تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-01-2015

ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے

اچھی خبر مفقود ہو گئی ہے بلکہ اچھی خبر مفقود الخبر ہو گئی ہے۔ خوشخبری نامی چیز عنقا ہو گئی ہے اور بقول منیرؔ اب حال یہ ہے کہ ؎ 
لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو 
میرا جو حال ہے‘ وہی اس کا بھی حال ہو 
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ 
اس روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو 
منیر کے ہاں خوشی کی خبر کمال کی بات کے مترادف ٹھہری۔ ہمارے ہاں نایاب۔ 
صبح کا اخبار اٹھائیں‘ مجال ہے جو اچھی خبر نظر آئے۔ کسی سے بات کر کے دیکھ لیں‘ ساری گفتگو میں کوئی خوشخبری نہیں ملے گی۔ سوائے اس کے کہ فلاں کی شادی ہو گئی ہے اور میرے گھر پوتا پیدا ہوا ہے۔ جتنی بھی اچھی خبریں یعنی خوشخبریاں ہوں گی صرف اور صرف انسداد خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ہوں گی۔ یعنی شادی اور پیدائش۔ اس کے علاوہ اچھی خبر ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے برابر مشکل کام ہے۔ 
آج کا اخبار دیکھا۔ موٹی موٹی خبریں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ پہلی خبر: شاہ عبداللہ انتقال کر گئے، ریاض میں سپرد خاک۔ دوسری خبر: بھارت حقیقی گلوبل پارٹنر ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے قبول نہیں‘ اوباما۔ تیسری خبر: اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نیپرا کو بجلی مہنگی کرنے کی اجازت دے دی۔ مزید خبریں اس طرح ہیں: تھرپارکر میں غذائی قلت سے مزید سات بچے ابدی نیند سو گئے۔ گدھے کا گوشت فروخت کرتے تین افراد پسرور میں رنگے ہاتھوں گرفتار، بیس ذبح شدہ گدھے برآمد۔ فرنس آئل کی کمی سے مظفرگڑھ پاور سٹیشن کے چار یونٹس بند۔ پٹرول کی قلت کے ذمہ دار عوام‘ میڈیا اور بوتلوں میں مانگنے والے بھکاری ہیں‘ وزیر پٹرولیم۔ پٹرول تین سو روپے لٹر تک فروخت ہوا‘ چیئرمین اوگرا کا اعتراف۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی۔ ذخائر پندرہ ارب ڈالر پر آ گئے۔ ٹکٹیں ختم‘ اسلحہ لائسنس کی تجدید میں توسیع۔ حکومت کے پاس صرف تین دن کا پٹرول‘ آئندہ ہفتے پھر بحران کا خطرہ۔ یہ صرف ایک روز کی خبروں کا خلاصہ ہے۔ روزانہ کا اخبار اسی طرح ہوتا ہے۔ 
مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدامنی‘ دہشت گردی‘ عدم تحفظ اور عدل و انصاف سے محروم ہم لوگوں کے لیے اچھی خبر روز بروز مشکل تر ہوتی جا رہی ہے مگر اس حال میں بھی کبھی کبھار کوئی ایسی چیز نظر آ جاتی ہے جو خوشی میں شمار نہ بھی ہوتی ہو مگر خوش ذوقی میں ضرور شمار ہوتی ہے۔ کمال وہ لوگ ہیں جو اس مسلسل روبہ زوال معاشرے میں زندہ دلی کا تڑکا لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالات کو نہیں بھی بدل سکتے تو بھی کم ا ز کم ماحول بدلنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ دو تین روز پہلے بہاولپور میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ لوگوں کے گھروں میں اشتہار پھینکے گئے ہیں۔ اب گھروں میں اشتہار پھینکنے کا سنتے ہی دل میں اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ یقینا بھتے کا اشتہار ہوگا۔ اگر بھتے کا نہیں تو کسی زبردستی چندے والا اشتہار ہوگا۔ ممکن ہے دہشت گردوں کا کوئی انتباہی پوسٹر ہو۔ یہ بھی گمان پیدا ہوتا ہے کہ کسی مذہبی انتہا پسند کا نوٹس ہو جس میں خواتین کو پردہ کرنے کا حکم ہو یا سی ڈیز کی دکانیں بند کرانے کا کہا گیا ہو۔ اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں تو پھر آخری آپشن یہ رہ جاتا ہے کہ یہ داعش والوں کا تعارفی خط ہو مگر بہاولپور میں گھروں میں پھینکا جانے والا یہ خط نہ طالبان کا 
ہے نہ کسی مذہبی تنظیم کا۔ نہ کسی بھتہ خور کا ہے اور نہ کسی چندہ خور کا۔ نہ اغوا برائے تاوان والوں کا اور نہ ہی داعش کا۔ یہ کسی نہایت ہی زندہ دل اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے ذہن رسا کی جانب سے ہے۔ اشتہار تو وہی ہے جس کو ہم لوگ روز بھگتتے ہیں لیکن نیچے لکھا ہوا تنظیم کا نام ہی اصل لطف اندوز ہونے والی چیز ہے۔ تنظیم کا نام بعد میں۔ پہلے اشتہار کا مضمون ہو جائے۔ ملک میں روٹی‘ پانی‘ گیس‘ پٹرول‘ نوکریاں اور خوشحالی بند کرنے والوں سے عوام کی جنگ شروع ہے۔ منجانب ''ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘۔ 
بظاہر یہ اشتہار حکومت کو تنبیہ ہے مگر دراصل اس اشتہار کا اصل مخاطب عوام ہیں۔ وہ عوام جس نے مسلم لیگ کو ووٹ دیے۔ جس نے میاں نوازشریف کو وزیراعظم بنوایا۔ یہ اشتہار دراصل موجودہ حکمرانوں کے ایک سال سات ماہ پر محیط عرصۂ اقتدار پر طمانچہ نہیں بلکہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے جو موجودہ حکمرانوں کے آنے پر خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے۔ جن کا خیال تھا کہ اب ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ جو کہتے تھے کہ اب ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جو پُریقین تھے کہ ملک میں صنعتی اور اقتصادی ترقی صرف اور صرف میاں نوازشریف کے دور میں ہو سکتی ہے۔ اب وہ لوگ خود کو کوس رہے ہیں کہ وہ کون سا منحوس دن تھا جب انہوں نے موجودہ حکمرانوں سے اچھی امیدیں وابستہ کی تھیں۔ وہ اپنی غلطی پر پشیمان ہیں‘ پچھتا رہے ہیں اور شرمندہ ہیں مگر کیا ہو سکتا ہے؟ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ کر بیس گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...پنجاب میں سی این جی چار ماہ کے لیے بند ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...گھروں میں گیس نہیں آ رہی۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...لاہور میں سی این جی کھول دی گئی ہے مگر جنوبی پنجاب میں بند ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...چھ ہزار چھ سو میگاواٹ کا گڈانی کول پارک منصوبہ ٹھپ ہو گیا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...نندی پور پاور پراجیکٹ کا تخمینہ تین سو انتیس ملین ڈالر سے بڑھ کر پانچ سو ستر ملین ڈالر ہو گیا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...نندی پور کی لاگت تقریباً دوگنی ہو گئی مگر اس کی پیداواری صلاحیت جس کا ڈیزائن چار سو پچیس میگاواٹ تھا ابھی تک پچانوے میگاواٹ بھی پیدا نہیں کر رہا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...سردیوں میں اس سے پہلے اتنی زیادہ لوڈشیڈنگ کبھی نہیں ہوئی۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...گیس کا اتنا شدید بحران تو گیلانی زرداری کی نااہل ترین جوڑی کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...صنعتکاروں کی نمائندہ حکومت کے انیس ماہ میں پاکستانی صنعت کو جتنا نقصان پہنچا ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...فیصل آباد ملتان موٹروے کے خانیوال گوجرہ سیکشن پر ا بھی کام بھی شروع نہیں ہوا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...''ماہر معاشیات‘‘ وزیر خزانہ کی کارکردگی اوسط درجے کے کیشئر سے بھی بدتر ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...فرنس آئل کا ذخیرہ بھی خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...انیس ماہ میں حکمران ایل این جی کا سودا فائنل نہیں کر سکے کیونکہ ابھی تک ان کا اس سلسلے میں اپنا سودا طے نہیں ہو پا رہا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...عوام کو گیس اور بجلی چاہیے۔ حکمران صرف موٹروے بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...ملتان والے صحت‘ تعلیم‘ سیوریج‘ سینی ٹیشن‘ سڑکوں کی کشادگی اور علیحدہ صوبہ مانگتے ہیں۔ حکمران جواباً میٹرو بنا کر ان کے مسائل حل کر رہے ہیں۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...آدھا خاندان حکومت میں ہے۔ ستر فیصد وزراء جی ٹی روڈ سے پکڑے ہوئے ہیں۔ کچن کیبنٹ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ باقی سب چھان بورا ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
...صدیق الفاروق کو متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین لگا دیا گیا ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ 
ابھی اگلے الیکشن مین تین سال سے زیادہ کا عرصہ پڑا ہے۔ ابھی سے کیا رونا پیٹنا لگا رکھا ہے۔ صبر کرو صبر کیونکہ 
''ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘ 
جس نے ڈانس نہیں کرنا وہ جا کر اپنی بھینس چرائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved