کراچی:بڑے دل والوں کا شہر

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : سید ماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاءعنایت اللہ اسماعیل ، سینئر منیجر ریسورس موبلائیزیشن الخدمت کراچی معین احمد،منیجر آپریشن المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی ثمینہ اکسیر، سربراہ شعبہ فنڈریزنگ کوہی گوٹھ اسپتال ڈاکٹر سید نواز الہدیٰ، فاؤنڈرممبر ڈلیو رکراچی فورمریاض نوری ،جنرل سیکریٹری شیڈ فاؤنڈیشن عبدالرزاق پردیسی،صدر ڈائریکشن اسکول ڈاکٹر ثاقب خان ، ڈائریکٹر ڈائریکشن اسکول ڈاکٹر اخلاص احمد،صدراسٹائل ویلفیئر فاؤنڈیشن شکیل دہلوی ،جوائنٹ سیکریٹری عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ

شہر قائدسے زیادہ فنڈ ملتا ہے مگر یہی محروم ہے،عنایت اللہ اسماعیل،حکومت جعلی این جی او ز کنٹرول کرے،پیسہ برباد کرتی ہیں:   معین احمد

خدمت کا کام حضور ﷺ کے زمانے سے جاری ہے ،ڈاکٹرثاقب،بل اور ٹیکسوں کی وجہ سے لوگ عطیات نہیں دے رہے:   ثمینہ اکثیر

رمضان مسلمانوں کیلئے خوشیوں کا پیغام لاتا ہے،ریاض نوری ،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے کام بہتر کیاجاسکتا ہے:   ڈاکٹر اخلاص

 غیرسرکاری تنظیمیں ٹیکسوں میں رعایت کا مطالبہ کریں،ڈاکٹر نواز،رمضان میں ہمارے کام اورفنڈز بڑھ جاتے ہیں:   شکیل دہلوی

 

موضوع:’’ رمضان غریبوں کے لئے خوشیوں کا پیغام ‘‘

 

 

 حالات کیسے ہی ہوں شہر قائد کے باسی ہم وطنوں کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹتے،رمضان میں تو جیسے ہاتھ بہتے دریا بن جاتے ہیں اور فلاحی اداروں کے سال بھر کے اخراجات نکل آتے ہیں مگر حکومت کی بے رخی کی وجہ سے عروس البلاد خود محروم رہ جاتا ہے۔فلاحی تنظیمیں اس شہر پر خاص طور پر اور ملک بھر کیلئے عموماً اللہ کا کرم ہیں جو طب ،تعلیم کیساتھ ساتھ ماہانہ راشن کی تقسیم میں بھی بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہیں،فلاحی اداروں کیساتھ دنیا فورم ایک روایت بن چکی ہے اس مرتبہ گفتگو کچھ مختلف تھی ،فلاحی اداروں سے محض ان کے کام کے سوالات نہیں کئے بلکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ آخر کب تک سارا بوجھ فلاحی ادارے ہی برداشت کرتے رہیں گے؟ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ہمارے ساتھ تعاون کرے تو بہت سے اسپتال اور تعلیمی ادارے ہم چلاسکتے ہیں،عوام ہم پر اعتماد کرتے ہیں،

جناح اسپتال میں ہی مختلف فلاحی تنظیموں کیساتھ اشتراک سے مریضوں کو بہترین سہولتیں مل رہی ہیں اس کام کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے حکومت فلاحی اداروں کیساتھ بیٹھے اور مسئلے حل کرے۔روزنامہ دنیا کے زیر اہتمام دی ڈائریکشن اسکول گلشن اقبال میں دنیا فورم کا انعقاد کیا گیا ۔ تفصیلی رپورٹ یقیناً قارئین کیلئے بہت مفید ہوگی۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ ،مصطفیٰ حبیب صدیقی (ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)برائے تجاویز اور تجزیہ: 03444473215(واٹس ایپ)یا ای میل کریں ۔ 

mustafa.habib@dunya.com.pk

 

  دنیا: الخدمت کن شعبہ جات میں زیادہ کام کررہی ہے؟

عنایت اللہ اسماعیل : الخدمت نے 1976 میں کراچی میں ایک میت گاڑی سے کام کا آغاز کیا۔شروع میں تھیلوں میں آٹا جمع کرکے لوگوں کی مدد کرتے تھے اب اللہ کے فضل سے پورے ملک میں وسیع پیمانے پر فلاحی کام کررہے ہیں،کورونا کی صورت حال میںالخدمت نے پورے پاکستان میں بڑھ چڑھ کر کام کیا، الخدمت فاؤنڈیشن ڈیزاسٹر منجمنٹ، تعلیم اور صحت پر بڑے پیمانے پر کام کررہی ہے ،یتیم بچوں کیلئے آغوش کے نام سے کام کررہے ہیں جس پر سب سے زیادہ فنڈز ملتے ہیں ۔ اپنے پیروں پر لوگوں کو کھڑا کرنے کیلئے بلاسود قرضے بھی دیتے ہیں، الخدمت مہنگی فیسوں کے حوالے سے بھی کام کررہی ہے تما م این جی اوز اس طرف بھی توجہ دیں،کراچی غریب پرور شہر ہے ،پورے ملک کو سب سے زیادہ فنڈز کراچی سے ملتے ہیں،لیکن کراچی اپنے حقوق کیلئے محروم ہے ، لوگ دل کھول کر چندہ دیتے ہیں،بدقسمتی سے جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ این جی اوز کررہی ہیں،عوا م سے لیے جانے والے ٹیکس سے عوام کو فائدہ نہیں ہورہا،فلاحی اداروں نے حکومت کا بوجھ اپنے کاندھوں پرا ٹھایا ہوا ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں آپ لو گ حکومت کو خراب کررہے ہیں اگر ہم پیچھے ہٹ جائیں تو لوگ بد سے بدحال ہوتے چلے جائیں گے،لوگ ہمیں منگتے بھی کہتے ہیں لیکن ہمیں خلق خدا کیلئے مانگنے او ر کام کرنے میں خوشی ہوتی ہے،ایسے لوگ بھی ہیں جو دل کھول کر پیسے دیتے اور کہتے ہیں رسید پھاڑ دو بس پیسے لے لو۔رسیدوں کے انبارلگے ہیں ۔گداگری کے حوالے سے لوگوں میں آگہی دینے کی ضرورت ہے اس میں زیادہ تر جعلی لوگ ہوتے ہیں جو سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا تے ہیں۔

دنیا: حکو مت فلاحی اداروں کی طرح کام کیوں نہیں کرتی ،کیا سسٹم میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟

 معین احمد : حکومت اپنا کام کررہی ہے او رفلاحی ادارے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں،لیکن ہمارا نظام ایسا نہیں جس میں عوام کو فائدہ ہوا ور معاملات میں شفافیت بھی نہیں جس کی وجہ سے این جی اوز کو کام کرنے پڑ رہے ہیں، حکومت کے کام میں بہت مسائل ہیں۔کچھ عرصے پہلے ایک صاحب نے بتایا کہ سرکاری اسپتال کیلئے اتنا فنڈ آتا ہے آپ کو حیرت ہوگی ،لیکن کرپشن کی وجہ سے لوگوں کو سہولیات نہیں مل رہیں ،ان سے کہا حکومت کو چاہیے اسپتال فلاحی اداروں کے حوالے کردے وہ اچھی طرح سے چلا لیں گے،اس میں کوئی شک نہیں کہ جناح اور دیگر سرکاری اسپتالوں میں بہت کام ہورہا ہے لیکن جس طر ح ہونا چاہیے وہ نہیں ہورہا۔سب کام ہورہے ہوتے ہیں لیکن لوگ ایمانداری سے کام نہیں کرتے۔راشن کی تقسیم اور خون جو تھیلی سیمیا کے مریضوں کو لازمی لگتاہے ،سوشل ویلفیئر کا ادارہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ان شعبوں میں کام کرے کیوں کہ اس وقت غریبوں کیلئے راشن اور تھلی سیمیا کے مریضوں کیلئے خون کی اشد ضرورت ہے۔حکومت ایسا نظام مرتب کرے جس سے چیزیں کنٹرول ہوں،بے تحاشہ این جی اوز بن رہی ہیں اس کو بھی کنٹرول کیا جائے، سالانہ 100این جی اوز بنیں گی تو صرف 10کام کریں گی اور باقی پیسہ برباد کریں گی جس سے کام کرنے والی پرانی این جی اوز کو پریشانی ہوتی ہیں۔

 ڈ اکٹر ثاقب خان : 2007میں 16سالہ بچے سخی کا اچانک انتقال ہوگیا ،اس کی کلاس کے طلباء بہت افسردہ تھے ،میری تجویز پر اس کی کلاس کے طلباء نے سخی کے نام پر این جی او بنائی جس کا نام بھی ’’سخی ‘‘رکھاگیا۔ جس کا مقصد لوگوں کو پیسے دینے کے بجائے ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا تھا ۔ اتنے سال ہوگئے مگر یہ طلباء جو اب ڈاکٹر ،انجینئر بن کر مختلف اداروں میں اعلیٰ عہد وں پر ہیں جبکہ کچھ بیرون ملک بھی کام کررہے ہیں مگراپنا مقصد نہیں بھولے ،آج بھی پیسے بھیجتے ہیں ۔ اس این جی او کے ذریعے مدرسوں کے بچوں کومیٹرک بھی کروایا جو کالجوں میں پڑھ رہے ہیں ،این جی او کو 30سے 35طالب علم چلارہے ہیں ،خدمت خلق ایک فطری عمل ہے،خدمت کے کام حضور ﷺ کے زمانے سے چلتے آرہے ہیں یہ ایک تسلسل ہے جو قیامت تک چلتا رہے گا۔وہ طالب جو اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں کوروناکی وجہ سے ا ن کے والدین مہنگی فیسں ادا نہیں کرسکتے ہیں انہیں بہت مسائل کا سامنا ہے ان کیلئے بھی کام کررہے ہیں کہ ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے کہ لوگوں کی عزت نفس مجروح نہ ہوا اور بچے تعلیم بھی جاری رکھ سکیں ۔کچھ این جی اوز بہت اچھا کام کررہی ہیں جس سے عوام کے مسائل حل ہورہے ہیں۔

ثمینہ اکثیر : کوہی گوٹھ اسپتال نے 2006 میں 10بستروں سے ایک کلینک سے آغاز کیا تھا جواب بڑ اسپتال بن چکا ہے جس میں روزانہ 500سے زائد او پی ڈیز لگتی ہیں،نرسنگ ، انکیوبیٹر کی جدید سہولیات موجود ہیں، کینسر وارڈ بھی بن چکا ہے جس کیلئے فنڈز درکار ہیں۔عام طور پرلوگ رمضان میں ہی زیادہ سے زیادہ زکواۃ اور خیرات دیتے ہیں، عطیات کیلئے لوگوں کو فون کرو تو 90فیصد لوگ کہتے ہیں حکومت کی طرف سے بل اور ٹیکسوںکی بھرمار ہورہی ہے اب پیسے نہیں بچتے کہاں سے خیرات دیں ؟۔فورم کے توسط سے عوا م سے درخواست ہے صرف رمضان میں ہی زکواۃ اور خیرات کو مخصوص نہ کریں ،ہر ماہ بھی مدد کی جاسکتی ہے۔ کوہی گوٹھ اسپتال میں فیسٹولا کے مریضہ خواتین کا بالکل مفت علاج ہوتا ہے جو پاکستان بھر میں کہیں نہیں ہوتا،دودراز گائوں دیہات میں رہنے والی لڑکیوں اور خواتین کو مڈوائف کے کورس کراتے ہیں تاکہ وہ اپنے علاقوں میں جاکر لوگوں کی خدمت کیساتھ اپنے لئے سپورٹ بھی حاصل کرسکیں۔ہمارے ہاں جدید انکیوبیٹرز اور آئی سی یو ہیں،شہر بھر میں نومولود کیلئے انکیوبیٹرز کی سخت کمی ہے جبکہ ہمارے پاس18سے زائد انکیوبیٹرز ہیں ۔کوہی گوٹھ اسپتال ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور ان کے خاندان کی محنت اور وطن سے محبت کا آئینہ دار ہے۔

ڈاکٹر اخلاص : ملک میں اسکول اور ہیلتھ سسٹم پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، اسی بنا پراسکول ہیلتھ ایجوکیشن (SHE) کے نام سے سوفٹ ویئر بنایا ہے ، اس ویب ایپلی کیشن کو یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ مل کر چلارہے ہیں،Fast یونیورسٹی کے طالب علموں سے بھی ملاقات ہوئی ،انشاء ا للہ بہت جلد اس سسٹم کے ذریعے ملکی سطح پر کام کرنے جارہے ہیں،جس میں صحت سیکٹر کے حوالے سے انسٹی ٹیوٹ کو سہولت فراہم کریں گے۔

 محمد مزمل : کورونا اور دیگروجوہات کی بناء پر گزشتہ سال طلبا ء کی طر ف سے 300سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں جس میں سے 150درخواستیں ان طلباء کی تھیں جو پرائیویٹ یونیورسٹیوںمیں تعلیم حاصل کررہے ہیں انہوں نے بتایا کہ مالی حالات اچھے تھے جس کی وجہ سے یونیور سٹی میں داخلہ لیا،اب صورت حال بدل گئی ہے ،والدکے بیروزگار ہونے اور ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے گھر کے اخراجات بھی پورے نہیں ہورہے اعلیٰ تعلیم کیسے جاری رکھیں ،اس پر مخیر حضرات سے رابطہ کررہے ہیں تاکہ ایسے طالب علموں کی تعلیم جاری رہ سکے۔

شکیل دہلوی : حقیقت ہے رمضان کا مہینہ آتاہے تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے،حدیث کا مفہوم ہے رمضان میںجو بھی نیک عمل کیئے جاتے ہیں ان کا اجر کئی گنا بڑھ جاتاہے،رمضان المبارک میں فلاحی اداروں کا کام اور فنڈز بھی بڑھ جاتاہے، ،مسلمانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ نیک عمل کو رمضان میں شروع کریں ۔عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت پاکستان بھرمیں 10ہزار سے زائد افراد میں افطار اور کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جاتے ہیں ، 50ہزار سے زائد راشن بیگز تقسیم ہوتے ہیں تاکہ رمضان میں غریبوں کا دسترخوان بھی وسیع ہوجائے ، دیگر منصوبوں کے ساتھ ایک منصوبہ آسودگی شروع کیا ہے جس میں پاکستان بھر سے فیکٹریوں کے مالکان سے رابطہ کرکے ان سے پانچ پانچ مزدوروں کے نام او ر ڈیٹا مانگا ہے ،کئی لوگوں کا ڈیٹاآنا شروع ہوگیا ہے اس پر رمضان یا اگلے ماہ سے کام شروع کر دینگے، ان کو راشن پیکیج کے علاوہ ان کے بچوں کی شادی او ر تعلیم کے اخراجات پورے کرنے پر بھی کام ہور ہا ہے۔

ڈاکٹر اخلاص احمد:جناح اسپتال کے بارے میں عام طو رپر لوگوں کی غلط رہنمائی کی جاتی ہے ۔حالات اتنے خراب نہیں جتنے پیش کیئے جاتے ہیں۔جناح اسپتال میں پبلک پارٹنر شپ کے تحت  پیشنٹ ایڈفاؤنڈیشن (PAF)کے تحت بہت مہنگے علاج مفت میں ہورہے ہیں ۔ پی اے ایف نے جناح اسپتال میں 2 سائبر نائف بنائے ہیں ، دنیا بھر میں کل 5 ممالک کے پاس یہ سہولت ہے،جس میں برین ٹیومرکا علاج کروڑوں روپے میں ہوتا ہے جبکہ جناح اسپتال میں یہ علاج مفت میں کیاجاتاہے، ٹیسٹ بھی مفت ہیں ، سارے کام این جی او کرتی ہے،لوگ عطیے کیلئے خالی چیک لے کر آتے ہیں۔

دنیا:کیا حکومت اور فلاحی ادارے مل کر ایسا نظام نہیں بناسکتے جس سے ادارے کنٹرول ہوں؟

ڈاکٹر اخلا ص احمد: پبلک پارٹنر شپ کا دور ہے، کئی جگہ پر لوگ اس کے تحت کام کررہے ہیں،داؤد یونیورسٹی میں بھی ویلفیئر کے بہت کام ہورہے ہیں،ایسے بہت کام ہیں جو عوا م کو معلوم نہیں،حکومت ان کو سپورٹ کرے تو کام بہت اچھے طریقے سے ہوسکتے ہیں،بدقسمتی سے حکومت ایسے اداروں کی سرپرستی نہیں کرتی ۔این جی اوز کے کردار فراموش نہیں کر سکتے یہ حکومت کو سپورٹ کرتے رہیں گے ۔ہم انفرادی طورپر بہت کام کرتے ہیں لیکن جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا، سب ایک ہوکرکام کریں گے تو ہی حکومت سے مطالبات منواسکتے ہیں۔ملک میں ریسرچ بہت ہورہی ہے لیکن فوکس نہیں کیاجاتا اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 ڈاکٹرنواز الہدیٰ : کراچی کے حالات دیکھتے ہوئے 2018ء میں ڈلیورکراچی فورم (ڈی کے ایف ) کے نام سے پلیٹ فارم بنایا ،جس کا بنیادی مقصد کراچی کی خدمت کرنا تھا،لوگوں سے کہتے ہیں آپ کراچی کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں آئیں ہمارے ساتھ مل کر کام کریں ، امیر علاقوں میں رہنے والے بھی خود جاکر ان غریبوں میں امداد تقسیم کرتے ہیں،کوشش کرتے ہیں لوگوں کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے مدد کی جائے ،کورونا میں 3 ہزار روپے مالیت کے 12ہزار راشن کے بیگ تقسیم کیے ۔اس وقت پودے لگانے پر زیادہ کام کررہے ہیں ،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ادارے حکومتی سرپرستی میں چلتے ہیں ،حکومت کی ذمہ داری ہے جو بجٹ ملے و ہ لگایا جائے لیکن نہیں لگتا، جو کام حکومت کے کرنے کے ہوتے ہیں وہ نہیں کرتی ۔جب تک ہم قوانین پر عمل نہیں کریں گے معاشرے میں بہتر ی نہیں آسکتی ،حکومت لوگوںکو سہولتیں دینے کیلئے ہوتی ہیں ،این جی اوز سنجیدہ ہو جائیں او ر کونسل بن جائے تو کونسل سب سے پہلے حکومت سے مطالبہ کرے کہ عوام کو ٹیکسوں میں رعایت دی جائے۔

ریاض نوری : رمضان دنیا بھر کے مسلمانوں چاہے امیر ہو یا غریب سب کیلئے خوشیوں کا پیغام لاتا ہے ،اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کا شوق بڑھ جاتاہے۔شیڈ فاؤنڈیشن 2008ء سے کام کررہی ہے ، صحت اور تعلیم نظر انداز ہورہے ہیں،جس کی وجہ سے فلاحی ادارے ان شعبوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن ،سرجانی ٹاؤن اور نارتھ کراچی میں شیڈ فائونڈیشن کے اسپتالوں کی تعمیر جاری ہے جس پر کروڑوں روپے لگ چکے ۔ان کاموں کو چلانے کیلئے سارا پیسہ کراچی سے ہی جمع ہوتاہے ،شہر کے لوگ دل کھول کر فنڈجمع کراتے اور اعتماد کرتے ہیں ۔یتیم بچوں کیلئے بھی کام کررہے ہیں جہاں 200 سے زائد بچوں کی کفالت کی جاتی ہے۔منشیات کے مریضوں کے علاج کیلئے کلینک بنایا ہے جہاں ماہر نفسیات بھی ہوتے ہیں جو مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔اس وقت صرف مردوں کے علاج کی سہولت ہے، نفسیاتی مریض مرد او رخواتین دونوں کا علاج کیا جاتاہے،علاج کے 12ہزار روپے لیتے ہیں 3 مہینے کے کور س میں علاج ،کھانا پینا اور رہائش ہے۔3سال قبل اولڈ ایج ہوم شروع کیا ،

جس میں عام طو رپروہ بزرگ نہیں ہوتے جنہیں گھر سے نکال دیا گیا ہو بلکہ وہ حضرات ہوتے ہیں جن کی گھر میں کسی بھی وجہ سے دیکھ بھال نہیں ہورہی یا انہیں مستقل اسپتال اور علاج کی ضرورت ہے انکی دیکھ بھال کیساتھ علاج بھی کیا جاتاہے، ا ن بزرگوں کی تشہیر نہیں چاہتے کیوں کہ یہ لوگ اچھے گھرانوں سے ہیں ہماری شہرت سے کہیں ا ن کی عزت نفس مجروح نہ ہوجائے۔نارتھ کراچی کے اسپتال میں ڈائلیسز ،ہیپا ٹائٹس کے ٹیسٹ اور تھیلی سیمیاکے مریضوں کیلئے بلڈ ٹرانسفیوژن مفت ہیں۔90فیصد بچوں کیلئے خون کا انتظام کرتے ہیں۔ کورونا کی تشخیص کیلئے 4 ہزار روپے میں کورونا کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔کسی خاندان کے ممبر زیادہ ہیں تو فیس میں رعایت دیتے ہیں۔

 عبدالرزاق پردیسی : پاکستان بھر میں پودے لگارہے ہیں،گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران 40ہزار پودے لگائے اور رواں سال ایک لاکھ پودے لگانے کا منصوبہ ہے،خصوصی بچوں کے حوالے سے بھی منصوبے پر کام کررہے ہیں جسکامقصد ان بچوں کوبااختیار بنانا ہے، 400بچوں کے اخراجا ت پورے کررہے ہیں اس میں گھر کا راشن بھی شامل ہے۔کٹے ہوئے ہاتھ والے بچوں کو مصنوعی ہاتھ بھی لگارہے ہیں،ٹیکنالوجی اور سوچ بہتر کرنے سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

دنیا فورم کے دوران ڈاکٹر اخلاص نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں رابطوں کیلئے اکیڈمک کونسل ہوتی ہیں،اسی طر ح این جی اوز میں کونسل آف این جی اوز (CNGOs)بنائی جائے جو پاکستان کے تمام فلاحی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے جو حکومت کو بھی سپورٹ کرے اس سے سب کو فائدہ ہوگااو ر کونسل با اختیا ر ہو ۔ عنایت اللہ اسماعیل نے کہا کہ فورم میں حاجی حنیف طیب کے نہ آنے کی کمی محسوس کررہا ہوں جو رمضان کے حوالے سے دنیا فورم میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے، دوسال پہلے فور م میں مسا ئل حل کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنا ئی گئی تھی جس کے سربراہ حاجی حنیف طیب تھے ،میری تجویز ہے اسی طرح کمیٹی بنائی جائے جو این جی اوزمیں روابط کا کام کرے ۔معین احمدنے کہا کونسل سے پہلے ایک میٹنگ رکھ لی جائے تاکہ منصوبہ بندی سے کام ہو جس کی تمام شرکا ء نے تائید کی۔نوری ریاض نے کہا کہ این جی اوز آپس میں رابطے سے ایک دوسرے کی مہارت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔