ہم جس میں جی رہے ہیں وہ پتا نہیں کس کس چیز کا دور ہے۔ سارے اندازے رفتہ رفتہ غلط ثابت ہوتے جارہے ہیں۔ کوئی لاکھ کوشش کرے، درست ترین اندازہ لگانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ہم نے جب بھی زمانے کو سمجھنے کی کوشش کی ‘ٹھوکر کھائی ‘ سوال اپنی ذات کا ہو تب بھی ہمارے اندازے غلط ہی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ہم بھی چونکہ انسان ہیں اِس لیے عموماً اپنی صلاحیتوں کو زیادہ آنک جاتے ہیں اور دوسروں کی اہلیت کو کم!
دو ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ دوستوں نے کسی نوجوان کو بھیجا کہ ہم ذرا اُس کی اہلیت جانچ لیں کہ وہ میڈیا کی دُنیا میں قدم رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ ہم نے معذرت چاہی کہ ہم تو اپنی اہلیت کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہیں! مگر وہ نہ مانے۔ اور ہمیں ''ٹیسٹنگ اتھارٹی‘‘ بنتے ہی بنی! ہم نے معمولی سا ٹیسٹ لے کر بتایا کہ یہ نوجوان (سچ کہیں تو کاٹھ کا اُلّو!) اور کسی شعبے میں تو چل سکتا ہے، میڈیا میں ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔ ہمارے اندازے کو درست مانتے ہوئے اُس نوجوان کو جواب دے دیا گیا۔ مگر کچھ ہی دن بعد جب ہم نے اُس ''باصلاحیت‘‘ نوجوان کو کسی چینل پر رپورٹنگ کرتے اور بپردیتے ہوئے دیکھا تو شرمندہ ہوکر اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے!
یُوں بھی ہوا کہ کسی کی اُول جَلول تحریر ہمیں دکھائی گئی اور ہم نے اندازہ لگایا کہ ایسا لکھنے والا اگر فروٹ چاٹ کا ٹھیلا لگالے تو زیادہ اچھا، مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ شخص اخبارات اور جرائد میں لکھتا اور نام کماتا دکھائی دیا! مگر ہاں، ہمارا اندازہ تھوڑا سا درست ضرور ثابت ہوا۔ وہ ایسے کہ اُس کا لکھنا فروٹ چاٹ کا ٹھیلا لگانے جیسا ہی تھا۔ اِدھر ہم قلم گِھستے ہی رہ گئے۔
ایک زمانے سے ہم شور مچا رہے ہیں کہ ہمیں شور سخت ناپسند ہے مگر کوئی ہماری بات سنتا ہی نہیں۔ کوئی زور سے بول رہا ہو تو دل اور دماغ پر ہتھوڑے سے برستے ہیں۔ لوگوں کو چیخ چیخ کر بات کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ آمنے سامنے بیٹھ کر اِس طرح حلق پھاڑ کر بات کی جاتی ہے گویا بیچ میں دو شہروں کی دُوری ہو۔ دفتر میں بھی ہمیں بار بار اُن پر چیخنا پڑتا ہے جو چیخنے سے باز نہیں آرہے ہوتے!
اب ایسا لگتا ہے کہ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح شور و غُل کے بارے میں بھی ہمارے اندازے کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ہم اب تک لوگوں کو سمجھاتے آئے ہیں کہ شور نہ مچانے یعنی خاموش رہنے سے شخصیت میں نرمی اور گداز پیدا ہوتا ہے، مگر لوگ بھی کم عقل مند نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اُنہیں ابنارمل قرار دیا جائے اِس لیے ہماری بات ماننے اور اُس پر عمل کرنے سے واضح طور پر اجتناب برتتے ہیں!
ماحول میں ہر طرف شور ہے۔ ہر معاملہ چیخ پُکار پر مشتمل ہے۔ سبزی والا جب ٹھیلا ہانکتا ہوا گلی سے گزرتا ہے تو خاصی بلند آواز سے لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔ یہ اُس کی مجبوری ہے۔ مگر لوگوں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ گھروں کے اندر سے آواز لگاکر سبزی والے کو رُکنے کا کہتے ہیں؟ کبھی کبھی تو خواتین خانہ سبزی کے دام بھی درونِ خانہ رہتے ہوئے ہی طے کرتی ہیں یعنی دونوں طرف سے لاؤڈ اسپیکر آن رہتا ہے! اب اگر محلے والوں میں دَم ہے تو اِس صورتِ حال سے محظوظ ہولیں!
خاموشی کو ہم خبط کی حد تک پسند کرتے آئے ہیں۔ بھرپور، جامع اور روح پرور قسم کی خاموشی ہم نے صرف دو مقامات پر محسوس کی ہے۔ کتب خانوں میں یا پھر قبرستان میں۔ کتب خانوں کے مرکزی ہال یعنی دارالمطالعہ میں تو خاموشی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ محض سانسوں کی آواز گونج رہی ہوتی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ مغرب کے محققین اور ماہرین ہاتھ دھوکر ہماری خاموشی پسندی کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ جس شور کو ہم انسانوں کا ایک بڑا، ازلی قسم کا دشمن گردانتے ہیں اُسی شور کو جرمن ماہرین نے توانائی کا ذریعہ بنانے کی ٹھان لی ہے۔ ماہرین نے ایک ایسی کار بنائی ہے جس کی رفتار کا مدار اِس بات پر ہے کہ اُس میں بیٹھے ہوئے کس قدر شور مچاتے ہیں۔ کار میں ایسے سینسرز لگائے ہیں جو شور کی پیمائش کرکے اُسے توانائی میں تبدیل کرتے ہیں اور یوں جتنا زیادہ شور مچایا جاتا ہے، کار اُتنی ہی تیز چلتی ہے۔
لیجیے، قوم کی مشکل حل ہوئی اور شور سے متعلق ہمارے ہر اندازے کی موت واقع ہوگئی۔ بہت سے دوسرے خود ساختہ دانشوروں کی طرح ہم بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ قوم ناکارہ ہوچکی ہے اور اب صرف اِس قابل رہ گئی ہے کہ شور مچاتی رہے۔ اگر شور کو توانائی میں تبدیل کرنے والے آلات مارکیٹ میں عام ہوگئے تو اِس قوم کی تو موجاں ہی ہوجائیں گی۔ لوگ چیختے رہیں گے اور مزے کی زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ زندگی میں اِس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی بُری عادت راحت کا سامان کرے؟
پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والوں کے تو مزے ہوجائیں گے۔ منی بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے والے آپس کی گفتگو میں بھی اِس قدر شور مچاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی۔ کنڈکٹر اگر مسافروں سے آگے کِھسکنے کو کہے تو وہ بھڑک اُٹھتے ہیں اور پلک جھپکتے میں دل کی بھڑاس نکالنے لگتے ہیں۔ اگر اِس ناہنجار شور کو تہذیب آشنا کیا جائے یعنی توانائی میں تبدیل کردیا جائے تو گاڑی ایسی رفتار پکڑے گی کہ
من میں اُٹھی نئی ترنگ
ناچے مورا انگ انگ
پنچھی تیرے سنگ سنگ
من چاہے اُڑ جاؤں
کسی کے ہاتھ نہ آؤں
والی کیفیت پیدا ہوجائے گی! پھر ماہرین کو شور کی اوور ڈوز کنٹرول کرنے والے آلات ایجاد کرنے پڑیں گے تاکہ گاڑی کے انجن کو توانائی کے معاملے میں بدہضمی سے دوچار نہ ہونا پڑے!
کل کو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسافروں کو زیادہ زحمت دینے کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹرز بسوں اور کوسٹرز کی چھت پر چار پانچ تربیت یافتہ کُتّے بٹھادیں، یعنی اُن کے سامنے مائکروفون نصب ہوں، وہ بھونکتے جائیں، اُن کا بھونکنا توانائی میں تبدیل ہوتا رہے اور گاڑی چلتی رہے۔ اچھا ہے، کُتّوں کو بھی روزی روٹی حلال کرنے کا موقع ملے گا۔ اب تک تو وہ محض دُم ہلاکر مال پیٹتے آئے ہیں!
بغیر سائلنسر کی موٹر سائیکل اُڑائے پھرنے والے نوجوان اپنے اِس کارنامے پر فخر کیا کریں گے۔ پٹرول کے لیے اُنہیں باپ کی جیب سے کچھ چُرانا بھی نہیں پڑے گا۔ سائلنسر ہٹائیے، سینسر لگائیے، کان کے پردے پھاڑنے والے شور کو توانائی میں تبدیل کیجیے یعنی فلنگ اسٹیشن والوں کے ناز اُٹھانے سے بچتے ہوئے موٹر سائیکل دوڑاتے رہیے۔
اگر ہمارے ہاں گاڑیاں شور سے کشید کی جانے والی توانائی پر چلنے لگیں تو افواہوں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑنے لگیں گی۔ مغرب کے ماہرین کو اگلے مرحلے میں خصوصی قسم کے بریک ایجاد کرنے پڑیں گے!
آخر میں ایک جُملۂ معترضہ۔ ابھی اِس امر کا تعیّن باقی ہے کہ شور کو توانائی میں تبدیل کرنے والے نظام کی ایجاد توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے ہے یا پھر پاکستانی قوم کو مزید شور و غُل کی طرف دھکیلنے کی سازش! ذرا سوچیے، ہم پاکستانی محض عادتاً اِتنا شور مچاتے ہیں تو توانائی کے حُصول کی ترغیب پاکر کون سی حد سے نہ گزر جائیں گے! اہلِ مغرب نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے مگر بدلے میں اچھا خاصا استحصال بھی کیا ہے۔ مغرب کی ہر ایجاد اور اختراع سے دل خوش بھی ہوتا ہے اور ڈرتا بھی ہے۔ کبھی کبھی تھوڑے سے خیر کے بطن سے اچھا خاصا شر بھی برآمد ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شور و غُل کی موجوں میں تیرنے والی پس ماندہ اقوام کو توانائی کا لالچ دے کر ڈبونے کی تیاری کی جارہی ہے! ایسا نہ ہو کہ بے ہنگم شور اور چیخ پکار کو بدتہذیبی سمجھنا ہی ترک کردیا جائے اور ہم سب حلق پھاڑتے ہوئے زندگی گزارتے پھریں۔ اور خاموشی کے جو دو چار جزیرے رہ گئے ہیں وہ بھی بے ہنگم شور میں غرق ہوجائیں!