تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     20-01-2015

دولت مند ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں!

تمام متمول افراد، جو ایمانداری سے دولت کماتے ہیں، سکونِ قلب رکھتے ہیں، لیکن بے ایمانی اور ناجائز ذرائع استعمال کرنے والے پریشان اور خوفزدہ رہتے ہیں۔ اُنہیں کس بات کا خوف ہوتا ہے اور کس سے ہوتا ہے؟ جب آپ نے اپنے اہل وطن کو لوٹا ہو اور ملک کی دولت لوٹ کر اسے دیوالیہ کرکے اپنی تجوریاں بھر لی ہوں اور نہ قانون اور نہ ہی کوئی شخص آپ کی گردن دبوچ سکتا ہو تو پھر آپ کو کون سا خدشہ لاحق رہتا ہے؟ یہاں تو ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جو آپ کی جیب سے لوٹے ہوئے ڈالر نکلوا سکے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو آپ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں، اُنہیں اپنے جلسوں میں بلا کر اپنی دل خوش کن باتوں سے مسحور کر سکتے ہیں اور آپ کو یقین ہوتا ہے کہ صرف آپ ہی لوگوں کے مسیحا ہیں‘ لیکن اصل سوال اپنی جگہ پر موجود کہ پھر کس خوف سے دل کی دھڑکن درہم برہم رہتی ہے؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ بدعنوان طاقتور افراد کو قانون یا عوامی باز پرس کا تو کوئی ڈر نہیں ہوتا‘ لیکن ان کے دل میں چھپا ہوا چور اُنہیں چین نہیں لینے دیتا؛ تاہم دولت مند افراد کو چاہیے کہ وہ عوام سے بے شک نہ ڈریں، خدا کا خوف ضرور رکھیں۔ ان تمام بدعنوان لوگوں کو، جنھوں نے برائی، لالچ اور طمع کو اپنی زندگی بنا لیا ہے، کبھی اطمینان قلب میسر نہ ہو گا۔ اُنہیں نہ اس دنیا میں چین ملے گا، نہ دوسری دنیا میں۔ یقینا عوام آپ سے آپ کی دولت کی ایک پائی بھی نہیں چھین سکتے، دنیا کی کوئی طاقت آپ کا احتساب نہیں کر سکتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کہیں بھی احتساب نہیں ہوگا۔ 
امریکہ میں کرسمس کے موقع پر شاپنگ مال ایسی اشیا سے بھری ہوتی ہیں جو امریکی عوام کرسمس پر خریدتے ہیں۔ ان اشیا میں تحائف کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں کرسمس پر تحائف کا تبادلہ رسم ہے۔ اور پھر اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ سب ہی ایسا کرتے ہیں؛ چنانچہ کرسمس کی تعطیلات میں اربوں ڈالر مالیت کے تحائف کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ نیویارک ٹائمز میں آرتھر بروکس اس رسم کو اس عنوان تلے بیان کرتے ہیں... ''Abundance without Attachment‘‘۔ وہ حالیہ دنوں بھارت کے سفر پر گئے تو اُنھوں نے ایک سوامی سے پوچھا، کیا معاشی خوشحالی اچھی چیز ہے یا بری؟ سوامی نے جواب دیا: ''یہ اچھی چیز ہے کیونکہ اس کی وجہ سے میرے ملک بھارت میں لاکھوں افراد کو بھوک سے مرنے سے بچا لیا جاتا ہے۔ دولت کمانے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس کے ذریعے ہی آپ ضرورت مندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ درحقیقت زندگی کے تمام مسائل کا تعلق پیسے سے ہی ہے‘‘ چنانچہ اچھی زندگی کا فارمولا یہ ہے: ''Abundance without Attachment‘‘۔ اس فارمولے کی آسان اردو میں اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے کہ آپ کی جیب میں دولت کی فراوانی تو ٹھیک ہے لیکن آپ اس کے ساتھ دل نہ لگائیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے کشتی سے باہر پانی اسے تیرنے کے قابل بناتا ہے‘ لیکن جب یہی پانی کشتی کے اندر آجائے تو اسے ڈبو دیتا ہے۔ 
دلائی لامہ کی تعلیمات کے مطابق بھی دولت کمانے میں کوئی حرج نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جیب بھر جاتی ہے لیکن تسکین نہیں ہوتی۔ اس دنیا کے 80 فیصد سے زائد افراد ایک ڈالر یومیہ یا اس سے بھی کم آمدنی پر گزارا کرتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے دولت مند ترین شخص، بل گیٹس پیش گوئی کرتے ہیں: ''2035ء تک دنیا میں کوئی بھی ملک قابل ذکر حد تک غریب نہیں رہے گا۔‘‘ کیا خیال ہے؟ یہ اچھی خبر ہے؛ تاہم اس میں وارننگ بھی ہے... دولت مند ہونے کا مطلب ''ہل من مزید‘‘ نہیں، بلکہ ایسی دولت جو آپ کے ذہنی سکون اور قلبی طمانیت کا باعث بنے۔ پاکستان کے رؤسا کے لیے اس میں پیغام بھی ہے۔ اگر آپ یا آپ کے اہل خانہ متمول ہیں تو آپ شکر ادا کریں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اس دولت میں سے اپنے ارد گرد غریب افراد کا خیال رکھیں۔ پیشہ ور بھکاری نہیں بلکہ آپ کو اپنی کالونی، اپنے ہمسایوں اور اپنے عزیزوں میں کم حیثیت کے افراد کا علم ہونا چاہیے۔ سوال کرنا اُنہیں زیب نہیں دیتا، یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اُن کا خیال رکھیں۔ اس پر فخر نہیں، شکر کریں کہ آپ کسی کی حاجت پوری کرنے کے قابل ہیں۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس ضمن میں اسلام کے آپ کے لیے کیا احکامات ہیں... زرق حلال اور حقوق العباد۔ مذہب کا اس سے جامع اور عمدہ خلاصہ ممکن ہی نہیں اور پھر خالقِ کائنات کا آپ سے وعدہ بھی ہے کہ وہ آپ کو مزید دے گا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم پاکستانی، دولت کو اپنے دل سے نکال دیں کیونکہ اس کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھوکہ دینا، حسد کرنا اور انسانی قدروں کو فراموش کر دینا مذہب کے منافی ہے۔ حب دنیا نیک اعمال کو غارت کر دیتی ہے کیونکہ پھر انسان ہر چیز، حتیٰ کہ عبادات کو بھی دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ پاکستانیوں سے زیادہ اس بات کو شاید ہی کوئی سمجھ سکے۔ ارتھر بروکس کا کہنا ہے کہ دولت کی محبت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ''مال نہیں، مہارت پر ناز کریں۔‘‘ شیخ سعدی نے یہی بات کم و بیش نو سو سال پہلے کہی تھی... ''تونگری بہ دل است، نہ بہ مال‘‘۔ یہ غیر متبدل حقیقت ہے کہ چیزیں عارضی ہوتی ہیں لیکن تجربہ اور مہارت مستقل ہوتے ہیں۔ نہ یہ کم ہوتے ہیں نہ گم۔ ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے ایک رویہ اپنانا ہوگا۔ جس طرح دولت کا حصول خوشی دیتا ہے، اسی طرح نیا تجربہ حاصل کرنا بھی خوشی دیتا ہے۔ ہنر بہت بڑی دولت ہے، لیکن صرف دولت کمانے کی خاطر ہنر سیکھنے میں زندگی گزار دینا بھی درست حکمت نہیں۔ دولت ہمیں آسائش بھی دیتی ہے اور ذہنی سکون بھی۔ تو پھر ہم خوف کے سائے میں زندگی بسر کرنے کے لیے ناجائز ذرائع سے دولت کیوںکماتے ہیں؟ آرتھر دولت سے محبت کم کرنے کے لیے ایک مشورہ بھی دیتے ہیں: ''بہت زیادہ چیزوں کو اپنی حاجت نہ بنائیں۔‘‘ اُس کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہمیں اتنی چیزوں کی عملی طور پر ضرورت نہیں پڑتی جتنی ہم اکٹھی کر لیتے ہیں یا جن کی تمنا میں ہم اپنی زندگی کو روگ لگا لیتے ہیں۔ دراصل ہم سوچتے ہیں کہ اگر اس چیز کی بھی ضرورت نہیں تو ہو سکتا ہے کہ آئندہ اس کی ضرورت پڑ جائے۔ احتیاط اچھی چیز ہے لیکن اپنے گھر میں ایسی چیزوں کا جائزہ ضرور لیا کریں جنہیں مستقبل میں فائدہ مند سمجھ کر خریدا گیا لیکن وہ بے کار ثابت ہوئیں۔ ارسطو نے دانا افراد کی تعریف اس طرح کی ہے: ''وہ جانتے ہیں کہ یہ اہم، مشکل، حیرت انگیز، قابلِ تعریف لیکن بے کار چیزیں ہیں‘‘ چنانچہ دانائی کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ آپ جان پائیں کہ آپ کن چیزوں کے بغیر بھی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ 
آرتھر بروکس کے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ آپ مرکز کے قریب رہیں۔ جیسے پہیے کے اطراف میں گردش کی رفتار تیز ہوتی ہے لیکن مرکز میں کم۔ اسی طرح زندگی کی رفتار کو کم رکھیں۔ یاد رکھیں، قسمت کا پہیہ ایک سے حالات کی طرف نہیں لے جاتا۔ اگر اطراف میں خوشحالی کی تیز رفتاری ہے تو بدحالی کی تیز رفتاری بھی ہو گی؛ تاہم مرکز میں دونوں کا اثر کم ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved