تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-01-2015

حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی

منفرد نظم گو اور ہمارے بہت ہی عزیز دوست ابرار احمد لکھتے ہیں:
جناب ظفر اقبال!سلام۔آپ سے ملاقات ہمیشہ یاد گار بن جاتی ہے۔اس مرتبہ بھی ناصر عباس نیرّسے رسم و راہ آپ سے ملنا ‘سرشار کر گیا۔نثری نظم کی بابت میری معروضات کا آپ نے اپنے کالم میں تذکرہ کیا ہے تو جو خط میں نے لکھ رکھا تھا‘ اُسے ازسر نو تحریر کر رہا ہوں۔گزشتہ برس جب ہمارے ایک نام نہاد''جدید‘‘ شاعر نے میرے سامنے یہ فرمان جاری کیا کہ نثری اور آزاد نظم دو الگ الگ اصنافِ سخن ہیں تو مجھے جانیے سخت جھٹکا لگا۔ گو مجھے جلد ہی سمجھ میں آ گیا کہ موصوف کے بیان کے پسِ پردہ کیا عوامل کارفرما ہیں لیکن میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر ہم کب تک لکیر کے فقیر بنے رہیں گے۔
زندگی آگے بڑھتی ہے۔ ارتقا ہی کے عمل کو ثبات حاصل ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ 60-50برس قبل آغاز ہونے والی اس تبدیلی کے بعد اردو نظم وہ نظم نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ اس تمام عرصے میں ایسے کئی شعری مجموعے بھی شائع ہوئے جو اس فارم پر مشتمل تھے لیکن ان پر کہیں ''نثری نظم ‘‘ کی تختی نہیں لگی تھی۔ کوئی بھی مدیر،جو عالمی ادب سے نسبتاً زیادہ گہرائی سے واقف ہو‘ اسے نظم ہی قرار دیتا ہے اور اپنے پرچے میں اسے علیحدہ سیکشن میں نہیں لگاتا،نہ ہی کوئی ڈھنگ کا شاعراس امتیاز کو روا رکھتا ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ خود آپ اس صنف کی بابت کیا خیالات رکھتے ہیں،لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اسے محض نظم تسلیم کریں‘ نظم ہی سمجھیں‘ نظم ہی لکھیں۔آخر کار ایسا ہونا ہی ہے تو پھر ہم کیوں خواہ مخواہ ''رجعت پسندوں‘‘ میں اپنا نام درج کرائیں‘نظم انگریزی سے اردو میں آئی۔ آپ انگریزی شاعری کا مطالعہ کردیکھیں‘ کہیں آپ کو یہ لکھا دکھائی نہیں دے گا کہ یہ Prose poemہے ۔ تو پھر ہمیں کیا مسئلہ درپیش ہے؟قاری کی مشکلات کی بابت آپ فکر مند ہیں اور اسے پریشانی سے بچانے کے لیے مُصر ہیں کہ ایسی نظموں کو ''نثری نظم‘‘ہی لکھا جائے۔ عرض یہ ہے کہ جب آپ ''گلا فتاب ‘‘ تخلیق کر رہے تھے تو کیا آپ کے ذہن میں قاری موجود تھا؟ یا پھر غزل کا مروّجہ چلن؟؟سیدھی سی بات ہے‘ اگر نظمِ آزاد بھی وجود میں نہ آتی تو ہمارا بیچارہ قاری آج بھی غزل ہی پر واہ واہ کر رہا ہوتا۔ نئی راہوں پر اسے شاعروں ہی نے لگایا۔
ایسے فیصلے تخلیق کار ہی کیا کرتے ہیں کہ وہی اپنے عہد کو جھیلتے ‘ اسے بیان کرنے کی سعی کرتے ہیں۔قاری بالآخر ہم آہنگ ہو جایا کرتا ہے ۔ کچھ قاری کو بھی محنت کرنی چاہئے اور تھوڑا ارتکاز بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے میں یہاں اردو اور عالمی ادب سے لاتعداد ایسی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جنہیں شاہکار کہا جاتا ہے اور جو قاری کو پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی معرضِ وجود میں آ ہی نہیں سکتی تھیں۔ ریل گاڑی کے انجن کو بہرحال آگے ہی لگنا ہوتا ہے۔!جناب ریاض مجید کا احترام واجب لیکن معذرت کے ساتھ''نثم ‘‘ کی اصطلاح تو اور بھی گمراہ کُن ہے۔
آپ کے حکم کی تعمیل میں اپنی چند نظمیں بھی ارسال کر رہا ہوں ۔ سلامت رہیے۔ آپ کا ابرار احمد'66 C‘ماڈل ٹائون لاہور۔
ہمارے دوست کی باتیں بالکل صحیح ہیں اور ان کے ساتھ اصولی اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم‘ یہ بھی دیکھا جائے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک تو نثر ی نظم ہی تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا تھا جس میں احمد ندیم قاسمی جیسے جغادری مدیر بھی شامل ہیں‘ تو اب کہیں جا کر یہ انکار اگر اقرار میں تبدیل ہوا ہے تو جس فرق کی طرف صاحبِ موصوف نے اشارہ کیا ہے‘ رفتہ رفتہ وہ بھی رفع ہو سکتا ہے‘ یعنی ع
اور کُھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
دوسری اور شاید اہم بات یہ ہے کہ اور ایسے دیگر امتیازات ہم نے اپنی سہولت کی خاطر خود ہی وضع اور اختیار کر رکھے ہیں جو اسم ہائے صفت کی ذیل میں آتے ہیں اور اصنافِ ادب سے جن کا براہ راست تعلق ہے‘ مثلاً پابند نظم‘ نظمِ معرّا‘ آزاد نظم‘ مختصر نظم‘ طویل مختصر نظم‘ جدید نظم وغیرہ ۔ اسی طرح افسانہ‘ مختصر افسانہ‘ ناول‘ ناولٹ‘رومانی ناول‘ تاریخی ناول‘ غزل‘ آزاد غزل‘ مکالماتی غزل‘ نثری غزل‘ طویل غزل‘ غزلِ مسلسل ‘ جدید غزل اور روایتی غزل وغیرہ ‘ سو‘ عرض ہے کہ نثری ادب کو صرف ادب کیوںنہ کہا جائے اور جُملہ شعری اصناف کو محض شاعری ہی کا نام کیوں نہ دیا جائے؟
علاوہ ازیں‘ یہ بھی کہ نثری نظم اگر اصل فارم کے لحاظ سے نثر ہی ہے تو اسے مصرعے‘ بلکہ سطریں توڑ توڑ کر لکھنے کی بجائے پیرا گراف کی شکل میں کیوں نہ لکھا جائے جبکہ اس کی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں‘ مثلاً افتخار جالب کے ہاں اس شکل میں بھی نظمیں دستیاب ہیں اور اس طرح سطریں توڑنے کا بھی کوئی باقاعدہ نظام یا اصول نہیں ہے۔ کم از کم اتنا ہی ہو کہ جہاں مثلاً کاما آئے یا فل سٹاپ‘ وہاں سے اگلی سطر شروع کی جائے۔لیکن ایسا بھی نہیں کیا جاتا اور بغیر کسی معقول وجہ کے سطر توڑ کر نئی سطر شروع کر دی جاتی ہے جبکہ نثری شاعری تو پہلے بھی ہوتی آئی ہے جہاں پیرا گراف کو سطروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے جملے بھی اکثر سننے میں آتے تھے‘ اور اب بھی آتے ہیں‘ کہ یہ تو نثر میں شاعری ہے!
اصل میں تو کسی مضمون یا کیفیت کو لطیف پیرائے میں بیان کرنا ہی شاعری ہے، وہ نظم ہو یا نثر‘ البتہ اگر آپ کچھ سہولتوں کو ختم کرنا چاہتے ہوں تو الگ بات ہے‘ لیکن اس کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے۔مثلاً میں نے ''گلا فتاب‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں پنکچوایشن اڑا دی تھی کہ یہ معانی کو محدود کرتی ہے جو کہ خود ابرار احمد ہی مزے لے لے کر یہ شعر بیان بھی کیا کرتے ہیں کہ ؎
پٹخ پاٹی پُرانی پنکچوایشن 
چٹخ چندن اسیدھ افکارنے کا
اسی طرح میں نے اکثر جگہوں پر افعال کو منہا بھی کیا تھا کہ بعض اوقات یہ بھی غیر ضروری ہو جاتے ہیں اور ان کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ نیز یہ کہ کلامِ موزوں اور غیر موزوں میں فرق تو ہونا ہی چاہیے اور اس میں کوئی ہرج بھی ہرگز نہیں ہے۔ میرا موقف صرف یہ ہے کہ اس طرح کے فروعی مسائل پر الجھنے اور اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے نظم کے Contentپر زور دینے کی ضرورت ہے اور اس طرح اس کا چلن بھی تیز رفتاری سے ہو گا۔نیز‘بعض لوگ اگر اسے نثری نظم ہی کہنے پر مصر ہیں تو اس سے بھی اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ مثلاً اگر مغرب میں گورے اور کالے کی تخصیص موجود ہے اورحبشیوں کو کالا آدمی کی بجائے صرف کالا یعنی بلیک کہہ کر اپنا مدعا بیان کیا جا سکتا ہے تو یہ بھی ایک سہولت ہی کا استعمال ہے ورنہ اس غریب کو کم از کم کالا آدمی تو کہنا چاہیے۔نیزیہ بحث ایسی ہی ہے جیسے ہمارے بعض علمائے کرام اسلام کے بنیادی اصولوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہر وقت فروعی معاملات میں الجھے رہتے ہیں‘ چنانچہ بہتر ہے کہ اس بحث کو ادبی فرقہ واریت نہ بننے دیا جائے کہ آخر نام میں کیا رکھا ہے۔
آج کا مقطع
مہلت ملی ہے یہ جو نئی عمر کی‘ ظفرؔ
رہنا ہے کچھ دن اور ابھی پیاروں کے درمیاں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved