وہ دن گئے‘ جب ہم لوگ لکھنے کے لئے موضوع ڈھونڈا کرتے تھے۔اب موضوعات ہی موضوعات ہیں۔ بجلی بند۔ پانی بند۔ گیس بند۔ پٹرول بند۔ ٹریفک بند۔ رکشا بند۔ ٹیکسی بند۔ بسیں بند۔بیشترسکول بند۔نہریں بند۔بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے۔جدھردیکھو‘ موضوع ہی موضوع۔ مگر لکھنے کی امنگ ہے کہ ڈھونڈے سے نہیں مل رہی۔ شاید امنگیں بھی بند۔ ذہن بند۔سوچیں بند۔ حکمرانوں کے دماغ بند۔فائلیں بند۔ کام کاج بند۔ دھرنے بند۔جلسے بند۔ جلوس بند۔عمران خان نے احتجاجی مظاہروں کی رونق لگا رکھی تھی۔ شادی ہو گئی۔ اب وہ بھی بند۔ بس دہشت گرد ہیں جوکبھی کبھار اس بندمعاشرے میں حرکت کر کے کچھ لاشیں گرا دیتے ہیں۔کچھ جلاد ہیں‘ جو پھانسیاں لگا دیتے ہیں۔ کچھ اہلکار ہیں‘ جو بجلی اور گیس کے بل دے جاتے ہیں۔بجلی نہیں دیتے‘ بل باقاعدگی سے دیتے ہیں۔ پہلے کچھ راہزن ‘ خواتین کے پرس اور موبائل چھین کر بھاگا کرتے تھے۔اب پٹرول کی بوتلیں بھی چھین لیتے ہیں۔ اگر کسی کے ایک ہاتھ میں موبائل اور دوسرے میں پٹرول کی بوتل ہو تو راہزن بوتل چھین کر بھاگ جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ زندہ دل نوجوان‘ ایسے ماحول میں بھی دلچسپی کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں۔
ایک نوجوان سے اس کی گرل فرینڈ نے فرمائش کی کہ ''اگر تم مجھے کار میں سیر کرائو‘ تو میں تمہارے ساتھ چل سکتی ہوں۔‘‘ نوجوان نے وعدہ کر لیا۔ اسے اپنی کار کے لئے پٹرول نہیں ملا‘ تو اس نے گاڑی گھر چھوڑی اور کسی جاننے والے سے لفٹ لے کر کاروں کے شو روم پر اتر گیا۔ اندر جا کر اس نے چند نئی گاڑیاں دیکھیں۔ نئی گاڑی پسند کی اور شو روم والوں سے کہا کہ وہ اس کی ٹرائی لینا چاہتا ہے۔ قاعدے کے مطابق شو روم والوں نے اپنا ایک آدمی ساتھ بٹھا دیا۔ وہ کار لے کر گلبرگ میں گیا۔ ایک کوٹھی کے گیٹ پر گاڑی کھڑی کر کے شو روم کے ملازم سے کہا ''تم یہاں رکو میں ابھی گھر سے ہو کے آتا ہوں۔‘‘ جیسے ہی وہ اترا‘ اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور بھاگ نکلا۔ گرل فرینڈ کو فون کیا کہ باہر سڑک پر آ جائو اور اسے کار میں بٹھا کر سیر پر نکل گیا۔اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ گاڑی میںٹریکنگ سسٹم نصب ہے۔ شوروم کے ملازم نے جب دیکھا کہ فرضی گاہک کار لے کر فرار ہو گیا ہے‘ تو اس نے فون پر اطلاع دی ۔ شو روم والے جلد ہی گاڑی کے پیچھے پہنچ کر تعاقب کرنے لگے۔ اس نے دیکھا توکار کی رفتار تیز کر کے بھاگنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں گاڑی الٹ گئی۔ کار چلانے والا نوجوان تو صحیح سلامت بچ نکلا۔ لڑکی کو چوٹیں آ گئیں۔ کمال اس نے یہ دکھایا کہ کار سے باہر نکلتے ہی شو روم والے سے کہنے لگا '' میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میرے ساتھ جو چاہو کر لینا۔ لڑکی کو پتہ نہ چلے کہ کار چوری کی تھی۔‘‘ اچھے لڑکے عزت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ بہرحال شو روم والوں نے لڑکی کو گھر پہنچایا اور نوجوان کو ساتھ لے گئے۔ وہ خوشامدیں کرنے لگا کہ ''مجھے تھانے مت لے جائو۔ مجھے اپنے والد کو بلانے دو۔‘‘ اس کے والد شو روم میں آئے۔ حسب روایت دونوں فریقوں میں تکرار ہوئی۔ آخر طے پایا کہ لڑکے کا والد ہرجانہ ادا کر دے گا۔ گاڑی کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا۔ پھر بھی 5لاکھ پر سودا ہوا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔
پٹرول کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ پر‘ حکومت نے کسی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میڈیا نے ہاہاکار مچائی‘ تو بھی کسی محکمے کے افسریا وزیرنے وضاحتی بیان جاری نہیں کیا۔ جب ٹی وی اینکرز نے ٹیلیفون کرنا شروع کئے تو متعلقہ وزیر جناب شاہدخاقان عباسی‘ لائن پر آئے اور بغیر کسی معذرت اور اظہارافسوس کے‘ بڑے اعتماد سے فرمانے لگے کہ ''تیل کی یہ قلت آٹھ دس دن جاری رہے گی۔‘‘ انہوں نے اس قلت کی وجہ بتانا پسند نہیں کیا۔ وہ اسے ایک معمول کا واقعہ سمجھ کر نظرانداز کر رہے تھے۔ قلت کے چوتھے یا پانچویں دن‘ قومی اسمبلی میں خواجہ آصف سے سوال ہوا‘ تو انہوں نے مزید اطمینان سے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ''قلت دس بارہ دن مزید جاری رہے گی۔‘‘ اللہ اللہ خیرسلا۔ نہ کسی کی معذرت۔ نہ وضاحت اور نہ عوامی تکالیف پر کسی طرح کا اظہارافسوس۔ انتہائے کمال یہ ہے کہ وزیراعظم بیرونی دورے سے واپس آئے‘ تو انہوں نے وزارت پٹرولیم کے چار اعلیٰ افسروں کو فوری طور پہ معطل کر دیا، لیکن عوام سے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ تین چار افسر نکال کر‘ انہوں نے عوامی تکالیف کا ازالہ کر دیا ہے۔ کسی وزیرسے وضاحت نہیں مانگی۔ اگر وہ تھوڑی سی تحقیق کرنے کی زحمت فرماتے‘ تو انہیں پی ایس او کے چیف کی طرف سے دس بارہ خطوط کی کاپیاں دیکھنے کو ملتیں‘ جن میں باربار وزیراور وزارت خزانہ سے استدعا کی گئی تھی کہ ان کے پاس پٹرول کی خریداری کے لئے ایک پیسہ نہیں بچا۔ سٹاک تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ بینکوں نے ایل سی کھولنا بند کر دی ہیں۔ اگر بروقت ادائیگی نہ کی گئی‘ تو پٹرول کے ذخیرے ختم ہو جائیں گے اور ہم صارفین کی ضروریات پوری نہیں کر سکیں گے۔ کسی نے ان خطوط کو اہمیت نہیں دی۔ جواب تک دینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ یہ صورتحال وزیراعظم کے علم میں آ جاتی تو افسر‘ ان کے عتاب کا ہدف نہ بنتے۔ عوام کو ساری تکالیف پہنچانے کے ذمہ دار صرف دو وزراء ثابت ہوتے۔ ایک شاہد خاقان عباسی اور ایک وزیرخزانہ اسحق ڈار۔افسروں کی برطرفی کوتیسرا دن ہو چکا ہے۔ اب تک اصل حقائق وزیراعظم کے علم میں آ چکے ہوں گے، مگر ان کی طرف سے مکمل خاموشی دیکھ کے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے وزراء کو بے قصور سمجھتے ہیں اور جو افسران بلاوجہ عتاب کا نشانہ بن کر معطل ہوئے‘ بے تابی سے انصاف کے منتظر ہیں۔ تازہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ فرنس آئل کے ذخیرے بھی ختم ہونے والے ہیں اور ایک دو روز میںبجلی بنانے کے پلانٹس کو بھی ایندھن کی فراہمی بند ہو جائے گی۔ بجلی بننا بند ہو گئی‘ تو جو چند گھنٹے لوڈشیڈنگ سے بچے ہوئے ہیں‘ وہ بھی اندھیروں سے بھر جائیں گے۔ نہریں بند ہونے سے بجلی کی پیداوار میں مزید کمی ہو چکی ہے۔ اس موسم میں ہمیشہ نہریں بند کی جاتی ہیں اور متعلقہ محکموں کو خبر ہوتی ہے کہ وہ اضافی بجلی پیدا کرنے کے لئے عارضی انتظامات کر لیں۔ موسم آ گیا لیکن فرنس آئل سٹور نہیں کیا جا سکا۔ ایک دو روز میں اس کی فراہمی معطل ہو جائے گی۔ پٹرول کی قلت کے مارے ہوئے لوگوں کو‘ ابھی پٹرول ملنا شروع نہیں ہو گا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 14گھنٹے سے بڑھ کر 20 گھنٹے ہو جائے گی۔ یہ ساری تکلیفیںکسی ناگزیر وجہ سے نہیں، محض بیڈ بلکہ بدترین گورننس کا نتیجہ ہیں۔پٹرول حالیہ تاریخ کے ادنیٰ ترین نرخوں پر پہنچ چکا ہے۔ ایسے وقت میں تمام ذمہ دار حکومتیں اضافی ذخیرے کرنا شروع کر دیتی ہیں تاکہ جہاں تک ممکن ہو‘ وہ اپنے لوگوں کو سستا پٹرول مہیا کر سکیں، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس ضرورت کا تیل بھی موجود نہیں۔ حد یہ ہے کہ ہنگامی حالات کے لئے 20دن کا جو ذخیرہ رکھنے کی پابندی ہے‘ اس کی بھی بغیرکسی وجہ سے خلاف ورزی کر دی گئی۔ اگر خدانخواستہ کسی بھی طرح کی دشواری پیش آ جائے تو حکومت کے پاس روزمرہ کی ضروریات کا پٹرول فراہم کرنے کی گنجائش بھی موجود نہیں۔ دشمن جارحیت کرنا چاہے‘ تو اس سے بہترین موقع اسے کون فراہم کرے گا؟ یہ تو اس کے لئے دعوت عام ہے۔ وہی فائدہ نہ اٹھائے‘ تو یہ اس کی مرضی ‘ ورنہ ہم نے تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ہو سکتا ہے‘ اسے یقین ہی نہ آئے کہ ہمارے ملک کی حکومت اتنی غیرذمہ دار بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کے صبر کا جتنا امتحان لیا جا سکتا تھا‘ لیا جا رہا ہے۔ جس نوازشریف کو میں جانتا ہوں‘ وہ ایک دردمند اور عوامی مسائل سے آگاہی رکھنے والے لیڈر تھے۔ ہر وقت ان کی نظر حالات پر رہتی تھی اور جو بھی مسئلہ پیدا ہونے لگتا‘ وہ پہلے سے‘ اسے حل کرنے کے انتظامات کر لیا کرتے تھے۔ اب وہ اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ یا ان کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے؟ مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ اسحق ڈار وزیرخزانہ بنے‘ تو میں نے اسی وقت لکھنا شروع کر دیا تھا کہ وہ الجھنیں پیدا کر کے‘ ان کے اندر پھنس جائیں گے اور ان کے علم میں بھی نہیں ہو گاکہ انہوں نے اپنے ساتھ کیا کر لیا ہے؟ قارئین کو یاد ہو گا ‘ میں نے بچوں تک کو نصیحت کی تھی کہ انہیں ‘ٹافیاں بھی کھانا ہوں‘ تو ڈار صاحب سے آنکھ بچا کر کھائیں۔ اگر ان کی نظر پڑ گئی‘ تو وہ یہ بھی چھین لیں گے۔ ڈارصاحب کی نظر جہاں جہاں پڑتی ہے کہ کسی بھی شہری کو‘ کوئی سہولت حاصل ہو رہی ہے‘ تو و ہ فوراً اس کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ سمدھی‘ وہ وزیراعظم کے ہیں، لیکن عوام سے سلوک ایسا کر رہے ہیں‘ جیسے وہ بھی ان کے سمدھی ہوں۔یہ سمدھیاپا ہے یا سیاپا؟ ایسا لگتا ہے کہ ڈکٹیٹراور بادشاہ نے بیٹھ کر نوازشریف کے اندر سے ‘ نوازشریف کو نکال دیا ہے۔ ان کا بھوت ہے ‘ جو اس وقت ہم پر حکومت کر رہا ہے۔جو کوئی عوام کے حق میں آواز اٹھاتا ہے‘ اسے مخصوص وزیروں کا ایک ٹولہ زبان درازیوں کا نشانہ بنا کر‘ مزید تکلیف پہنچاتا ہے۔ بلکہ کچوکے لگاتا ہے۔ ماضی میں ہم نے تکلیف پہنچانے والی حکومتیں تو دیکھی ہیں۔ کچوکے لگانے کا اضافی مشغلہ کرتے‘ اسی حکومت کو دیکھ رہے ہیں۔