تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-01-2015

میاں صاحب کو مبارکاں اور عوام کیلئے ’’ ہورچوپو‘‘

پٹرول کی حالیہ قلت کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ بظاہر مزید لکھنے کی گنجائش نظر تو نہیں آتی مگر حکومتی بیانات، نت نئی تاویلات اور روز افزوں اعلانات اس باسی کڑھی میں ابال لے آتے ہیں اور یوں اس بظاہر گھسے پٹے موضوع میں نئی جان پڑ جاتی ہے۔ وزیراعظم نے بیان جاری فرمایا ہے کہ وہ پٹرول بحران کے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ '' ذمہ دار ‘‘ کون ہے؟
یہ '' ملین ڈالر‘‘ سوال ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟ ملک میں پی ایس او سرکار کی طرف سے پٹرول ملک میں درآمد کرنے کی ذمہ دار ہے اور ہر ماہ تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار میٹرک ٹن پر مشتمل چار کارگو بحری جہاز منگواتی ہے۔ گزشتہ ماہ کے بعد اب تک صرف ایک جہاز آیا ہے یعنی صرف پینسٹھ ہزار ٹن۔ بادی النظر میں تو پی ایس او اس بحران کی ذمہ دار ہے کہ اس نے طلب کے مقابلے میں صرف پچیس فیصد تیل درآمد کیا جس سے پٹرول کی حالیہ قلت پیدا ہوئی۔ لیکن پی ایس او کے علاوہ دیگر مارکیٹنگ کمپنیاں بھی ہیں جو ملک میں تیل درآمد کرتی ہیں۔ ان مارکیٹنگ کمپنیوں کی تعداد بھی دس کے لگ بھگ ہے ۔ انہوں نے بھی تیل یا تو درآمد ہی نہیں کیا یا اس ماہ کم درآمد کیا۔ اس حساب سے دیکھیں تو یہ دس کمپنیاں بھی اس بحران کی حصہ دار ہیں۔
پی ایس او نے تیل اس لیے درآمد نہ کیا کہ اس کے پاس درآمد کے لیے پیسے ہی موجود نہیں۔ پی ایس او صرف ایک ایل سی پر چھیالیس ارب کی نادہندہ ہے ۔اس نادہندگی کے باعث اس کی کریڈٹ لائن بری طرح متاثر ہوئی ہے اور بینک اس کو مزید اوور ڈرافٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اب جس کمپنی کے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے ہی نہیں بھلا وہ تیل درآمد نہ کرنے کی جرم دار کیسے ہوسکتی ہے؟ اب اگلا سوال یہ ہے کہ پی ایس او کے پاس پیسے کیوں نہیں ؟ تیل دھڑا دھڑ بک رہا ہے۔ لوگ پٹرول پمپوں پر فوری ادائیگی کرتے ہیں تو پھر پی ایس او بینکوں کی نادہندہ کیوں ہے؟ ایل سی کھولنے سے عاری کیوں ہے؟ تیل درآمد کرنے کے قابل کیوں نہیں ؟ وجہ یہ ہے کہ پی ایس او کو اس کے خریدار عرصے سے تیل کی ادائیگی نہیں کررہے۔ بھلا ایک کمپنی کب تک اپنا مال ادھار پر فروخت کرسکتی ہے؟ کب تک ایسا ممکن ہے کہ فروخت شدہ مال کی رقم اسے وصول نہ ہو اور وہ مسلسل لامتناہی ادھار پر اپنے گاہکوں کو مال سپلائی کرتی رہے۔ پی ایس او کے نادہندہ گاہکوں کی بلکہ صرف بڑے بڑے نادہندگان کی مختصر کی تصویر یہ ہے۔ واپڈا نے پی ایس او کے ننانوے ارب سے زائد، حبکو نے اٹھاون ارب، کیپکو نے ساڑھے تیرہ ارب ، کے ای ایس سی نے تقریباً چار ارب اور دیگر پاور کمپنیوں نے ایک ارب کے لگ بھگ یعنی صرف پاور سیکٹر نے پی ایس او کے تقریباً ایک سو پچھتر ارب روپے دینے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ایئرلائن نے چودہ ارب، ریلوے نے تراسی کروڑ، این ایل سی نے اٹھائیس کروڑ اور او جی ڈی سی نے اٹھارہ کروڑ دینے ہیں۔ جس کمپنی کے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے ہی نہ ہوں اور دوسرے لوگ اس کے تقریباً دو سو ارب دبا کربیٹھے ہوں وہ اس بحران کی ذمہ دار ہے اور وزیراعظم نے فوری طور پر اس کے ایم ڈی کو فارغ کردیا ہے اور اس طرح ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے کام کا آغاز کیا ہے۔
باقی دس مارکیٹنگ کمپنیوں نے پٹرول کیوں درآمد نہیں کیا؟ آخر وہ بھی تو ملک میں تیل درآمد کرنے اور فروخت کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ مگر نہیں ! وہ صرف نفع کمانے کی ذمہ دار ہیں۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں مسلسل کم ہورہی ہیں اور وہ جو پٹرول بھی درآمد کریں گی اس پر ان کا متوقع منافع کم ہوگا۔ لہٰذا انہوں نے کم منافع سے بچنے کے لیے تیل ہی درآمد نہ کیا۔ جب تیل کی قیمتیں اوپر جارہی تھیں، وہ دھڑا دھڑ منافع کماتی رہیں مگر جونہی حساب الٹا ہوا انہوں نے درآمد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں پی ایس او کے علاوہ تیل درآمد کرنے اور فروخت کرنے کا جو متبادل نظام تھا وہ وقت آنے پر ناکام ثابت ہوا۔ ہمہ وقت لوگوں کی جیبوں سے رقم نکلوانے کی 
عادی مارکیٹنگ کمپنیوں کی اپنی جیب سے تو خیر کیانکلنا تھا۔ جونہی منافع کی شرح ان کی سالانہ منافع کی پلاننگ سے کم ہونے کی طرف گامزن ہوئی انہوں نے تیل منگوانا ہی بند کردیا کہ مسلسل روبہ زوال قیمتوں کے نتیجے میں وہ متوقع''نقصان‘‘ سے بچ سکیں۔ اب تک ان ذمہ داروں پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔
ملک میں ایک اور ادارہ ہے اوگرا۔ یعنی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی۔ اس کا کام تیل سے متعلق طلب اور رسد کو متوازن رکھنا، ملک میں تیل کے کم از کم ذخیرے کو یقینی بنانا اور تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا ہے۔وہ اپنی ذمہ داری میں سو فیصد ناکام ہوا اور ملک میں تیل کا کم از کم بیس دن ذخیرہ ہونے کے لازمی قانون کی نہ تو نگرانی کی اور نہ ہی اس پر عمل کروایا۔ یہ اس اتھارٹی کی ایسی نالائقی اور نااہلی تھی جس پر جتنا بھی ماتم کیاجائے کم ہے۔ خدا جانے اوگرا والوں کو اس کا علم ہی نہ تھا یا وہ اس سے صرف نظر کرتے رہے۔ مگر دونوں صورتوں میں یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
وزارت بجلی و پانی کا کردار بھی اس معاملے میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ پی ایس او کی سب سے بڑی نادہندہ پارٹی وزارت پانی و بجلی ہے، جس نے محض پاور سیکٹر میں پی ایس او کے ایک سو 
پچھتر ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ لیکن پاور سیکٹر کا خود برا حال ہے۔ وزارت پانی وبجلی نے پاور سیکٹر کے کتنے پیسے دینے ہیں؟ یہ بڑا مشکل سوال ہے۔ اس پیسے دینے سے میری مراد '' سرکلر ڈیٹ‘‘ ہے یعنی گردشی قرضے۔ وزارت پانی و بجلی نے اس مسئلے پر بڑی مضبوطی سے پردہ تان رکھا ہے۔ درحقیقت یہ گردشی قرضے کتنے ہیں کسی کو درست طور پر معلوم نہیں۔ اس معاملے کو بڑی سختی سے چھپایا جارہا ہے تاکہ غیر ملکی قرضہ لینے کے معاملے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر ایک اندازے کے مطابق یہ تین سو ارب روپے کے لگ بھگ ہوچکے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی پاور سیکٹر کے دو سو اسی ارب سے تین سو ارب دبائے بیٹھی ہے اور وہ پی ایس او کے ایک سو پچھتر ارب دبائے بیٹھے ہیں۔ عوام پاور سیکٹر کے کتنے ارب کے نادہندہ ہیں اس کی بھی صحیح معلومات ملنا مشکل ہے کہ حساب کرنے کے کئی طریقے ہیں اور صورتحال کے مطابق یہ حساب الٹ پلٹ کردیا جاتا ہے۔ صرف ملتان الیکٹرک پاور کمپنی یعنی میپکو نے سرکلر ڈیٹ کے معاملے میں شرکاء کو ایک حساب کے مطابق پانچ ارب روپے اور دوسرے حساب کے مطابق اٹھارہ ارب ادا کرنے ہیں۔ یعنی سبسڈی ڈال کر اور نکال کر علیحدہ علیحدہ حساب کیاجائے تو جواب مختلف آتا ہے۔ دوسری طرف عوام نے میپکو کے بائیس ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ پی ایس او نے حکومت سے اکتیس دسمبر کو ہنگامی طور پر چوہتر ارب روپے ادا کرنے کی درخواست کی تھی مگر وزارت خزانہ ،جو صرف اور صرف جناب اسحاق ڈار کا نام ہے نے یہ رقم ادا کرنے سے معذوری ظاہر کی اور محض ساڑھے تیرہ ارب روپے ادا کیے۔ یہ بات طے ہے کہ اس بحران میں وزارت خزانہ ، پانی وبجلی، اوگرا اور مارکیٹنگ کمپنیاں مشترکہ قصور وارہیں
تاہم سب سے بڑی مجرم وزارت پٹرولیم ہے لیکن اس کے وزیر کی باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ تیل کے بحران کا ذمہ دار اس ملک میں گدھا گاڑی چلانے والا تو ہوسکتا ہے مگر وزارت پٹرولیم اس معاملے میں سب سے زیادہ معصوم اور بے گناہ ہے۔ حتیٰ کہ وزارت پٹرولیم اگر سی این جی کی بندش کے بعد ملک میں پٹرول کی کھپت میں بیس سے پچیس فیصد ہونے والے اضافے سے لاعلم او ربے خبر رہی تو یہ بھی اس کا نہیں عوام کا قصورتھا کہ اس نے وزیر پٹرولیم کے علم میں لائے بغیر زیادہ پٹرول صرف کرنا شروع کردیا۔ یہ سراسر عوام کا قصور ہے کہ انہوں نے ماہ جنوری میں زیادہ پٹرول خرچ کردیا۔ ملک میں پٹرول کی طلب اور رسد کا خیال رکھنا وزارت پٹرولیم کا نہیں عام آدمی کا کام تھا اور اس معاملے میں اس سارے بحران کا ذمہ دار ملک کا عام آدمی ہے جناب شاہد خاقان عباسی نہیں ہیں۔
اب اصل اور حقیقی صورتحال یہ ہے کہ وزارت پانی و بجلی نے پاور سیکٹر کے پیسے دبا رکھے ہیں۔ پاور سیکٹر نے پی ایس او کے پیسے دبا رکھے ہیں۔ پی ایس او نے بینکوں کے پیسے دبا رکھے ہیں۔ بینکوں نے پی ایس او کی ایل سی دبا رکھی ہے۔ ایل سی نے پٹرول کی سپلائی دبا رکھی ہے اور عوام نے وزارت پانی وبجلی کے پیسے دبا رکھے ہیں۔ یعنی اصل قصوروار عوام ہیں۔ جناب وزیراعظم کو خوشخبری دی جاتی ہے کہ اس سارے بحران میں حکومت قطعاً بے قصور اور معصوم ثابت ہوتی ہے۔اس بحران کے حقیقی ذمہ دار عوام ہیں اور وہ خود اس بحران میں ذلیل و خوار اور خراب و خستہ ہورہے ہیں۔ اس طرح اس بحران کے ذمہ داروں کو ان کے کیے کی سزا مل رہی ہے۔ وزیراعظم کو مبارک ہو کہ انہوں نے بیان جاری فرمانے سے پہلے ہی اس بحران کے ذمہ داروں کو ان کے کرتوتوں کی سزادے کر عدل و انصاف کے تقاضے پورے کردیے ہیں۔ میاں صاحب! مبارکاں ہوں ۔مبارکاں !
عوام کو اس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ '' ہور چوپو‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved