تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-01-2015

امریکہ بھارت تزویراتی اتحاد

صدر اوباما نے درست کہا کہ ایشیا میں بھارت ہی امریکہ کا حقیقی عالمی پارٹنر ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، افغانستان کے مسئلے اور حالات کے جبر نے وقتی طور پر عالمی طاقت کو ایک ناپسندیدہ مسلمان ایٹمی ریاست سے اتحاد پہ مجبور کر رکھا ہے ۔آج نہیں تو کل، صورتِ حال بدل جائے گی ۔ حالات کا جبر اختتام پذیر ہو گا۔دونوں اپنی اپنی راہ لیں گے ۔
افغانستان پہ سوویت یلغار کے بعد1980ء کی دہائی میں سرخ افواج کوزچ کرنے کا امریکی کردار کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی ۔ واضح طور پر دنیا دو عالمی طاقتوں اور ان کے تشکیل کردہ دھڑوں میں تقسیم تھی ۔ کمیونزم اور کیپیٹل ازم کی صورت میں دو مختلف اور متضاد معاشی و ریاستی نظام ۔ باہمی طورپر متصادم۔ ایک کی شکست دوسرے کی فتح۔ کرّہ ٔ ارض پہ غلبے کے لیے دونوں قوّتیں سر توڑ کوشش کر رہی تھیں۔ 25برس قبل امریکہ نے ویت نام کی 20سالہ جنگ کا آغاز کیاتو دنیا بھر میں کمیونزم کی قیادت کرنے والی دوریاستوں ، چین اور سوویت یونین نے اسے ہر ممکن زخم لگایا۔
1979ء میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تویہ صرف بدلہ چکانے کا ایک سنہری موقعہ ہی نہ تھا بلکہ دو عالمی استعماروں کے درمیان دہائیوں سے جاری سرد جنگ کا فیصلہ کن مرحلہ بھی تھا ۔ننھے مشرقی یورپی ممالک اور امریکی ہمسایہ ریاست کیوبا سمیت، دنیا کے ان گنت ممالک میں سوویت عسکری او رمالی سرپرستی میں
کمیونزم کا راج تھا۔ سوویت یونین کی لحد سے جنم لینے والا روس آج بھی اس قدر طاقتور ہے کہ یورپ او رامریکی اتحا دسے تنہا ٹکر لے سکتااور یوکرین کے حصے بخرے کر سکتاہے ۔اس پسِ منظر میں بائیں باز وکے پاکستانی دانشوروں کو دہشت گردی کا تمام تر ذمہ دار جنر ل ضیاء الحق کو قرار دیتے دیکھیے تو ہنسی آتی ہے ۔پاکستان میں عسکریت کی بنیاد اور موجودہ حالات کے سب سے بڑے ذمہ دار سوویت توسیع پسندانہ عزائم اور یکے بعد دیگرے دو عالمی طاقتوں کی افغانستان آمد اور ان کے درمیان عشروں تک جاری رہنے والی محاذآرائی ہے ۔ہوسِ اقتدار سے قطع نظر، جنرل ضیاء الحق درست طور پر یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان پہ مستحکم سوویت قبضہ پاکستان کی بقا کے لیے خطرناک ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر پہ بھارت کے تسلّط اوراقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے فرار سمیت، انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں انتہا پسندی کا ایک اور منبع ہیں ۔ 
1979ء سے شروع ہونے والی سوویت جنگ کے دوران اور پھر 9/11کے بعد امریکہ کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی ۔ افغان جہاد کے دوران بڑے پیمانے کی امریکی امداد سوویت شکست کے بعد گرتے گرتے محض 45ملین ڈالر تک آپہنچی تھی ۔ آج کے حساب سے ساڑھے چار ارب روپے سالانہ۔ دونوں جنگوں میں ہم نے بھاری نقصان اٹھایا ۔2001ء سے شروع ہونے والی جنگ میں معاشی تباہی کا تخمینہ 80سے 100ارب ڈالرہے ۔ اس دوران جنگی اخراجات کی مد میں ہمیں زیادہ سے زیادہ 25ارب ڈالرادا کیے گئے۔ 
امریکہ کی طرف سے بھارت کو حقیقی عالمی پارٹنر کہنا بیان بازی نہیں ، ٹھوس حقیقت ہے ۔ پاکستان سے امریکی تعلقات افغانستان کے معاملے پر قلیل المدتی بنیادوں پر استوار ہیں ۔ آنے والے برسوں میں یہ کم سے کمتر ہوتے چلے جائیں گے ۔ انڈیا دنیا کی دسویں بڑی معیشت اور نویں بڑی دفاعی طاقت ہے ۔ معاشی اور جنگی اعتبار سے پاکستان کا وہ سات سے آٹھ گنا ہے ۔سوا ارب آبادی کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی منڈی ۔قلیل المدتی طور پر خطے میں شمالی کوریا اور وسیع المدتی طور پر چین امریکہ کا حریف ہے۔دشمن ممالک کے اطراف میں آباد جاپان اور بھارت اصل حلیف۔ یہ وہ زمینی حقائق ہیں ، جنہیں سمجھے اور جن کا اقرار کیے بغیر ہم درست لائحۂ عمل مرتّب نہیں کر سکتے۔ 
پاکستان قائم رہے گا۔ قیامِ پاکستان کے بعد معاشی اور عسکری طور پر ناقابلِ بیان حد تک کمزور ریاست بقا کی جنگ میں کامیاب رہی۔ 1965ء کی جنگ میں ہم برقرار رہے۔ 1971ء میں یہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش تھی جس میں بھارت کامیاب ہوا ۔ 2001ء کے بعد مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغان سرحد پر شدید دبائو کے علاوہ ملک بھر میں سینکڑوں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی صورت میں ایک اور خطرناک ترین جنگ سے ہم سلامت نکلے ہیں ۔ یہ کارنامہ اس کے باوجود انجام دیا گیا کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیان پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آخری حد تک ناسنجیدہ تھی ۔اس کے باوجود کہ تیرہ برس کے دوران پولیس کو سیاسی رسوخ سے آزاد کرنے ، میرٹ پہ تقرر اور تبادلوں، بہتر تربیت اور سازو سامان سے لیس کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ 
ان لوگوں کو میری یہ بات پسند نہ آئے گی جو جنگ میں مصروف اپنی سپاہ کے بارے میں بے حیائی کے یہ کلمات کہتے ہیں ''سارا بجٹ فوج کھا جاتی ہے‘‘ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ فوج کا ادارہ پاکستان کے لیے ایک ایسی بائنڈنگ فورس ہے ، جس نے اسے افغانستان ، عراق اور شام بننے سے محفوظ رکھا ۔آئندہ بھی انشاء اللہ یہی ہوگا۔ اس با ت کے کافی آثار موجود ہیں کہ آنے والے برسوں میں سکیورٹی کے اعتبار سے پاکستان بہتری کی طرف جائے گا۔جنگی طور پرپاکستان کو زیر کرنے کا ہندو خواب تا قیامت تشنہ ہی رہے گا۔بہترین ایٹمی اور میزائل پروگرام کے علاوہ ، میدانِ جنگ میں ہماری فوجی صلاحیت 1965ء سے بدرجہا بہتر ہے ۔ ہم روایتی جنگ میں قابلِ استعمال چھوٹے حجم کے جوہری ہتھیار بنا چکے ہیں۔ پاکستان فتح کرنا انڈیا کے بس کی بات نہیں ۔ 
معاشی میدان میں بہرحال سخت تگ و دوچاہیے ۔ چین سے گوادر تک معاشی راہداری ہو یا سوات کے سونے سمیت ہمارے قیمتی معدنی ذخائر ، معاشی طور پر ہمیں درست اور طویل المدّتی لائحۂ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ معیشت کا پہیہ گھمانے کے لیے بہرحال ہمیں توانائی چاہیے ۔ ٹیکس چوروں کی تجوری میں پڑا روپیہ چاہیے اور کاروبار کا فروغ چاہیے۔ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے ۔ رہا امریکہ بھارت تزویراتی اتحاد تو وہ ایک زمینی حقیقت ہے ۔ اس کی بنیاد امریکہ اور بھارت کے مشترکہ مفاد پہ استوار ہے ؛لہٰذا سیخ پا ہونے کی بجائے، حقائق کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنا لائحۂ عمل ترتیب دینا چاہیے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved