تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-01-2015

جہاں بانی

کارِ جہاں بانی، کیا ہمیشہ سے یوں ہی الجھا ہوا تھا؟ اگر ایسا ہے تو لوگ اس کی آرزو کیوں کرتے ہیں؟
مدارس کا معاملہ دیکھ لیجیے!مذہبی و سیاسی قیادت دن بھر سر جوڑ کر بیٹھی۔برسوں کا غور وفکر اس پر مستزاد۔حاصل کیا ہوا:مدارس کی رجسٹریشن ہوگی۔اس کے لیے ایک فارم کی ضرورت ہے۔ یہ کیسا ہو،اس کے لیے کمیٹی بنا دی گئی۔دہشت گردی میں ملوث مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ کیسے اور کب ہوگی، اس کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی۔مدارس کا نصاب تبدیلی کا متقاضی ہے۔نصاب میں یہ تبدیلی کیسے ہوگی۔اس کے لیے بھی کمیٹی بنا دی گئی۔ یہ ساری کارروائی، ایک ایسی کمیٹی کے تحت ہو رہی ہے جو خود ایک بڑی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی ہے۔کیا دنیا بھر میں حکومتیں ایسے ہی چلتی ہیں؟کیا کوئی حکومت ایسے چل سکتی ہے؟کیا تاریخ میں یوں ہی ہوتا آیا ہے؟شیر شاہ سوری، اورنگزیب، اکبر، کیایہ سب قصے کہانیاں ہیں؟ 
دینی مدارس کے باب میں یہ مشق 2001ء سے جاری ہے۔ڈاکٹر محمود احمدغازی مرحوم وزیر مذہبی امور تھے تو اسے مہمیز ملی۔ڈاکٹر صاحب خود مدرسے کے فرزند تھے۔گویا محرمِ ِراز درون ِمیخانہ۔ایک مدرسہ آرڈیننس جاری ہوا۔ایک مدرسہ بورڈ قائم ہوا۔ماڈل دینی مدرسے کا تصور سامنے آیا۔دینی مدارس کی رجسٹریشن ضروری قرار پائی۔اس قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ ہر مدرسہ اپنی آمدن اور اخراجات کا حساب دے گا۔ تنظیماتِ مدارس نے بالاجماع اس قانون کو 'انسدادِ دینی مدارس آرڈیننس‘ قرار دے کر مسترد کردیا۔ان کا موقف تھا کہ اکثر دینی مدارس سوسائٹی ایکٹ جیسے قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔اب اس کے لیے نئے قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔مشرف حکومت نے یہ بھی سوچا کہ ٹیکنیکل تعلیم کے ذریعے مدارس کے لوگوں کومتبادل روزگار دیا جائے۔اس حکومتی سوچ پر تبصرہ کرتے ہوئے میرے ممدوح مو لانا زاہد الراشدی نے لکھا:''ان خدا کے بندوں کو یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ دینی تعلیم غربت یا ڈگری کا مسئلہ نہیں، ایمان اورعقیدے کا مسئلہ ہے اور جسے یہ بھولے بادشاہ مذہبی انتہا پسندی سے تعبیر کررہے ہیں، اس کی جڑیں مسلمانوں کی حمیت وغیرت میں پیوست ہیں‘‘۔
معلوم ہوتا ہے یہ 'بھولے بادشاہ‘ اب بھی اسی جگہ کھڑے ہیں۔ایک دفعہ پھر پہیہ ایجاد ہو رہا ہے۔پہیہ بھی ایسا کہ نہیں معلوم کس گاڑی کے لیے بنا ہے۔اس بھولے پن کا اس سے بڑا مظہر کیا ہوگا کہ حکومت ابھی تک یہ طے نہیں کر سکی کہ دینی مدارس اصلاً کس وزارت کے تابع ہونے چاہئیں۔ تعلیم،داخلہ یا پھر مذہبی امور؟ مجھے وفاق المدارس کے ایک بزرگ نے بتایا کہ قانوناًمدارس کا تعلق صنعت وحرفت سے ہے۔تو کیا یہ کوئی کاروبار یا صنعت ہے؟ جو اعلامیہ سامنے آیا،اس سے بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا۔رجسٹریشن کا مسئلہ وزارتِ داخلہ سے متعلق ہے۔ فنڈز ٹیکس وزارت خزانہ کے معاملات ہے۔ نصاب ظاہرہے کہ وزارتِ تعلیم کا کام ہے۔ مدرسہ بورڈوزارتِ مذہبی امور کا حصہ ہے۔ اب مدارس کا معاملہ کون حل کرے گا؟ابھی تک کچھ واضح نہیں۔دلچسپ بات ہے کہ مدرسہ بورڈ اس وقت مو جود ہے ۔مدارس کے بارے میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا لیکن اس میں بورڈ کے ذمہ دار مدعو ہی نہیں تھے۔
پٹرول کابحران بھی دیکھ لیجیے!یہ بحران آسمان سے نہیں اترا۔یہ تخمینے کا معا ملہ ہے جو دو اور دو چار کی طرح ہوتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ طلب کتنی ہے اور رسد کتنی۔پٹرول کا کتنا ذخیرہ موجود ہے ا ور یہ کتنے دن کے لیے کفایت کرے گا۔ پھر یہ کہ کس کو کتنا روپیہ ادا کرنا ہے۔یہ بحران آسمانی آفت کی وجہ سے پیدا ہوا نہ یہ کسی زلزلے کا نتیجہ ہے۔یہ سرتا پا نااہلی کا مقدمہ ہے۔اگر اس وقت ملک میں جمہوری اور سیاسی حکومت ہے تو اس کی براہ راست ذمہ داری متعلقہ وزیر پر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی بیوروکریٹ کی نااہلی کا ثمر ہو لیکن دنیا بھر کی جمہوریتوں میں حکومت کی نمائندگی عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ یہا ں سیکرٹری معطل ہورہا ہے اور وزیر صاحب مو جود ہیں۔ عوام نے ووٹ کسی بیورو کریٹ کو نہیں، سیاسی جماعت کو دیے ہیں۔عوام کے سامنے جواب دہ بھی وہی ہے۔
شریف خاندان کے اسلوبِ جہاں بانی کا ایک اور تضاد بھی میری سمجھ میں نہیں آسکا۔جب معاملہ میگا پراجیکٹس کا ہوتویہ حکومت معجزے کر گزرتی ہے۔ایک بائی پاس چالیس دنوں میں تعمیر ہو جا تاہے۔میٹرو بس منصوبہ گیارہ مہینے میں مکمل ہو جاتا ہے۔شہباز شریف صاحب اعلان کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا؟جب ہو جاتا ہے تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔دوسری طرف، جب معاملہ مو جود نظام میں اصلاح کا ہوتو بھی عوام انگلی دانتوں میں دے لیتے ہیں کہ کوئی حکومت کیا اتنی نااہل ہو سکتی ہے۔سادہ سی بات ہے۔کوئی نیا پلازہ ایسا نہیں بننا چاہیے جس میں پارکنگ کا انتظام نہ ہو۔اس کے باوجود ایسے پلازے بنتے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں۔راولپنڈی میں دل کے امراض کا ایک شاندار ہسپتال تعمیر ہوا۔اس کا کریڈٹ شہباز شریف صاحب کو جا تا ہے لیکن مو جود ہسپتالوں کی حالتِ زار میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آ رہی۔ دانش سکول بن رہے ہیں لیکن پہلے سے قائم سکول اصلاح طلب ہیں۔شہر کی صفائی کے لیے ترکی کی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جارہے ہیں لیکن صفائی کے لیے مامور سرکاری ملازمین کی کارکردگی میں کوئی بہتری نہیں آرہی۔سٹریٹ کرائم روز افزوں ہے۔ پولیس مو جود ہے مگرجا ن ومال کی حفاظت کا نظام اب نجی شعبے کے پاس ہے۔دکان اور گھر کی حفاظت مالک اور مکین کا ذمہ ہے۔اب یہی حکم نجی تعلیمی اداروں کے لیے بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر جان و مال کا تحفظ عوام کی اپنی ذمہ داری ہے تو ریاست کاجواز کیا ہے؟آدمی سوچتا ہے نئے شاندار منصوبے بن جاتے ہیں مگرموجودنظام میں اصلاح نہیں ہوتی۔ میں اس تضاد کوکبھی سمجھ نہیں سکا۔
ہم دنیا کے جن کامیاب حکمرانوں کا ذکر کرتے ہیں،انہوں نے ریاست یا سماج 'ایجاد‘ نہیں کیے۔یہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں اور خراب حالت میں۔شیر شاہ سوری ممکن ہے افسانہ ہو۔اورنگزیب کے قصے میںہوسکتا کہ مورخین نے زیبِ داستاں کے لیے بات بڑھا دی ہو۔چند شواہد مگر معاصرتاریخ میں بھی ہیں۔مہاتیر محمد تو ہمارا آنکھوں دیکھا 'واقعہ‘ ہے۔ انہوں نے ملائشیا 'ایجاد‘ نہیں کیا تھا۔اُن جیسے میگا پراجیکٹس کس نے شروع کیے ہوں گے؟ دنیا کی بلند ترین عمارت انہوں نے ہی تعمیر کی۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے موجود اداروں کی تشکیلِ نو بھی کی ۔شریف خاندان کے ممدوح ترکوں نے ریاست ہی نہیں سماج کو بھی بدل ڈالا۔کیایہ جادوگر تھے؟کیا ترکی اور ملائشیا میں انسان نہیں بستے؟ بہت سی اور مثالیں بھی ہیں جوہمارے دورسے متعلق ہیں۔ماضی کے واقعات مشتبہ ہوسکتے ہیں لیکن آنکھوں دیکھا کیسے جھٹلا یا جا سکتا ہے؟
بات دینی مدراس کی اصلاح سے شروع ہوئی؟کیا لگتا ہے کہ اس مشق کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟ کمیٹی در کمیٹی کا یہ اسلوبِ حکومت کیا کہیں نتیجہ خیز ہوا ہے؟پٹرول کے بحران کو حکومت جس طرح حل کررہی ہے،کیا یہ اس بات کی ضمانت بن سکتی ہے کہ آئندہ تخمینے کی غلطی نہیں ہو گی؟کیاتوقع کی جاسکتی ہے کہ اس ملک کا نظام تعلیم و صحت بدل جائیں گے؟وزیراعظم کا حکم ہے کہ احتساب کو نصاب کا حصہ بنا دیا جائے۔کیا یہ زیادہ مناسب نہ ہوتا کہ وہ پہلے اسے حکومتی نصاب میں بھی شامل کر دیتے اور آغاز وزیرِ پٹرولیم کے احتساب سے کرتے؟احتساب پڑھانے سے زیادہ کرنے کا کام ہے۔
کارِ جہاں بانی، کیا ہمیشہ سے یوں ہی الجھا ہوا تھا؟ اگر ایسا ہے تو لوگ اس کی آرزو کیوں کرتے ہیں؟
عجب پاگل ہے دل کارِ جہاں بانی میں رہتا ہے
خدا جب دیکھتا ہے خود بھی حیرانی میں رہتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved