اسلامی نظریاتی کونسل نے طلاق کے مسئلے پر‘ قانون ساز اداروں کو سفارش کی ہے کہ ایک مرتبہ تین طلاقیں دینے کا عمل‘ خلاف سنت ہے اور اسے قابل تعزیرقرار دیا جائے‘ جبکہ سزا کا تعین جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ جو اسٹام فروش‘ تین طلاقیں اکٹھی تحریر کرے گا‘ اس کو بھی سزا دی جائے۔ طلاق دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت میں‘ ایک ہی طلاق دی جائے۔ تین طلاقیں اکٹھی دینا خلاف سنت اور گناہ ہے۔ 1961ء میں جوعائلی قوانین نافذ کئے گئے تھے‘ ان میں یقینا کوئی کمی ہو گی‘ جس کی وجہ سے اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ سفارش کرنا پڑی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ ان قوانین کے مطابق بھی یہ پابندی تھی کہ تحریری طور پر‘ ایک طلاق دے کر‘ اس کی نقل یونین کونسل میں جمع کرا دی جائے اور اگر طلاق دینے والا شخص فیصلے پر نظرثانی نہ کرنا چاہتا ہو‘ تو اسے دوسری مرتبہ یونین کونسل کو اطلاع دینا پڑتی اور تیسری مرتبہ بھی اس فیصلے کو برقرار رکھنا مقصود ہو‘ تو تیسرا اور حتمی خط یونین کونسل کو لکھ کر‘ طلاق کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اثاثوں کی تقسیم اور بچوں کی تحویل کے معاملات پر بھی قوانین موجود ہیں‘ لیکن عملی زندگی میں ان پر عمل نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ قوانین ایوب خان کے زمانے میں نافذ ہوئے تھے اور ان کے خلاف شدید عوامی جذبات پائے جاتے تھے‘ اس لئے ملا حضرات نے‘ ان کے خلاف جی بھر کے پراپیگنڈا کیا‘ جس کے زیراثر عام شہریوں نے‘ ان قوانین کو نظرانداز کر کے ملا حضرات کی ہدایات کے تحت اپنے معاملات حل کرنا شروع کر دیئے۔ جہاں تک اسلامی قوانین کا تعلق ہے‘ مرد اور عورت اگر خود بھی ایجاب و قبول کر لیں‘ تو وہ میاں بیوی بن سکتے ہیں‘ لیکن ریاستی قوانین کے تحت باضابطہ تحریری نکاح ناموں کا رواج پڑ چکا ہے۔ یہ قانون پہلے سے موجود ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں نہ دی جائیں اور یہ عمل تین ماہ میں مکمل ہو۔ یونین کونسل ان تین ماہ کے دوران‘ ثالثی کے مواقع فراہم کرے اور اس کے باوجود اگر دونوں فریق رضامند نہیں ہوتے تو طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ ان قوانین میں پہلی بیوی سے پوچھے بغیر‘ دوسری شادی سے بھی منع کیا گیا ہے‘ لیکن ملا حضرات کی اکثریت اس پابندی کو بھی تسلیم نہیں کرتی۔ کیونکہ پاکستانی معاشرہ میل شاونزم کا شکار ہے‘ اس لئے ہوتا وہی ہے‘ جو مرد چاہتا ہے۔
ملاّئوں و مستورات میں‘ اسی لئے ان بن رہتی ہے کہ وہ بعض اوقات مرد کی من مانیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ قانون کے مطابق عورت کو خلع کا جو حق دیا بھی گیا ہے‘ مرد اس کی بھی خلاف ورزی کر جاتے ہیں۔ عام طور سے عورت کو سماجی دبائو یا قانون کی مدد سے خلع کا حق لینا پڑتا ہے۔ بہت کم مرد ہیں‘ جو صرف عورت کے مطالبے پر خلع کے لئے رضامند ہو جائیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات سے بھی‘ عورتوں کو مرد کی زیادتیوں سے نجات ملنے کی کوئی ضمانت نہیں۔ مثلاً عام حالات میں عائلی قوانین پراسی لئے عملدرآمد نہیں کیا جاتا کہ بدنیت مرد ‘ تین ماہ کے عرصے میں بیوی کا جینا حرام کر سکتا ہے۔ تشدد تو ایک عام ہتھیار ہے۔ خودبیویاں فوری طلاق کو ترجیح دیتی ہیں۔ کونسل نے ایک ہی وقت میں‘ تین طلاقوں پر تو سزا مقرر کر دی ہے‘ لیکن تین طلاقوں کے درمیان جو وقفہ آنا چاہیے‘ وہ کتنا ہو؟ اگر عائلی قوانین کے مطابق ایک ایک ماہ کا وقفہ رکھا جائے‘ تو میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس کی پابندی بہت کم کی جاتی ہے۔ بہت ہی شریف اور مہذب میاں بیوی ہوں گے‘ جو پہلی طلاق کے بعد‘ صلح صفائی کے ساتھ ایک گھر میں رہتے رہیں۔ ہمارے معاشرتی رسوم و رواج کے مطابق اگر کوئی خاتون ایک طلاق کے بعد‘ اپنے والدین کے پاس جا کر رہنے لگتی ہے تو مرد اسے وہاں بھی تنگ کر سکتا ہے۔ اگر وہ تنگ نہیں بھی کرتا‘ تو محلے برادری میں‘ جس عورت کے بارے میں یہ خبر پھیل جائے کہ وہ ایک طلاق لے کر آئی ہے اور باقی دو طلاقوں کے انتظار میں گھر آ بیٹھی ہے‘ تو ان والدین کے لئے بھی مشکل پڑ جائے گی اور دو طلاقوں کے انتظار میں بیٹھی ہوئی عورت کے لئے بھی۔ غیرمتنازعہ عائلی قوانین مرتب کرنا ممکن ہی نہیں۔جب تک اللہ تعالیٰ تمام مسالک کے علمائے کرام کو یہ توفیق نہیں دیتا کہ وہ تمام مسلمانوں کے لئے‘ اسلام کی روشنی میں یکساں عائلی قوانین پر اتفاق رائے کر لیں‘ اس وقت تک طلاق اور خُلع کے مسائل کا ایک حل سامنے نہیں آ سکتا۔ ہر فقہ کے مولوی حضرات اپنی اپنی فہم اور مسلک کے مطابق رائے دیں گے اور اگر مولوی صاحب کی نیت میں فتور آ جائے‘ تو وہ کئی طرح کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ مثلاً یہ شکایات عام سننے میں آتی ہیں کہ اگر کوئی شوہر غصے کی حالت میں بیوی کو طلاق دے بیٹھتا ہے اور بعد میں دونوں میاں بیوی صلح کر کے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں‘ تو بدنیت مولوی اس میں طرح طرح کے مسائل پیدا کرنے لگتا ہے۔ یہ شکایت سننے میں آئی ہے کہ میاں بیوی رجوع کرنے پر تیار ہوجائیں اور طلاق دینے کے طریقے میں کوئی قابل اصلاح غلطی ہوجائے ‘ جس کے تحت رجوع کی گنجائش پیدا ہوتی ہو‘ تو نیت کی خرابی کے تحت کوئی بھی مولوی یہ کہہ سکتا ہے کہ طلاق تو اب ہو چکی اور پھر رجوع کرنے کے لئے وہ حلالہ کا حل پیش کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بیوی کو اپنے اصل خاوند کی طرف رجوع کرنے سے پہلے کسی اور شخص کے ساتھ نکاح کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد اگر نیا خاوند طلاق نہیں دیتا‘ تو بیوی کے لئے واپس اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ اس طرح کے کئی واقعات سننے میں آتے ہیں۔ بعض اوقات تو مولوی صاحب نے‘ دوسرے نکاح کے لئے بھی اپنی ہی خدمات پیش کر دیںاور جب انہیں طلاق کے لئے کہا گیا‘ تو وہ صاف مکر گئے۔ اسلام کو اسی لئے دین فطرت کہا جاتا ہے کہ اس میں انسان کی نیت اور اسلام کی روح کے ادراک پر‘ بہت بھروسہ کیا گیا ہے۔ یہ باور کیا جاتا ہے کہ جو حقیقی مسلمان ہے‘ وہ شرع کی روح کے منافی کوئی کام کر ہی نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ بدنیت لوگ تو عہد نبویؐ میں بھی باز نہیں آتے تھے۔ اس لئے قوانین کا بننا لازم ہے‘ لیکن متعدد فقہوں کی روشنی میں‘ سب کے لئے یکساں قوانین تیار کرنا انتہائی مشکل کام ہے اور ہر فقہ کے لئے علیحدہ قانون بنایا نہیں جا سکتا۔ اس لئے عموماً شریعت کی روشنی میں جتنے قوانین عمومیت کے ساتھ بنائے جا سکیں‘ بنا لینا چاہئیں۔پابند شریعت لوگوں کو تو ان پر عمل کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘ لیکن جہاں کوئی ایک فرد آمادۂ فساد ہو‘ اپنے معاملات طے کرنے کے لئے عدالتوں کی طرف رجوع ہو سکتاہے۔ جیسا کہ ان دنوں بھی ہو رہا ہے۔ آج بھی بیک وقت متعدد قوانین ہیں جو 1961ء سے 1991ء کے نفاذ شریعت ایکٹ کی شکل میںکئی عنوانات کے تحت نافذ العمل ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بیشتر مولوی حضرات‘ مرد کی بالادستی کے حامی ہیں۔ کوئی ایسا قانون جس میں عورتوں کو مساوی حقوق دیئے گئے ہوں‘ اس کی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے۔ ایوب خان نے جب خواتین کو حقوق دینے کے لئے عائلی قوانین بنائے‘ تو ان کے خلاف زبردست مخالفانہ مہم شروع کر دی گئی۔ انہیں مجبور ہو کر اپنے اصل قوانین میں ترمیم کر کے‘ مولوی حضرات کے لئے قابل قبول بنانے کی کوشش کی گئی۔ مگر بیشتر مولوی حضرات آج بھی ان قوانین کے مخالف ہیں اور چونکہ ان کے فیصلے عموماً مردوں کے حق میں ہوتے ہیں‘ اس لئے وہ بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں کہ اپنے معاملے میں رائج الوقت قوانین کی طرف رجوع کرنے کی بجائے‘ اپنے مسلک کے مولوی صاحبان کے پاس جا کر‘ ان سے فتویٰ حاصل کریں۔ ایسے دقیانوسی مولوی بھی کم نہیں‘ جو عورت کو ووٹ کا حق دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ آج بھی ہمارے قبائلی علاقوں اور مخصوص حالات میں بندوبستی علاقوں میں بھی‘ مولوی حضرات ‘عورت کو ووٹ کا حق دینے پر تیار نہیں ہوتے۔خصوصاً جب وہ خود امیدوار ہوں‘ ایسی صورت میں سارے امیدوار ''اتفاق رائے‘‘ سے طے کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی حامی عورتوں کو پولنگ سٹیشن پر نہیں جانے دیں گے۔ اس طرح کے ظالمانہ رسوم و رواج کو جو قطعاً غیراسلامی ہیں‘ آج بھی ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کے لئے تعلیم کا عام ہونا اور حقیقی دین اسلام کو اس کی روح کے مطابق نافذ العمل کرنا ضروری ہے۔ دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے کہ ہم ترقی یافتہ دور میں رہ رہے ہیں لیکن حقیقت میں قرون وسطیٰ کے مسلمان بھی‘ سماجی انصاف کے شرعی اصولوں کی پابندی میں ہم سے بہتر تھے۔ طلاق کے مسئلے پر اسلامی نظریاتی کونسل کی نئی سفارشات سے بھی حالات میں خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔