مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ ریاستی انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہ مل سکنے کی وجہ سے حکومت سازی کے بحران نے ریاست کو گورنر راج کے نفاذ کی جانب دھکیل دیا۔ کل 87 نشستوں میں سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے 28، بھارتیہ جتنا پارٹی نے 25، نیشنل کانفرنس نے15، انڈین نیشنل کانگریس نے 12 اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے ایک جبکہ آزاد امیدواروں یا مقامی جماعتوں نے چھ نشستیں حاصل کیں۔ کسی بھی جماعت کو حکومت سازی کے لیے 44 اسمبلی ممبران کی حمایت درکار ہے۔ 2002ء اور 2008ء کے بعد 2014ء کے انتخابات میں مسلسل تیسری بار کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل پائی۔
مقبوضہ کشمیر سیاسی حوالے سے تین حصوں۔۔۔۔ وادی، جموں اور لداخ پر مشتمل ہے۔ ان تینوں حصوں میں بھارتی قبضے کے حوالے سے ردعمل کی نوعیت بھی مختلف ہے، لیکن حالیہ انتخابات میں سب سے بڑی تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ تنگ نظر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود عوام نے یہ کہتے ہوئے ووٹ ڈالے کہ ''ہمیں آزادی چاہیے مگر ووٹ بھی ڈالیں گے‘‘۔ کشمیر کے کئی ایسے علاقے تھے جہاں نوجوانوں کے مظاہروں کی وجہ سے 2014ء میں لوک سبھا کے انتخابات تعطل کا شکار ہوئے لیکن اس کے بالعکس حالیہ ریاستی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح مجموعی طور پر 66 فیصد رہی۔ ''تہلکہ‘‘ جریدے کے نمائندے ریاض وائیں کی رپورٹ کے مطابق ''سیلورہ کے رہائشی امین شیخ کاکہنا تھا کہ علیحدگی کی سیاست کی اپنی اہمیت ہے مگر بیروزگاری، سڑکوں کی پختگی، بجلی و پانی جیسے بے شمار بنیادی مسائل کو کون حل کرے گا؟
بارہ مولا، سوپور، اننت ناگ، سوناوری اور بانڈی پورہ کے علاقوں میں سیکڑوں نوجوانوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر یہ بتایا کہ وہ 2010ء کی تحریک کا حصہ تھے اور جن مسائل کے حل کے لیے انہوں نے وہ تحریک چلائی تھی انہیں کے حل کی امید میں وہ ووٹ ڈال رہے ہیں لیکن ووٹ دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ وادی میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں بے پناہ اضافے کی دوسری اہم وجہ بی جے پی کی جارحانہ انتخابی مہم تھی۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں بی جے پی کے +44 منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے نوجوانوں اور محنت کش عوام نے انتخابی مہم میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہوئے بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔
جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں سے بی جے پی کی بھاری فتح جہاں مذہبی فرقہ پرستی کے سیاسی استعمال کے باعث ہے، وہیں کارپوریٹ میڈیا کے اس تاثر کا کمال بھی ہے جس کے تحت عام لوگ نریندر مودی سے اپنے بنیادی مسائل کے حل کی امید وابستہ کر رہے ہیں۔ جموں میں مودی کے جلسوں میں ہزاروں ایسے لوگ شریک ہوتے تھے جو بی جے پی کے صرف ایک لیڈر، یعنی مودی کو ہی جانتے تھے۔ بعض تو اپنے حلقے سے انتخاب لڑنے والے بی جے پی کے نمائندے کا نام تک نہیں جانتے تھے۔ وفاقی حکومت کے بے پناہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے بی جے پی نے کشمیر کی تاریخ کی سب سے مہنگی انتخابی مہم چلائی۔ مودی نے پانچ دن میں کشمیر کے نو دورے کیے۔ جموں کے جلسوں میں بی جے پی نے مذہبی منافرت کو اُبھارنے کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 370 (جو کشمیر کی مخصوص حیثیت کا ضامن ہے) کو ختم کرنے کی بھی پُرجوش بڑھک بازی کی۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو جموں میں بی جے پی کی فتح، ہندو بنیاد پرستی کے اُبھار کی بجائے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اس عمومی گھن چکر کی عکاس ہے‘ جس میں ایک پارٹی سے مایوسی لوگوں کو کسی حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں حکمران طبقے کے دوسرے سیاسی دھڑے کو آزمانے پر مجبور کرتی ہے۔
سب سے زیادہ 28 نشستیں لینے والی پی ڈی پی کی بنیاد 1999ء میں محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے رکھی تھی۔ ہندوستان نواز پارٹیوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کے پیش نظر کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے ''اعتدال پسندانہ‘‘ پروگرام کے لبادے میں مفتی محمد سعید کو 1989ء میں وی پی سنگھ کی مخلوط حکومت کے دوران ہندوستان کے پہلے مسلمان وزیر داخلہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو پی ڈی پی کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد کوئی نئی بات نہیں لیکن اس اتحاد میں رکاوٹ بی جے پی کا آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے حوالے سے سخت گیر موقف ہے‘ جس کے رد عمل میں ہی پی ڈی پی کو ووٹ پڑے ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے پی ڈی پی کے اندر ایک بڑی پھوٹ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ اگر بی جے پی سے اتحاد کی مخالفت کرنے والے ممبران کو راضی کر بھی لیا گیا تو یہ مخلوط حکومت وادی میں سے پی ڈی پی کی سماجی بنیادوں کا صفایا کر دے گی۔ اس مجوزہ اتحاد کو پی ڈی پی کے لیے خود کشی قرار دیا جا رہا ہے۔
11 نشستوں کے ساتھ حکومت سازی کی حسابی مساوات میں کانگریس کی قدر و قیمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیشنل کانفرنس بھی شرمناک شکست کے بعد 'انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بی جے پی کی قیادت کو جموں سے ملنے والی کامیابیوں کی مصنوعی اور عارضی بنیادوں کا پورا احساس ہے، اسی لیے وہ ہر حال میں حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں تا کہ حکومتی طاقت، اختیارات اور وسائل کے زور پر اس مصنوعی کامیابی کو مستحکم کیا جائے۔ بی جے پی کی قیادت آرٹیکل 370 کے خاتمے کے موقف پر قائم رہتے ہوئے پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانا چاہتی ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد نہ صرف کشمیر کی زمین اور وسائل مختلف سامراجی کمپنیوں کو لوٹ مار کے لیے دیے جا سکتے ہیں بلکہ کشمیر کی مسلم اکثریتی علاقے کی حیثیت کو بھی ہندوئوں کی آباد کاری کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔
قومی یا مذہبی تعصب اور انفرادی دہشت گردی پر مبنی تحریک آزادی کے زوال کے بعد 2010ء میں جنم لینے والی سنگ بازوں کی تحریک جس طبقاتی شعور کی نمائندگی کر رہی تھی وہ برصغیر اور خاص طور پر ہندوستانی حکمران طبقات کے لیے موت کا ایک پیغام تھا۔ اس تحریک کے دوران اور بعد میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں جن بنیادی مسائل کو اٹھایا گیا اس کے نتیجے میں جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی مظاہرین کے لیے ہمدردی کے جذبات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی لیے بی جے پی انتہائی جارحانہ مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دے کر اس طبقاتی جڑت کو زائل کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔
آنے والے دنوں میں کشمیر میں کسی بھی قسم کی حکومت تشکیل پائے، وہ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل حل نہیں کر پائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے زوال کے پیش نظر حکمران محنت کشوں کے استحصال کو شدید تر کریں گے تو دوسری جانب ہر قسم کے مذہبی، لسانی، قومی، علاقائی اور رنگ و نسل کے تعصبات کو فروغ دینے کی کوشش کریںگے۔ کشمیری عوام کو سرمایہ داری کے جبر کی موجودگی میں کبھی حقیقی حق خودارادیت نہیں مل سکتا۔ نہ تو اقوام متحدہ یا یورپی یونین جیسے سامراج کے گماشتہ اداروں کے ذریعے اور نہ ہی پاکستان و بھارت کے عوام دشمن حکمران طبقات کے ''مذاکرات‘‘ کے ذریعے۔ گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی ہر جدوجہد پورے برصغیر کے محنت کشوں کی جدوجہد ہے۔ اگر کشمیری نوجوان انقلابی سوشلزم کے نظریات کو سیکھتے اور پھیلاتے ہوئے ہمالیہ کی فلک بوس بلندیوں سے سوشلسٹ انقلاب کے پرچم کو لہراتے ہیں تو نہ صرف برصغیر بلکہ پورے دنیا کے محنت کش اس پرچم کو تھامنے کیلئے ہماری توقعات سے زیادہ تیزی سے پیش قدمی کریں گے۔