فرانس کے ملعون ا خبار چارلی ہیبڈو کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی میں آزادیٔ اظہار کے نعرے لگائے گئے۔ اسے جمہوریت‘ انصاف اور انسانیت کا نام دیا گیا۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کی دل آزاری کرنے کو‘ گستاخانہ خاکے چھاپنے کی ناپاک اور غلیظ جسارت کو آزادیٔ رائے سے منسوب کیا گیا اور ٹھیک اس ڈرامے کے ایک ہفتے بعد‘ فرانس میں ایک کالج کے 16 سالہ طالب علم کو گھر سے آ کر گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے فیس بک پیج پر اسی ملعون میگزین کی ایک تصویر پوسٹ کی اور اس کے ساتھ کچھ طنزیہ جملے لکھ دیئے۔ اس نے اپنی رائے کے اظہار کی آزادی کا حق استعمال کیا۔ مگر فرانس کے قانون کو یہ گوارا نہیں تھا‘ اس کی اس حرکت کو "Defending terrorism" کا نام دے کر اُسے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ صرف ایک مثال نہیں۔ دھڑادھڑ وہاں ایسے افراد کو جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے‘ جو سوشل میڈیا پر یا پبلک میں اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملعون میگزین کی ناپاک جسارت نے ہی اس دہشت گردی کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں اس میگزین کے 17 کام کرنے والے مار دیئے گئے۔
یہ تو خیر مغرب کا چہرہ ہے جہاں فریڈم آف ایکسپریشن کے ضابطے اپنے لیے کچھ اور ہیں اور مسلم دنیا کے لیے کچھ اور... مگر میرے قلم کو گوارا نہیں کہ اس ملعون میگزین کی غلیظ جسارت کو دہرائوں۔ میں خود کو خجالت‘ شرمندگی کے بوجھ تلے دبا ہوا بے بس محسوس کرتی ہوں۔ میری آنکھیں شرمندگی کے آنسوئوں سے تر ہیں کہ میں بھی ان ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا حصہ ہوں جو 50سے زائد ملکوں میں آباد ہیں‘ جو ایشیاء سے افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں‘ جہاں تیل کی دولت سے مالا مال‘ امیر ترین ملک بھی ہیں‘ جہاں کی ترقی‘ بلند و بالا پرشکوہ عمارتیں‘ جدید طرزِ زندگی‘ سہولتیں‘ آرام‘ آسائشیں ایسی ہیں کہ مغرب کی ماڈرن لائف سٹائل جس کے سامنے ماند پڑ جائے‘ مگر اس مسلم دنیا میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جس نے فرانس کی اس ناپاک جسارت پر ڈھنگ سے آواز بلند کی ہو۔
اسلامی بلاک‘ او آئی سی‘ عرب لیگ‘ محض بے جان لفظوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ہاں مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہیں۔ جذبات کا سمندر موجزن ہے مگر جذبات کا یہ سمندر آواز میں نہیں ڈھلتا۔ احتجاج میں نہیں ڈھلتا اگر کہیں احتجاج ہوا بھی تو اس انداز کا کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز والا محاورہ بھی شرمندہ شرمندہ نظر آئے۔ الٹا یہ کہ ملعون میگزین کے حق میں نکالی جانے والی یکجہتی کی ریلی میں‘ ہمیں ترکی کے وزیراعظم بھی دکھائی دیئے ہیں۔ اردن کے شاہ بھی اپنی بیگم ملک رانیہ کے ہمراہ اس احتجاج میں شامل ہو کر‘ مسلمانوں کا سر شرمندگی سے جھکا دیتے ہیں۔ افسوس‘ صد افسوس! یہ ہے ہماری اخلاقی پستی کا عالم کہ مسلمان ملکوں کے سربراہان اس ریلی میں شریک ہوتے ہیں جو ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے کو آزادیٔ اظہار کا نام دیتے ہیں۔ اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے... امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے!! کیسا اسلامی بلاک
اور کیسی مسلم دنیا۔ اگر مغرب کے تلوے ہی چاٹنے ہیں تو پھر ان عظیم الشان اصطلاحات سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ ترکی نے فرانس کا ساتھ دینا ہی تھا کہ ترکی کی ترقی میں‘ اس وقت فرانس‘ دوسرا بڑا انویسٹر ہے۔ فرانس ترکی کی ایئر سپیس استعمال کرتا ہے۔ وہاں کی سیمنٹ‘ فارما سوٹیکل‘ وہیکل بنانے والی انڈسٹری میں فرانس کی بھاری انویسٹمنٹ ہے۔ اردن کے شاہ کو بھی فرانس کی مدد کو آنا ہی تھا۔ فرانس اردن میں تیسرا بڑا انویسٹر ہے۔ آٹوموٹو (Automotive) انڈسٹری سے لے کر توانائی کی صنعت تک فرانس اردن میں بھاری انویسٹمنٹ کررہا ہے۔ سعودی عرب سمیت دنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں فرانس کے فوڈ پروڈکٹس‘ پرفیوم‘ میک اپ کا سامان فروخت ہو رہا ہے۔ 2012ء میں سعودی عرب نے 142 ہیلی کاپٹر فرانس سے خریدے۔ اب بھی اسی نوعیت کے کئی تجارتی معاہدے فرانس کے ساتھ موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام تجارتی معاہدے‘ ناموسِ رسالت سے بڑھ کر ہیں۔ اگر آج بھی مسلم ممالک فرانس سمیت ان تمام یورپی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا سرکاری اعلان کریں تو ان ملکوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ کیونکہ کوئی ملک جتنا بھی امیر اور خوشحال کیوں نہ ہو‘ اسے اپنی مصنوعات کی کھپت کے لیے بیرونی منڈیوں کی تلاش رہتی ہے۔ اسیی ہی ناپاک جسارت 30 دسمبر 2005ء میں بھی کی گئی تھی جب ڈنمارک کے ملعون اخبار Jaylland Poster نے گستاخانہ خاکے چھاپے۔ چار ماہ کے زبانی احتجاج کا کچھ اثر نہ ہوا بلکہ الٹا فرانس کے اخبار نے وہی خاکے دوبارہ چھاپ دیئے۔ پھر فروری 2006ء میں مڈل ایسٹ کے ملکوں نے ڈنمارک کی ڈیری مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ تمام چھوٹے بڑے سٹورز سے ڈنمارک کی ڈیری مصنوعات اٹھا لی گئیں۔ اس بائیکاٹ سے ڈنمارک کی مشہور ڈیری پروڈکٹ کمپنی کو روزانہ دو ملین ڈالر کا نقصان ہونے لگا کہ اس عملی احتجاج میں سعودی عرب سمیت شام‘ ترکی‘ لیبیا‘ مراکش‘ بحرین اور ایران شامل تھے۔ کم و بیش 5 ماہ‘ جون 2006ء تک ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ رہا یہاں تک کہ احتجاج میں شریک تمام ملکوں کے اخبارات میں یورپ کی دوسری بڑی فوڈ کمپنی اور ڈنمارک کی سب سے بڑی فوڈ کمپنی کی طرف سے اخبار کے پورے صفحے پر ایک تحریری معذرت شائع کی گئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ ''ہماری فوڈ کمپنی اسلام اور حضرت محمدﷺ کو انتہائی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے‘ ڈنمارک کے اخبارات میں چھپنے والے خاکوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘‘۔
مسلمانوں کی کمزوری کہ یہی ناپاک جسارت 2008ء میں بھی دہرائی گئی۔ پوری دنیا کے مسلمان پیچ و تاب کھاتے رہے مگر مسلم دنیا کے سربراہان صرف بیانات تک محدود رہے۔ او آئی سی‘ اسلامی ملکوں کی سب سے بڑی تنظیم کا کردار شرمناک رہا۔ اب بھی اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل عیاد مدنی یورپ کی اس دہشت گردی پر ممیاتے رہے۔ 2008ء میں بھی او آئی سی کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ مسلم ممالک یو این او میں ایک قرارداد پاس کروائیں گے جس کے مطابق مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا جرم قرار دیا جائے مگر ''یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ کے مصداق یہ محض کھوکھلے لفظ ہی ثابت ہوئے کہ یو این او بھی انہی مغربی طاقتوں کا گھر ہے جن کے تلوے مسلم دنیا چاٹ رہی ہے۔
نبی پاکﷺ کی ذات بابرکات کی بے پایاں عظمت و رفعت کے سامنے یہ ناپاک جسارتیں پرکاہ سے بھی کم کی حیثیت نہیں رکھتیں‘ آپؐ کا ذکر تاقیامت بلند ہوتا رہے گا۔ خود رب کائنات نے کہہ دیا کہ ہم نے آپؐ کا ذکر بلند کردیا۔ یہ سب تو ہماری آزمائشیں ہیں‘ ہم بے عمل مسلمانوں کا امتحان ہے جو علم اور عمل کے حقیقی سرچشموں سے دور کھوکھلے نعروں کو بلند کر کے ہر مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ جن کے اندر سے علم اور عمل کی حقیقی جستجو ختم ہو گئی ہے۔ جو خرافات اور روایات کے اسیر ہو گئے ہیں۔ مجھے شرمندگی ہے کہ میں بھی اسی مسلم دنیا کا حصہ ہوں۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ نعتیہ شعر بار بار یاد آ رہا ہے ؎
یہ کہیں خامیٔ ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں