تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     23-01-2015

اے محترم اور محبوب وزیراعظم!

ایک سال وہ آستانے پر مقیم رہا۔ کسی نے نہ پوچھا کہ میاں کہاں سے آئے ہو؟ کس سے ملنا ہے؟ کھانا مل جاتا۔ کھا لیتا۔ پانی ساتھ والے کنوئیں میں وافر تھا۔ 
ایک سال کے بعد جوگی نے اندر بلایا۔ کئی گھنٹے بیٹھا رہا۔ پھر نظر اُس پر ڈالی۔ چند ثانیوں کے لیے دیکھا۔ یوں لگتا تھا یہ نظریں ایک لمحہ بھی اور رُکی رہیں تو وہ پگھل جائے گا۔ جوگی کے لب ہلے۔ ''صبر‘ صبر‘ سارا صبر کا امتحان ہے‘‘۔ پھر جوگی نے آنکھیں بند کر لیں اور واپس جوگ میں چلا گیا۔ 
ایک برس اور گزر گیا۔ 
خاکروب ٹوکری کندھے پر اٹھائے اس کے پاس سے گزرا۔ نہ جانے کیا ہوا۔ ٹوکری گری اور غلاظت کا ایک حصہ اُس پر آن پڑا۔ وہ طیش میں آ گیا۔ اٹھا اور ایک چانٹا اسے رسید کیا۔ خاکروب نے گال سہلایا۔ نظریں جھکائے ہوئے ٹوکری اٹھائی‘ غلاظت سمیٹ کر واپس اس میں ڈالی اور جدھر جا رہا تھا‘ چلا گیا۔ جوگی نمودار ہوا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر نظرجمائی... ''صبر کا امتحان ہے‘‘۔ کہا اور غائب ہو گیا۔ 
دوسرے سال کے اختتام پر غلاظت کا پورا ٹوکرا اس پر گرا۔ اُس نے بُرا سا منہ بنایا۔ خاکروب کو گھورا اور خاموش رہا۔ صبر کا کڑوا پیالہ ایک سال مزید پینا پڑا۔ تیسرا سال ختم ہوا تو خاکروب نے اُس کے پاس سے گزرتے ہوئے باقاعدہ ٹھوکر کھائی۔ گرا‘ ٹوکرے میں سے مال متاع نکلا اور سارا ہی اُس پر آن گرا۔ اِس بار اُس نے خاکروب کا گال تھپتھپایا اور شفقت بھرے لہجے میں پوچھا... ''تمہیں چوٹ تو نہیں آئی‘‘۔ پھر غلاظت کو واپس ڈالنے میں خاکروب کا ہاتھ بٹایا۔ جوگی نمودار ہوا اور اسے اندر لے گیا۔ ''بیٹا! اب میں تمہیں جوگ سکھائوں گا۔ سنجوگ تمہارے مقدر میں ہے‘‘۔ 
عرصہ بیتا یہ حکایت پڑھی تھی۔ جانے یہی تھی جو لکھی ہے یا امتداد زمانہ نے یادداشت کے کاغذ پر لکیریں ڈال کر اس کی شکل بدل ڈالی۔ مگر سالہا سال صبر کے کڑے امتحان سے گزرنے والا چیلا جسے جوگی نے بالآخر قبول کر لیا‘ تربیت میں ہم پاکستانیوں کا کہاں مقابلہ کر سکتا ہے! 
ہماری ٹریننگ کا آغاز ایوب خان کے عہد میں ہوا۔ چینی کی قلت پیدا ہوئی۔ قطاروں میں کھڑا ہونا ہم نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ہڑبونگ مچ گئی۔ وہ طوفان اٹھا کہ ایوب خان جیسے قوی ہیکل شخص کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ہماری کارکردگی بہت بری تھی۔ ہم صبر سے ناآشنا نکلے۔ مزید تربیت کی ضرورت تھی۔ 
یحییٰ خان کا عہدِ ہمایونی آیا تو ہم کافی حد تک صبر آشنا ہو چکے تھے۔ ہم نے خاموش رہنا سیکھ لیا تھا۔ ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں نے انتخابات جیت لیے تھے۔ قانونی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ ہر اعتبار سے حکومت بنانا ان کا حق تھا۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنایا جاتا اور قبول کیا جاتا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ان کا حق غصب کیا گیا۔ اِدھر ہم اُدھر تم کے نعرے لگے۔ اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی باتیں ہوئیں۔ بنگالیوں نے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے احتجاج کیا تو کوتاہ نظر‘ بداندیش فوجی آمر اور اس کے حواریوں نے تاریخ کا بدترین کریک ڈائون کیا۔ نام نہاد مذہبی قوتیں‘ جو دراصل تاریکی پسند قوتیں تھیں‘ ساتھ ہو لیں۔ نان سٹیٹ ایکٹر ''بغاوت‘‘ کو کچلنے میں پیش پیش رہے۔ مگر ہمارے‘ یعنی موجودہ پاکستان کے باسیوں کے‘ صبر کا یہ عالم تھا کہ ہم نے اُف کی نہ چُوں! ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ ہم دیکھا کیے اور سنا کیے۔ کوئی احتجاج ہوا نہ ہنگامہ۔ ہم میں سے کسی نے نہ کہا کہ الیکشن جیتنے والوں کو حکومت بنانے دو اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں! اب ہم ایک صابر اور راضی برضا قوم کہلانے کے لیے کامیابی کا آدھا زینہ طے کر چکے تھے۔ 
بھٹو کا زمانہ آ گیا۔ تربیت کا عمل جاری رہا۔ ڈالڈا گھی کا ڈبہ جو شرفا کپڑے میں لپیٹ کر گھر لاتے تھے کہ کوئی دیکھ لے گا تو بے عزتی ہوگی‘ اب کسی کو مل جاتا تو فخر سے سب کو دکھا کر لاتا تھا۔ قلت اتنی تھی کہ ایک ایک ڈبہ حاصل کرنے کے لیے ہفتوں بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔ قطار بندی کی عادت پڑتی جا رہی تھی۔ قوم نے بہت سا ڈسپلن سیکھ لیا تھا۔ مگر ابھی تو منزل کوسوں دور تھی! 
ضیاء الحق کا عہد آیا تو تربیت کا ڈرامہ عروج پر پہنچ گیا۔ اب کے صبر کا امتحان اس طرح لیا گیا کہ ہم پر غیر ملکی مسلط کیے گئے۔ افغان مہاجرین آئے اور کسی روک ٹوک‘ کسی پابندی‘ کسی تاخیر‘ کسی ضابطے‘ کسی قانون‘ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر پورے ملک میں پھیل گئے۔ وہ 
وی آئی پی بن گئے اور ہم‘ اِس ملک کے اصل باشندے‘ ریڈ انڈین قرار دیئے گئے۔ خیبر پختون خوا میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم‘ ہر قسم کی محنت مزدوری کے لیے انہیں ترجیح دی جانے لگی۔ ٹرانسپورٹ کے بزنس پر وہ چھا گئے۔ مارکیٹوں کی مارکیٹیں ان کی ہو گئیں۔ یہ صبر کا کڑا امتحان تھا۔ ہم صبر کی بھٹی سے گزارے جا رہے تھے کہ کندن بن کر نکلیں۔ پوری دنیا سے بھگوڑے اور ناشائستہ جنگ جُو عناصر اکٹھے کیے گئے اور ان کی بلائیں لی گئیں۔ قوم کو تربیت دینے والے ان پر صدقے واری ہونے لگے۔ دارالحکومت کے جڑواں شہروں پر اوجڑی کیمپ سے بموں اور میزائلوں کی بارش کی گئی۔ قیامت تھی جس کا سامنا شہریوں نے کیا۔ چھوٹے چھوٹے بچے سیوریج بھرے نالوں میں بھٹکتے رہے۔ وہ عالم تھا کہ جان بچانے کے لیے بھاگتے بچے پشاور اور لاہور جانے والی بسوں میں بیٹھ گئے اور ہفتوں بعد والدین کو ملے۔ لیکن آفرین ہے مردِ مومن مردِ حق پر کہ ٹیلی ویژن پر پوری قوم کے سامنے اس حادثے کو معمولی واقعہ قرار دیا۔ صبر کی پیکر قوم کو آج تک معلوم نہیں ہوا کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ حساب کتاب امریکیوں سے چھپانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔ واللہ اعلم‘ بہرحال صابر قوم نے یہ منظر ضرور دیکھا کہ کچھ سرکاری ملازموں کے بچے کھرب پتی بن گئے۔ اپنے آپ کو خاندانی صنعت کار کہلانے والے یہ لوگ بلند ترین ایوانوں میں پہنچ گئے۔ 
ان تمام سلگتی بھٹیوں سے نکل کر یہ قوم آج کندن بن چکی ہے۔ آج اس کے نظم و ضبط پر پوری دنیا عش عش کر رہی ہے۔ اقوامِ عالم نے دیکھا کہ اس قوم کے بیٹے‘ جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں‘ بیٹیاں‘ سی این جی کے لیے پہروں قطاروں میں کھڑی رہیں۔ جس قوم کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ کبھی قطار بنانا نہیں سیکھے گی‘ تین تین دن‘ تین تین راتیں مسلسل قطاروں میں کھڑی رہی اور اُف تک نہ کی۔ صبر کی انتہا یہ تھی کہ حکمرانوں کی فراٹے بھرتی سواریاں محفوظ رہیں۔ ان پر کسی نے کنکر تک نہ پھینکا۔ کوئی احتجاج نہ جلوس! کوئی ردعمل نہ طیش! صبر و قناعت کی انتہا یہ تھی کہ دو دو تین تین دن قطار میں کھڑے ہونے کے بعد چند کلو سی این جی ملتی تھی تو خوشی سے شادیانے بجائے جاتے۔ 
اب یہ قوم جوگ کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ پٹرول کی حالیہ قلت نے‘ جو محض ڈرامہ تھا‘ ثابت کردیا ہے کہ قوم آنے والی آزمائشوں میں حکمرانوں کو مایوس نہیں کرے گی۔ قصور وزیر خزانہ کا نکلا نہ وزیر پٹرولیم کا اور نہ ہی وزیراعظم کا‘ یہ تو ایک تربیتی کورس تھا جو عوام کے اعصاب مضبوط تر کرنے کے لیے لازمی تھا۔ عوام نے یہ کورس کامیابی سے پاس کر لیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ پٹرول کے آنے والے ''بحرانوں‘‘ میں بھی ثابت قدم رہے گی! 
سو اے اہلِ سیاست! اے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے عمائدین! اے وزرا کی فوج ظفر موج! اے مشیروں کے گروہِ خاص! اور اے محترم اور محبوب وزیراعظم! ہم تیار ہیں۔ آپ جب چاہیں گے ہم خاموشی اور سعادت مندی سے قطاروں میں کھڑے ہو جائیں گے! سی این جی کی قلت ہو یا پٹرول کی‘ یا آنے والے دنوں میں آٹے کی یا چینی کی‘ یا دوائوں کی یا پانی کی‘ یا سانس لینے کے لیے آکسیجن کی یا کفن بنانے کے لیے کپڑے کی‘ یا پھر دفن ہونے کے لیے قبروں کی‘ آپ ہمیں صابر اور شاکر پائیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved