آج کل میں امریکہ کے دورے پر ہوں ، کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں ہے، دینی پروگراموں میں شرکت کے لئے مختلف ریاستوں میں جانا پڑتا ہے اور فاصلے بھی کافی زیادہ ہیں اور خود امریکہ کے اندر بھی ٹائمنگ زون مختلف ہیں۔ جب بھی امریکہ آنا ہوتاہے، ٹیننسی اسٹیٹ میں ایک رات ڈاکٹرشہرام ملک صاحب کے ہاں بھی قیام ہوتاہے، ان کی بیگم بھی ڈاکٹر ہیں اور ماشاء اللہ بہت مہمان نواز ہیں۔ ان کے احباب دور دراز سے سفر کرکے آتے ہیں ، ان میں سے اکثر میاں بیوی دونوں ڈاکٹر ہوتے ہیں اور باقی حضرات بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باوقار عہدوں پر فائز لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ اور باوقار علمی وفکری محفل ہوتی ہے، جو خواتین وحضرات کے لئے یکساں دلچسپی کی حامل ہوتی ہے ۔ وطن سے دوری کے سبب ان سب لوگوں کو ہم سے زیادہ پاکستان سے محبت ہے ، اسی لئے انہیں ہر وقت اپنے وطنِ عزیز کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارا آزاد میڈیا ہر شعبے میں ہمیشہ پاکستان کا منفی رخ پیش کرتاہے، یہ ان کی باہمی مسابقت کی مجبوری ہے ، کیونکہ من حیثُ القوم ہم اپنے مَحاسِن سے زیادہ اپنے عیوب سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔ میری ایک عرصے سے دلی خواہش ہے کہ کوئی ایسا پاکستانی چینل بھی ہو ، جو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاکستان کے روشن پہلو دکھائے اور نئی نسل میں امید کی کرن روشن کرے ۔ آپ کہیں گے کہ پاکستان ٹیلی وژن تو روزِ اوّل سے یہ خدمت بجا لارہا ہے، مگر میری مراد حکومت کے قصیدے پڑھنا نہیں ہے بلکہ پاکستان پر نئی نسل کے یقین واعتماد میں اضافہ کرنا ہے اور حبُّ الوطنی کے جذبات کو ابھارنا ہے۔
بہت سے پڑھے لکھے لوگ بیرونِ ملک رہتے ہوئے بھی پاکستانی اخبارات میں شائع شدہ اپنے پسندیدہ کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں، ان میں ہمارے کرم فرما بھی شامل ہیں ۔ ان اَسفار میں بالعموم نیوجرسی اسٹیٹ سے علامہ مقصود احمد قادری بھی میرے ساتھ شریکِ سفر ہوتے ہیں اور ان کے خطابات بھی ہوتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:''امن کی فاختہ جو ہم سے روٹھ کر بہت دور جاچکی ہے ، دوبارہ ہمارے دامِ تزویر میں آجائے (یعنی ہمیں امن نصیب ہوجائے)‘‘۔ اس میں اردو ادب کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے ''فاختہ‘‘ کو امن کی علامت کے طور پراستعمال کیا تھا۔
ورجینیا اسٹیٹ میں ہمارے کرم فرما ڈاکٹر خالد جاوید اعوان صاحب ہیں، وہ انتہائی شہرت یافتہ آئی اسپیشلسٹ ہیں اور اپنے شعبے میں ان کا بہت وقیع تحقیقی کام ہے، جو امریکہ کے اعلیٰ شہرت یافتہ میڈیکل جرنلز میں شائع ہوکر پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی دور سے سفر کرکے ہمارے پروگرام میں آتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نہایت وسیع المطالعہ اسلامی اسکالر بھی ہیں اور بین المذاہب تقابلی مطالعہ پر اُن کو کافی عبور حاصل ہے، بائبل پر بھی گہری نظر ہے۔ ان کے دولت خانے پر ہفتہ وار علمی مجلس منعقد ہوتی ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی احباب دور دراز سے سفرکرکے اس میں شریک ہوتے ہیں ، تفاسیرِ قرآن اور دینی کتب کاکافی ذخیرہ نہ صرف ان کی لائبریری کی زینت ہے بلکہ ان کے زیرِ مطالعہ ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے ''فاختہ (Dove)‘‘کے علامتِ امن ہونے کی بابت ایک تفصیلی تحقیقی مقالہ لکھ کر مجھے پیش کیا، جو یقینا میرے علم میں اضافے کا سبب بنا، مجھے اعتراف ہے کہ میں اس پس منظر سے پہلے متعارف نہیں تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ قارئینِ کرام کو بھی اس علمی فیضان میں شریک کروں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:''یورپین لٹریچر ، پریس اور ذرائعِ ابلاغ میں ''فاختہ‘‘ کو امن کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتاہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مغربی شِعار کو عالَمی سطح پر پذیرائی ملتی چلی گئی ، چنانچہ امن کی علامت کے طور پر''فاختہ‘‘ عالمی ثقافتوں اور سماجوں میں مقبول ہوتی چلی گئی‘‘۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:''''فاختۂ امن‘‘ کے پسِ منظر میں جو اصل کہانی ہے، وہ دلچسپ بھی ہے اور روح فرسا بھی ، اقوامِ مغرب ہر نظریے اور عقیدے سے بڑھ کر محبت کی ڈفلی پرناچتی ہیں ، حالانکہ آپ اگر ان سے محبت کی تعریف پوچھیں تو ہر ایک کی تعبیر دوسرے سے مختلف ہوگی ۔ چنانچہ ان کے نزدیک اس لفظی سَراب کے فرضی سمندر میں ہر برائی ، ہر ظلم اور ہر فاسد عقیدہ سما سکتا ہے۔ مغربی انشا پردازوں کی نفسیات یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو کوئی بھی نام دینے کے لئے یونانی دیومالائی (Greek Mythology)تصورات کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اسی ذہنی ساخت (Mindset)کے تحت ان کا ذہن امن کی علامت کے لئے دیو مالائی دیوی اَیفروڈائٹی(Aphrodite)کی طرف منتقل ہوا۔ آئیے جانیں کہ ایفروڈائٹی کیا ہے، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں لکھا ہے:'' ایفر و ڈائٹی کا معروف نشان ''فاختہ(Dove)‘‘ہے، یہ جنسی آوارگی اور زنا بالجبر (Rape)کی بھی دیوی تھی ،مذہبی داشتائیں (Prostitutes) بھی اس کی پرستش کرتی تھیں،(جلد:2،ص:110، اشاعت :1970)‘‘۔''مذہبی داشتہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُن کے دین میں تھا کہ جوان عورت شادی سے پہلے ایک رات کسی اجنبی مرد کے ساتھ مباشرت میں گزارے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ایفروڈائٹی دیوی کی رَس بھری داستان یوں بیان کرتا ہے :''جب کارنس (Cornus)نے اپنے باپ یورانس کا نازک عضو کاٹ کر اس کو سمندر میں پھینک دیا، تواس کے گرد جمع شدہ جھاگ سے ایفروڈائٹی (Aphrodite) پیداہوئی، (جلد:2،ص:111)‘‘۔ اہلِ مغرب نے اسی یونانی دیوتا یورا نس (Uranus)سے عقیدت کے اظہار کے لئے ملکی نظام میں زمین سے چودہ گنا بڑے ساتویں سیارے کانام Uranusرکھا ہے‘‘۔ یہ زنا بالجبر ، جنسی آوارگی ، والد کے ساتھ ظلم اور مشرکانہ عقائد پر مشتمل اخلاق باختگی کے تصورات کا مجموعہ ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے فرانسیسی مستشرق اے ولیم اور سیرتِ ابنِ ہشام کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے عثمان بن ابی طلحہ سے بیت اللہ کی کلیدلی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے ، تو آپﷺ نے فاختہ کی صورت کا لکڑی کا بنا بت کعبے کی چھت سے لٹکا ہوا دیکھا ۔ سو آپ نے اسے توڑ کر باہر پھینک دیا، اس سے معلوم ہوتاہے کہ کہ مشرکینِ عرب کے ہاں جو طرح طرح کے بت تھے، ان میں ایک بت ''فاختہ‘‘ کی صورت کا بھی تھا، لہٰذا اس کا مشرکانہ عقائد سے بھی یقینا تعلق ثابت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی اس فکری کاوش کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اُن اصطلاحات، استعارات وتلمیحات اور محاوروں کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے جن کا ایک خاص پس منظر ہے اور اس کے ڈانڈے اخلاق باختگی ، بدکاری اور الحاد وشرک سے ملتے ہیں اور ہمارے اظہارِ مافی الضمیر کے لئے اور کئی طریقے ہیں ، لہٰذا یہ ہماری کوئی مجبوری بھی نہیں ہے۔ سو میں اُن کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ ''امن کی فاختہ‘‘ کا استعارہ استعمال نہیں کروں گا۔
اسی طرح انہوں نے ''More Pious than the pope‘‘یعنی پوپ سے بھی زیادہ پارسا والے محاورے کو بھی قابلِ اعتراض قرار دیا ہے کہ اس سے پوپ کے پارسا ہونے کا تأثُّر ابھرتا ہے، اُن کی یہ بات بھی درست ہے، ہم اپنے مفہوم کو ''شاہ سے بھی زیادہ شاہ کے وفادار ‘‘ کے محاورے سے بھی ادا کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالے میں ایک عرب عالم کا حوالہ دیا کہ وہ اپنے جمعے کے خطاب میں نہایت شدّومد سے ہر بات کو بدعت اور شرک قرار دے رہے تھے اور ''صلوٰۃ الجمعہ‘‘ کے لئے Friday Prayerکے کلمات استعمال کررہے تھے، حالانکہ اہلِ مغرب نے دنوں اور مہینوں کے نام بھی یونانی دیومالائی پسِ منظر سے دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر رکھے ہیں ۔ چنانچہ Friday کا نام فریہ (Freya)دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے اور اس لحاظ سے Friday Prayerکے معنی ہوں گے :''فریہ دیوی کی عبادت‘‘ اس پر میں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر انگریزی میں خطبہ دینے والے علمائِ کرام ''صلوٰ ۃُ الجمعہ ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کردیں تو ہمارے انگلش اسپیکنگ مسلمانوں کی زبان پر بہت جلد یہ اصطلاح رائج ہوسکتی ہے، یہی صورت ِ حال ہماری دوسری شرعی اصطلاحات کی ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالے کو ان احادیثِ مبارکہ سے مزین کیا ہے، جن کی رو سے مذاہبِ باطل سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔ میں نے ان کے دینی جذبے کی تحسین کی اور اُن سے گزارش کی کہ ذرا ہاتھ نرم رکھیں،کیونکہ ان چیزوں میں ''تشبُّہ بالمذاہب الباطلہ‘‘ یقینا حرام ہے، جو آج بھی ان مذاہب کے شِعار یعنی امتیازی علامت کے طور پر معروف ہیں ، جیسے مسیحیوں کی صلیب اور ہندوؤں کے زُنّار وغیرہ۔ لیکن جو چیزیں مذہبی شِعار کے طور پر معروف نہیں ہیں ، جیسے ایام اور مہینوں کے نام وغیرہ ، اُن پر حرمت کا اطلاق تو نہیں ہوگا، مگر جس حدتک ان سے اجتناب ممکن ہو اور ابلاغ میں دشواری نہ ہو ، ضرور کرناچاہئے۔ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی ہوگی ، ان شاء اللہ ۔