کارِ حکمرانی تاجروں کا کام نہیں۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ عوامی بیداری کے بغیر قوم کی سرفرازی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؎
میرؔ کیا سادہ ہیں‘ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
بدی کرتا ہے دشمن اور ہم شرمائے جاتے ہیں... یہ جوشؔ ملیح آبادی نے کہا تھا۔ دشمن نہیں‘ اب کی بار وہ کارنامہ پنجاب کی منتخب حکومت نے انجام دیا کہ ایک پوری شام شرمندگی میں گزری۔
پورا دن کپتان کے ساتھ گزرا۔ شام ہوئی تو تبصرے کے لیے ٹی وی والے نمودار ہوئے۔ کئی ملین روپے ملنا تھے۔ عرض کیا: میچ تو آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ کمال اعتماد کے ساتھ اس نے کہا: میچ دیکھنے کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ اگرچہ اس کا عشر عشیر بھی‘ کارِ سرکار اور سیاست کو میں نہیں سمجھتا‘ جتنا کہ عمران کرکٹ کو۔ مگر ان دنوں میرا حال بھی یہی رہا۔ میچ کی جھلکیاں اس نے دیکھی تھیں اور شاید کسی سے مشورہ بھی۔ ناچیز کی مصروفیت ان دنوں ایسی کڈھب رہی کہ ٹی وی دیکھ نہیں سکتا اور اخبارات ایک نظر۔ ٹی وی پروگرام اور کالم سے قبل کسی معتبر اخبار نویس یا موضوع کے کسی ماہر سے رہنمائی کی درخواست البتہ ضرور کرتا ہوں۔ براہ راست مطالعے اور لازمی ریاضت کا بدل یہ بہرحال نہیں۔
شاعر سعود عثمانی تشریف لائے۔ کہا: آپ جانتے ہیں کہ پنجاب پولیس نے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو قصوروار ٹھہرا دیا۔ اخبار نویس کو خبر ہی نہ تھی اس افتاد کی‘ کتابیں چھاپنے والوں پر جو پڑی ہے۔ پلٹ کر دیکھا اور سلطان باہو ؒیاد آئے۔
بغداد شہر دی کیہ اے نشانی‘ اچیاں لمیاں چیراں ٭ ہُو
تن من میرا پرزے پرزے جیوں درزی دیاں لیراں ہُو
ایہناں لیراں دی میں کفنی پا کے، رلساں سنگ فقیراں ہُو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں کرساں میراں میراں ہُو
شیخ نے لکھا ہے کہ عالم بے خودی میں ایک دن وہ چلتے چلے گئے۔ ایک بڑھیا سے پوچھا: کون سی یہ جگہ ہے۔ وہ بولی: آپ اگر عبدالقادر ہو کر نہیں جانتے تو مجھ مسکین کو کیا خبر؟
فرمایا: زمین کی طرح ہو جائو‘ جس پہ نیک و بد سب چلتے ہیں۔ عصر رواں کے عارف سے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہو جاتا ہے۔ فرمایا: خطاکار کو ہم مجبور سمجھتے ہیں۔ ہمدردی اس سے ہوتی ہے۔ نفرت کا کیا سوال؟
شیخ نے ارشاد کیا تھا: اپنے دلوں میں دنیا کی محبت کے جو محل تم نے بنا رکھے ہیں‘ انہیں ڈھا کر ویرانہ بنا دو۔ اس ویرانے میں یادِ خدا کا چراغ روشن ہو گا تو ہمیشہ جلتا رہے گا۔ شیخ سے کون آشنا نہیں۔ ان کی جو کتاب ''غنیۃ الطالبین‘‘ پولیس اٹھا لائی‘ سبھی طالب علم اس سے واقف ہیں۔ مسلمان فرقوں کا اس میں ذکر ہے‘ نو سو سال پہلے جو بن گئے تھے اور ان کا بھی‘ آنے والی صدیوں میں‘ یکے بعد دیگرے جو وجود میں آئے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ تھا کہ 72 فرقوں میں مسلمان بٹیں گے۔
دو قابل ذکر فرقوں اہلِ حدیث اور دیوبند کی تشکیل ہمارے سامنے ہے۔ دیوبند ایک مدرسہ ہے‘ جس نے ماضی میں زندہ رہنے کا تہیہ کر لیا۔ مدرسہ رحیمیہ کی وراثت پائی۔ مغل فوج کے سنی شہسواروں اور دربار کے ایرانی امرا کی مخاصمت بھی۔ ان میں سے بعض دوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں۔ میدانِ عرفات میں ان کے ایک ممتاز پیشوا کو کہتے سنا ''دوسرے فرقوں میں ثواب کے امکان کو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمارے مکتب فکر کے حق میں پہاڑ سے دلائل موجود ہیں‘‘۔ حیران ہم انہیں سنتے رہے کہ تقریر کا یہ کون سا محل ہے۔ عبادت کے سوا سرکارؐ نے سارا وقت یہاں دعا میں بِتا دیا تھا۔ پیہم ساڑھے تین گھنٹے ہاتھ اٹھائے رکھے۔
نجد کے ریگزار سے محمد بن عبدالوہاب کی تحریک اٹھی تو اقبالؔ شاد تھے۔ بدعات کی وبا تھی اور اس کے خلاف یہ ایک بھرپور ردّعمل۔ مشرق کے بے مثال فلسفی اور مفکر کو صدمے کا سامنا ہوا‘ جب یہ تحریک ایک فرقے میں ڈھلی۔ ٹی وی کے ایک پروگرام میں علامہ ساجد میر سے سوال کرنے کی جسارت کی کہ بدعات کے خلاف جہاد تو قابل فہم مگر فرقہ؟ پھر اس فرقے کی بنیاد پر سیاسی جماعت کی تشکیل؟ شریف آدمی ہیں‘ خاموش رہے۔ برسبیل تذکرہ‘ ڈاکٹر چغتائی نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ آخری برسوں میں دیوبند کی سیاسی روش پر اقبالؔ کس قدر دل گرفتہ تھے۔
یہ فقط دو مکاتب کا ذکر ہے۔ اور بہت سے ہیں۔ ہر طرح کی فرقہ پرستی المناک ہے۔ اوّل اختلاف‘ پھر یہ کاروبار ہو جاتا ہے‘ پھر اس کے بل پر لیڈری چمکائی اور رزق کمایا جاتا ہے‘ نفرت دانستہ بوئی اور سینچی جاتی ہے۔ جن دو عظیم ہستیوں کی بدولت پاکستان بنا‘ وہ اس سے پاک اور بلند تھے‘ حکیم الامت اور قائد اعظم۔
قرآن کریم کی ایک آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے گروہ جنہوں نے الگ بنا لیے‘ رحمۃ للعالمینؐ سے کوئی تعلق ان کا نہیں۔ مولوی صاحبان مگر صدیوں سے اپنی روش پہ ڈٹے ہیں۔ خود بدلتے نہیں‘ قرآں کو بدل دیتے ہیں۔ امّت کو انہوں نے تقسیم کر کے برباد کر دیا۔ ساری عمر اقبالؔ ان کے خلاف جہاد کرتے رہے ؎
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملّا ہوں غازی
پاکستان فرقہ پرستوں اور ترقی پسندوں کی چراگاہ ہے۔ ایک کے بعد دوسری حکومت۔ ایک کے بعد دوسری پارٹی اور انقلابی لیڈر کا ظہور۔ اظہارِ تاسف اور نصیحت کرنے والے بہت ہیں‘ فرقہ پرستی سے لڑنے والا کوئی نہیں۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا‘ کوئی غم گسار ہوتا
اصل چیز پر ایک ذرا سی توجہ بھی نہیں۔ عرفانِ ذات باری تعالیٰ پر‘ حصول علم پر۔ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے'' اِنّ اکرمکم عنداللہ اتقٰکم‘‘۔ اللہ کے نزدیک عزت اس کے لیے ہے‘ جو پاکیزہ ہے۔ فرمایا: درجات علم کے ساتھ ہیں۔ علم کہ خالق کون ہے‘ کائنات کیا ہے‘ زندگی کیا ہے اور آدمی کیا۔
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں بیچارے یہ دو رکعت کے امام
فرقوں کے وجود کو حکومتیں تسلیم کرتیں‘ فرقہ پرست لیڈروں کی حوصلہ افزائی فرماتی رہیں۔ دہشت گردی کا عفریت بے قابو ہوا اور فوج آگے بڑھی تو طوعاً کرہاً سیاسی قیادت کو ساتھ دینا پڑا۔ خادم پنجاب نے حکم صادر کیا کہ پنجاب کی کارکردگی‘ دوسرے صوبوں سے برتر چاہیے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ''خلافت و ملوکیت‘‘ سمیت ہزاروں علمی کتابیں بھی زد میں آ گئیں۔ پرسوں شام لاہور کے فریادی پبلشر میرے پاس پہنچے۔ میں حیران رہ گیا‘ ان لوگوں کا فرقہ وارانہ لٹریچر سے کیا تعلق؟ یہ تو فسادی مولویوں کا کام ہے۔ پنجاب کے ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف کے دفتر میں حاضر ہوا‘ ایک فوجی افسر کے ہاں بھی۔ معلوم ہوا کہ کارروائی اب روک دی گئی ہے۔ کوئی غور کرنے والا ہی نہیں۔ ممنوعہ کتب‘ سی ڈیز اور پمفلٹوں کی فہرست کیوں نہ بنائی گئی۔ ماہرین کا کام ہے۔ پنجاب علماء بورڈ سے مدد لی ہوتی۔ منصوبہ بندی کے ساتھ آپریشن کا آغاز ہوتا۔ پولیس کی ساری توانائی بے گناہوں کے خلاف صرف کر دی گئی۔ مجرموں سے کون نمٹے گا؟ اخبار کے صفحۂ اوّل پر حضرت مولانا محمد احمد لدھیانوی کا بیان جگمگا رہا ہے: دہشت گردی میں مدارس تو بہرحال ملوث نہیں۔
پولیس والے ''مشکوک‘‘ سی کوئی کتاب اٹھاتے ہیں‘ پھر پوچھتے ہیں‘ کون سے پریس میں چھپی ہے‘ جلد بندی کرنے والے کون ہیں۔ غنیمت کہ ڈھو کر لانے والے ریڑھی بان نہ پکڑے گئے۔ زمانہ بدل گیا‘ دنیا میں پولیس کے تصورات بدل گئے۔ ہر شعبے کے اب ماہرین ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں 1861ء کی پولیس کارفرما ہے۔ ارے نہیں‘ تب رشوت ستانی کی ایسی وبا کہاں تھی۔ سارا حکمران طبقہ بدعنوان۔ سرکاری ملازمین کے بل پر لوٹ مار بھی‘ سیاست بھی۔
میاں شہباز شریف نے ایک بار کہا تھا: مصروفیت بہت ہے‘ غوروفکر کا وقت نہیں ملتا۔ زرداری صاحب کو ملا کرتا تھا؟ کمال یہ ہے کہ ان کے اپنے کاروبار خوب پھل پھول رہے ہیں۔ ملک کے بارے میں ہر فیصلہ غلط۔
کارِ حکمرانی تاجروں کا کام نہیں۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ عوامی بیداری کے بغیر قوم کی سرفرازی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؎
میرؔ کیا سادہ ہیں‘ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
٭۔ چیراں یعنی کھجور کے درخت۔