میں تو موجودہ حکومت کی دانش و حکمت سے متاثر ہو کر‘ یہ ماننے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ پاکستان کے سارے بحران میڈیا کی پیداوار ہیں۔ پٹرول کی قلت‘ بلیک مارکیٹنگ اور پٹرول پمپوں پر ضرورت مندوں کی قطاریں‘ سب میڈیا کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں۔ وزیرپٹرولیم نے تو کمال جرأتمندی اور شائستگی کامظاہرہ کرتے ہوئے‘ واضح طور سے کہہ دیا کہ ''سارا ہنگامہ بوتل والے بھکاریوں نے کھڑا کیا۔‘‘ انہوں نے بلاوجہ ہاتھوں میں بوتلیں پکڑ کے‘ پٹرول پمپوں پر قطاریں لگائیں اور میڈیا میں شور مچ گیا کہ شیرپٹرول پی گیا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر بہتان ہے۔ ن لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں آٹے کی قلت پر ایک اخبار نے سرخی لگائی تھی کہ ''شیرآٹا کھا گیا۔‘‘ یہ سرخی مرحوم عباس اطہر نے جمائی تھی، لیکن اس مرتبہ کسی اخبارنویس کو طبع آزمائی نہیں کرنا پڑی۔ بوتل والے بھکاریوں نے خود ہی کہنا شروع کر دیا ''شیرپٹرول پی گیا۔‘‘ مگر میں یہ ماننے کو ہرگز تیار نہیں۔ نہ تو شیر نے آٹا کھایا تھا اور نہ ہی شیر‘ پٹرول پیتا ہے۔ کوئی الزام لگانے والوں سے پوچھے کہ شیر‘ سستا سا آٹا کیوں کھائے گا؟ جبکہ وہ جنگل کا بادشاہ ہے اور بہترین سے بہترین شکار سے اپنا پیٹ بھر سکتا ہے۔ اسی طرح پٹرول کا الزام بھی‘ بوتل والے بھکاریوں کے بھوکے ذہن کی پیداوار ہے۔ شیرپاگل ہے کہ پٹرول پیئے؟ اربوں روپے کی موٹرویز تعمیر کرنے کا اختیار شیر کے پاس ہے۔ جنگلہ بسوں کا انفراسٹرکچر کھڑا کرنے پر شیر کا اختیار ہے۔ بجلی گھر بنانے پر شیر کا اختیار ہے۔ ریلوے انجن اور ڈبے خریدنا ‘شیر کی مرضی پر منحصر ہے۔ پلاٹوں کی لاٹیں شیر کے اختیار میں ہیں۔ بڑے بڑے درآمدی اور برآمدی کرشمے دکھانا‘ شیر کی مرضی پر منحصر ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ اور بہترین گوشت ‘ شیر اپنی طاقت کے بل بوتے پر شکار کر کے کھا سکتا ہے۔ شیر کو کیا پڑی کہ وہ خرگوشوں‘ چوہوں اور بھوک کے مارے لوگوں کا شکار کرے؟
شیر کی غلطی صرف اتنی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جنگل میں جیسے چاہیں شکار کر لیں، لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے درباریوں میں گیدڑوں اور گدھوں کی اکثریت ہے۔وہ شیر کے چھوڑے ہوئے شکار کی بچی بچائی بوٹیاں نوچ کھاتے ہیں اور جو کچھ ان سے بچتا ہے‘ اس پر گدھ حملے کر کے ہڈیوں پر‘ چمٹی ہوئی جھلیاں تک نوچ کھاتے ہیں۔ شور اسی چیز پر برپا ہے۔ پاکستان کے جنگل میں پہلے بھی بہت سے شیر آئے۔ کونسا شیر ہے‘ جس نے شکار نہ کھیلا ہو؟ لیکن ان کا دبدبہ اتنا تھا کہ درباری اندھادھند شکار کھیلنے سے ڈرتے تھے۔ کچھ نہ کچھ کمزوروں اور بھوکوں کے لئے بچ رہتا تھا اور وہ ہڈیاں چچوڑ کر اور انتڑیاں کھا کے گزارا کر لیتے تھے۔ اب تو درباری اور حواری غریبوں کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑتے۔ غضب خدا کا ‘ پٹرول کے خریدار اس کی قیمت اور قیمت کے برابر حکومت کا نفع‘ کیش دے کر پٹرول خریدتے ہیںاور پٹرول فروخت کرنے والوں کا نفع بھی نقد دیتے ہیں، اس کے باوجود عوام سے نفعے کے ساتھ کی ہوئی یہ وصولی‘ پتہ نہیں کہاں جاتی ہے؟ کیا تیل سپلائی کرنے والی کمپنیاں اور پی ایس او‘ سوفیصد وصول کردہ قیمت اور نفع میں سے حکومت کو کچھ نہیں دیتیں؟ پی ایس او کی طرف دیکھیں‘ تو وہ روتی نظر آتی ہے کہ اس سے پٹرول لینے والے سرکاری ادارے‘ قیمت ادا نہیں کر رہے۔ پٹرول سپلائی کرنے والے ادارے اور کمپنیاں بڑے بڑے بل بنا کر بلیک میل کرنے لگتے ہیں کہ انہیں خریدی ہوئی بجلی کی قیمت ادا نہیں کی جا رہی۔ یہ کیسا گورکھ دھندہ ہے کہ سب روتے بھی جا رہے ہیں‘ کھاتے بھی جا رہے ہیں اور جب کسی کے پاس تیل خریدنے کے لئے پیسہ نہیں رہتا ‘تو وہ سپلائی کرنے سے انکارکر دیتا ہے اور تیل کی
مارکیٹنگ کا ذمہ دار حکومتی ادارہ پی ایس او دہائی دینے لگتا ہے کہ بنکوں نے ان کی ایل سی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، ہم تیل خرید ہی نہیں سکتے‘ تو بازار میں سپلائی کیسے کریں؟ کیا یہ گورکھ دھندہ آپ کی سمجھ میں آ رہا ہے؟ اور کیا حکمرانوں نے شہریوں کو اب تک پتہ چلنے دیا ہے؟ کہ وہ تو تیل کی پوری قیمت اور اوپر سے نفع دے کر نقد خریداری کر رہے ہیں۔ پھر یہ پیسہ سپلائر کے پاس کیوںنہیں پہنچتا؟ اگر کسی میں مہارت ہے‘ تو وہ یہ سراغ لگا کر بتا دے کہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ میں نے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ جب لوگوں کو انتہائی مہنگی بجلی دے کر‘ ان سے پورا بل وصول کیاجاتا ہے۔ ضرورت سے کم گیس فراہم کر کے‘ قیمت وصول کر لی جاتی ہے۔ پٹرول کا ایک ایک لٹر بیچتے ہوئے‘ نقد بل لیا جاتا ہے‘ تو پھر عوام کو کئی کئی گھنٹے اور بعض اوقات کئی کئی دن‘ توانائی سے محروم رکھ کر سزا کیوں دی جاتی ہے؟ پاکستان میں بڑے بڑے قابل وکیل پڑے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکمران شیروں نے جو دھاندلی مچا رکھی ہے‘ اس کے خلاف کوئی عدالت میں کیوں نہیں جاتا؟ وہ یہ فریاد کیوں نہیں کرتا کہ جب ہمارے عوام ہر چیز کی قیمت دیتے ہیں‘ تو پھر انہیں توانائی فراہم کرنے سے انکار کیوں کیا جاتا ہے؟ زیادتی کی انتہا یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ آدھے سے بھی کم رہ گئے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ سے زیادہ مہنگے نرخوں پر پٹرول بیچ کر ‘ کیوں کہا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس خریداری کے لیے پیسے نہیں؟ دنیا میں سب سے مہنگی بجلی بیچ کر‘ ڈنڈے سے وصولیاں کرنے کے باوجود‘ اس عذر پر لوڈ شیڈنگ کیوں کی جاتی ہے کہ ہم پر گردشی قرضوں کا بوجھ ہے؟ ان گردشی قرضوں کے عوام کیسے ذمہ دار ہو گئے؟ جب وہ ہر چیز کی پوری قیمت اداکرتے ہیں‘ تو انہیں انرجی سے کس جرم میں محروم رکھا جاتا ہے؟ یہ گردشی قرضے کیوں بنتے ہیں؟ کون عوام کی ادا کردہ قیمتیں ہضم کر کے‘ بجلی کمپنیوں کے واجبات ادا نہیں کرتا؟ کہیں یہ الزام درست تو نہیں کہ حکومت اور پاور پلانٹ والوں نے ملی بھگت کر رکھی ہے۔ ایک دھاندلی تو پاور پلانٹ والوں نے حکومت کے ساتھ معاہدوں کی شرائط میں بھی کر رکھی ہے۔ ان شرائط کے تحت ‘ حکومت پاور پلانٹ کی پوری گنجائش کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہے۔ یعنی وہ بجلی خریدے یا نہ خریدے‘ پاور کمپنی کو اس کی پیداواری صلاحیت کے مطابق بل ادا کرے گی۔ کیا ایسا تو نہیں ہوتا کہ حکومتی کارندے‘ پاور کمپنیوں سے آدھی بجلی خرید کر ‘ معاہدے کی آڑ میں پوری بجلی کا بل بناتے ہوں؟ اس طرح کمپنیاں آدھی بجلی پیدا کر کے‘ پوری کی قیمت وصول کرتی ہوں؟ اور اس کھیل میں بجلی خریدے بغیر جو اربوں روپے ادا کئے جاتے ہیں‘ ان میں سے آدھا حکومتی کارندے کھا جاتے ہوں اور آدھا بجلی کمپنیوں والے؟ ظاہر ہے‘ ایسی صو رت میں عوام پوری بجلی کی قیمت ادا کرتے ہیں جبکہ پاور پلانٹس کو وصول شدہ رقم کا نصف حصہ دے کر‘ باقی حکومت کے ذمے رہ جاتا ہو۔ یعنی درمیان میں جو 50فیصد رقم سرکاری اہلکاروں اور بجلی کمپنیوں کے مالکان نے خردبرد کر لی ہو‘ وہ حکومت کے ذمے واجب رہ جاتی ہو اور یہی واجب الوصول رقم جمع ہوتے ہوتے چار پانچ سو ارب روپے کے گردشی قرضے میں بدل جاتی ہو اور اس کے بعد بجلی کی سپلائی میں کمی کر کے‘ حکومت کے گلے پہ انگوٹھا رکھ کر وہ رقم بھی اس سے وصول کر لی جاتی ہو‘ جو اصل میں عوام نے ا دا کر دی ہوتی ہے اور وصول کنندہ کو آدھی ملتی ہے اور باقی خردبرد ہو جاتی ہے۔ عوام کے ساتھ برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ چونکہ اس خردبرد میں سب کا اپنا اپنا حصہ ہے، لہٰذا جو اس کرپشن کو پکڑنے کے ذمہ دار ہیں‘ وہی اس کرپشن سے فیض یاب بھی ہو رہے ہیں۔ اسی لئے میں نے گزشتہ روز بتایا تھا کہ ٹھگوں کے گائوں میں ٹھگا ہوا مال پکڑا کیسے جائے؟ سارے کا سارا گائوں تو اس ٹھگی میں حصے دار ہوتا ہے۔
جس حکومت پر ووٹوں میں ٹھگی مار کے اقتدار ہتھیانے کا الزام ہو‘ اس سے آپ خیرکی امید کیا رکھ سکتے ہیں؟ آج کی خبر پڑھ کے تو میں مزید حیرت میں ڈوب گیا ۔ ہم پہلے ہی مہنگائی اور قلت کا سیاپا کر رہے ہیں کہ اوپر سے ہمیں سمدھیاپا بھی پڑ گیا۔ سمدھیاپا یہ ہے کہ عزت مآب سمدھی صاحب نے حکم جاری کیا ہے کہ جو گردشی قرضہ حکومت کے ذمے ہو چکا ہے‘ اسے بھی بجلی کے صارفین کے بلوں میں ڈال کر عوام سے وصول کر لیا جائے۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ گردشی قرضہ اس غبن شدہ رقم کا ہے‘ جو عوام سے وصول کر کے‘ بجلی فراہم کرنے والوں کو ادا نہیں کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت وہ رقم خردبرد کرنے والوں سے وصول کرے، لیکن دھاندلی سے آئی ہوئی حکومت کا مزید دھاندلایہ ہے کہ حکومتی اہلکاروں کی خردبرد کی ہوئی رقم بھی بے گناہ عوام سے وصول کی جائے گی۔ پہلے تو عوام صرف سیاپا کرتے تھے۔ اب سمدھیاپا بھی کرنا پڑے گا۔ جائیں تو کدھر جائیں؟