تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-01-2015

سرخیاں‘ متن اور اقتدار جاوید

پٹرول بحران نااہلی کا ثبوت ہے‘ ذمہ داران سزا کے لیے تیار رہیں...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پٹرول بحران نااہلی کا ثبوت ہے ذمہ داران سزا کے لیے تیار رہیں‘‘اگرچہ یہ ہماری ٹیم میری اپنی ہی منتخب کردہ ہے جس میں زیادہ تر اعزّہ و اقربا ہی شامل ہیں۔ اس لیے قطع رحمی سے کام لے کر انہیں کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا لہٰذا عوام صبر سے کام لیں اور آمدورفت کے لیے دیگر ذرائع استعمال کریں لیکن چونکہ سزا بھی کسی نہ کسی کو لازمی طور پر دینی ہے‘ اس لیے کسی اچھے سے قربانی کے بکرے کی بھی تلاش جاری ہے جبکہ فی الحال تو ایڈیشنل سیکرٹری متعلقہ کو اسی سلسلے میں معطل کیا گیا ہے اور جو متعلقہ سیکرٹری تھا وہ تو ایک وفاقی وزیر باتدبیر کا بھانجا تھا‘ لہٰذا اُسے معاف کر دیا گیا ہے کیونکہ اصل میں تو سارا کام ایڈیشنل سیکرٹری ہی کرتا ہے اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں نے اس بحران کی شدید مذمت کر دی ہے‘ اتنی شدید کہ دنیا رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''صورت حال پر جلداز جلد قابو پایا جائے‘‘کیونکہ میرا تو کہنا ہی فرض ہے کہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور کسی کے خلاف سختی بھی نہیں کی جا سکتی‘ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
پٹرول کا بحران حکومت کے خلاف گہری سازش ہے... اسحٰق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ''پٹرول بحران حکومت کے خلاف گہری سازش ہے‘‘۔ واقعی اس سے بڑی سازش اور کیا ہو سکتی ہے کہ میاں برادران کا جو کوئی بھی قریبی یا دُور کا رشتے دار تھا‘ اسے پکڑ کر وزیر بنوا دیا گیا جس سے میاں برادران خود بھی حیرت زدہ رہ گئے کہ ا ن کے خلاف اتنی گہری سازش ہو گئی اور انہیں اس کا پتہ ہی نہ چلا ‘ حتیٰ کہ اسی طرح اور بھی بہت سی سازشوں کا پتہ چلا ہے جو حکومت کے خلاف کی گئیں اور حکومت مزید حیرانی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ پٹرول خریدتی ہے نہ اس معاملے سے اس کا کوئی تعلق ہے''ماسوائے اس کے کہ مقروض پی ایس او نے 74ارب روپے ادا کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اسے ساڑھے تیرہ ارب روپے ادا کر دیئے گئے جو اُسے کفایت شعاری سے خرچ کرنا چاہئیں تھے کیونکہ اگر مختلف حکومتی ادارے پی ایس او کے نادہندہ ہیں تو حکومت آخر کہاں کہاں توجہ دیتی پھرے کہ اسے یہ بھاری مینڈیٹ حکومت کرنے کے لیے دیا گیا ہے‘ان فروعی باتوں میں وقت ضائع کرنے کے لیے نہیں‘اس لیے بہتر ہے کہ حکومت کو ان معاملات پر پریشان نہ کیا جائے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور ‘اب اقتدار جاوید کی کچھ تازہ نظمیں:
نوزائیدہ
کسی جگہ پر...خدا تخت افگن ہے... کیسے فرشتوں کے جھلمل پروں نے...اُٹھایا ہوا تخت ہے... میرے دل کی طرح نرم ہے تخت... اور میرے احباب کے دل کی صورت...بہت سخت ہے... جگمگاتی ہوئی دھوپ میں ...خوبصورت نظر آتے ہیں... یا خدا کے خدوخال... بارش کی رم جھم میں...زیادہ چمکتے ہیں...وقت کے عالم میں...اس کو پکارے کوئی... تو وہ بھیگ جاتا ہے سارے کا سارا... کس سے وہ ہنستا ہے... کس سے وہ ملتا ہے...کیا عرش کی مٹّی میں بھی... کوئی پھول کھلتا ہے...کیا وہ نرا پھول ہے...یا نِری آگ ہے... کس سندیسے کا طالب ہے... کس آسمان کے کنارے پہ بیٹھا ہوا... کیسی باتوں پہ ہنستا ہے... اور ہنستا ہوا کیسا لگتا ہے... کس رنگ کی روشنی سے بھرا دیپ...جگتا ہے... مرکز کے ابعاد کتنے ہیں... اربوں سے زائد ہے مخلوق اس کی...مگر نام سے یاد کتنے ہیں... کیا عرش پر کوئی بازار ہے... کوئی بستی ہے... کیا عرش پر تیز بارش برستی ہے... فیڈر سے گرتے ہوئے... دودھ کے چند قطرے... کوئی راز ہیں... ایک ماں چند گرتے ہوئے قطروں کی راز داں ہے... یہ نوزائیدہ ... پھول کی پتی ہے... برف کا گالا ہے... سات افلاک کا رہنے والا ہے... افلاک والے کو بس...وہی جاننے والا ہے!!
چوک
گفتگو کو درمیان سے ختم کر کے ... چیر کر دبیز خامشی... میں عین آدھی رات کو... نکل پڑا ہوں اپنے آپ سے...کسی طرف تو موڑنا تھا اپنے آپ کو...رات کے لباس میں...حسین لگ رہی تھی رس بھری...بہت تھا گرم سانس...رس بھری کا...اک ردائے خاص سے ڈھکا ہوا...روئے پاک... کہہ رہی تھی... لوٹنا ہے رات کا خمار ٹوٹنے سے قبل...صبح پھوٹنے سے قبل ...چوک سے ...جہاں پہ اتنے راستے نکل رہے ہوں...اُس جگہ پہ...خود کو روکنا ہے امتحان اصل... سن رہا تھا... اور جیسے ڈولتا تھا...ایسے لگ رہا تھا...کوئی مجھ سے بولتا تھا... خود کو خود سے جوڑ کر... میں سارے رشتے توڑ کر... نکل پڑا...میں اپنے آپ سے ابل پڑا... وہ کہہ رہی تھی...تیز ہوتی نیند میں... کوئی تو ایسی بات کر... کہ جس کو سن کے مسکرا سکوں... کوئی تو ایسی رات ہو مبہم... کہ خود کو میں بھی پاسکو... نہ ایسا ہو...کہ دونوں اپنے آپ سے نکل پڑیں...اک اشک کی تلاش میں...ہم... ایک دوسرے کی آنکھ سے اُبل پڑیں۔
کشف 
مصلّا اٹھایا ہے...سانسوں کو باہر نکالا ہے... گھر والی کو ایک پیغام بھیجا ہے...اور دوستوں کو بتایا ہے...یہ میرا یُگ ہے ... اسی یُگ میں خود میں اٹھائوں گا محشر...میں خود ان کو دیکھوں گا...خود ان کے کاندھے اتاروں گا... مکار فرقے کے ہاتھوں... اسی شہر میں... پھول والی گلی میں... وہ نظموں کی قرأت کے دوران... مارا گیا تھا... سبھی جانتے ہیں...کہ اس خاک کے بھیس میں... اک ستارہ اُتارا گیا تھا... وہیں ان کو لائوں گا... چُن چُن کے ماروں گا... گن گن کے احسان اتاروں گا... بالوں سے پکڑوں گا... حنظل کے میدان میں کھینچوں گا... بازار سے تھان... گہرے سیہ رنگ کا تھان... منگوانا ہے... ایک ہی قبر میں...سب کو دفنانا ہے... اس سیہ رنگ کے تھان میں ...ان کو کفنانا ہے...اس ریاضت کے دوران... جو کشف کا عرصہ گزرا... بھلانے کی آخر گھڑی آ گئی ہے... مگر کشف جو... مجھ پہ اب ہو گیا ہے... بتانے کی آخر گھڑی آ گئی ہے!
آج کا مطلع 
محبت ہو چکی تھی مبتلا ہونے سے پہلے ہی 
سو، آخر میں الگ تھے ہم جدا ہونے سے پہلے ہی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved