تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     26-01-2015

پولیس اور نیشنل ایکشن پلان

ہنری فورڈ وہ شخص تھا جس نے انیسویں صدی کے آخر میں خواب دیکھا تھا کہ وہ ایک ایسی کار تیار کرے گا جس کی قیمت عام آدمی کی دسترس میں ہوگی۔ اس خواب کی تعبیر تلاش کرنے کے لیے اس نے اپنے گھر کے سٹور روم کا انتخاب کیا جہاں وہ گھر کے دوسرے لوگوں کو تنگ کیے بغیر یکسوئی سے کام کرسکتا تھا۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر اس نے پرزہ پرزہ جوڑ کر کار بنانے کا کام شروع کیا۔ اپنی محدود آمدنی میں سے پیسے اور نوکری سے وقت نکال کر اس نے آخرکار ایک ایسی گاڑی تیار کرلی جو اس کے خیال میں عام آدمی کی ضروریات پوری کرسکتی تھی۔ جب گاڑی تیار ہوئی تو وہ دونوں ذہین و فطین انجینئرز اس وقت حیران رہ گئے جب انہیں معلوم ہوا کہ چھوٹے بڑے پرزے جوڑ کر انہوں نے جو کار بنائی ہے وہ سٹور روم کے درواز ے سے باہر آہی نہیں سکتی۔ا ب ان کے سامنے دو راستے تھے، پہلایہ کہ سٹور روم کی دیوار گرادی جائے اور دوسرا یہ کہ کار کو کھول کر اس کے پارٹس باہر صحن میں رکھ کر دوبارہ جوڑے جائیں۔ ان دونوں نے اپنی محنت بچانے کا فیصلہ کیا اور دیوار گرا کر گاڑی باہر نکال لی۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلے پانچ سال تک ہنری فورڈ کے پاس اتنے پیسے نہ ہوسکے کہ وہ سٹور روم کی دیوار بنوا سکے۔ وہ وقت بھی آیا کہ جب وہ دنیا کا امیر ترین آدمی بن گیا لیکن اس واقعے سے اس نے یہ سیکھ لیا کہ کچھ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے ورنہ آپ کا ہر منصوبہ آپ کی اپنی کھڑی کی ہوئی دیوار وں میں
ہی قید رہے گا۔بالکل ایسے جیسے ہماری سیاسی قیادت نے بے پنا ہ غور وفکر کے بعد دہشت گردی کے خلاف ایک متفقہ ایکشن پلان تیار کیا ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز کردی کہ ہماری اجتماعی ذہانت کے اس نمونے پر عمل درآمد تو ریاست کے انہی اداروں نے کرنا ہے جنہیں گزشتہ کئی سالوں کی غفلت اور سیاسی استعمال نے کسی قابل نہیں چھوڑا۔ ہماری نااہلی کی دیواروں نے اس گاڑی کا راستہ روک رکھا ہے جو ہم نے بڑے شوق سے بنا تو لی ہے مگرسڑک پر لانے سے قاصر ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے بیس میں سے بارہ نکات تو پالیسیوں کے بارے میں ہیں جبکہ آٹھ نکات ایسے ہیں جن پر عمل کے لیے حکومت کو پولیس کی ضرورت ہوگی۔دیکھا جائے تو پالیسیاں بھی اپنے نفاذ کے لیے کہیں نہ کہیں پولیس کی محتاج ہوں گی لیکن اس پلان میں کراچی، پنجاب، کالعدم تنظیموں پر پابندی اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کے بارے میں دیے گئے نکات تو خالصتاََ پولیس کے احاطۂ کار میں آتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا اعلانِ جنگ اپنی جگہ لیکن عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ چاروں صوبوں کی پولیس مناسب ہتھیاروں سے لیس ہے نہ تربیت یافتہ ہے۔ کہنے کو یہ کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان میں (اوسطاََ) ہر پانچ سو افراد کے لیے ایک پولیس والا 
موجود ہے اور اس معیار پر پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کے برابر ہی ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں پویس کو وہ کچھ نہیں کرنا پڑتا جو ہماری پولیس کی ذمہ داری بنا دیا گیا ہے۔ پروٹوکول، اہم شخصیات کی حفاظت، مساجد، امام بارگاہوں اور اب سکولوں پر اس کی تعیناتی نے پولیس کی طاقت کو اتنے محاذوں پر تقسیم کردیا ہے کہ عملی طور پر یہ فورس کہیں بھی مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہی۔اتنے پھیلاؤ کے بعد پولیس کا اصل کام یعنی جرائم کی تفتیش اور سراغ لگانا اتنا متاثر ہوا ہے کہ اب تھانوں میں چوری، ڈکیتی یا راہزنی کی واردات اس وقت تک اہم سمجھی ہی نہیں جاتی جب تک اس میں کوئی قتل نہ ہوا ہو۔ ایک پولیس افسر سے بات ہوئی توبتانے لگا کہ ایک دن میں دو احتجاجی مظاہرے، ایک مذہبی ریلی، تین بار پروٹوکول کے لیے سڑک پر اپنی نفری لگانے اور علاقے کے گشت کے بعد ہمارے پاس وقت ہی نہیں بچتا کہ کسی دوسرے کام کے بارے میں سوچ بھی سکیں۔ 
پولیس جو دہشت گردی کے سامنے پہلی دفاعی صف ہے‘ اس کے وسائل کا اندازہ یوں لگائیے کہ لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کی سرکاری جیپ کی حالت یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ اس کا انجن بند کردیا جائے تو دوبارہ چلانے کے لیے بونٹ کھول کر صاحب کا گارڈ کسی مخصوص پرزے کو چھیڑتا ہے اور ڈرائیور اندر سے چابی گھما کر اسے سٹارٹ کرتا ہے۔ اسی گاڑی پر صاحب نے گشت پر بھی جانا ہے ، ملزموں کو پکڑنے کی کوشش بھی کرنی ہے اور سرکاری اجلاسوں میں شرکت بھی یقینی بنانی ہے۔ تھانوں کے پاس جو گاڑیاں ہے ان کی حالت دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ صرف جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہ گاڑیاں اتنی بوسیدہ ہوچکی ہیں کہ کوئی پولیس والا احمق ہی ہوگا جو ان میں بیٹھ کر کسی کا پیچھا کرے گا۔ سو فیصد نہ سہی ننانوے فیصد گاڑیاں ضرور ایسی ہیں جو بغیر دھکے کے سٹارٹ نہیں ہوسکتیں اور جو نئی ہیں وہ پروٹوکول ڈیوٹی پر رہتی ہیں ، جب چل چل کر تھک جاتی ہیں تو پھر تھانوں میں بھیج دی جاتی ہیں جہاں اس طرح کے مردے پہلے ہی اپنی تدفین کے انتظار میں گھسٹ رہے ہیں۔ 
اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہماری پولیس اپنی بساط سے بڑھ کر کام کررہی ہے لیکن اس کے عوض جو کچھ اسے مل رہا ہے اس میں گالیوں کے سواکوئی چیز قابل ذکر نہیں۔ سیاسی حکومت اپنی پولیس کو امریکی اور برطانوی معیارپر دیکھنا چاہتی ہے مگر جب میڈیا حسبِ عادت پولیس پر دباؤ ڈالتا ہے تو حکومت بغیر کسی تحقیق کے پولیس والوں کو معطل کرکے اس دباؤ سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ آپ کو لاہور میں نابینا ؤں پر 'بہیمانہ تشدد‘ کا واقعہ تو یاد ہوگا، اس واقعے کی میڈیا رپورٹنگ اس واقعے کے ایک پہلو تک محدود رہی یعنی یہ کہ پولیس والوں نے ان لوگوں کو مال روڈ پر آنے سے قوت کے زور پر روکا۔ دوسرا پہلوجو کسی کو معلوم نہ ہوسکا‘ وہ یہ تھا کہ جس ایس ایچ او پر بہیمانہ تشدد کا الزام تھا درحقیقت وہی انہیں لے کر سیکرٹریٹ میں متعلقہ افسران سے ملوا کر لایا تھا ۔ جب وہ ان لوگوں کو لے کر مال پر پہنچا تو نابیناؤںکو ایک آنکھوں والے نے بہلا پھسلاکر احتجاج پر آمادہ کرلیا ، جس کے بعد پولیس والوں نے انہیں کھینچ کھانچ کر ایک طرف کیا تاکہ ایشین پارلیمنڑی کانفرنس کے مندوبین کے لیے راستہ کھلا رہے۔ جیسے ہی پولیس نے اپنا کام کیا، میڈیا نے دہائی دی اور حکومت پولیس والوں کو معطل کرکے ایک طرف ہوگئی۔ اب کون کم بخت ہوگا جو پولیس میں رہ کر اپنا کام کرے گا اور احتجاج کو قانون کی حدود میں رکھنے کی ذمہ داری لے گا؟ جب ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کام کرنے والی ہماری پہلی دفاعی لائن کا حال یہ ہو تو پھر ہم اپنے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے ہر روز بھی اجلاس بلا لیں نتیجہ وہی نکلے گا اور نیشنل ایکشن پلان نااہلی کی دیوار میں ہی دم توڑ جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved