ہاکی :چیمپئنز سے بے نامی تک کاسفر،آخر کیوں؟

دنیا فورم

تحریر : میزبان:مصطفی حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : ماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:حنیف خان سا بق اولمپیئن۔ گلفراز خان ،چیئرمین کراچی ہاکی ایسوسی ایشن۔ حیدرحسین ،جنرل سیکریٹری کے ایچ اے ، ڈاکٹرسید عبدالماجد ،سینئر نائب صدر کے ایچ اے ۔عارف بھوپالی سابق بین الاقوامی کھلاڑی۔پرویز اقبال سابق کھلاڑی۔خالد پرا چہ کوچ ۔امتیاز الحسن کوچ۔سینئر صحافی ندیم صدیقی،اور ہاکی کی تربیت لینے والے بچوں اوروالدین کی شرکت۔

بے انتہا تبدیلیوں سے ہاکی تباہ ہوگئی،84ء کے بعد9کھلاڑی نکالے گئے ،حنیف خان

بچوں کو قومی کھیل کا نہیں معلوم،ہاکی کے کھلاڑیوں کوبیروزگاری کا خوف ہے ، گلفراز خان

 جب تک میڈیا سپورٹ نہیں کرے گا ہاکی کے کھیل کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا،حیدر حسین 

کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کی کوششوں سے میدان بچوں سے بھرگیا،ڈاکٹر سیدعبدالماجد

موضوع: قومی کھیل زبوں حالی سے دوچار۔۔بحالی کیسے ممکن ؟

 

پاکستان ہاکی ایک زمانے میں ہمارے ملک کی پہچان ہوتی تھی ، 1971ء سے شروع ہونے والے ہاکی کے ورلڈ کپ میں پاکستان 4مرتبہ عالمی فاتح قرار پاچکا ہے تاہم گزشتہ چند برسوں سے ہاکی کا کھیل مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے ،قومی کھیل کی یہ حالت سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور عنایتوں کا شاخسانہ ہے ،تعلیمی اداروں میں ایک زمانے میں قومی کھیل کے فروغ کیلئے باقاعدہ مفت ہاکی اور کٹس تک تقسیم کی جاتی تھیں،گلی محلوں میں ہاکی کھیلی جاتی تھی،سمیع اللہ ،حنیف خان ،اصلاح الدین اور دیگر ماضی کے نامور کھلاڑی قومی کھیل کو وکٹری اسٹینڈ پر لایا کرتے تھے ،یہ وہ کھیل ہے جو صحت مند ہوتا تھا اور اسے اسپانسرز کرنے والوں کی بھی قطار ہوتی تھی مگر افسوس کہ ایسوسی ایشنز کے درمیان چپلقش ،حکومتوں اور سیاسی رہنمائوں کی جانب سے بے جا مداخلت اور فنڈز کی مسلسل کٹوتی نے قومی کھیل تباہ کردیا،دنیا اخبار نے کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کے تعاون قومی کھیل کی بحالی کیلئے دنیا فورم کا ارادہ کیا۔چیئرمین گلفراز خان نے میری ایک کال پر بھرپور رسپانس دیا اور خود فون کرکے دو تین مرتبہ وقت طے کیا۔کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کمپلیکس گلشن اقبال میں ہونے والے سمر کیمپ کا بتایا،جب میں وہاں پہنچا تو کھلاڑیوں میں مفت ہاکیاں تقسیم ہورہی تھیں،میں نے پوچھا کہ کتنے بچے آگئے کیمپ میں تو بتانے لگے کہ بھئی ہمارا تو اندازہ تھا کہ 50یا100آئیں گے لیکن آپ سن کر حیران ہونگے کہ ایک ہزار بچوں نے رجسٹریشن کرائی اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بچوں کے والدین خاص طور پر مائوں نے بھی بھرپور دلچسپی لی اور خود بھی کھیلنے لگیں۔ہم نے جب دنیا فورم کیا تو کئی مائیں موجود تھیں اور انہوں نے ہماری کاوش کو سراہتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بچوں کیلئے میدان بنائے تاکہ بچے موبائل اور سوشل میڈیاسے نکل کر صحت مند کھیل کی جانب آئیں۔ہم نے کوشش کی کہ قومی کھیل کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور تعاون پر یقیناً کراچی ہاکی ایسوسی ایشن اور خاص طور پرچیئرمین گلفراز خان شکریہ کے مستحق ہیں امید ہے کہ قارئین اس پر بھی اپنے تاثرات سے آگاہ کریں گے  ۔شکریہ(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا )

 دنیا:بچے ہاکی کی طرف نہیں جاتے ذمہ دار کون ہے ؟

سابق اولمپئن حنیف خان :کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے ،انٹرنیشنل اولمپکس کھلاڑیوں کا بھی قصور ہے جو گراؤنڈ میں پر نہیں جاتے ۔ایسوسی ایشنز بھی ذمہ دار ہیں، پاکستان کی ہاکی ایسوسی ایشن کو کراچی ہاکی ایسوسی ایشن سے سیکھنا چاہیے یہ ان کیلئے رول ماڈل ہے ۔کراچی ہاکی ایسوسی ایشن نے 2سال کے دوران کئی پروگرامز کرائے ، کراچی ہاکی اسٹیڈیم میں سمر کیمپ لگایا تھا جس میں ایک ہزار سے زائد افراد آئے جو بہت بڑی بات تھی، اندازہ ہوا قوم میں آج بھی ہاکی کا جذبہ موجود ہے صرف آگہی کی ضرورت ہے ۔ جب تک گراس روٹ پر ہاکی نہیں ہوگی کلب ،ڈسٹرکٹ اورزون کی سطح پرہاکی کو فروغ نہیں ملے گا۔پچھلی ہاکی فیڈریشز نے ہاکی میں اتنی زیادہ تبدیلیاں کیں جس کے باعث ہاکی زبوں حالی کا شکار رہی ،ایک کھلاڑی3 سال میں اپنی جگہ بناتا ہے ، 84 اولمپکس کے بعد ہاکی فیڈریشن نے 9کھلاڑیوں کو نکالا جس سے پاکستان کی ہاکی 27سال پیچھے چلی گئی اورمستقل ہارتی چلی گئی ۔جب غلطی ہوتی ہے توغلطیوں پر غلطیاں ہوتی چلی جاتی ہیں،ٹیمیں ہارنے لگیں تو ایسوسی ایشزنے دلچسپی لینا چھوڑ دی اور فنڈز کو کھانے پینے میں لگاتے رہے ہاکی پر توجہ نہیں دی ۔ 15سال پہلے بھی ہاکی پر توجہ دی جاتی اور فنڈز استعمال ہوتے تو آج پاکستان میں ہاکی کا یہ حال نہ ہوتا۔

دنیا: ٹورنامنٹ میں لوگوں کو کس طرح لائے ،والدین کا کردارکیاتھا؟

 گلفرازخان : کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کی طرف سے 9 جنوری سے لگایا گیا سمر کیمپ 15روز تک جاری رہا اتنی کثیر تعدا د میں بچوں اور والدین کے جمع ہونے سے پورے پاکستان کو حیرت ہوئی کہ اتنے لوگ گراؤنڈپر کیسے آگئے ، پہلے بھی کیمپ لگائے جاتے تھے جس میں 100-50افراد آجاتے تھے ،ہاکی ایسوسی ایشن گزشتہ ڈھائی سال سے کام کررہی ہے جس کے تحت مستقل بنیادوں پر ایونٹس اور میچز کرائے جارہے ہیں ، سمر کیمپ میں بچوں کے تاثرات سے اندازہ ہوا بدقسمتی سے بچوں کو ہاکی قومی کھیل ہے اس کامعلوم ہی نہیں تھا ۔والدین کو خراج تحسین پیش کروں گا جو اپنے بچوں کو لائے اس سے بچوں میں ہاکی کا جذبہ نظر آیا،ا ن کی حوصلہ افزائی کیلئے ہاکی ایسوسی ایشن کراچی نے کیمپ میں رجسٹریشن کرانے والے تما م بچوں کو ہاکی، کٹ اور سر ٹیفکیٹ مفت تقسیم کیے ۔میڈیا پر اس کی اچھی کوریج ہوئی ،سوشل میڈیا پر بھی کوریج ہوتی رہی جس کے نتیجے میں اب چھوٹے چھوٹے بچے گراؤنڈ زمیں آرہے ہیں، قومی کھیل کی زبوں حالی تو ہوگئی اب بحال کرنے کیلئے کام کرنا ہے ،کراچی ہاکی ایسوسی ایشن نے پہلا قدم رکھ دیا ہے ،بچوں کا تعلیم کے ساتھ اتنا لمبا سفر کرکے یہاں آنا دشوار مرحلہ ہے ، کوشش کررہے ہیں علاقوں میں گھروں کے قریب میدان پر ہاکی شروع کرائیں، اسو قت کراچی میں ہاکی ایسوسی ایشن کے 6کھیل کے میدان تھے جن پر قبضہ ہوچکاتھا انہیں خالی کرایا گیا،اب اس پر کام ہورہاہے ، ہاکی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری حید رحسین بہت بھاگ دوڑ کررہے ہیں ،وائی ایم سی اے کسی وقت میں ہاکی کا مرکز ہوا کرتا تھا اس کو خالی کرایا گیا وہاں کام ہورہا ہے انشاء اللہ 15سے 20روز میں ہاکی دوبارہ شروع ہوجائے گی۔اسی طرح ضیاء الدین اسپتال کے سامنے ہاکی گراؤنڈ تھا جس پر شاد ی کی تقاریب اور پارکنگ ہونے لگی تھیں اس کو بھی خالی کرایا گیا وہاں بھی بہت جلد کام شروع ہوجائے گا۔ کلفٹن میں گراؤنڈ ہے جس پر قبضہ ہے اس کو بھی خالی کرائیں گے ، دنیافورم کے توسط سے ایک بات کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہاکی کی بحالی کیلئے بہت تعاون کررہے ہیں ۔ سندھ حکومت پاکستان ہاکی فیڈریشن کو فنڈز دے رہی ہے ،سمر کیمپ میں بھی سندھ حکومت کے امتیاز علی شاہ نے بہت سپورٹ کی ۔ شہلارضا بھی بھرپور تعاون کررہی ہیں۔ ڈی جی رینجرز نے اس گراؤنڈ میں ایک ٹورنامنٹ کرایا تھا اس کا فائدہ یہ ہوا جن بچوں نے اچھی پرفارمنس دی ان کو رینجرز میں ملازمت دی گئی ،اللہ کا شکر ہے ہم کام کر رہے ہیں تو سپورٹ بھی مل رہی ہے ۔

حیدر حسین :ہاکی ہمار ا قومی کھیل ہے جب تک میڈیا سپورٹ نہیں کرے گا آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ 4 سال میں میڈیا نے بہت سپورٹ کیا۔ا س عرصے میں کوئی ہفتہ نہیں ہوگا جس میں ہاکی ایسوسی ایشن کی خبریں نہ ہوں۔ میڈیا کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جن کی بدولت ہاکی کو فروغ دے رہے ہیں۔تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب بڑے ٹورنامنٹ کی خبر نہ لگی اور چھوٹے چھوٹے ایونٹ کی خبریں نظر آتی ہیں۔کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری ہونے والی خبریں زیادہ تر کھیلوں اور پرفارمنس پر مشتمل ہوتی ہیں ، اسکول کے زمانے میں حبیب اسکول کی طرف سے پہلی مرتبہ میچ کھیلا۔جس میں گرامراسکول سے میچ ہار گئے تھے لیکن اس میں ایک گول میں نے کیا تھا جس کی تصویر اخبار میں شائع ہوئی تھی ،اس تصویر کو پورے خاندا ن میں دکھایا کہ میرا نام آیا ہے ، پورے پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ کوئی ہاکی نہیں کھیلنا چاہتا اور اسپانسر نہیں ہے ۔کراچی ہاکی ایسوسی ایشن نے سمر کیمپ میں دونوں تاثر کو ناکام کیا،ہاکی میں اسپانسرز بہت ہیں۔ لو گ اسپانسر کرنا اور ہاکی کھیلنا چاہتے ہیں۔ ہماری ٹیم بچوں پر بہت محنت کررہی ہے ، بچے گھروں سے میدانوں میں آئیں ، ورلڈ کپ کی ٹیموں میں ہمیشہ کراچی کے 3 سے 4 لڑکے رہے ہیں۔ ہاکی کے سابق کھلاڑی منظور الحسن سینئر کہتے ہیں جب تک کراچی کے 3سے 4 کھلاڑی پاکستانی ٹیم میں نہیں ہوں گے وکٹری اسٹینڈ پر آنا مشکل ہے ۔پاکستان ہاکی فیڈریشن ڈومیسٹک وژن پر کام کررہی ہے ،جس کی واضح مثال سمر کیمپ ہے ،کیمپ میں 550 بچوں کی آن لائن رجسٹریشن ہوگئی تھی۔4 سال سے گراؤنڈمیں ہاکی ، کٹ ، رجسٹریشن اور کوچنگ سب کچھ مفت ہے ،پہلی مرتبہ اتنا بڑا کیمپ لگا،پاکستان کی تاریخ میں 300 سے زیادہ لوگوں کا کیمپ نہیں لگا،میڈیا کی اچھی کوریج رہی ،رجسٹریشن کیلئے سڑک پر لائن لگی ہوئی تھی،جسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ، والدین کا خاص طور پر شکر گزار ہوں جو اپنے بچوں کو آگہی دیتے ہوئے میدان میں لائے ۔ 

دنیا: پہلے ادارے ہاکی کو سپورٹ کرتے تھے اب کیاصورت حال ہے ؟

 گلفران خان : پہلے ایچ بی ایل،این بی پی ،یو بی ایل ،اے بی ایل ،پاکستا ن ریلوے ، پاکستان واپڈا، حیدرآباد واپڈا، پاکستان پولیس،کراچی پولیس،پاکستان کسٹم ،پی آئی اے ، پاکستان نیوی ،پاکستان آرمی ،کے پی ٹی ،کے ای ایس سی ،پی بلیوڈی،پی این ایس سی ،ایچ بی ایف سی، پی ایم ٹی ایف،کراچی ڈاکیارڈ،کراچی شپ یارڈ،کے ڈی اے ، کے ایم سی ،پاک کار پیٹ، سپارکو، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ،ایم سی بی ،پی سی ایس آئی آر ، ان ادارروں میں پاکستان ہاکی کو فروغ دیا جاتا تھا اور کھلاڑیوں کو روزگار کے مواقع بھی ملتے تھے مگر اب بیروزگاری کا خوف ہاکی کے کھلاڑیوں کیساتھ لگا ہوا ہے ۔ کراچی ہاکی ایسوسی ایشن اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کا وژن ہے کہ گراس روٹ لیول پر کام ہو جس کا آغاز کراچی سے ہوگیا ہے ،جب تک کراچی کسی بھی کام میں اپنا حصہ نہیں ڈالے گانتیجہ نہیں آئے گا۔ہم نے پہلی اینٹ رکھ دی ہے ، انشاء اللہ بہت جلد پاکستان ہاکی میں اپنا نام بنائے گا۔

دنیا:ہاکی کی زبوں حالی کی کیا وجوہات سمجھتے ہیں؟

کوچ خالد پراچہ:ہاکی کی زبوں حالی کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ہاکی کو آگے بڑھانے کیلئے کراچی ہاکی ایسوسی ایشن نے جو کام شروع کیئے ہیں اس پر محنت کی ضرورت ہے ۔ سمر کیمپ میں نوجوانوں کی کثیر تعداد نے دلچسپی ظاہر کردی اب ہماری ذمہ داری ہے بچوں کو اچھا ماحول اور سرگرمیاں فراہم کریں۔ ہاکی کو فروغ دینے میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتاہے ۔

دنیا: ہاکی کے فروغ کیلئے میڈیا کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ ۔ بچے کس طرح میدان میں آئیں گے ؟

 ڈاکٹر سید عبدالماجد : کراچی ہاکی ایسوسی ایشن ڈھائی سال سے گراؤنڈ پر کام کررہی ہے ۔دنیا اخبار پہلی مرتبہ ہمار ے گراؤنڈ پر آیا۔ جب سے کراچی ہاکی ایسوسی ایشن نے قومی کھیل کے فروغ کیلئے کوششیں شروع کی ہیں گراؤنڈ بچوں سے بھرا نظر آتاہے ، بچوں میں شوق بھی دکھائی دے رہاہے ، اب والدین اور بچوں کو احساس ہورہاہے کہ موبائل اور سوشل میڈیا پر وقت برباد ہورہا ہے ۔ خوشگوار بات یہ ہے بچوں کیساتھ والدین بھی بڑی تعداد میں میدان میں آرہے ہیں۔ والدین تھوڑی سے محنت کریں تو بچے ہاکی کی طرف آسکتے ہیں۔جن بچوں نے رجسٹریشن کرائی جب و ہ گلیوں میں کھیلیں گے تو معاشرے میں اثرات نظر آئیں گے ۔ جب تک بچوں کو والدین کی سپورٹ نہیں ہوگی بچہ ہاکی کے میدان میں نہیں آئے گا۔والدین یہاں سے مطمئن ہوکر جارہے او رابطہ کررہے ہیں کہ مزید کیمپ کب لگارہے ہیں۔

دنیا: قومی کھیل کی کیا صورت حال ہے ،بجٹ کہاں استعمال ہوتا ہے ۔

صحافی ندیم صدیقی :1978 ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اسکولوں میں بہت توجہ دی گئی تھی ۔کراچی اورسندھ کی سطح پر نیشنل اسپورٹس بورڈ اور کوچنگ سینٹر میں پاکستانی کھلاڑیوں نے کیمپ لگائے جہاں بچوں کو ٹریننگ دی جاتی تھی۔ صلاح الدین، حنیف خان ، سمیع اللہ ٹریننگ دیتے تھے ۔میں نے حنیف خان اور سمیع اللہ سے ٹریننگ لی ۔اس وقت کیمپوں میں ہاکی کا بہت زبردست جوش و لولہ تھا لگتا تھا جیسے دنیا فتح کرلیں گے ۔ اب بچوں میں 1978ء والا جوش اور جذبہ نظر نہیں آتا،اس وقت ہاکی کا ماحول تھا،پہلے پارک سے زیادہ گراؤنڈ ہوتے تھے جس سے بچے کھیل کی سرگرمیوں میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اب وہ سہولتیں نہیں جس کے باعث بچے دور ہوتے جارہے ہیں، کھیل کے میدان پارک بنادیئے گئے ،دنیا فورم کے توسط سے درخواست ہے کہ جن علاقوں میں کھیل کے میدان ہوں وہاں کلب کی ٹیمیں بناکر ان کو سپورٹ کیا جائے ، پہلے این سی سی میں 2.5فیصد نمبر ملتے تھے جس کی وجہ سے طالب علم لازمی این سی سی میں حصہ لیتے تھے انہیں معلوم تھا ایسا نہیں کریں گے تو نمبر نہیں ملیں گے ،حکومتی سطح پر اسکولوں اور کالجوں میں ا سپورٹس کو پروموٹ کرنے کیلئے مارکس رکھے جائیں تاکہ بچے کھیل کی طرف آئیں ،جرمنی میں سب سے بڑا بجٹ دفاع اسکے بعد تعلیم اور تیسرا بڑا بجٹ اسپورٹس کا تھا۔دنیا بھر میں تعلیم کے ساتھ اسپورٹس کا بھی اچھا خاصہ بجٹ رکھا جاتا ہے ، پاکستان کے نامور کھلاڑی ہمار ے ہیرو تھے ۔ ادارے اور میڈیا اسپورٹس خاص طور پر قومی کھیل کو پروموٹ کرنے کیلئے کردار ادا کرے ۔ معاشرے میں اسپورٹس کلچر کو پروموٹ کیا جائے ، اس موقع پر ندیم صدیقی نے ماضی کی معروف کمنٹری کی بھی نقل سنائی جو یقیناً ماضی میں ٹی وی ہاکی کامیچ دیکھنے والے ہرشخص کو یاد ہوگی ۔ندیم صدیقی نے یوں کمنٹری سنائی 

‘‘ سمیع اللہ نے گیند کلیم اللہ کودی اور کلیم اللہ نے گیند سمیع اللہ کو دی ،سمیع اللہ،کلیم اللہ اور گول ۔ جسے سن کر شرکاء نے تالیاں بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کی اورفورم کاماحول خوشگوار ہوگیا۔

صحافی رمیز احمد: ‘‘میں شرمندہوں ’’ کے عنوان سے کالم لکھ رہا ہوں ،پاکستان نے 4 ورلڈ کپ جیتے ،میں آج بھی اگر راشد منہاس اورمیجر عزیر بھٹی شہید کا ڈرامہ دیکھتا ہوں میرا خون جوش مارتا ہے ، معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہم کہاں جارہے ہمیں نہیں پتہ جس کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہمارے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو وہ کچھ نہیں سکھارہے نہ ہی بتارہے ہیں جو بتاناچاہیے ۔

ظہیر خان :ہاکی زبوں حالی کا شکار ہے ، کراچی ہاکی ایسوسی ایشن ہاکی کا کھیل بنانے نہیں بلکہ بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔ قومی کھیل کا حال یہ ہے کہ ہمارے بچے ہاکی کے 11 کھلاڑیوں کے نام تک نہیں جانتے ۔ بہرحال اب بچوں میں آگہی آرہی ہے ہاکی کو سمجھ رہے ہیں، وہ میوزک جو ہمارے کانوں میں ہاکی شروع ہونے سے پہلے گونجھتا تھا اس کی آوازیں پھر کانوں میں سنائی دے رہی ہیں ۔ ایسالگ رہا ہے جیسے ماضی میں چلے گئے ۔ پہلے اسکول میدانوں کے ساتھ ہوتے تھے ۔ اس وقت 75فیصد اسکول ایسے ہیں خاص طور پر پرائیویٹ اسکولز جہاں دڑبوں میں بٹھا کر تعلیم دی جارہی ہے ،کھیل اور دیگر سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں،دنیافور م میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جس اسکول میں اسپورٹس نہ ہو اس کا لائسنز منسوخ کردیا جائے خاص طور پر قومی کھیل کوفوکس کیا جائے ۔ دنیا فورم سے 1978ء کے ہاکی کی یاد تازہ ہوگئی ۔زیادہ تر کرکٹ کھیلی لیکن خواہش ہے میرے بچے قومی کھیل کھیلیں ،یہی وجہ ہے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر بیٹے کو یہاں لاتا ہوں ،اس کو ہاکی سے اتنی محبت ہوگئی ہے کہ گھر میں کرکٹ کا سامان اٹھا کر رکھ دیااو ر کہا بابا اب میں ہاکی کھیلوں گا،اور ہاکی گراؤنڈ لانے کیلئے ضد کرتاہے جسے لے کر آتا ہوں۔اس دن سے آج تک ایک روز کا بھی ناغہ نہیں ہوا۔

دنیا: ہم ورلڈ چیمپئن تھے کہاں گم ہوگئے ، کیا وجہ ہے ؟

کوچ امتیاز شیخ : کوشش کررہے ہیں کہ علاقائی سطح پر ہاکی کو فروغ دیا جائے ،کراچی کے عوام بہت تعاون کرتے ہیں صرف آگہی اور تربیت کی ضرورت ہے ، والدین او ربچوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بڑی تعداد میںسمر کیمپ میں شرکت کرکے ہم پر اعتماد کیا۔ہمارے دستو ر میں یہ با ت موجود ہے کہ اداروں میں 5فیصد کھلاڑیوں کو ملازمت دینی ہیں۔المیہ ہے قومی کھیل کو بھی ہر ادارے نے بند کردیاہے ۔واٹر بورڈ میں 1990ء سے اب تک ہاکی میں نئی تقرری نہیں ہوئی،اگر ہوئے بھی کھیل کے نام پر سیاسی لوگ بھرتی ہوگئے کھلاڑی نہیں آئے ۔

پرویز اقبال : میڈیا کو ہمارے ہیرو ز کے میچز دکھانے چا ہئیں تاکہ نوجوان بچوں کو 1978 کے جوش جذبے سے آگہی ہو۔ گراس روٹ سے ہاکی شروع کی تھی۔ کھیل کے ساتھ میدان کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے ،اسکولوں سے تربیت کی جائے اور کالجوں میں ایونٹ کئے جائیں اس کے بہترین نتائج آئینگے ۔ پہلے اسکولوں میں ہاکی اور کٹ ملا کرتی تھی جس سے بچے گلیوں میں کھیلا کرتے تھے ، اب اسکول اور کالجز میں اسپورٹس خاص طورپر ہاکی کا بجٹ جیبوں میں جا رہا ہے ، کراچی یونیورسٹی میں بھی ہاکی اور کٹس ملا کرتی تھی ، یونیورسٹیوں میں انٹرا یونیورسٹی میچز ہوتے تھے اب کچھ نہیں ہو رہا ۔ میرا کراچی یونیورسٹی میں داخلہ ہی ہاکی کی وجہ سے ہواتھا۔کے ڈی اے میں لڑکیوں اور لڑکوں کی ہاکی کی ٹیم بنائی ہے اسی طرح دوسرے ادارے بھی بنائیں تاک بچوں کو کھیل کے ساتھ روزگار بھی مل سکے ۔

زاہد محمود :پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہاکی ٹیم تھی جہاں سے اچھے کھلاڑی آتے تھے اب یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے ، ہم لڑکے تیار کریں گے حکومت ان کو جگہ دے ۔

مصطفیٰ جمیل عر ف راجو : گراس روٹ سے ہاکی کھیلی ، 1973ء میں ہاکی چھوڑدی تھی ۔ میرے سینئرگلفراز خان ،حیدر بھائی اور دیگر نے کہا ہاکی سے دور کیوں بھاگ رہے ہو گراؤنڈ آؤ ، انہوں نے اسائمنٹ دیا اس پر کام کیا ۔ بچے گراؤنڈ میں بہت محنت کررہے ہیں ،انشاء اللہ کراچی ہاکی ایسوسی ایشن اس گراؤنڈ سے پاکستانی کھلاڑی دیگی۔

 بچوں کی مائوں کی بھی ہاکی میں دلچسپی

 اسماء: اسپورٹس کا شوق ہے ، سمر کیمپ میں بچو ں کی جسٹریشن کرائی تھی، دوبچوں کے ساتھ آئی ہوں ،گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ بچوں کو اسپورٹس کیلئے بھی وقت دیتے ہیں، یہاں آکر بچوں کو دیگر کھیلوں کی نسبت ہاکی کا شوق ز یادہ ہوگیا ہے ، بچوں کی خاطر رجسٹریشن کے بعد سے اب تک ایک بھی ناغہ نہیں ہوا۔بچے آنے کے بعد جانے کو تیار نہیں ہوتے زبردستی لے کرجانا پڑتا ہے ، گھر جاکر بھی ہاکی کھیلتے رہتے ہیں۔

سیماء اسلام : بچوں کو ہاکی کا بہت شوق ہے ، ہاکی ہمار ا قومی کھیل ہے سوچا بچوں کو اسی طرف راغب کرتے ہیں۔ والدین سے درخواست کروں گی جو بچوں کو موبائل دے کر مصروف کردیتے ہیں ان کو یہاں لائیں اور کچھ سکھائیں اس سے بچے صحت منداور ایکٹو رہیں گے ۔

 بیٹی اور نواسہ نواسی کو میدان لانے والی گول کیپر نانی

 دنیا فورم میں ہاکی کھیلنے کیلئے میدان میں موجود57سالہ نانی کنیز فاطمہ زیدی نے بتایاکہ وہ اپنی بیٹی اور نواسے ،نواسی کے ساتھ خود بھی ہاکی کھیلنے میدان آتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان سب کو سلام ہے جنہوں نے مجھے ، میرے بچوں، نواسے ، نواسیوں کو موقع دیا۔ ہمارا قومی کھیل بہت پیچھے چلا گیا لیکن یقین ہے ہماری آنے والی نسلیں ان دبے ہوئے نامو ں کو دوبار ہ اجاگر کر ینگی۔یہاں کے کوچ نے کہا ہاکی اسٹیڈیم میں مفت میں رجسٹریشن ہورہی ہے اپنے بچوں کو لائیں اور رجسٹریشن کرالیں ان سے کہا صرف بچوں کو کیوں ،میں بھی رجسٹریشن کراؤں گی ۔ میری بیٹی ملیر کینٹ سے روزانہ بائیک پر ہاکی کھیلنے کیلئے کراچی ہاکی اسٹیڈیم گلشن اقبا ل آتی ہے اور میں بھی اس کے ساتھ کھیلنے آتی ہوں۔ میں گول کیپنگ کرتی ہوں کیونکہ اب اس عمر میں بھاگنا مشکل لگتا ہے ، ہمیں نوجوان نسل کو آگہی دیتے ہوئے آگے لے کر چلنا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔