تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-01-2015

نہائیں کیا، نچوڑیں کیا؟

اگر آپ کو ہمارے یا کسی اور کالم نگار کے لکھے پر ہنسی نہیں آتی تو ہم یہ الزام بہر حال عائد نہیں کرسکتے کہ آپ کی حِسِ مزاح کمزور ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ آپ آپشنز پر غور نہیں کرتے۔ آپ کو ہنسانے کے لیے ہمیں بھرپور کوشش کرنی پڑتی ہے، پورا دماغ ہلانا پڑتا ہے۔ اِس کوشش میں ہم ناکام بھی رہ سکتے ہیں۔ آپ چونکہ ہم سے ہنسنے ہنسانے کی توقع رکھتے ہیں اِس لیے آئیے، ہم آپ کو بھرپور شگفتگی پانے کا ایک خفیہ ذریعہ بتاتے ہیں۔ ویسے یہ ذریعہ کچھ ایسا خفیہ بھی نہیں، بس یہ ہے کہ ذرا ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ یہ ذریعہ ہے ماہرین اور محققین کی باتیں۔ جب بھی آپ اخبار میں کوئی ایسی خبر پڑھیں جو ماہرین اور محققین کی آراء پر مبنی ہو تو فوراً پڑھنا شروع کیجیے اور دِل کے غنچے کو کِھلنے کی منزل تک پہنچائیے۔ 
اخبارات میں ماہرین کے مشوروں پر مشتمل جو خبریں شائع ہوتی ہیں اُنہیں پڑھ کر ہم نے کئی بار کالم نگاری کی سنگلاخ زمینوں میں اپنی مرضی کے پودے لگائے اور اُنہیں برگ و بار سے آراستہ بھی پایا ہے۔ 
ماہرین کا بنیادی وصف یہ ہے کہ حلوائی کی دُکان پر جاکر یہ اُنگلی کی مدد سے دیوار پر شہد لگاکر کسی کونے میں جا بیٹھتے ہیں تاکہ سُکون سے تماشا دیکھیں۔ شہد لگا ہو تو مَکّھی آئے گی، اُس پر چھپکلی لپکے گی، چھپکلی کو دیکھ کر بِلّی اُچھلے گی، بِلّی کو دیکھ کر کُتّا مُتحرّک ہوگا۔ اور پھر، ظاہر ہے، دُودھ کی کڑاہی کو خاک چاٹتے ہی بنے گی! 
ہم نے ماہرین کے مشوروں پر عمل کرکے بہت سوں کو صرف پریشان ہوتے دیکھا ہے۔ اِس میں بھی قصور اُن کا ہے، ماہرین کا نہیں۔ جو باتیں ہونٹوں پر ہنسی لانے کے لیے کہی جاتی ہیں اُن کی مدد سے زندگی میں تبدیلی لانے کی کیوں ٹھان لی جاتی ہے؟ زندگی مسائل سے اَٹی پڑی ہے۔ قدم قدم پر اُلجھنیں ہیں۔ لوگ رات دن مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔ مسائل کی بہتات زندگی کی آب و تاب چھین لیتی ہے۔ ایسے میں ماہرین چند مشورے دے کر آپ کا دل بہلاتے ہیں اور آپ ہیں کہ اُن مشوروں پر عمل کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ماہرین یقیناً (اپنا) سَر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہوں گے۔ 
امریکہ کی پنسلوانیا یونیورسٹی کے طِبّی ماہرین نے بتایا ہے کہ روزانہ تین اونس پستہ کھانے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے، کولیسٹرول گھٹتا ہے، ٹائپ ٹو ذیابیطس سے بچنے میں مدد ملتی ہے اور دل کے عارضوں کی راہ روکی جاسکتی ہے۔ 
ہم نے فوراً اپنے موبائل فون میں موجود ''کنورٹر‘‘ کے ذریعے معلوم کرلیا کہ ایک اونس میں اٹھائیس اعشاریہ تین پانچ گرام ہوتے ہیں۔ یعنی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ روزانہ 85 پستے کھانے سے ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، ٹائپ ٹو ذیابیطس اور دل کے عارضوں کی راہ مَسدود کی جاسکتی ہے۔ ماہرین نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی روزانہ 85 گرام کے حساب سے ہر ماہ کم و بیش ڈھائی کلو پستے کھائے گا تو اور کیا کھا پائے گا! اس وقت صاف سُتھرا پستہ تقریباً 1200 روپے فی کلو کے نرخ سے فروخت ہو رہا ہے۔ یعنی مذکورہ بالا عارضوں سے بچنے کے لیے آپ کو ماہانہ تقریباً تین ہزار روپے الگ سے درکار ہیں۔ ایک عام آدمی مہینے بھر میں اِتنے پستے کھانے کے بعد بیوی اور بچوں سے مار ہی کھائے گا! 
مرزا تنقید بیگ نے جب یہ خبر پڑھی تو پریشر کُکر کی طرح پھٹ پڑے: ''اِن کم بخت ماہرین نے تو جیسے ہمیں ہنسا ہنساکر قبرستان پہنچانے کا تہیّہ کر رکھا ہے۔ سَردی کو نازل ہوئے ڈیڑھ ماہ ہوچکا ہے۔ کوئٹہ کی طرف سے آنے والی چبھتی ہوئی سَرد ہواؤں کی بدولت سَردی کا تھوڑا بہت مزا ہم کراچی والوں نے بھی چَکھ لیا ہے مگر اب تک ڈھنگ سے ڈرائی فروٹ نہیں چَکھ پائے۔ جب بھی خشک میوہ جات کے دام پوچھنے کی جسارت کی ہے، ہمیں اپنی رگوں میں خُون خُشک ہوتا محسوس ہوا ہے!‘‘ 
مرزا کی بات غلط نہیں۔ کراچی میں ایمپریس مارکیٹ کے نزدیک راجستھان اور گجرات کی ہندو عورتیں فٹ پاتھ بلکہ سڑک کنارے پتھارے لگاکر خشک میوے بیچتی ہیں۔ کچھ دن ہوئے، ہم نے ایک پتھارے پر جب خشک میووں کے دام پوچھے اور دام سُننے کے بعد خشک میووں پر ایک نظر ڈالی، پھر جب اپنے آپ پر نظر ڈالی تو خود سے شرم سی آئی۔ جی چاہا کہ وہیں سڑک پر خُشک میووں کے ساتھ کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائیں تاکہ ہماری وقعت میں بھی کچھ اِضافہ ہوجائے! جب معاملہ دسترس سے باہر ہو تو مقدور کی حد دیکھنے تک رہ جاتی ہے ؎ 
تیری راہوں میں کھڑے ہیں، تِرا کیا لیتے ہیں 
دیکھ لیتے ہیں، لگی دِل کی بُجھا لیتے ہیں! 
(یہ شعر خشک میووں کے لیے ہے، خشک میوے بیچنے والی کے حوالے سے نہیں!) 
چلغوزے، بادام، پستے، کاجو اور اخروٹ تو خیر سے ہائی فائی چل ہی رہے ہیں، اب چُھوہارے بھی نرخوں کے معاملے میں ایسی بُلندی پر ہیں کہ ہمیں اپنا پورا وجود سُوکھا اور پچکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چُھوہاروں کے دام پوچھے تو معلوم ہوا کہ عام چُھوہارا 250 روپے فی کلو کے نرخ سے فروخت ہو رہا ہے اور ذرا صاف مال 300 روپے فی کلو تک ہے۔ ایک پوٹلے میں، جو پتھاریدار نے اپنے پہلو میں رکھا ہوا تھا، خاصے چمکدار، خوش نُما چُھوہارے دکھائی دیئے۔ ہم نے اُن ''غیر اچھوت‘‘ قسم کے چُھوہاروں کے دام پوچھے تو پتھاریدار نے کہا: ''صاحب! یہ 'نر‘ چُھوہارا ہے، اِس کا فکس ریٹ ہے۔ ایک کلو کا 500 روپیہ۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ اِس ملک میں تفرقہ اور انتشار پھیلانے کے لیے اور بہت سے نکات کیا کم ہیں جو اب ''نر‘‘ اور ''مادہ‘‘ کا چَکّر بھی چلایا جارہا ہے۔ پتھاریدار نے مزید بتایا کہ ''نر‘‘ چُھوہارے حکیم لوگ لے جاتے ہیں کیونکہ یہ خاص خاص ادویہ میں استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے ''نر‘‘ چُھوہاروں کو خشمگیں نظروں سے دیکھا کیونکہ اِن کم بختوں نے ہمیں اپنی ہی نظر میں مزید گِرا دیا تھا! 
انگور کا رَس سُوکھ جائے تو وہ کشمش بن جاتا ہے مگر سُوکھی سی کشمش کے نرخ بھی ہماری رگوں سے خُون نچوڑنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے چلغوزے کا نرخ ایسا بلند ہے کہ دو چار برس میں شاید اِس کے پوسٹر فروخت ہوا کریں گے اور جب بچے چلغوزوں کا مطالبہ کریں گے تو لوگ اُنہیں پوسٹرز سے بہلا لیا کریں گے! 
ایک زمانہ تھا کہ غُرباء مونگ پھلی ہی کو خُشک میوے کا درجہ دے کر دل بہلا لیا کرتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ بُھنی ہوئی مونگ پھلی بھی 320 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے، یعنی غریب کا تو وہ حال ہوگیا ہے کہ نہائے کیا اور نچوڑے کیا! 
بات چلی تھی ماہرین سے اور پہنچ گئی خشک میووں تک۔ ماہرین بھی تو خشکے ہی ہوتے ہیں۔ اُن کی باتوں میں بھی خُشک سردی کی سی تاثیر پائی جاتی ہے۔ صد شکر کہ ہمارا شمار ماہرین میں نہیں ہوتا اِس لیے لوگ ہم سے مشورے بھی طلب نہیں کرتے۔ کبھی کبھی ہم از خود نوٹس کے تحت چند مشورے اپنے قارئین کو دیا کرتے ہیں۔ آج ہمارا مشورہ یہ ہے کہ بیماریوں سے بچنے کے لیے ماہرین کے مشوروں پر عمل کرکے کچھ کھانے سے پہلے اِتنا ضرور سوچ لیا کریں کہ نہائیں گے کیا اور نچوڑیں گے کیا۔ یعنی ماہرین کی بتائی ہوئی چیز (یا چیزیں) کھانے کے بعد آپ کے پاس کیا بچے گا اور اہل خانہ کیا کھائیں گے! کہیں ایسا نہ ہو کہ دو تین بیماریوں سے بچنے کی کوشش میں معاملہ مرہم پَٹّی تک جاپہنچے۔ اور اِس مرحلے تک پہنچنے کے بعد آپ ماہرین کا کچھ بگاڑ بھی نہ سکیں گے کیونکہ وہ امریکہ اور یورپ میں رہتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved