تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     22-01-2015

ہنگامے کا منہ توڑ جواب

(بھارت کے) صدر پرنب مکھرجی نے کافی گہری بات کہہ ڈالی۔ انہوں نے اقتداری (سرکاری) پارٹی اور اپوزیشن پارٹیوں ‘سب کو آئینہ دکھا دیا۔ایک طرف اپوزیشن والوں کے ہنگامے پر انہوں نے تنقید کی ہے تو دوسری طرف انہوں نے سرکار کے آرڈیننس پیار کو بھی آڑے ہاتھوں لیاہے ۔صدر پرنب مکھرجی کا یہ اظہار بتلاتا ہے کہ پرنب دا کی اپنی خودی کی کافی ترقی ہو گئی ہے ۔اندرا جی اور سونیاجی کی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے مینیجروں کی حیثیت سے زیادہ کسی کانگریس لیڈر کی حیثیت کیا رہی ہے؟ لیکن پرنب دا نے یہ ثابت کیا ہے کہ صدر بننے کے بعدوہ سچ مچ صدر کی حیثیت کا کردار نبھا رہے ہیں ۔
جہاں تک ایوان کی کارروائی ٹھپ کرنے کا سوال ہے ‘پچھلے چھ سات مہینے سے کانگریس وہی کر رہی ہے ‘جو دس سال بی جے پی کرتی رہی ہے۔صدر کے خبردار کرنے کے باوجودکانگریس کا کردار کچھ مختلف ہوگا‘ اس میں مجھے شک ہے ۔آخر اس کا سبب کیا ہے ؟سبھی پارٹیوں کا یہ ناکارہ رویہ کیوں ہے ؟ اس کا جوسبب مجھے سمجھ میں آیا ‘وہ یہ کہ ہماری سبھی سیاسی پارٹیاں اقتدار کی لالچی بن گئی ہیں ۔وہ بنا اقتدار کے رہ ہی نہیں سکتیں۔ وہ جب اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہ لٹ گئے‘ برباد ہو گئے۔ ان کے پاس کچھ بچا نہیں‘ کیونکہ وہ اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے نوٹ بناتے ہیں ‘پھر لوگوں پر رعب جھاڑتے ہیں ۔اپنے آپ کو عوام کا نوکر کہہ کر ووٹ مانگتے ہیں اور اقتدار ملتے ہی مالک بن بیٹھتے ہیں ۔اقتدار کے نکل جانے کے بعد انہیں سمجھ نہیں پڑتا کہ وہ کیا کریں ۔وہ بد حواس ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہو یا نہ ہو‘ وہ ہنگامہ کرتے رہتے ہیں پارلیمنٹ کو اکھاڑا بنا لیتے ہیں۔ پارٹی کے ترجمان‘ ٹی وی چینلوں پر دنگل کرتے ہیں ۔ان سب قلا بازیوں سے قانون بنانے کا ضروری کام بھی ٹلتا جاتا ہے‘جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے ۔اقتداری (حکومتی) پارٹی کے پاس اس کا توڑ آرڈیننس ہے۔ اس کی مجبوری ہے لیکن اسے ایوان سے ڈیڑھ ماہ (45دن) کے اندر پاس کرانا تو ہوگا۔ تب کیا ہوگا؟لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا مشترکہ اجلاس بلانا ہوگا۔ صدر نے اس پر تنقید کی ہے لیکن وہ بتائیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہے؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں درجن بھر آرڈیننس ایک ہی دن میں پاس کر دینے چاہئیں تاکہ جو بھی حزب اختلاف پارٹی ہو 'آج یا کل ‘اسے ہنگاموں کا سبق مل جائے۔ چاہے وہ کانگریس کا ہو یایا بی جے پی کا‘منہ توڑ جواب ہوگا۔
اپنے اشتہارات پر فضول خرچی 
اطلاع (انفارمیشن) کے حق کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے شری سبھاش اگروال نے اب ایک اور دھماکہ کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اکیلا آدمی بڑا کمال کر رہا ہے۔ گاہے وہ پارلیمنٹ سے بھی زیادہ بھاری دکھائی دینے لگتا ہے ۔وہ ایسے سوال پوچھ لیتا ہے کہ سرکار کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں ۔
ابھی ابھی سبھاش جی نے سرکاروں سے پوچھا ہے کہ سرکاری اشتہاروں پر کتنا خرچ ہوتا ہے؟ تو پتہ چلا کہ 2004 ء میں بی جے پی سرکارنے ڈیڑھ ارب روپے خرچ کئے تھے۔ کانگرس نے اپنے 'شائننگ انڈیا‘ مشن پر بی جے پی کو بھی مات دے دی۔ اس نے اپنے دور اقتدار میں ساڑھے چار ارب روپے خرچ کر دیے ،'بھارت نرمان‘کے اشتہارات پر !ان اشتہارا ت میں کیا ہوتا ہے ؟لیڈروں کے بڑے بڑے فوٹونعرے اور ان کے کام۔ یہ اشتہارات اتنے گھسے پٹے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والے لوگ انہیں پڑھتے تک نہیں۔ ان کا اثر کتنا ہوتا ہے اس کا پتہ اسی سے چلتا ہے کہ ان پر عوام کا پیسہ پانی کی طرح بہانے والی سرکاریں بھی گڑک جاتی ہیں ۔کانگریس اور بی جے پی سرکاروں نے انتخابات کے دوران اپنی دکانیں جمانے کیلئے اشتہارات کی توپیں لگائیں لیکن ان کا مال بکنے کی بجائے ان دکانوں کا دیوالہ ہی پٹ گیا ۔یعنی اشتہارات ناکام ثابت ہوئے ۔زیادہ تر لوگوں نے انہیں دیکھا ہی نہیں ‘جنہوں نے دیکھا ‘ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔عوام کے خون پسینے کی کمائی کو ہر بار لیڈر لوگ بے رحمی سے بتی لگا دیتے ہیں ۔
یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی گیا تھا۔اس نے بھی سرکار سے کہاتھا کہ وہ ان اشتہارات کے لئے طے شدہ پالیسی جاری کرے۔لیڈروں کے فوٹو چھاپنے بند کرے ۔ضروری ہو تو صدر مملکت ‘وزیر اعظم ‘گورنراور وزیر اعلیٰ کے فوٹو چھاپے جا سکتے ہیں ۔ان لوگوں کے فوٹو کو روز روز دیکھ کر لوگ تنگ آ جاتے ہیں ۔دل بھرنے لگ جاتا ہے۔ بار بار چھپنے والی تصویروں کے سبب لیڈروں کا گراف گرنے لگتا ہے ۔ان کی عوام میں مقبولیت کم ہونے لگتی ہے لیکن چاپلوس افسروں اور لیڈروں کو کون سمجھائے ؟وہ اپنے آقاؤں کی خوشامد میں سرکاری خزانے پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں ۔اس فضول خرچی پر تنقیداخبار اور ٹی وی چینل کیوں کرنے لگے ؟لیڈروں کی خود سے محبت کے سبب ان کی تو جیبیں گرم ہو جاتی ہیں ۔
ہماری سیاسی پارٹیاں یہ مان کر چلتی ہیں کہ ان کا سارا اندرونی کام کاج خفیہ رہنا چاہئے۔ عوام کو پتہ نہ چلے؟ سرکاری فضول خرچی کو سبھاش اگروال جیسے لوگ پکڑوا دیتے ہیں لیکن سیاسی پارٹیوں کی آمدنی کے خفیہ ذرائع اور فضول خرچی پھر بھی گمنام رہتی ہے۔ اقتداری پارٹیاں بد عنوانی کے سب سے بڑے اڈے بن جاتے ہیں۔ انہیں اطلاع کے حق کے تحت لانا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔اس معاملے میں ساری پارٹیاں ایک جیسی ہیں ۔ 
سنسر شپ دو دھاری سیاست
فلم سنسر بورڈ کی صدر اور زیادہ تر ممبروں نے استعفا دے کر بڑی خبر بنا دی لیکن سوال یہ ہے کہ استعفے کیوں دیے گئے؟ اگر یہ استعفے اس لئے دیے گئے کہ 'میسینجر آف گاڈ‘ فلم کو اپیل سننے والے بورڈ نے پاس کردیا تو ان استعفوں کا کوئی جواز نہیں‘ کیونکہ عدالت یا بورڈ بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وہ فیصلوں پر نظر ثانی کرے۔ سنسر بورڈ کی صدر اور استعفا دینے والوں کو پہلے اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ وہ بورڈ کو بالاتر یا اپیلنگ اتھارٹی مانتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو انہیں پہلے ہی استعفے دے دینے یا یہ عہدے قبول ہی نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی سب کچھ ہیں‘ ہم ہی آخری سچ کے ٹھیکیدار ہیں۔ ایک بار جب انہوں نے بورڈ کو مان لیا تواس کے فیصلے کو لے کر استعفا دینے کی تُک میری سمجھ میں نہیں آتی ۔
ہاں ‘ 'میسینجر آف گاڈ‘فلم پر سنسر بورڈ کو گہرا اعتراض ہو سکتا ہے اور وہ اعتراض بالکل درست بھی ہو سکتا ہے لیکن اس پر استعفادینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔وہ فلم کیسی ہے ‘اس سوال کاجواب میں تبھی دے سکتا ہوں ‘جبکہ میں خود اسے دیکھ لوں ۔لیکن اس فلم کو بنانے والے اور اس کے ہیرو پر ریپ‘سیکس سکینڈل اور قتل کے جو مقدمے چل رہے ہیں ‘ان سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ فلم کیسی ہو گی اور کیوں بنائی گئی ہوگی ؟اس فلم کو پاس کرنے والے لوگوں نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے ‘اس لئے اس کے کچھ اعتراض والے سین کاٹے جا رہے ہیں اور فلم کے شروعات اور آخر میں منادی کاروائی جا رہی ہے تاکہ غلط فہمی نہ رہے کہ فلم 'سچا سودا‘ ہے۔ ہمارے ملک میں ڈھونگ اور اندھے اعتماد کی آندھی آئی ہوئی ہے ۔اس آندھی کو ہمارے سیاسی لیڈر روکنے کے اہل نہیں‘ کیونکہ وہ تو ووٹوں کے بھکاری ہیں ۔وہ لیڈر نہیں ہیں ‘عوام کے عارضی نوکر ہیں ۔اگر کسی فلم سے ‘کسی ناٹک سے کسی بابا سے یا کسی بابی سے انہیں نوکری ملنے کی امیدبندھ جائے تووہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس فلم کے بابا کے قدموں میں بی جے پی کے لیڈر جس طرح سجدہ کرتے ہیں ‘اس سے یہ شک مضبوط ہوتا ہے کہ بورڈ کا فیصلہ خالص سیاست ہے۔ اس لئے سنسر بورڈ کے استعفے بھی خالص سیاسی ہیں۔ یوں بھی بورڈ کے ممبروں کی مدت کار ختم ہو رہی تھی۔ سرکاری مداخلت کا کوئی ثبوت بھی وہ ابھی تک نہیں دے سکے؛ تاہم سرکار کو اب ایسا سنسر بورڈ بنانا چاہئے ‘جس کے رکن سچ مچ خود مختار ہوں ‘جنہیں ہدایات دینے سے پہلے وزرائے اعظم کے بھی چھکے چھوٹ جائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved