امریکہ میں دورانِ سفر بعض اوقات کسی میزبان کے ڈرائنگ روم میں پاکستان کے ٹیلی وژن چینلز کی سرخیاں (Headline News) دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ آج سننے کو ملا کہ پنجاب گورنمنٹ نے لازم قرار دیا ہے کہ شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہات تک آئمہ و خطباء اپنے خطبات کی تحریری نقول اور آڈیو کیسٹ یا وڈیو سی ڈیز ضلعی انتظامیہ کے پاس جمع کرائیں گے۔ اس سے بالواسطہ طور پر یہ بھی لازم قرار پایا کہ ہر مسجد، محفل درس اور مجلسِ وعظ و تذکیر میں ریکارڈنگ کا انتظام ہونا چاہئے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ یہ انتظام بھی کر لیا گیا، تو حکومت کو اس کے لئے ایک بہت بڑا سیکرٹریٹ اور ریکارڈ روم قائم کرنا ہو گا، پھر ہر خطبے کے تفصیلی مطالعے اور ہر آڈیو کیسٹ اور سی ڈی از اول تا آخر سننے کے لئے بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ عملہ رکھنا ہوگا۔ ایک آدمی روزانہ کتنے خطبات کا مطالعہ کر سکے گا اور کتنی سی ڈیز سن سکے گا، یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ اس نے قابلِ اعتراض مواد کا ریکارڈ بھی مرتّب کرنا ہوگا، پھر اُس کے قابلِ اعتراض قرار پانے یا نہ پانے پر علمی بحثیں ہوں گی۔
ہماری انتظامی صلاحیت کا عالم یہ ہے کہ ہم قومی انتخابات کے ریکارڈ کو درست طریقے سے محفوظ رکھنے میں ناکام ہیں، حالانکہ اس کے بارے میں یہ اندیشہ موجود رہتا ہے کہ انتخابات میں شکست کھانے والے امیدوار اسے عدالت اور ٹرائبونل میں چیلنج کر سکتے ہیں اور وکلا بال کی کھال اتارنے میں مہارتِ تامّہ رکھتے ہیں، تو اسے تو ہر حال میں قواعد و ضوابط کے مطابق محفوظ رہنا چاہئے۔ مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے اور آج کل اس کے شواہد بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان شواہد کو بنیاد بنا کر تحریکِ انصاف یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ پورے انتخاب ہی کو کالعدم قرار دیا جائے، اس کے برعکس انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے برسرِ اقتدار آنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابی عملے نے کسی جگہ بدانتظامی، نااہلی یا غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، تو اس کی سزا انتخاب جیتنے والے امیدوار کو کیوں ملے کہ ''کرے کوئی اور بھرے کوئی اور‘‘۔
سو ہماری گزارش یہ ہے کہ قانون ایسا بننا چاہئے جو محض کتاب کی زینت نہ بنے اور نہ ہی دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کی طرح گونگا اور بہرا ہو کہ ''کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ کا مصداق قرار پائے۔ چنانچہ حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے بھی اس کی تعبیروتشریح (Interpretation) سے دامن کھینچ لیا۔ سو قانون واضح اور قابلِ عمل ہونا چاہئے۔ ہمارے نزدیک اس کی صورت یہ ہے کہ ایک مؤثر اور فعال شکایت سیل (Complaint Cell) ہو، جہاں لوگ کسی بھی خطیب اور مقرر کے بارے میں ثبوت و شواہد کے ساتھ شکایت درج کریں۔ شکایت کنندہ کی ذمہ داری ہو کہ وہ یہ ثبوت سی ڈی یا آڈیو کیسٹ کی صورت میں پیش کرے، ہو سکے تو دو گواہ بھی ساتھ پیش کرے، ہر ایک کو کسی بھی مذہبی مجلس میں ریکارڈنگ کی عام اجازت ہو اور مذہبی منافرت پر مبنی خطابات ثابت ہونے پر عدالت سزا دے، اسی طرح اس کلچر کا سدِّباب ہو گا۔ سب جانتے ہیں کہ اس کلچر کے فروغ میں معاشی مفادات شامل ہیں، اس کے لئے لازم ہے کہ اس طرح کی مجالس کی انتظامیہ کو بھی شریکِ جرم قرار دیا جائے۔ ہمارے ہاں مختلف المسالک پیشہ وَر واعظوں اور خطباء کی ساری صنعت اسی پر قائم ہے، تاہم اگر کوئی حکومت اور انتظامیہ اپنی حکمت اور دانشمندی سے اس کلچر پر روک ٹوک عائد کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بسا غنیمت ہے، اس کا فائدہ دین کو بھی پہنچے گا اور پورے معاشرے کو بھی، ہو سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہمارے واعظین اور خطباء عقیدے اور عمل کی اصلاح اور اصلاحِ معاشرہ کو اپنا موضوع بنائیں، اخلاقی و معاشرتی مفاسد پر اپنی توجہ مرکوز کریں، لوگوں میں خوفِ خدا اور فکرِ آخرت پیدا کریں‘ ہم بتدریج ایک بہتر اَخلاقی فضا اور اَخلاقی اَقدار کا حامل معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں اور ہمارے اندر سے کرپشن کا ناسور ختم ہو اور دولت و ثروت و جاہ و منصب سببِ تکریم بننے کی بجائے، دیانت و امانت، صداقت و شجاعت، ایثار و قربانی اور علم و عمل کی اقدار کے حاملینِ عزت و تکریم کے حق دار قرار پائیں۔
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک معاشرتی خرابی کا علاج کرنے بیٹھتے ہیں، تو اصل نکتے اور مرکزیّے پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے دائرہ کار کو اتنا پھیلا دیتے ہیں کہ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کریں اور کہاں جاکر ختم کریں؛ چنانچہ ہم ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتے ہیں اور بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں ۔ بیوروکریسی مسائل کو سُلجھانے کی بجائے اُلجھانے میں مہارت رکھتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ لگتا ہے ہم نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے اور اب دامن کو بچانا اور بساط لپیٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ چلے تھے ایک دشمنِ جان و ایمان کو ختم کرنے اور اس سعیِ لاحاصل کے نتیجے میں کئی اور دشمن پیدا کر لیے، کیونکہ ہمارے ہاں خیر کی قوتوں کا مجتمع ہونا تو امرِ دشوار ہوتا ہے، مگر شر کی قوتّوں کا اجتماع نہایت آسان ہوتا ہے، اسی لئے ''امر بالمعروف‘‘ سے ''نہی عن المنکر‘‘ دشوار ہے۔ ''امر بالمعروف‘‘ تو یہ ہے کہ ؎
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو، ہم دعا کر چلے
یعنی جو سنے اس کا بھی بھلا اور جو نہ سنے اس کا بھی بھلا، الغرض بے ضرر کام ہے، اسی لئے ہماری تبلیغی اور دعوتی جماعتوں نے اس بے ضرر شِعار کو اپنایا ہے، ہرایک کہتا ہے:' 'بھلے لوگ ہیں،کسی سے الجھتے نہیں‘‘۔ اس کے برعکس ''نہی عن المنکر‘‘ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے، منہ زور گھوڑے کو لگام دینا ہے، زورآور کے راستے کی رکاوٹ بننا ہے، اہلِ عشرت اور طرح طرح کے مافیاز کو چیلنج کرنا ہے، پس خطرہ ہی خطرہ ہے۔ یہ شعبِ ابی طالب کی محصوری ہے، یہ طائف کا بازار ہے، اس میں سفرِ ہجرت کی کٹھنائیاں ہیں۔ اسی راہ میں طرح طرح کے ڈرامے اور تخویفات ہیں یا پھر باطل سے مفاہمت کی صورت میں چمک دمک اور ترغیبات ہیں۔ چنانچہ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: (1) ''یہ (کفار) چاہتے ہیں کہ آپ (دین کے معاملے میں) ان کی بے جا رعایت کریں، تو (جواباً) یہ بھی آپ سے نرمی برتیں‘‘ (قلم:9)۔ (2):''تم ظالموں کی طرف میلان نہ رکھو (ورنہ) تمہیں دوزخ کی آگ چھوئے گی‘‘ (ہود:113)۔
کفار مکہ نے بھی تو آپ کو پیشکش کی تھی کہ تصادم کی اس راہ کو چھوڑیں، کوئی مفاہمت کا راستہ نکالیں۔ چلئے! کبھی ہم آپ کے معبود کی عبادت کر لیں گے اور کبھی آپ ہمارے بتوں کی پرستش کر لیا کیجئے! تو اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: (اے رسول!) کہہ دیجئے! اے کافرو! میں ان (باطل معبودوں) کی عبادت (ہرگز) نہیں کروں گا، جن کی عبادت تم کرتے ہو اور نہ ہی تم اُس (معبود برحق) کی عبادت کرنے والے ہو، جس کی میں کرتا ہوں اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم کرتے ہو اور نہ ہی تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو، جس کی میں کرتا ہوں ، تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین‘‘ (سورہ کافرون)‘‘۔ الغرض علامہ اقبال کے مطابق ؎
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
بیرونِ ملک مسلمانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان اسلامی اقدار کا حامل ایک آئیڈیل اسلامی ملک بنے، اسلام ہماری شناخت ہو، ہم اسلام سے اور اسلامی شِعار سے پہچانے جائیں۔ چنانچہ جب یہاں کے مسلمانوں نے پاکستانی میڈیا کے ذریعے دیکھا کہ اہلِ پاکستان آرمی پبلک سکول پشاور کے نو عمر شہداء کو موم بتیاں جلا کر خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں، تو انہیں حیرت بھی ہوئی، افسوس بھی کہ اسلام کا شِعار تو مرحومین کے لئے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کا ہے، قرآن کی تلاوت اور درود و اذکار و تسبیحات اور صدقاتِ جاریہ کے ذریعے ایصالِ ثواب ہے، نہ کہ موم بتیاں جلانا اور آگ روشن کرنا۔ قبر پر بھی آگ جلانا منع ہے، خواہ اگر بتی وغیرہ کی صورت میں یا موم بتی کی صورت میں‘ لہٰذا اپنے روشن خیال اور ماڈریٹ طبقے سے معذرت کے ساتھ امریکہ کے پاکستانی نژاد مسلمانوں کا شکوہ و شکایت اہلِ وطن تک پہنچانا میں نے مناسب سمجھا۔
اہانتِ رسولﷺ کے حوالے سے یہاں کے ہر مسلمان کا دل دکھی ہے، لیکن صد افسوس کہ 57 مسلم ممالک کے بے حس اور بے حمیّت حکمران امتِ مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی سے قاصر ہیں اور اہلِ مغرب کی سازش ہے کہ وقتاً فوقتاً ان اذیت ناک واقعات کا اعادہ کرتے رہتے ہیں تاکہ حبِّ رسول اللہﷺ کے جذبے سے مغلوب ہو کر مسلمان اپنا ردِّ عمل ظاہر کریں اور وہ مسلمانوں کو انتہا پسند، شدت پسند اور دہشت گرد ثابت کر سکیں، حالانکہ جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو روحانی اور اعتقادی اذیت پہنچا رہے ہیں، وہ خود سب سے بڑے دہشت گرد ہیں۔