سعودی عرب کے بادشاہ‘ عبداللہ بن عبدالعزیز گزشتہ شب انتقال کر گئے۔ ان کی جگہ سوتیلے بھائی‘ 79سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سنبھال لی۔ وہ 2سال پہلے‘ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد ولی عہد بنے تھے۔ شاہ عبداللہ ہی کے ایک اور سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن نئے ولی عہد ہوں گے۔ نئے بادشاہ نے شاہی خاندان کی وفادار کونسل سے کہا ہے کہ وہ شہزادہ مقرن کے ولی عہد ہونے کی توثیق کرے۔ شاہ عبداللہ‘ سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز کے 37 بیٹوں میں 13ویں نمبر پر تھے۔ ان کی والدہ شاہ عبدالعزیز کی 16بیویوں میں سے 8ویں تھیں اور روایت کے مطابق‘ شاہ عبداللہ نے اپنے بچپن کا بڑا حصہ صحرا میں رہتے ہوئے گزارا۔ انہوں نے روایتی خیالات کی روشنی میں پرورش پائی اور انہیں دین‘ ادب اور سائنس کی تعلیم‘ درباری اساتذہ نے دی۔ اطلاعات کے مطابق شاہ فہد کے 7سگے بھائی‘ شہزادہ عبداللہ کی ولی عہدی سے خوش نہیں تھے۔ لیکن شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے آل سعود کی مخالفت کا زور آہستہ آہستہ توڑ کر اپنی جگہ مضبوط کر لی۔ 1991ء میں کویت پر عراقی حملے کے بعد ‘ جب امریکی افواج کو سعودی عرب میں تعینات کیا گیا‘ تو شاہ عبداللہ اس کے حامی نہیں تھے۔ وہ صدام حسین سے بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کرنے کے حق میں تھے‘ لیکن شاہ فہد نے ان کی رائے کو اہمیت نہ دی۔ شاہ عبداللہ کبھی کبھار امریکی پالیسی پر بھی تنقید کیا کرتے تھے‘ لیکن اپنے ملک کی مغرب نواز خارجہ پالیسی کے حامی تھے۔ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے ساتھ‘ ان کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی؛ البتہ فلسطینی رہنمائوں پر تنقید بھی کرتے رہے۔ 1994ء میں غزہ پر اسرائیلیوں نے حملہ کیا‘ تو انہوں نے فلسطینی رہنمائوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ دہشت گردی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ان کارروائیوں کو رد کرتے ہیں‘ جن کا مقصد خلیج کے خطے کے استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔ شاہ فہد کی شدید علالت کے دوران‘ عبداللہ عملی طور پر ملک کے حکمران بن گئے‘ لیکن جنوری 1996ء تک اس غیررسمی انتقال اقتدار کو مخفی رکھا گیا۔ 1997ء میں انہوں نے ایک لبنانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ''سعودی عرب امریکہ کا دوست رہے گا‘ لیکن ہم اس کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح نہیں دے سکتے۔ہمارے مفادات دنیا میں ہر جگہ موجود مسلمانوں اور عربوں سے وابستہ ہیں۔‘‘
شاہ عبداللہ‘ خواتین کو زیادہ بڑی تعداد میں کام کرنے کی اجازت دینے کے حامی تھے۔ جب امریکی صدر بش نے‘ عرب اسرائیل تنازعہ کے حل کے لئے ان کے منصوبے کی حمایت نہ کی‘ تو شاہ عبداللہ نے کہا تھاکہ ان کے خیال میں امریکی صدر کو اس معاملے میں صحیح تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ 2003ء میں جب سعودی سرزمین پر دہشت گردوں نے حملے کئے‘ تو شاہ عبداللہ نے ایک بڑے سکیورٹی کریک ڈائون کا حکم دیا۔انہیں اپنے دوراقتدار میں عرب ممالک میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں کے اثرات سے نمٹنا پڑا اور وہ ملک میں ایرانی اثر ونفوذ کا مقابلہ کرنے میں مصروف رہے۔ شام کی خانہ جنگی میں بھی شرق اوسط کے دو روایتی حریف ‘فریقین کی انہوں نے حمایت کی اور جہاں ایران‘ شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت کر رہا تھا‘ وہیں شامی باغیوں کو سعودی عرب کی مدد حاصل رہی۔ شاہ عبداللہ کے دور میں‘ ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی قدرے آزادی فراہم کی گئی۔ حتیٰ کہ شاہی خاندان پر ایک حد تک تنقید کی اجازت بھی دی گئی۔ شاہ عبداللہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔ 2011ء میں انہوں نے سعودی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے ساتھ ساتھ‘ مستقبل میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی‘ جسے کئی عشروں کے دوران‘ سعودی خواتین کے حقوق کے سلسلے میں آنے والی سب سے اہم تبدیلی قرار دیا گیا۔
شاہ عبداللہ کے پیش رو ‘شاہ فہد نے وزیراعظم پاکستان نوازشریف کو اپنا بھائی بنا رکھا تھا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعدجب نوازشریف سعودی عرب گئے‘ تو وہاں ان کا تاریخی خیرمقدم کیا گیا۔ سعودی عرب میں جلسہ عام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی‘ لیکن نوازشریف کے لئے ساری پابندیاں ختم کر دی گئیں اور انہوں نے جدہ میں‘ ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ سعودی عرب کا سارا شاہی خاندان ‘ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر انتہائی خوش تھا۔ شاہ فہد نے نوازشریف کے اعزاز میں ایک خصوصی دعوت دی‘ جس میں انہوں نے نواز شریف کو اپنا بھائی قرار دیتے ہوئے‘ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کے نوازشریف کو پیش کردی۔ اس پر نوازشریف بہت خوش تھے۔ شاہ فہد نے قبائلی انداز میں اس رشتے کو زندگی بھر نبھایا۔ جب نوازشریف کوانتہائی تکلیف دہ حالات میں قید کیا گیا‘ تو شاہ فہد اور پرنس عبداللہ دونوں ہی فکرمند ہوئے اور انہوں نے امریکہ میں اپنے سفیر‘ شہزادہ بندربن سلطان کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ نوازشریف کی رہائی کے لئے کوشش کریں اور سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے گہرے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے‘ صدر کلنٹن کو پیغام دیں کہ وہ ان کی رہائی کے لئے پورا زور لگائیں۔ پرنس بندر بن سلطان طویل عرصے سے امریکہ میں سفیر تھے۔ ارکنساس کے گورنر بل کلنٹن ان کے دوست تھے۔ 90ء کے عشرے میں امریکہ اور لبیا کے صدر قذافی کے درمیان ایک تنازعہ چل رہا تھا۔ امریکہ کا الزام تھا کہ قذافی کے خفیہ ایجنٹوں نے 1988ء میں پین ایم کے ایک جہاز کو اغوا کر کے گرا دیا تھا۔ پرنس بندر بن سلطان نے کلنٹن کے کہنے پر قذافی سے مذاکرات کئے ۔ امریکہ‘ قذافی کے ان دونوں ایجنٹوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہتا تھا‘ لیکن قذافی یہ مان کر نہیں دے رہے تھے کہ لبیا کے جن دو باشندوں کو امریکہ طیارے کی تباہی کا ذمہ دار کہہ رہا ہے‘ ان کا طیارے کے حادثے سے کوئی تعلق ہے؛ تاہم پرنس بندر بن سلطان کی کوششوں سے آخر کار قذافی آمادہ ہو گئے۔ ہائی لیول کی بات چیت کے دوران قذافی کے امریکیوں سے رابطے ہوئے‘ تو قذافی ان کے جال میں ایسا پھنسے کہ انہوں نے‘ ایٹم بم بنانے کے لئے بھاری سرمائے اور انتہائی مشکلوں سے جو سازو سامان جمع کیا تھا‘ وہ سارے کا سارا امریکہ کے مطالبے پر ایک جہاز میں بھر کے اس کے حوالے کر دیا۔ جب نوازشریف کو جیل میں ڈالا گیا‘ تو کلنٹن امریکہ کے صدر بن چکے تھے۔ شاہ فہد اور پرنس عبداللہ نے اپنے سفیر کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ صدر کلنٹن سے کہہ کر نوازشریف کو آزاد کرائیں اور خود اس وقت کے حکمران پرویزمشرف کو صاف کہہ دیا کہ جب تک آپ ‘ نوازشریف کو رہا نہیں کریں گے‘ سعودی عرب آپ کو تیل کی خریداری میں جو غیرمعمولی رعایت دیتا ہے‘ وہ بند کی جا رہی ہے۔ پرویزمشرف کی حکومت‘ جو سخت مالی بحران کا شکار تھی‘ اس دھمکی کے سامنے لیٹ گئی۔ بندربن سلطان نے شخصی طور پر امریکی حکومت اور پرویزمشرف کے مابین رابطہ کار بن کر‘ ان کی رہائی اور پورے خاندان کے ساتھ بخیروعافیت جدہ پہنچانے کے انتظامات کئے۔ شاہ عبداللہ نے نوازشریف کو مع خاندان بطور مہمان قیام کے لئے ایک شاہی محل پیش کر دیا‘ جہاں پورے خاندان کی آئوبھگت شاہی مہمان کی حیثیت سے کی گئی۔ مرحوم شاہ عبداللہ نے کرائون پرنس کی حیثیت سے نوازشریف کی دیکھ بھال کا ذاتی طور سے خیال رکھا۔
مشرف حکومت سے جب نوازشریف کی رہائی کے معاملے میں شرائط طے ہو رہی تھیں تو موجودہ ولی عہد پرنس مقرن نے ذاتی طور پر ان میں حصہ لیا۔نوازشریف نے معاہدے کے تحت 10سال کی جلاوطنی قبول کی تھی‘ لیکن جب بے نظیربھٹو شہید 2008ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان واپس آ گئیں‘ تو نوازشریف بھی پرنس مقرن سے مشورہ کئے بغیر ‘ جلاوطنی کا عرصہ پورا ہونے سے پہلے پاکستان واپس آ گئے۔ مشرف حکومت نے انہیں فوراً ہی واپس سعودی عرب بھیج دیا۔ پرنس مقرن نے جدہ ایئرپورٹ پر خود ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے بھی بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ پرویزمشرف کو انتخابات پر آمادہ کرنے میں پرنس مقرن کی کوششوں کا بھی دخل تھا۔ شاہ عبداللہ کے جانشین پرنس سلمان بن عبدالعزیزبھی پاکستان کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ حکمران سعودی خاندان‘ شریف فیملی سے قریبی روابط رکھتا ہے۔ امید ہے کہ نئے بادشاہ کے دور میں بھی پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات‘ ہمیشہ کی طرح گہرے اور خوشگوار رہیں گے۔