یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام کا نہ دہشت گردی سے کبھی تعلق رہا نہ رہے گا ۔ جس دین اور مذہب کا بانی اور ہادی ''نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ‘‘ہو ، اس مذہب کا دہشت گردی اور بے گناہ لوگوں پر ظلم کرنے والوں سے دور کا تعلق بھی نہیں ہو سکتا۔ جس ذات والا صفات کے رحمت عالم ہونے کی سند قرآن پاک میں مالک کائنات نے یہ کہتے ہوئے دی ہوکہ ''(اے محمدﷺ )آپ کوتمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘ ان کے دین میں کسی کے ساتھ زیادتی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مکہ میں ام جمیل نامی ایک عورت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے پیغام سے انتہائی نفرت کرتی تھی۔ تاجدار ختم نبوتﷺ کا تقریباًروزانہ اس کے گھر کے سامنے سے گزر ہوتا تھا اور جونہی وہ آنحضرتﷺ کو دیکھتی انتہائی بد زبانی کرنے کے علاوہ اپنے گھر میں جمع کیا ہوا کوڑا کرکٹ آپ ؐپر پھینک دیتی۔ کسی دن حضورﷺ کا ادھر سے گزر نہ ہوتا تو وہ کوڑا سنبھال کر رکھ لیتی اور اگلے دن حضورﷺ پر پھینک دیتی۔ حضورﷺایک ہلکی سی مسکراہٹ روئے مبارک پر لئے خاموشی سے گزر جاتے۔ ایک دن ام جمیل کے گھر کے سامنے سے گزرے تو آپ ؐپرکوڑا نہ پھینکا گیا، اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا تو آپؐ کے پوچھنے پر پتا چلا کہ ام جمیل بیمار ہے، اس سے اٹھا نہیں جا رہا۔ یہ سنتے ہی حضور نبی کریم ﷺ فوراً اس کے گھر گئے اور اس کے بستر کے قریب کھڑے ہو کر اسے دعا دی ،جس سے وہ تندرست ہو گئی، آنکھیں کھولیں تو سامنے رحمت عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کھڑے
تھے۔ ام جمیل نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراً روتے ہوئے آپ سے معافی مانگی اور اسی وقت آپ کی نبوت اوراللہ کی وحدانیت کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے مسلمان ہوگئی۔
16 دسمبر کی صبح 134 بچے اپنی کتابیں ہاتھوں میں لئے حصول علم کے لئے آرمی پبلک سکول پشاور پہنچے اور پھر اس علم سے ہی نہیں بلکہ زندگی سے بھی محروم کر دیے گئے۔ نبی کریم حضرت محمدﷺ سے منسوب حدیث ہے کہ'' علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘‘ اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ چین کوئی مسلم ملک نہیں۔ جو لوگ دہشت گردی کرتے ہوئے بچوں کو حصول علم سے روک رہے ہیں، جو لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرتے ہوئے ایک مسلم ملک کے تعلیمی ادارے کو تباہ کر رہے ہیں اور علم حاصل کرنے والے بچوں کو قتل کر رہے ہیں ، ان کا نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے کیا واسطہ ؟ سوال یہ ہے کہ یہ کون ہیں جو رسول خدا ﷺ کے احکامات کی کھلی مخالفت کررہے ہیں؟ یہ لوگ مسلمان تو ہرگز نہیں ہوسکتے۔۔۔۔!
وہ تو خدا کا کرم ہوا کہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول کے معصوموں کے قتل عام نے پوری پاکستانی قوم کو جھنجھوڑکر رکھ دیا اور وہ متحد ہوگئی۔ لیکن دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے والی قوم کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دہشت گرد، ان کے ساتھی، ان کے ہمدرد اور ان کو تیار کرنے والے کہیں ان کے ارد گرد تو موجود نہیں ؟ قوم کو اپنی آنکھیں کھول کر پورے ہوش و حواس کے ساتھ جاگتے رہنا ہوگا۔ پاکستانی عوام کو اپنی فوج کی آنکھ اورکان بننا ہوگا کیونکہ کسی بھی ملک کی فوج اکیلے نہ تو جنگ جیت سکتی ہے اور نہ ہی اندرون ملک چھپے ہوئے دہشت گردوں کا تنہا قلع قمع کر سکتی ہے۔
یہ بات تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ تحریک طالبان اور بلوچ لبریشن آرمی کا ہیڈ کوارٹر افغانستان میں بھارتی پناہ میں ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اسلحہ، سرمایہ اور ہر قسم کی امداد وہاں موجود بھارتی حکومت کے اہلکاروں کے ذریعے ملتی ہے اور وہی انہیں ٹارگٹ بتاتے اور وہاں تک لے کر بھی جاتے ہیں۔ موجودہ افغان صدر اشرف غنی سے پہلے کرزئی حکومت کے دور میں ہماری سول حکومتیں اس کا کوئی سد باب نہ کر سکیں۔ وہ سیا سی اورسفارتی سطح پر دبائو بڑھانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
افغانستان کے صدارتی الیکشن کے بعد جناب اشرف غنی ایک طویل مرحلہ طے کرنے کے بعد افغانستان کے صدر کا حلف تو لے چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنی کابینہ مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ابھی تک وہی لوگ افغان حکومت کا حصہ ہیں جو حامد کرزئی اور بھارت کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں ، بلکہ جنرل بسم اﷲ جیسے لوگ ،جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی لابی کے انتہائی پسندیدہ فرد ہیں ‘ ابھی تک اشرف غنی کی حکومت کا اہم حصہ ہیں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں یہ احساس کریں کہ ان کے بہترین تعلقات ہی دونوں ملکوں میں خوش حالی اور امن کی ضمانت بن سکتے ہیں۔
گزشتہ35 برسوں میں افغانستان میں آنے والی ہر مصیبت اور پریشانی کا پاکستان کو اتنا ہی سامنا کرنا پڑا جتنا افغانستان کو۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاک افغان دوستی خطے کی سلامتی کی ضامن ہے۔ عرصہ دراز تک ان دو مسلم ممالک کے درمیان ایسی ایسی غلط فہمیاں پیدا کی جاتی رہیں ‘جن کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ حامد کرزئی کے بارے میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وہ افغانستان کے صدر نہیں بلکہ بھارتی سفیرکے طور پر کام کررہا تھا۔
16 دسمبر کے افسوسناک سانحہ کے فوراً بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان اور صدر اشرف غنی سے براہ راست ملاقات میں پاکستان میں ہونے والی اس ہولناک دہشت گردی کے بارے میںجو ثبوت دیے گئے اور انہیں جس کھلے دل سے صدر اشرف غنی نے تسلیم کیا اس سے پاک افغان تعلقات کی راہوں میں بکھرے ہوئے کانٹے اور رکاوٹیں بڑی حد تک دور ہو گئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جناب اشرف غنی کی حد تک افغان حکومت سمجھ چکی ہے کہ کون سی غیر ملکی طاقت ان کے ملک میں ترقیاتی کاموں کی آڑ میں پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔
افغانستان میں رہنے والی آج کی نئی نسل کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ جب ان کے آبا ئو اجداد پر روسی کمیونزم نے حملہ کیا تھا، جب ان کی خواتین اور بچوں کو روسی حملہ آوروں نے تشد کا نشانہ بنایا تھا ، جب ان کے گھر بارکو ٹینکوں سے منہدم کیا جا رہا تھا، جب ان کی مساجد کے میناروں کو روسی فوجیں گرا رہی تھیں ، جب انہیں دنیا میں کہیں بھی پناہ نہیں مل رہی تھی، اس وقت پاکستان نے اپنے بازو پھیلاکر انہیں اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔ امریکہ ، برطانیہ اور یورپ تو بہت بعد میں ان کی مدد کو پہنچے، سب سے پہلے پاکستان نے انہیں بھائی بن کر سنبھالا۔اس وقت بھارتی فوجیں روس کا ساتھ دے رہی تھیں۔ پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کو روسی کے جے بی، بھارتی را اور اس وقت کے صوبہ سر حد میں موجود ان کے ہمدردوں نے بم دھماکوں کا نشانہ بنائے رکھا۔ اس وقت پاکستان ہی تھا جس کے شہریوں نے افغانستان کی آج کی نئی نسل کے والدین کو،جو ان بم دھماکوں میں زخمی ہو تے تھے، اپنے خون کے عطیات دیے اور ان کی جانیں بچائیں۔ امید ہے، افغانستان کی آج کی نسل کبھی اپنی مائوں اور بہنوں کے سروں کو اپنی چادروں سے ڈھانپنے والوں کے خلاف بھارت کی آلہ کار بننا پسند نہیں کرے گی۔