تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     25-01-2015

چار اہم خبریں

ہفتہ رواں کے دورا ن چار ایسی اہم خبریں سننے کو ملیں جنہوں نے پورے ملک کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔ پہلی خبر اسلامی نظریاتی کونسل کی طلاق سے متعلق سفارشات تھیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کونسل کے ارکان سے مشاورت کے بعد بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قراردے دیا اور حکومت کو سفارش کی کہ قومی اسمبلی میں اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں طلاق کے احکامات کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے۔ سورہ بقرہ کی متعدد آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یک لخت طلاق دینے کا حکم نہیں دیتے، بلکہ متعلقہ عورتوں کو عدت کی مدت گزر جانے کے بعد بھی اپنے شوہروں سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ جبھی ممکن ہے جب طلاق مرحلہ وار دی جائے۔
صحیح مسلم شریف میں حدیث موجود ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ، عہد صدیقی اورحضرت عمرؓ کے ابتدائی دو سالوں میں ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتیں تھیں۔ چونکہ دین اور شریعت رسول ﷺ کی زندگی میں مکمل ہو گیا تھا اس لیے اہل علم کا ایک طبقہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی سمجھتا ہے۔ اس رائے کو مسلک اہلحدیث نے اختیار کیا ۔احناف کا موقف یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے چونکہ تعزیراً تین طلاقوں کو تین قرار دیا تھا اس لیے ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی سمجھی جائیں گی۔ اس مسئلے پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاہم جہاں تک تعلق ہے طلاق کے احسن طریقے کا، تو اس معاملے پر علماء اہلحدیث اور احناف میں کوئی اختلاف نہیں۔ علماء کے دونوں طبقات اس بات پر متفق ہیں کہ طلاق وقفے وقفے سے ہی دینی چاہیے تاکہ رجوع کے امکانات باقی رہیں اور لڑکی اور خاندان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے ۔اس کے د و طریقے ہیں۔ یا تو ایک ہی طلاق دی جائے اور عدت کے دوران بغیر نکاح اور عدت کی مدت گزر جانے کے بعد بذریعہ نکاح رجوع کر لیا جائے یا عدت کی مدت گزر جانے کے بعد لڑکی کہیں اور نکاح کرنے کی مجاز ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک ،ایک مہینے کے وقفے سے تین طلاقیں دی جائیں ۔جب اتنی سوچ بچار اور غوروخوض کے بعد تین طلاقیں دیں جائیں گی تو اس فیصلے میں جذباتیت کے امکانات باقی نہیں رہیں گے۔ غصے ،اضطراب اور ذہنی الجھاؤ کی بجائے ایسی طلاق پورے تیّقن ، پختہ ارادے اور مستقبل کے اندیشوںاور خطرات کا پورا پورا ادراک کرکے دی جاتی ہیں۔ اس لیے ایسی طلاق کے بعد پچھتاوا باقی نہیں رہتا۔ انہیں وجوہ کی بناء پر احسن طریقے کی طلاق کی ہی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور کی گئی ہے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ بیک وقت تین طلاقیں دینے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے تھے۔ حضرت عمرؓ کی تعزیربھی درحقیقت تین طلاقوں کو بیک وقت دینے کے عمل پر ہی اظہار ناراضگی تھا۔
مولانا محمد خان شیرانی اور نظریاتی کونسل کے دیگر ارکان کی سفارشات سے ایک ایسے عمل کی حوصلہ شکنی ہو گی جو قرآن وسنت کے اعتبار سے نا پسندیدہ ہے۔تاہم اس سارے معاملے میں ایک بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ نظریاتی کونسل کی موجودہ سفارشات سے اگرچہ ایک علمی بحث کا آغاز ہوا ہے تاہم جہاں تک قانون سازی کا تعلق ہے تو 1961ء کے عائلی قوانین پہلے ہی اس سفارشات کا احاطہ کر چکے ہیںاور تین طلاقوں کو بیک وقت دینے کے حوالے سے ایک سال قید اور پانچ ہزار جرمانے کی سزا بھی موجود ہے۔ بعض ممتاز ماہرین قانون نے ان سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سفارشات کو مرتب کرنے سے قبل بہتر ہوتا کہ نظریاتی کونسل کے اراکین پاکستان کے عائلی قوانین کا مطالعہ کر لیتے تاکہ ایک طے شدہ امر پر دوبارہ سفارشات مرتب کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
دوسری اہم خبر یہ ہے کہ لاہور ایوان اقبال میں مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام علماء کنونشن سے خطاب کیا اور اکیسویں آئینی ترمیم پر زبردست تحفظات کا اظہار کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے علماء اور فورس کو لڑانے کی سازش کی جار ہی ہے۔ اگر حکومت نے تحفظات دور نہ کیے تو مدارس بند کرکے جیلیں بھرنے کا آغاز کر دیا جائے گا۔اکیسویں آئینی ترمیم کا مقصد یہ بیان کیا گیا تھا کہ ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے ایک جامع قومی ایکشن پلان مرتب کیا جائے جس پر تمام جماعتوں اور طبقات کااتفاق ہو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گو عام حالات میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں لیکن بدلتے ہوئے ہنگامی حالات میں ان معاملات کو حل کرنے کے لیے فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے ۔ ملک کی تمام جماعتوں نے مخصوص حالات کے پیش نظر ان تجاویز کو قبو ل کر لیا لیکن دہشت گردی کے خلاف عمومی جدوجہد کی بجائے جب اس کو مذہب اور فرقے کے نام پر ہونے والی دہشت گردی سے جوڑا گیا تودینی جماعتوں نے اس پر شدید قسم کے تحفظات کا اظہار کیا۔ دینی جماعتوں کا موقف یہ ہے کہ قاتل کوقاتل اور دہشت گرد کو دہشت گرد کہنا اور سمجھنا چاہیے خواہ اس تعلق کسی بھی جماعت، گروہ اور ادارے سے ہواور اس کے عمل کی بنیادخواہ مذہب ہو یا کچھ اور...اس قسم کے قوانین کو بناتے ہوئے امتیازی اور متنازعہ عبارتوں کو شامل کرنے سے مختلف طبقات کے دل و دماغ میں مختلف طرح کے احساسات پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے میں احساس عدم تحفظ ، احساس محرومی اور طبقاتی کشمکش کو ہوا ملتی ہے۔
تیسری اہم خبر جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کی ہے۔ امریکہ کے وزیر جان کیری نے دورۂ پاکستان کے دوران جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کا مطالبہ کیا اور اقوامی متحدہ نے بھی حافظ سعید اور ان کے رفقاء کی پابندی کی سفارشات کیں تھیں۔ امریکی صدر بارک اوبامابھارت کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔ان کے دورے کے موقع پربھی اس مطالبے کے سامنے آنے کی توقع تھی کہ پاکستان کی حکومت نے اس مطالبے سے قبل ہی جماعۃ الدعوۃ پر پابندی لگا کر ان کے اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔جماعۃ الدعوۃ سے کوئی اتفاق کرے یا اختلاف ! لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعۃ الدعوۃ نے رفاہ عامہ کے بہت سے منصوبوں کو کامیابی سے چلایا ہے اور ملک میں کہیں بھی کوئی غیرمعمولی آفت آجائے توعوام کی خدمت کے لیے یہ جماعت پیش پیش رہتی ہے۔ملک کی کسی بھی عدالت میں جماعت کے بارے میں اس حوالے سے کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔ حافظ محمد سعید پر ان ایام میں پابندی عائد کی گئی جب حکومت اورعسکری قیادت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نئے عزم کا اظہار کررہی ہے۔حکومت کے جماعۃ الدعوۃ اور مدارس کے خلاف اقدامات کو دہشت گردعناصر کے خلاف کی جانے والی جنگ کی بجائے دینی طبقات کے خلاف کی جانے والی مہم جوئی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس منفی تاثر سے حکومت اور قوم کے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ عزم کو تقویت نہیں ملے گی بلکہ مختلف دینی طبقات میں پائے جانے والے اضطراب کی وجہ سے یہ جنگ ملک میں دین دار اور لادین طبقات کے درمیان کشمکش کوفروغ دینے کا باعث ہو سکتی ہے۔ حکومت کو اس تاثرکو زائل کرنے کے لیے فی الفور اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک میں قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے ملک کے تمام طبقات میں نظریاتی اور قومی ہم آہنگی کو برقرار رکھا جاسکے ۔
چوتھی اہم خبر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا انتقال ہے۔ شاہ فیصل ، شاہ خالد اور شاہ فہد مرحوم کے دور میں پاک سعودی تعلقات جس سطح پر تھے شاہ عبداللہ نے بھی ہمہ وقت اس سطح کو برقرار رکھا اور پاکستان کی تمام مشکلات میں پاکستان کے ہم قدم رہے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر لگنے والی پابندیوں کے بعد ایک برس تک بڑی مقدار میں پاکستان کومفت تیل دے کر پاکستان کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ بالا کوٹ کے زلزلے کے دوران ذاتی فنڈ قائم کرکے پاکستان سے اپنی دوستی کا ثبوت دیا۔ حال ہی میں پاکستان کے روپے کی گری ہوئی قدر کو سہارا دینے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر امداد دی۔سعودی عرب کے تمام بادشاہوں نے کڑے وقت میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ شاہ عبداللہ کی وفات پرحکومت اور ملک کے نمایاں رہنماؤں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اورتوقع ظاہر کی ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دیں گے اور پاک سعودی تعلقات کسی بھی تعطل کا شکار ہوئے بغیر ترقی کے مدارج طے کرتے رہیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved