ادب کا شعبہ ایسا ہے کہ اس میں سیاست کی طرح ہر قسم کا مال کھپ جاتا ہے۔ دونوں کا ایک مقصد شہرت حاصل کرنا بھی ہوتا ہے جو بجائے خود کوئی عیب کی بات نہیں؛ تاہم بالخصوص شعر و ادب کی تخلیق میں معیار کا ذرا کم ہی خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کتابیں اور رسالے بے روک ٹوک بلکہ دھڑا دھڑ شائع کیے جا رہے ہیں جس سے لکھنے والوں کا کام بھی چلتا رہتا ہے اور پڑھنے والوں کا بھی‘ تاہم ادب کا ایک اپنا تسلیم شدہ معیار بھی ہے جس کے بغیر بات نہیں بنتی۔ میرے پاس جو کتابیں اور رسائل آتے ہیں‘ ان میں جو ناقابل ذکر ہوتے ہیں‘ میں ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرتا ہوں اور اگرچہ ان سب کو معہ ان کے تخلیق کاروں کے‘ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی کبھار ان کو اس کا احساس بھی دلا دیا جائے تو شاید اس کا کوئی مثبت نتیجہ یا بہتری کی کوئی صورت نکل ہی آئے۔
چنانچہ ''اذیت‘‘ کے نام سے افتخار فلک کاظمی کا مجموعۂ غزل جو مجھے موصول ہوا ہے‘ اسے دیکھ کر مجھے کچھ زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ اگرچہ دیباچے اور فلیپ میں قمر رضا شہزاد اور حمیدہ شاہین جیسے معروف شعراء نے اس شاعر کی تحسین کر رکھی ہے اور بے شک یہ تقریباً بے عیب شاعری ہے لیکن یہ میرے حساب کتاب میں نہیں آئی۔ آج کے نوجوان شاعر کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مثلاً نئی غزل کہاں تک پہنچ چکی ہے اور وہ خود کہاں کھڑا ہے کیونکہ اگر آپ میدان میں ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کو دوسروں سے اول تو آگے نکلنا ہے یا کم از کم ان کے برابر تو رہنے کی سعی کرنی ہی چاہیے‘ ورنہ یہ ساری مشق ہی بیکار ہے اور شاید کتاب کا شائع ہو جانا ہی آپ کے اطمینان قلب کے لیے کافی ہو۔ نمونے کے طور پر موصوف کا یہ شعر دیکھیے جو انتساب میں درج کیا گیا ہے ؎
ترے بدن پہ محبت کے گل کھلائوں گا
تو میرے عقد میں آنے کا فیصلہ کر لے
امید ہے‘ آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی!
کم و بیش یہی صورت حال اکثر رسائل کی بھی ہے۔ راولپنڈی سے ہمارے شاعر دوست سلطان رشک ایک طویل عرصے سے ماہنامہ ''نیرنگِ خیال‘‘ نکال رہے ہیں اور اس کی واحد خوبی یہ ہے کہ یہ باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے ورنہ معیار کے لحاظ سے اس کی صورت حال کچھ ایسی تسلی بخش نہیں ہے حالانکہ خود ایڈیٹر ایک سینئر شخصیت ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ معیاری لکھنے والوں تک ان کی رسائی نہ ہو۔ لیکن ان کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی ایسا تردد نظر نہیں آتا‘ ورنہ اسے تھوڑی کوشش کے بعد ایک ایسا معیاری پرچہ بنایا جا سکتا ہے جسے اعلیٰ معیار کے حامل پرچوں کے مقابلے میں رکھا جا سکے۔ اور یہ صورت حال مایوس کن ہونے سے حیران کن زیادہ ہے۔
کراچی اور گجرات سے کتابی سلسلہ ''غنیمت‘‘ اکرم کنجاہی شائع کرتے ہیں۔ اس میں متعدد قابلِ مطالعہ چیزیں ضرور ہیں لیکن اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا عمومی ماحول ایسا ہے کہ یہ آج کے دور کا پرچہ لگتا ہی نہیں۔ دوسرے معروف لکھنے والوں کی تحریریں بھی متاثر نہیں کرتیں کیونکہ ہر تخلیق کار ایسے رسالوں کو اپنی اول درجے کی چیز ارسال نہیں کرتا اور چالو قسم کا مال اِدھر روانہ کر دیتا ہے۔ بہرحال پرچے کے معیار کا سب سے زیادہ انحصار ایڈیٹر کے اپنے معیار اور ذوقِ سلیم پر ہے کہ وہ معیاری تخلیقات کہاں تک حاصل کر سکتا ہے ورنہ اپنی بساط کے مطابق تو ہر مدیر اپنی سی کوشش اس سلسلے میں کرتا ہی ہے۔ اکرم کنجاہی خود شاعر ہیں‘ اس لیے ان سے توقعات بھی نسبتاً زیادہ ہیں۔
ماہنامہ ''ادب دوست‘‘ لاہور سے کافی عرصے سے نکل رہا ہے جو ہمارے دوست اے جی جوش نے شروع کیا تھا اور اب ان کے صاحبزادگان‘ لکھنے لکھانے سے جن کا کوئی تعلق نہیں ہے اور محض
بزنس کرتے ہیں‘ اپنے والد کی یاد میں اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جوش صاحب نہ صرف یہ کہ خود شاعر تھے بلکہ ادبی حلقوں میں چلتے پُرزے اور مہمان نواز آدمی ہونے کے علاوہ حلقۂ ارباب ذوق کے سیکرٹری بھی رہے اور بامعنی لکھنے والوں سے باقاعدہ میل ملاپ بھی رکھتے تھے اور رسالے کو ایک واجبی سا معیار بھی حاصل ہو گیا تھا جو کہ اب اس ضمن میں اس کا ہاتھ خاصا تنگ چلا آ رہا ہے۔ ڈاکٹر سعید اقبال سعدی بطور مدیر مسؤل اپنی سی کوشش ضرور کرتے ہیں اور جس کے نتیجے میں پرچہ اب تک جاری چلا آ رہا ہے۔
مہینہ وار ''پنجابی ادب‘‘ کم و بیش 25 سال سے لاہور سے شائع ہو رہا ہے جس کی ادارت پروین ملک کے ذمہ ہے جبکہ ایڈیٹوریل بورڈ میں جاوید قاضی‘ سعید بھٹہ اور مشتاق صوفی شامل ہیں۔ پنجابی زبان کے حوالے سے جس بے حسی کا مظاہرہ ہماری حکومتوں کی طرف سے کیا جاتا ہے‘ صوبے کی مادری زبان ہونے کے باوجود اس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے بلکہ اکثر سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں اسے 'اون‘ تک نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ لاہور سے شائع ہونے والے پنجابی رسائل کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
''سفید چھڑی‘‘ کے نام سے سرگودھا سے یہ پرچہ کوئی چوبیس سال سے شائع ہو رہا ہے جس کی ادارت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کرتے ہیں جو خود نعمتِ بصارت سے محروم ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ یہ پرچہ نابینا افراد کی فلاح و بہبود کی غرض سے شائع کیا جاتا ہے جس سے کم از کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ لوگ اس طبقے کے مسائل سے بھی آگاہ رہیں اور اس سے کسی ادبی معیار کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔
اور‘ اب آخر میں سید اذلان شاہ کی شاعری کے کچھ نمونے جو انہوں نے ہماری فرمائش پر گوجرہ سے ارسال کیے ہیں جہاں سے وہ ''نزول‘‘ نامی معیاری ادبی جریدہ بھی شائع کرتے ہیں:
سبھی کچھ تھا مگر سب کچھ نہیں تھا
جب آیا دیکھنا تب کچھ نہیں تھا
بنایا کیوں سہارا گفتگو کو
خموشی کے سوا جب کچھ نہیں تھا
اُتر آئے وہی مطلب پہ دیکھو
وہ جن کو ہم سے مطلب کچھ نہیں تھا
اندھیرا اوڑھے در و بام دیکھنے کا ہے
تماشا یہ بھی سرِ شام دیکھنے کا ہے
ہم اپنی مرضی سے مطلب بدل نہیں سکتے
ہمارا صرف یہاں کام دیکھنے کا ہے
بھری ہیں پھولوں سے شاخیں ہرا زیادہ ہوں
شجر ہوں اور مصیبت زدہ زیادہ ہوں
کسی بھی کام کا چھوڑا نہ عشق نے مجھ کو
کچھ اس لیے بھی ترے کام کا زیادہ ہوں
آج کا مقطع
ظفرؔ، اس کارِ دنیا میں ہماری انتہا یہ ہے
کہ ہم پکڑے گئے ہیں ابتدا ہونے سے پہلے ہی