''امریکہ پشاور کے سکول سے لے کر فرانس کی گلیوں تک دہشت گردی کرنے والوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا اور دہشت گردوں کا پیچھا کرے گا اور داعش کے خلاف عراق اور شام کی مدد کرے گا‘‘ بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔ امریکی صدر بارک اوباما کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ یہ سب کچھ بہت پہلے کہہ دیتے لیکن بہت دیر کر دی مہربان نے اور اپنے دوسرے عہدہ صدارت کی تکمیل سے پہلے جاتے جاتے دل کی بات کو زبان تک لے ہی آئے ۔ ورلڈ اکنامک فورم سے اپنے حالیہ خطاب میں جا ن کیری نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پشاور سکول کا واقعہ وہ تمام عمر نہیں بھول سکیں گے اور۔۔۔ امریکہ کے سابق وزیر دفاع چک ہیگل نے تو بہت پہلے سے دنیا بھر کو کھل کر بتا دیا تھا کہ بھارت افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اس کے اندر بلوچستان اور وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کرا رہا ہے ،امریکی صدر اوبامہ سات سال سے واشنگٹن کے قصرصدارت میں بیٹھے ہوئے یہ سب دیکھتے رہے اور اپنے ہی وزیر دفاع چیک ہیگل کی گواہی کے با وجود نہ جانے کیوں خاموش رہے۔ شاید اس لئے کہ وہ افغانستان سے نکلنے تک محتاط ہیں کیونکہ افغانستان میں امریکہ، نیٹو اور ایساف کی لاکھوں کی تعداد میں فوجوں کی موجو دگی کے با وجود بھارت کو نہ روکنا اس یقین کو تقویت دے رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کرزئی اور بھارت کی ہر حرکت کو دیکھنے کے با وجود چپ رہنا شائد امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔
جان کیری کا حالیہ دورۂ بھارت کے اختتام پر بھارتی میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ صدر اوبامہ کے دورہ بھارت کیلئے متفقہ ایجنڈا تیار کر لیا گیا ہے جس میں بھارت کے نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہوئے اس کی تمام تجاویز کو قبول کر لیا گیا ہے لیکن آزاد میڈیا اور عالمی حالات سے با خبر رہنے والے سیا سی اور سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے معاملے میں بھارت کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے اس کے نقطہ نظر کو مکمل رد کر دیا ہے اور خصوصاً ملا فضل ا ﷲ کے معاملے میں بھارت کو خبر دار کر دیا ہے کہ فضل اﷲ پاکستان اور امریکہ سمیت عالمی امن کا دشمن ہے اور اسے عالمی دہشت گرد کا خطاب دینے کا سو چا جا رہا ہے۔
گاندھی نگر گجرات میں رات کے کھانے پر جان کیری نے نریندر مودی سے اپنی گفتگو کے دوران نرمی اور ادب و آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ہر بات کو توجہ سے سنا اور ان کی بہت سی باتوں سے اتفاق بھی کیا لیکن جب پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور خاص طور پر پشاور سکول میں تحریک طالبان کے ہاتھوں معصوم طالب علموں کے قتل عام پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ بھارت کو اتنا ہی دکھ ہوا جتنا پاکستان کو اسی لئے ہم نے اپنے تمام سکولوں، پارلیمنٹ اور لوک سبھا میں ایک ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنے دلی سوگ کا اظہار کیا ہے تو یہ سنتے ہی جان کیری اور ان کے وفد کے اراکین یک دم بھڑک اٹھے اور کہا۔۔۔جناب وزیر اعظم ہم آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ آپ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت کمار ڈوول کی تحریک طالبان پاکستان کے لیڈران کے ساتھ اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں اور ہمارے پاس بھارت کے پشاور سکول واقعہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے سو فیصد ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں اور یہ کہتے ہوئے وہ تمام ثبوت نریندر مودی کے سامنے رکھ دیئے ۔۔۔۔اور نریندر مودی نے جب بھارتی خفیہ ایجنسی راء اور اجیت ڈوول کے ملا فضل اﷲ کے قریبیNexus ملاحظہ کئے تو ان کی حالت دیکھنے والی تھی ۔۔۔اور اس وقت جان کیری کے سامنے بیٹھی ہوئی بھارتی ٹیم کو زبردست جھٹکا لگا جب جان کیری نے نریندر مودی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا '' اپنے سکیورٹی ایڈوائزر اور راء کو ہدایت جاری کریں کہ وہ دہشت گردی سے پیچھے ہٹ جائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو صدر اوبامہ کے دورہ بھارت کے دوران ہو سکتا ہے کہ عالمی میڈیا کا رویہ دوستانہ نہ رہ سکے‘‘۔ ابھی بھارتی ٹیم سنبھلی بھی نہ تھی کہ جان کیری نے ایک ایک لفظ کو چباتے ہوئے کہا'' امریکہ اگلے چند روز میں ملا فضل اﷲ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں انتہائی مطلوب افراد کے طور پر شامل کرنے جا رہا ہے‘‘۔
بھارتی وزیر اعظم نے عجیب سی حرکت کرتے ہوئے امریکی وفد
سے کہا کہ '' یہ شاید وہ ثبوت ہیں جو آپ کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران دیئے ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ‘‘جس پر جان کیری نے ایک زبردست قہقہہ لگاتے ہوئے کہا '' جناب وزیر اعظم امریکہ کے اپنے ذرائع پاکستان سے بہت زیا دہ ہوتے ہیں‘‘۔۔با وثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جان کیری نے نریندر مودی سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ امریکی صدر کے دورہ بھارت کے مفید نتائج سامنے آئیں تو اس کیلئے بھارت کو تحریک طالبان سے مکمل علیحدگی اور اپنے بھیجے ہوئے لوگوں کو فاٹا، بلوچستان اور وزیرستان سے باہر نکالنا ہو گا اور اگر نئی دہلی کی حکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر امریکی صدر کا دورہ بھارت شائد سوائے ایک رسمی فوٹو شوٹ تک ہی محدود رہ جائے اور اس کی ذمہ داری امریکہ پر نہیں بلکہ نئی دہلی کی نریندر مودی حکومت پر عائد ہو گی۔
مقام شکر ہے کہ امریکہ کو بہت دیر بعد ہی سہی ،پاکستان کی اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان میں عرصے سے جاری دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ رہا ہے چاہے یہ بلوچستان ہو یا کراچی اور پنجاب ہو یا فاٹا وزیرستان ہو یاخیبر پختونخوا۔ امریکہ کی اس گواہی کے بعد اب تمام یورپی دنیا اور مشرق بعید سمیت سب اسلامی ممالک کو بھی اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ سب سے بڑی جمہوریت کے پروپیگنڈا کی آڑ میں بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں کس طرح دہشت گردی کو فروغ دیتے ہوئے ہزاروں بے گناہ شہریوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کو بھی امریکہ کی اس شہا دت کے بعد بھارت پر پابندیوں کیلئے اپنے کردار ادا کرنا ہو گا ۔اور یہ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ثابت ہو چکا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی بھارتی را ملوث ہے اس طرح وہ ایک تیر سے دو شکار کرتا رہا افغانستان کے عوام اور اس کی سکیورٹی فورسز کو پاکستان کے خلاف بھڑکاتے ہوئے ان کے درمیان غلط فہمیاں اور انتقامی کارروائی کیلئے راہ ہموار کی جاتی رہی ۔اس طرح بھارت نے افغانستان کی انٹیلی جنس کو پاکستان کے خلاف خوب استعمال کیا۔پاکستان سے ملحقہ افغانستان کی سرحدوں کے اندر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے بنائے ہوئے ٹریننگ کیمپ کرزئی حکومت سے کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہے تھے جہاں پاکستان میں لسانی اور فرقہ واریت کے نام پر دہشت گردی پھیلانے کیلئے دہشت گردی کو تربت دی جاتی ہے۔
پاکستانی میڈیا کو بھی اب کسی بھی خوف کے بغیر ملک کی سکیورٹی فورسز کا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ بہت سے میڈیا سے متعلق لوگ جان بوجھ کر یا انجانے میں انہیں دہشت گردکی بجائے عسکریت پسند یا انتہا پسند کے نام سے پکارتے اور لکھتے ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ میڈیا سمیت پوری قوم کو ان دہشت گردوں کے مقابلے میں ایک ہو کر ہم آواز ہو کر مقابلہ کرتے رہنا ہو گا اور دیکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں میڈیا کی ذمہ داریاں ہماری سکیورٹی فورسز سے کسی طور بھی کم نہیں ہیں اور انہیں اب ان دہشت گردوں کو قومی ہیرو،سکالر یا جہادی کے طور پر پیش کرنے سے مکمل اجتناب کرنا ہو گا...!!