تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     24-01-2015

دستخط کی قیمت

سب اٹھ کر جانے لگے تھے ۔چھوٹا ماں سے کہہ رہا تھا:اگر گھر کا کوڑا کرکٹ جمع ہو گیا ہو تو میں اسے پرنس ولیم کاؤنٹی کے لینڈ فِل میں ڈالتا جاؤں گا‘ اتفاق سے ٹریلر لیتا آیا ہوں ۔ماں اسے بتا رہی تھی کہ کاؤنٹی کا ٹرک منگل کے دن آئے گا اور ٹریش لے جائے گا۔ وہ بولا: میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ چھٹی آنے والی ہے‘ کیا یقین کہ ٹرک والا اس روز آئے یا نہ آئے ۔ماں نے مزید استدلال کیا تو وہ بولا: لینڈ فِل میں ٹریش نہیں ڈالیں گی تو اپنے گھر کو گرم کیسے کریں گی اور روشنی کے لئے بجلی کہاں سے آئے گی؟ 
تقریباً ہر اتوار کو تینوں بیٹے اپنی بیویوں اور دو دو بچوں کو انگلی سے لگائے آ پہنچتے ہیں اور ماں باپ کے گھر کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کاؤنٹی نے ایک یا ایک سے زیا دہ نشیبی جگہوں پر لینڈ فل قائم کئے ہیں جہاں لوگ از کار رفتہ ٹیلی وژن اور بوسیدہ گھریلو مشینوں کے علاوہ گھر کا کچرا ڈالتے ہیں یا ان کی جگہ کاؤنٹی کے ٹھیکیدار یہ کام سر انجام دیتے ہیں ۔کچھ عرصے سے یہ لینڈ فِل میتھین گیس بھی پیدا کرنے لگے ہیں جو قابل استعمال توانائی پیدا کرنے کے کام آتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال پانچ ہزار گھروں کو بجلی مہیا کی گئی جو مقامی عمارتوں کی ضروریات کا دسواں حصہ تھی۔سائنس کے طلباجانتے ہیں کہ یہ گیس کوئلے کی کانوں اور تیل نکالنے کی جگہوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔
یہ تو تھا صنعتکاروں کا کارنامہ جس میں مقامی حکومت کا بھی کچھ حصہ ہے مگر اس کارنامے کی نگہداشت کے لئے عوام کے ووٹوں سے چنی جانے والے وفاقی حکومت بھی ہے جو قدرتی ماحول کو ملحوظ رکھتی ہے ۔اوباما انتظامیہ نے تیل اور گیس کی تنصیبات سے لیک ہونے والی میتھین میں ڈرامائی کمی کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے ۔دشواری یہ ہے کہ یہ بے بُو اور بے رنگ گیس او زون یا قدرتی ماحول کو بھی خراب کرتی ہے ۔ان منصوبوں کا مقصد ایسے دھوئیں کو کم کرنا ہے جو ہر سال امریکی ذرائع سے خارج ہونے والی مضر گیسوں ( گرین ہاؤس) کا دس فیصد بنتا ہے ۔یوں توقع ہے کہ نئے قواعد اور رضا کا رانہ اقدامات سے آئندہ ایک عشرے میں میتھین کاصنعتی اخراج چالیس سے پچاس فیصد کم ہو جائے گا اور آب و ہوا میں تبدیلی کا ایک بڑا سبب دور ہو گا ۔اگر تبدیلی کا یہ رجحان جاری رہا اور گلیشئریوں ہی پگھلتے رہے تو سمندروں کی سطح بلند ہو گی اور اندیشہ ہے کہ اگلے چند عشروں میں کراچی اور ممبئی ڈوب جائیں گے۔ 
توانائی کی ایک اور شکل پٹرول ہے جسے یہاں گیس کہا جاتا ہے ۔امریکہ میں اب تک گیس‘ گیلن کے حساب سے ملتی ہے‘ لٹر کا رواج نہیں ۔ گیس سٹیشنوں پر گاہکوں کی لمبی لمبی قطاریں دکھائی نہیں دیتیں ۔ اگر کسی کو گھاس کاٹنے والی مشین کے لئے گیس درکار ہو تو وہ ایک گیلن کا مروجہ سرخ کنٹینرلاتا ہے ۔اسے ہر جسامت کی خالی بوتلیں اور خالی ڈبے ساتھ لانے کی اجازت نہیں۔ گیس وافر اور سستی ہے‘ البتہ اس میں دس فیصد کی حد تک ایک اور آتشگیر گیس اتھانول ملائی جاتی ہے جو الکوحل کی پیداوار ہے۔ دو سال پہلے کی نسبت تقریباً آدھی قیمت پر وین میں گیس بھروا کرگھر آرہا تھا تو بڑی سڑک پر ہر چوک میں شمسی روشنیاں نظر آئیں ۔ورجینیا نے برقی روشنیوں کی جگہ یہ نظام کب نافذ کیا؟ یاد نہیں آ رہا تھا ۔نہ کوئی جلسہ ہوا۔ نہ کوئی فیتہ کٹا ۔یہاں تک کہ جان ملر کو بھی مدعو نہیں کیا گیا جسے ہم نے ایک ہی سال پہلے کاؤنٹی کا سپر وائزر چنا تھا ۔ہر روشنی آزاد اور خود مختار تھی اور سر شام خود بخود چل پڑتی تھی۔اسے دوسری روشنیوں سے نتھی ہونے کی بھی ضرورت نہیں تھی اور نہ بجلی کے تاروں سے انہیں ایک دوسری سے منسلک کیا گیا تھا۔ یہ د ھوپ سے چلتی ہے ۔پاکستان بننے سے پہلے لاہور میں لیک روڈ پر اس کا تجربہ شروع کیا گیا تھا۔ پچھلے دنوں ایک شمسی بجلی گھر کا افتتاح ہونے کی خبر تھی۔ ریاست کے ڈیموکریٹک گورنر نے وڈبرج کے اس منصوبے سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کی تھی ہر چند کہ ان کی پارٹی‘ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں ا کثریت سے محروم ہو گئی ہے۔ ریاست نے بس چپ چاپ ان روشنیوں کاآغاز کر دیا تھا ۔
کسی حکومت کے مالی وسائل وہی ہوتے ہیں جو ٹیکس ادا کرنے والے مہیا کرتے ہیں ۔وہ انہی وسائل کے اندر کام کرتی ہے ۔ پاکستان میں بد قسمتی سے ہر توقع حکومت سے وابستہ کی جاتی ہے جو غالباً طویل نو آبادیاتی دور کا شاخسانہ ہے ۔ کیا کسی نے کسی بڑے افسر کو اپنے گھر کی کھڑکیاں صاف کرتے یا اپنے فرنٹ یارڈ کی پگڈنڈی سے برف ہٹاتے دیکھا ہے ؟انہی کی دیکھا دیکھی عام لوگ بھی اپنے مکانوں اور راستوں کی مرمت کے لئے بلدیہ کے کاریگروں کا انتظار کرتے ہیں۔ ترقی پزیر ملکوں میں سب سے بڑی آجر بھی حکومتیں ہی ہیں ۔ وہ ملازمت کے لئے انتظامیہ کے در دولت پر حاضر ہوتے ہیں اور منتظم اپنے آپ سے پوچھتا ہے‘ اگر میرے دستخط سے کوئی کارخانہ لگ سکتا ہے تو اس دستخط کی کوئی قیمت ہونی چاہیے ۔ کئی امریکی پاکستانی‘ جو آبائی وطن میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے‘ عہدیداروں کی ہوس زر کے ہاتھوں مایوس ہو کر یا اپنے ڈالر لٹا کر واپس آ گئے ۔ملکوں کی آبادی اور ضروریات بڑھتی رہتی ہیں اور حکومت ان کے مطابق پٹرول‘ پانی‘ بجلی‘ روزگار‘ اشیائے خوردنی اور دوسری سہو لتوں کا اہتمام کرتی ہے۔ امریکہ کی بجائے سعودی عرب‘ مصر اور انڈونیشیا سے موازنہ کرتے ہیں جہاں مجھے کئی شامیں گزارنے کا موقع ملا۔ ان ملکوں میں‘ جن کے حالات پاکستان سے ملتے جلتے ہیں‘ بجلی کا آنا جانا اور پٹرول کی کمیابی کا سا منا نہیں ہو تا ۔ 
توانائی کی ایک شکل وہ بجلی ہے جو ہوا سے لی جا رہی ہے۔ پاکستان میں دھوپ کی طرح ہوا بھی فراواں ہے‘ پھر نہ جانے کوئلہ جلانے اور پن بجلی بنانے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے۔ شاید اس میں کمشن زیادہ بنتا ہے۔ شاید اس میں دستخط کی قیمت زیادہ پڑتی ہے۔ اگر حکمرانوں کو دھرنوں کی دھمکی سے پیدا شدہ حالات سے فرصت ملے تو انہیں اپنے پیر و مرشد امریکہ سے کچھ سبق لینا چاہیے اور نہر کا پانی‘ قدرتی دھوپ اور مفت چلتی ہوا پر چھوٹی چھوٹی ٹربائنیں لگا کر آبادی بالخصوص دیہی آبادی کو سستی بجلی فراہم کرنی چاہیے۔ 
جب بیشتر دنیا سستے اور فراواں پٹرول سے لطف اندوز ہو رہی تھی‘ اہل پاکستان بالخصوص اہل لاہور پٹرول پمپوں پر قطاریں باندھے کھڑے تھے ۔وہ گاڑیوں کو گھسیٹ کر پمپ سٹیشن تک لاتے رہے۔ ان کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے ۔پٹرول اگر دستیاب تھا تو بلیک مارکیٹ میں۔ واشنگٹن پوسٹ نے کراچی کی ایک تصویر کے ساتھ چار کالمی خبر شائع کی۔رپورٹ کے مطابق وزیراعظم اور دوسرے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ دنیا میں پٹرول کے نرخوں میں کمی سے پاکستانی مانگ میں اضافہ ہوا۔ ''سرکاری مالی ماہرین اور ریگولیٹر حیران رہ گئے اور پی ایس او کے توسط سے بر وقت خاطر خواہ مقدار میں تیل درآمد کرنے سے قاصر رہے‘‘ وزیراعظم کو چاہیے کہ وزارت پٹرولیم اور پی ایس او کے کچھ اہلکاروں کو معطل کرنے کی بجائے سرکاری تیل کمپنی کو توڑ ڈالیں۔ سٹیٹ آئل ان کے صنعتی فلسفے سے لگا بھی نہیں کھاتی اور ان کے دوست اور عزیز و اقارب اسے موجودہ حالت میں خریدیں گے نہیں ۔ تیل اور گیس کے کاروبار میں باقاعدگی پیدا کرنے والے ادارے ا وگرا کی ضرورت خود بخود ختم ہو جائے گی۔مرشد نے بھی تو ایسے اداروں کی عدم موجودگی میں قدرتی گیس کے معاملے میں خود کفالت حاصل کی ہے اور پٹرول میں عنقریب کرنے والا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved