُن کے ساتھ ہے۔ جلد ہی احتجاجی مظاہروںمیں تشدد کا رنگ غالب دکھائی دینے لگا۔ مغربی یوکرائن سے مسلح گروہ آنے لگے، پولیس پر حملے شروع ہوگئے اور مسلح مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر کے نازی پارٹی کے پرچم لہرادیے۔ اگرچہ ینکووچ نے پولیس کو برداشت سے کام لینے کاحکم دیا تھا لیکن اُنہیں مغربی میڈیا میں ایک خونی حکمران کے طور پر پیش کیا گیا جو اپنے ہی عوام کو ہلاک کررہا تھا۔ 14فروری 2014ء کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 80 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے۔امریکی سفارت کاروں نے فوراً ہی ینکووچ پر اس حملے کا الزام عائد کردیا حالانکہ یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ فائرنگ اُن عمارتوں پر موجود سنائپرز نے کی تھی جو مظاہرین کے قبضے میں تھیں۔ 
اس صورت ِحال کے دوران مرکزی میڈیا میں سے کسی نے بھی معروضی انداز میں رپورٹنگ کرتے ہوئے اصل حقائق کو بے نقاب کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اچانک، سب کے سب نے امریکہ کے سرکاری موقف کو اپنا ورد ِ زبان بنالیا تھا۔ حتی کہ نیویارک ٹائمز بھی شب خون میںامریکی کردار کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا اور اس موقر جریدے نے بھی وہی لائن اختیار کی جو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی وضع کردہ تھی۔ بالکل ایسا ہی اُس وقت دیکھنے میں آیا جب امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کرنا تھا۔ 'دی ٹائمز ‘‘ جیسا اخبار بھی صدر بش کا ہم خیال ہوکر اُن ہتھیاروں کی دہائی دینے لگا جو موجود تھے ہی نہیں۔ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے اہم ترین اخبار سرکاری پالیسی کے ترجمان کس طرح بن جاتے ہیں؟امریکی میڈیا کے حوالے سے بہت سے معاملات کو بے نقاب کرتے ہوئے نوم چومسکی اپنی کتاب''Manufacturing Consent‘‘میں تفصیل سے لکھتے ہیں کہ حکومت ، میڈیا اور دانشوروں کے مفادات میں تصادم پایا جاتا ہے۔ وہ نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ اخبارات کے ایڈیٹرز اور رپورٹرز کو انتظامیہ کے اعلیٰ دفاتر تک رسائی درکار ہوتی ہے،چنانچہ اُنہیں آسانی سے مس انفارمیشن کے جال کا شکار کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر میڈیا چینلز ایسی کارپوریشنز کی ملکیت ہیں جنہیں کاروبار کے لیے سرکاری کنٹریکٹس درکار ہوتے ہیں، چنانچہ اُنہیں سرکاری موقف کی ترجمانی کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔ وہ یونیورسٹیاں، جو حکومتی گرانٹس پر انحصار کرتی ہیں، بلا ضرورت سوالات اٹھانے کی بجائے اتفاق ِ رائے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس طرح حکومتیں اپنے موقف کی حمایت حاصل کرتی ہیں۔ 
اس طرح اگر امریکی بیانیے میں اسرائیلی موقف غالب دکھائی دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میڈیا میں یہودی حامی زیادہ ہیں بلکہ اس لیے کہ امریکی حکومت اور کانگرس اسرائیل کے دوٹوک حامی ہیں۔ میڈیا کی طرف سے کی جانے والی ''کارپٹ بمباری ‘‘ کی وجہ سے آج زیادہ تر امریکی فلسطینی المیے کے پس منظر سے بے خبر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک ذہین نوجوان وکیل سے میری ملاقات ہوئی اور وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اسرائیل نے 1967ء سے مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس میںحیرت کی بات نہیں کہ یک طرفہ رپورٹنگ کے ذریعے میڈیا امریکی خارجہ پالیسی کا ''فعال بازو‘‘ ہے۔ مدیرحضرات اور رپورٹروں کو یہ کہنا گستاخی تو نہیںہوگی کہ وہ اپنے اصل فرائض پر توجہ دیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved