پاکستانی صنعت کو ہنرمندوں کی تلاش،ٹیکنیکل تعلیم وقت کی ضرورت

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : سید عمران علی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاءڈاکٹر مسرور احمد شیخ ،چیئرمین سندھ بورڈ آف ٹیکنالوجی ایجوکیشن۔احتشام الدین ، چیئرمین پاکستان پلاسٹک مینوفیکچرز ایسوسی ایشن اور سابق چیئرمین کاٹی۔نگہت اعوان قائم مقام صدر کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری ۔انجینئر اختر علی شاہ، انسپکٹر آف انسٹی ٹیوٹ ایس بی ٹی ای ۔ نمیرہ منظور ،پرنسپل حیدر بابا انسٹیٹیوٹ ۔مسعود رضا، پرنسپل سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (اسٹیوٹا)۔ڈاکٹراخلاص احمد،ڈائریکٹر ڈائنمک ریسرچ سینٹر ۔ اندراس نواب ،منیجر وائی ایم سی اے۔ ڈاکٹر اشفاق ،ڈائنمک ریسرچ سینٹر۔ وحید انساء ،وائس پرنسپل ویمن پولی ٹیکنیک کالج لانڈھی۔شازیہ انجم، استاد۔ محمد قمر رحمانی ، ورلڈ پیس کمیونٹی۔ آئی بی اے سے ایم بی اے فنانس نوجوان ارسلان ظفر ۔

صنعتی علاقوں میں انڈسٹری انسٹی ٹیوٹ سے روزگارملیں گے: ڈاکٹر مسرور شیخ

انسٹی ٹیوٹ کے بچے انڈسٹری میں استعمال ہونے والی مشینری سے ناواقف ہوتے ہیں: نگہت اعوان

انڈسٹری کی ضرورت کیلئے اسلام آباد میں یونیورسٹی بن چکی،جلد کراچی میں بھی بنے گی: احتشام الدین

ٹیکنیکل اداروں اور انڈسٹریز کوساتھ بٹھانے کی کوشش دنیا فورم نے کامیاب کردی: نمیرہ منظور

ہر یونیورسٹی میں اکیڈمک کونسل ہے ، صنعتی علاقوں میں انڈسٹریل کونسل ہونی چاہیے :ڈاکٹر اخلاص احمد

دنیافورم اپنے مقصد میں کامیاب ،چیئرمین سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن نے کاٹی کو خط لکھ دیا

موضوع:’’ پاکستان میں ٹیکنیکل تعلیم جدت کی متقاضی ؟‘‘

 

الحمد اللہ دنیا فورم معاشرے کی بہتری ،ملک وقوم کی ترقی اور عوام کی آگاہی کے لئے تنددہی سے کام کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرکاری اور نجی ادارے،سیاسی وسماجی تنظیمیں دنیا فورم کیساتھ مختلف موضوعات پر فورم کرنے میں اعتماد محسوس کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں حیدربابا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کورنگی) کے تعاون سے ان کے دفتر میں ٹیکنیکل تعلیم پر دنیا فورم کا اہتمام کیاگیا اس موقع پر چیئرمین سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن اور کاٹی کے عہدیداروں نے معاہدہ برائے تعاون کرنے کا اعلان کیا جبکہ جمعہ 22جنوری کو چیئرمین سندھ بورڈ نے کاٹی کو ایک خط بھی لکھ دیا جس میں دنیا فورم کا حوالہ دیتے ہوئے انڈسٹری انسٹیٹیوٹ تعاون پر جوائنٹ سیشن کرنے کی پیشکش کی گئی۔دنیا فورم میں مکینک کی دکانوں پر کام کرنے والے استاد اور شاگردوں کیلئے فریم ورک پرسوال اٹھایا گیا جس پر ڈاکٹر مسرور نے بتایاکہ ان کیلئے فریم ورک بن چکا ہے اور وہ سرٹیفکیٹس لے سکتے ہیں اسی طرح کاٹی کی قائم مقام صدر نگہت اعوان نے ٹیکنیکل اداروں کے طلباء کیلئے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا،امید ہے کہ ہمارے قارئین کو ہماری کوشش پسند آرہی ہوگی ،میڈیا کااہم کاہی یہ ہے کہ معاشرے کو باخبررکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل حل کرنے کی بھی عملی کوشش کرے،ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ 

مصطفیٰ حبیب صدیقی،(ایڈیٹر فورم )

واٹس ایپ کریں،03444473215

 

دنیا:نوجوان ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طر ف نہیں آتے کیا وجوہات ہیں؟

ڈاکٹر مسرور شیخ : دنیا فورم نے اچھے موضوع کا انتخاب کیا ، جس سے مسائل اجاگر اور حل ہوں گے،دنیا بھرمیں وی وی ٹی آئی ،وی وی ٹی،ای ایم آئی ٹیکنالوجی پر کام ہورہا ہے۔اب SUPER SONICانجن آگئے ہیں جو پہلے جہازوں میں استعمال ہوتے تھے اب گاڑیوں میں استعمال ہورہے ہیں،ہائبرڈ کاریں چل رہی ہیں لیکن ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجیز نہیں،ہمارا پہلا سوال ہوتاہے کہ حکومت نے مشینری تبدیل کیوں نہیں کی ،حکومت کو الزام نہیں دونگا لیکن تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی اور مشینیں تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا ہمیں اپنے رویوں پر بھی غور کرنا چاہیے ہم خود کیا کررہے ہیں ہمارے ملک میں 20سے 25سال میں ٹیکنالوجی تبدیل ہوتی ہے جبکہ جرمنی میں5 سال میں مکمل تبدیلی آجاتی ہیں،ہماری انڈسٹری مسائل سمجھنے کی کوشش نہیں کررہی،ہمار ے پاس انڈسٹری انسٹی ٹیوٹ کا فقدان ہے،جب تک صنعتی علاقوں میں انسٹی ٹیوٹ نہیں بنیں گے نوجوانوں کو اچھے روزگار نہیں ملیں گے،جرمنی کا ٹیکنیکل ایجوکیشن کانظام آجائے تو پاکستان اس شعبے میں ترقی کرسکتاہے، گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سائٹ (جی سی ٹی)کراچی میں 1958میں قائم ہوا تھا اس میں آج بھی وہی پرانی مشینیں ہیں، جرمنی میں ایک انڈسٹری میں گیا ان سے پوچھا آپ بچوں کو کیسے ایڈجسٹ کرلیتے ہیں ہمارے یہاں ممکن نہیں، انہوں نے بتایاکہ جب بچہ3 ماہ کیلئے انڈسٹری میں آجاتا ہے تو ہمیں پتا ہوتا ہے کہ اب3 سال تک انڈسٹر ی سے نہیں جاسکتا ،اس کی 3 ماہ میں ایسی تربیت کردیتے ہیں کہ انڈسٹری میں کام کرنے کے قابل ہوجائے،3 ماہ بعد یہ بچے انڈسٹری کے معیارکے مطابق تیار ہوجاتے ہیں ۔ان میں سے 50فیصد بچوں کو نوکری دے دیتے ہیں ۔1962ء میں اپرنٹس شپ کاایکٹ بناتھاجو 2017میں کچھ تبدیلی کیسا تھ آگیا تھا جسے اسمبلی نے منظور بھی کردیا ہے،جس سے بچو ں کو فائدہ ہوگا۔ اس وقت تعلیمی اداروں او ر انڈسٹری میں گیپ ہے،جب تک یہ ختم نہیں ہوگا مسائل حل نہیں ہوں گے۔

دنیا: انڈسٹری ٹیکنیکل اداروں کو وسائل فراہم کیوں نہیں کرتی ؟

نگہت اعوان : انڈسٹری ان اداروں کو وسائل فراہم کرسکتی ہے اور کررہی ہے،کاٹی نے امن ٹیک سے معاہدہ کیا، امن ٹیک سے بچے انڈسٹری میں آکر کام کریں جب وہ تیار ہوجائیں گے تو نوکری بھی دیں گے بلکہ ایسے بچے توہماری ضرورت ہوتے ہیں ،کمپنی ایسے ہی ہنرمند بچوں سے پروان چڑھتی ہے،انڈسٹری میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کا استعمال ہوتا ہے لیکن انسٹی ٹیوٹ سے کورسز کرنے کے بعد جو بچے آتے ہیں افسو س انہیں وہ کچھ نہیں آتا جو انڈسٹری میں استعمال ہوتاہے، جس کے باعث بچے فیلڈ میں ناکام ہو جاتے ہیں،یہ ایک بہت بڑا گیپ ہے۔انڈسٹری کی ضرورت کے مطابق تعلیم کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔

احتشام الدین : ترقی یافتہ ممالک میں انڈسٹری کے پیچھے تعلیمی ادار ے ہوتے ہیں جبکہ یہاں ایسا نہیں،بدقسمتی سے جو انڈسٹری کی ڈیمانڈ ہو وہ اسے نہیں مل رہی ،ایک صنعت کار انڈسٹری لگانے کیلئے سب کچھ باہر سے منگوالیتا ہے کیا انڈسٹر ی چلانے کیلئے لوگوں کو بھی باہر سے لے کر آئیں؟۔ چین ہم سے بعد میں آزاد ہوا کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ان کی ترقی کا راز یہ انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کوساتھ لے کر چلتے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں جاپان اور جرمنی زیادہ تباہ ہوئے ،آج دونوں کی معاشی صورت حال آپ کے سامنے ہیں،جرمنی وہ ملک ہے جس کو پاکستان نے قرضہ دیا تھاآج ہم اس سے قرضے مانگتے ہیں،ہمیں بھی آزاد ہوئے 70سال ہو گئے ہیں اس عرصے میں ہم نے کیا کیا ،ٹیکنیکل اداروں کو انڈسٹری کی ضرورت کا نصاب پڑھانا اور سکھانا چاہیے، ہمارے پولی ٹیکنک اداروں کا معیار کیاہے اور ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ایک وقت تھاسائٹ میں جی سی ٹی کالج سے ہنرمند بچوں کو لیا جاتا تھا ،ہم ایسی پڑھائی کرارہے ہیں جس سے بچے کہیں فٹ نہیں ہوپاتے ، تعلیمی اداروں سے بچے پڑھنے کے بعد افسر بن کر آتے ہیں ، انڈسٹری کو انجینئر کم ٹیکنیشن زیادہ درکار ہوتے ہیں،اس وقت انڈسٹری کو ہنر مندنوجوانوں کی ضرورت ہے جو بد قسمتی سے نہیں ملتے، چوتھا صنعتی انقلاب ساری دنیا میں بہت تیزی سے آرہا ہے اور ہم برآمدکی بات کرتے ہیں جو کر نہیں سکتے ،ہم روزانہ خسارے میں چلے جارہے ہیں،قرضے بڑھتے جارہے ہیں۔ آنے والی نسل لاکھوں روپے کی مقروض ہے، جب  تک ہم انڈسٹری میں معیاری چیزیں نہیں بنائیں گے معاشی صورت حال بہتر نہیں ہو گی۔ پاکستان میں 2سال پہلے نیو ٹیک (Nutech) کے نام سے پہلی یونیورسٹی بن چکی ہے، جس کو تینوں افواج دیکھ رہی ہیں ،ان کے اساتذہ سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی،وہ کراچی بھی آئے اور انشاء اللہ بہت جلد کراچی میں اس کا کیمپس بنانے جا رہے ہیں،یونیورسٹی کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ اس میں وہ پڑھایا اور سکھایا جائے جو انڈسٹری کی ضرورت ہے۔

دنیا: حکومت انڈسٹری سیکٹر میں کا م کیوں نہیں کررہی؟

ڈاکٹر اخلاص احمد : کوشش کررہے ہیں انڈسٹری ،کمیونٹی اور اکیڈمک اداروں کا ایک دوسرے سے رابطہ کر ادیں۔ حکومت بہت کام کررہی ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کون اور کہاں کیا کام کررہاہے،اللہ کا شکر ہے دو سال پہلے فورتھ انڈسٹریل ریولوشن پر کانفرس کرچکے ہیں جس کی وڈیو بھی ویب سائٹ پر موجود ہے، پاکستان جنرل بزنس کونسل کے تحت جرمنی کے ساتھ کام کررہاہے ،پاکستان میں ایکسپوسینٹر بنائے،ہم بہت ترقی کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں،ایف پی سی سی آئی کا ڈپٹی سیکریٹری رہ چکا ہوں ،اب یونیورسٹی میں پڑھاتاہوں ،انڈسٹری اور اکیڈمیوں کے متعلق بھی جانتا ہوں،انڈسٹر ی اور اکیڈمی میں فاصلوں کی بنیادی وجہ سے آگاہ ہوں،بد قسمتی سے ہم سب کمرشلزم کی دوڑ میں لگے ہیں،مل کر کام نہیں کر رہے۔ پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں تعلیم کا معیار نہیں بڑ ھ رہا جس کی بنیادی وجہ ریسرچ نہ ہوناہے،پوری دنیا ریسرچ پرکام کررہی ہے،پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں اکیڈمک کونسل ہے اسی طر ح صنعتی علاقوں میں انڈسٹریل کونسل ہونے چاہیے ،پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ انڈسٹری کو تجویز دی ہے کہ انڈسٹریل کونسل بنائی جائے جس کو سپورٹ کریں گے، اس کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا ، انڈسٹریل کونسل کیلئے کو ئی ادارہ کا م نہیں کررہا ہے،معذرت کے ساتھ ہماری یونیورسٹیاں مزدور پیدا کررہی ہیں ،بد قسمتی سے طلباء کو آفیسر اورایگزیکٹو کے نام پر مزدور کی طرح استعمال کیا جارہا ہے ۔آج بھی انڈسٹریوں میں مالک کہتا ہے جب تک میں بیٹھا ہوں سب کو بیٹھنا ہوگا،یہ ہمارا رویہ ہوتا ہے، کئی فیکٹریوں میں توملازم کو سہولتیں اور آفر لیٹرز تک نہیں دیئے جاتے ،تعلیمی اداروں سے نکلنے والے 99فیصد بچے انڈسٹری میں مزدوروں کی طرح کام کررہے ہیں جس کی وجہ اداروں میں ریسرچ نہ ہونا ہے۔ریسرچ کیلئے سامان کی نہیں پروجیکٹ کی ضرورت ہوتی ہے،جب تک تصور نہیں ہوگا ریسرچ کیسے ہوگی ،کسی یونیورسٹی میں ٹیکنیکل ایجوکیشن سے متعلق ریسرچ نہیں ہورہی ۔ 

احتشام الدین :ہرچیز کی مارکیٹ ویلیو ہوتی ہے، کوئی ملازم کام نہیں کرتا،یونین بازی اور دیگر مصروفیات میں اپنے وقت کا استعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن کام نہیں کررہا تو اس کو مالک ہٹادے گااور جو اچھا کام کرے گا اس کو سہولتیں دے گا کیوں کہ یہ اس کا اثاثہ ہے ، کوئی بھی مالک اپنے اثاثے نہیں مراعات کو چھوڑتاہے،کام کے بغیر کچھ نہیں ہوتا،ملک کو انڈسٹری سپورٹ کررہی ہے، صنعت کار جو ایکسپورٹ کرتے ہیں اس پر حکومت کو ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ (ای ڈی ایف) کی شکل میں فنڈ دیتے ہیں جو اسی کام کے لیے تھا کہ انسٹیٹیوٹ بنائے جائیں اور بچوں کو ہماری ضرورت کیمطابق تیار کیا جائے جس پر کام نہیں ہورہا، یہ فنڈ کہاں جارہا ہے؟، جہاں پر انسٹی ٹیوٹ ورثے کی طرح بانٹے جائیں ان کا مستقبل کیا ہوگا؟

 ڈاکٹر مسرور شیخ : ہم حکومت پر الزا م تراشی تو بہت کرتے ہیں لیکن مسائل کی حل کی طرف نہیں جاتے،دنیا فورم کے توسط سے صنعتکاروں کو ٹریننگ سسٹم شروع کرنے کی پیش کش کرتا ہوں، ہمارے پاس کورسز ہیں، گورنمنٹ پولی ٹیکنکل کالج لانڈھی میں بچیاں کورسز کررہی ہیں ،دو تین دن بچیاں کالج اور تین دن انڈسٹری میں تربیت کیلئے جائیں گی ،ا س وقت بچے فورتھ انڈسٹریل ریولوشن پر کام کررہے ہیں ،کراچی میں امن ٹیک کے سامنے (کے ٹی ڈی ایم سی )ہے جس کا شمار اچھے انسٹی ٹیوٹ میں ہوتا ہے جہاں پر قابل اور ہنر مند افراد تیار ہورہے ہیں، ادارے میں بچے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کورسز کررہے ہیں،کورونا کے بعد صنعتی انقلاب آچکاہے،کورونا میں ساری چیزیں آٹو میشن پر جاچکی ہیں،ایڈیٹر فورم نے بتایا کہ سندھ اسمبلی میں رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق صرف 4سے 6فیصد طلباء ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف جاتے ہیں جبکہ دنیا میں 66فیصد لوگ ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرتے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ جس طرح عام ایجوکیشن کی میڈیا پر تشہیر کی جاتی ہے ٹیکنیکل ایجوکیشن کی کیوں نہیں کی جاتی اور ورکشاپس میں کام کرنے والوں کیلئے حکومت یا ا دارے کچھ ایسا نہیں کرسکتے وہ بھی اپنا نام بنا سکیں ۔جس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر مسرور شیخ نے کہا کہ تعلیمی اداروں او ر انڈسٹری کے رابطے کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے، جب تک ہم ساتھ نہیں چلیں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔جو بچے دکانوں پراستاد شاگردی نظام میں کام کررہے ہیں ان کے لیے پالیسی بن چکی ہے،پاکستان میں جرمنی کے تعاون سےDavid Reform support Project پر کام چل رہا ہے جس کا پہلا اور دوسرا فیز مکمل ہوچکا اب تیسرا چل رہا ہے، پاکستان کی پہلی ڈیوڈ پالیسی اور فریم ورک بن چکا ہے، کوئی بچہ اگر ووکیشنل ٹریننگ کے لیول ون میں ہے تو وہ پی ایچ ڈی تک جاسکتاہے۔

 نگہت اعوان :سب بچے ہمار ے بچے ہیں ،ہمیں ان بچوں کی فہرست دی جائے جن کے کورسز آخری مراحل میں ہیں یا مکمل ہوچکے ہیں،کاٹی کی باڈی میں اس مسئلے کو شامل کریں گے، فہرست کاٹی کے ممبران کو بھیجیں گے، کورونا میں انڈسٹری بہت مشکل دور سے گزری ،ہمیں کسی قسم کی سپورٹ نہیں ملی اس کے باوجود لوگوں کوتنخواہیں دیں ۔

دنیا: ٹیکنیکل ایجوکیشن میں طالبات کا رجحان کس طرف ہے؟

وحید انساء : کالج میں الیکٹریکل ، الیکٹرونکس ، سی آئی ٹی ،گارمنٹس اور دیگر شعبے ہیں جہاں لڑکیا ں داخلے لے رہی اور دلچسپی سے سیکھ بھی رہی ہیں، سندھ اور بلوچستان میں جرمنی کے تعاون سے پروجیکٹ چل رہا ہے،ہمارا ادارہ بھی بچیوں کو یہ کورسز کرارہاہے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں طلباء کو کورس مکمل ہونے کے بعد فوری طورپر ملازمت درکار ہوتی ہے،انڈسٹری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا،دنیا فورم کے توسط سے خواتین کو درپیش مسائل کی طرف نشان دہی کراؤں گی ، فیکٹریاں میں لڑکیوں کی ڈیوٹی ٹائمنگ شام پانچ بجے تک ہوتی ہے لیکن کچھ فیکٹریاں 7بجے تک کام کراتی ہیں ،خواتین کو دیر اور رات کو جانے میں ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل کا سامناہوتا ہے، انڈسٹری خواتین کو وقت میں سہولت دے، کاٹی کی قائم مقام چیئرمین نگہت اعوان اورسابق چیئرمین احتشام الدین نے انہیں کاٹی کے دفتر آنے اور مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ چیئرمین سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ڈاکٹر مسرور شیخ نے کہا مسائل دونوں طرف ہیں ،آج ایشوز کو حل کرنے کی بات کررہے ہیں، کاٹی کے ساتھ بیٹھ کر ایم او یو سائن کروں گا جو پوری انڈسٹری کیلئے ہوگا، جس کا جواب دیتے ہوئے سابق چیئرمین کاٹی احتشام الدین نے کہا ہم سپورٹ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ڈاکٹر مسرور شیخ اوراحتشام الدین نے انڈسٹریز اور ایس بی ٹی ای میں تعاون کے معاہدے کا اعلان کیا۔

ڈاکٹر اخلاص احمد : مل کر کام کرنے کیلئے سوفٹ ویئر کی ضرورت ہے ، اداروں کو سوفٹ ویئر دیں گے،وہ لوگ مدد کریں جن کے ساتھ مل کر ایپلی کیشن بنا سکیں ،ہم حل کی طرف آرہے ہیں ، دنیا میں سب سے زیاد ہ ریسرچ جرمنی میں ہورہی ہے،اور نمائش بھی وہیں ہوتی ہیں ، ریسرچ کا تعلق پیداوار کی فروخت اورخدمات سے ہے،ہم جب تک اس ماڈل کو نہیں اپنائیں گے کامیاب نہیں ہوسکتے۔

 مسعودرضا: 27سال سے ٹیکنیکل ایجوکیشن سے وابستہ ہوں، انڈسٹری کے تعاون سے ایک ادارہ چلارہے ہیں جس میں بچوں کو ہنر مند بنانے کے ساتھ تربیت بھی کررہے ہیں اور انہیں ملازمت بھی دلائیں گے۔ تجویز ہے کہ کورنگی انڈسٹری سے بات کرکے ایسے بچے جو ٹیکنیکل اداروں سے ٹاپ کررہے ہیں انہیں نوکری دلائی جائے اس سے بچوں میں مقابلے کی فضا قائم ہوگی اور دلچسپی بھی بڑھے گی ۔ آج کل ڈپلومہ کرنے والے کو بھی نوکری نہیں مل رہی وہ در در کے ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پوزیشن ہولڈرز کو جگہ دی جائے۔

ڈاکٹر اشفاق احمد :کئی ممالک کادورہ اور ریسرچ کرچکا ، تعلیمی ادارے بے روزگاروں کی فوج بنارہے ہیں اور کارخانے مسائل کا شکار ہیں، کارخانوں کو مال بنانے کے مواقع نہیں ہیں کہ وہ بین الاقوامی منڈی کا مقابلہ کرسکیں ،اس وقت چین نے معیشت کو قبضے میں لے لیا ہے جس سے ہمارے کارخانوں میں کام نہ ہونے کے برابر ہے ،تھوڑا بہت کام چل رہا ہے تو اسکو کورونا نے ختم کردیا ، جس سے یہ طبقہ مسائل کا شکار ہے، دنیا میں ہماری افرادی قوت کی ضرورت ہے،ہمار ے تعلیمی ادارے صحیح سمت میں نہیں چلے تو قوم کو ڈبو دیں گے۔ المیہ ہے ہماری خارجہ پالیسی معاشی صورت حال دیکھ کر نہیں بنائی جاتی ،حکومت کارخانو ں کا نظام بہتر اوران کو سہولت د ے توملک میں سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے۔ ڈائنمک ریسرچ سینٹر کوشش کررہا ہے کہ تعلیمی اداروں سے نکلنے والے ملازمت لینے والے نہیں بلکہ دینے والے بنیں۔

احتشام الدین : باتیں تو بہت ہوگئیں ،ان مسائل کا حل بھی نکلنا چاہیے ،اکثر لوگوں سے کہتا ہوں ہم نے اپنی اننگز کھیل لی ،دیکھنا یہ ہے ہم آنے والی نسل کو کیا دے کر جارہے ہیں،دنیا فورم کے توسط سے مسائل کے حل کیلئے سب لوگوں کو کاٹی کی طرف سے دعوت دیتا ہوں آئیں سب مل کر کام کرینگے۔ ہم سے جہاں تک ہوسکتا ہے ہم مختلف اداروں اور لوگوں کے پاس جارہے ہیں کوشش ہے ان بچوں کیلئے کچھ نہ کچھ کر جائیں۔

اندراس نواب : عا م طورپر جو باتیں کی جاتی ہیں ان پر عمل نہیں ہوتا ،امید کرتے ہیں کاٹی ، سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ساتھ مل کرکام کرے گی او ر ان کے درمیان جو معاہدے اور حوصلہ افزاء باتیں ہوئی ہیں ان پر عمل ہوگا۔اس کیلئے دنیافورم قابل تعریف ہے۔ تجویز ہے ٹیکنکل اداروں میں دوسرے سال میں بچوں کو انٹرن شپ دی جائے جس سے بچے کورسز مکمل کرنے کیساتھ عملی طورپر کام کر سکتے ہیں،جس سے ادارے اور انڈسٹری ضرورت کے مطابق ہنرمند حاصل کرسکیں گے۔اگرایسا ہو جائے تو ہمار ا بچہ وہ کامیاب رہے گا ۔

نمیرہ منظور :کافی عرصے سے کوشش میں تھی ٹیکنیکل اداروں اور انڈسٹری ایک ساتھ مل کر کام کریں،جو آج اس فورم میں ممکن ہوا،اس کا سحرا دنیا فورم کو جاتا ہے جنہوں نے آج سب کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے پلیٹ فارم مہیا کیا،حیدر بابا انسٹی ٹیوٹ نے انڈسٹری میں ادارہ بنایا ہے جس میں ٹیکنیکل لوگوں کو شامل کررہے ہیں جس سے نوجوانوں کو فائدہ ہوگا۔ہم اپنے حصے کی نیکی کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے ہیں ،انڈسٹری کے دیگر لوگ بھی ہمارے ساتھ مل کر کام کریں ۔

اختر علی شاہ : ہمارے بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کے حوالے سے آگہی نہیں ہوتی جس کے باعث وہ اس کی اہمیت نہیں سمجھتے اور میٹرک ٹیکنیکل ایجوکیشن میں نہیں کرتے،دنیا فورم کا شکر گزار ہیں جنہوں نے اہم موضوع پر فورم کا انعقادکرکے اچھا قدم اٹھایا ہے۔سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ڈاکٹر مسرور احمد شیخ کی سرپرستی میں بہت کام کررہا ہے،بورڈ نے کچھ کورسز کو انڈسٹری سے لنک کیا ہے،جوہم نے انڈسٹری کیساتھ مل کر کیا ہے۔

شازیہ انجم :بچوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کی آگہی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی بچہ میٹرک ٹیکنیکل سے نہیں کرتا ،خاص طورپر بچیوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ،بچوں کو زبردستی ا س کی اہمیت بتانا پڑتی ہے،اس طرف بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مسرور شیخ: ہر شخص ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتا لیکن اپنے ہنر اور مہارت سے انجینئر اور ڈاکٹر سے زیادہ کماسکتاہے،ان چیزوں کو آگے بڑھا نے کی ضرورت ہے۔دنیافور م کے بعد فورم کی ٹیم نے شرکاء کے ساتھ حیدر بابا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا اور جدید مشینوں کو دیکھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔