عید !روایتیں برقرار،انداز بدل گئے

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء شائستہ آپا ، نائب صدر اور ڈائریکٹر گل رعنا نصرت کمیونٹی سینٹر ۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطان، صدرکوہی گوٹھ اسپتال اوروائس چانسلرملیر یونیورسٹی۔ احمد حسن ،ایڈیٹر روزنامہ دنیا کراچی۔گل رعنا ،معروف ٹی وی آرٹسٹ ۔ڈاکٹر عائشہ ،لیکچرار شعبہ اسلامک لرننگ جامعہ کراچی ۔ شکیل خان ،رکن گورننگ باڈی آرٹس کونسل اور چیئرمین ٹاک شو کمیٹی ۔شیریں ارشد ، مصنفہ اورہاؤس وائف ۔

بچپن میں وہاں جاتے جہاں عیدی زیادہ ملتی:   ڈاکٹر ٹیپو،غریب بستیوں میں آج بھی عید کی رونقیں نظر آتی ہیں:    احمد حسن

 بچیاں عید کیلئے دوپٹے گھروں میں رنگتی تھیں،شائستہ آپا، پہلے عید کارڈزہوتے تھے جن میں محبت تھی :    ڈاکٹر عائشہ

خوشیاں کشید کرنا ہوتی ہیں ،خیرات میں نہیں ملتیں،شکیل خان، روایات کی پاسداری کیساتھ میانہ روی اختیار کریں:   گل رعنا

 عیدکی نماز سے پہلے بڑوں کو سلام کرنا ختم ہوگیا ،شیریں ، عید پر چھوارے اور گڑ ھ کی سویاں ہوتی تھیں:   رخسانہ زیدی

 

موضوع:’’ ماضی اور آج کی عید،کیا کچھ بدل گیا ‘‘

 

عید مبارک:چند دن ہی رہ گئے ہیں یہ الفاظ ادا کرنے اور سننے میں ،لیکن صدیاں گزرگئیں ان الفاظ کی مٹھاس کم نہیں ہوئی،روایات اور پہناوے بدلتے چلے گئے،انداز بدل گئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ خوشیاں آج بھی موجود ہیں،دنیا فورم میں ہم نے ماضی کے جھروکوں سے عید کی خوشیاں تلاش کیں اورانہیں آج کے رنگ سے ملایا، نوجوانوں کو میسر آسائشوں ، تفریح کے نت نئے مواقع، موبائل فون کی وجہ سے گواب انہیں خاندان کے میل ملاپ سے زیادہ واسطہ نہیں رہا لیکن صبح سویرے اٹھ کر نماز کی تیاری کرنا ،نئے کپڑے بدل کر خوشبو لگانا،بچیوں اور خواتین کا چاند رات سے ہی تیاری کرنا ،مہندی لگانا، سویوں کی تیاری کی روایات آج بھی برقرار ہیں۔ خوشیاں کچھ پھیکی ہو گئیں 

ہیں اس کی وجوہات کئی ہیں لیکن بزرگوں کی قدر کریں تو یہ خوشیاں آج بھی میسر ہیں، دنیا فورم میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نہایت تجربہ کار شرکاء نے ماضی کی عیدوں کو ٹٹولا اور نوجوانوں کا عید کے مقصد سے آشنا کیا ۔ ہمیشہ کی طرح آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔(   تجاویز اور رائے کیلئے ای میل کریں۔

 mustafa.habib@dunya.com.pk

 یا واٹس ایپ0092-3444473215

شکریہ(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم )

 

 دنیا: بچپن میں عید کیسے مناتے اور تیاری کرتے تھے ؟

احمد حسن : اپنی زندگی میں بہت غیر معمولی تبدیلیاں دیکھیں ،پوری دنیا میں زیادہ تر تبدیلیاں ٹیکنالوجی کی مدد سے آتی ہیں۔ہم نے شروع میں زیادہ تبدیلیاں ٹیلی ویژن آنے کے بعد دیکھیں ،اس کے آنے سے لوگوں کا گھر سے نکلنا کم ہوا،لوگ گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ۔ اگرچے ایک ہی چینل ہوتا تھا اس کے باوجود بہت وقت دیا جاتا تھا،پھر انٹر نیٹ آگیا جس کی بدولت ایک کمرے میں رہتے ہوئے پوری دنیا کی معلومات سامنے ہوتی ہیں لیکن برابر کمر ے میں بہن بھائی کیسے ہیں اس کا علم نہیں ہوتا ،رہی سہی کسر موبائل فون نے پور ی کردی جس نے ملاقاتوں کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔لوگ عید پر ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کرکے سمجھتے ہیں فرض ادا ہوگیا،پہلے لوگ گھروں میں ملنے جاتے تھے جس سے محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے اب ایسا نہیں ہے،اسلام ہمیں غریب بہن بھائیوں کاخیال رکھنے اور ان کی دل جوئی کیلئے ان کے پاس جانے کادرس دیتاہے،غریب آبادیوں میں لوگ پھر بھی خوشیاں مناتے نظر آئیں گے،آج گھروں میں شیرخرما ،سویاں بنتی ہیں اور سب ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں ہوسکتاہے آگے چل کر یہ بھی ختم ہوجائیں۔

دنیا: ماضی اور آج کی عید میں کیا فرق ہے ؟

ڈاکٹر ٹیپو سلطان : ماضی اور آج کی عید میں بڑا فرق آگیا ہے،پہلے عید پر بڑوں اور دیگر رشتے داروں کے پاس جاکر ملاقات کرتے تھے اور یہ بہت اہم ہوا کرتا تھا۔پہلے ملاقات کا رجحان زیادہ تھا اب نئی نسل میں ان چیزوںکی اہمیت نظر نہیں آتی ،پہلے والدین کے ساتھ عیدکے پہلے اور دوسرے دن رشتے داروں سے ملاقات کیلئے جاتے تھے ،اب یہ سلسلہ کم ہوگیاہے صرف قریبی رشتے داروں کے پاس جایا جاتاہے،رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی ۔ مہنگائی کی وجہ سے کم آمدنی والے افراد جوڑے او ر جوتے نہیں بنا پاتے ،پچھلی عید بھی کورونا میں گزری تھی او ر یہ بھی گزرے گی جس سے لوگوں سے ملاقات کے مواقع کم میسر آئیں گے،پہلے عید پر رشتے دار ،دوست احباب سب سے ملتے تھے اب کورونا کی وجہ سے کیجئے نظارہ دور دور سے اور کیجئے اشارہ دور دور سے والا ماحول ہو گیا ہے، ملاقات تو دور کی بات ہاتھ ملانا بھی مشکل ہوگیا ،ظالم کورونا نے ہماری روایات اور عید کو تباہ کردیا ہے،

اس نے لوگوں کو محدود کردیا،ماضی کی یادوں سے ایک بات بھی شیئر کردیتاہوں بچپن میں عیدی جمع کرنے کیلئے کوشش کرتے تھے والدین کے ساتھ یا اکیلے اس گھر ضرور جانا ہے جہاں عیدی زیادہ ملتی تھی اورا س گھر نہیں جاتے تھے جہاں عیدی نہیں ملتی تھی ،ایک دلچسپ بات، بچوں کی عیدی لینے کیلئے لائن لگی ہوتی تھی سب سے چھوٹا 2سال کا سب سے آگے اور تیرا سال کا سب سے پیچھے ہوتا تھاوہ باتیں آج بھی یاد کرو تو مزہ آجاتا ہے،آج کے دورمیں موبائل کے منفی اثرات کے ساتھ مثبت اثرات بھی ہیں،پہلے عید مبارک کیلئے خط یا عید کارڈز بھیجے جاتے تھے اب تو واٹس ایپ کی بدولت ساری تصاویر اور پیغامات فوری طور پر پوری دنیا میں کہیں بھی بھیج دیئے اور فوری جواب بھی آگیا ،سارے خاندان کی تصاویر منٹوں میں ساری دنیا میں پہنچ گئی جس سے ایسا لگتا کہ سارے لوگ ایک ساتھ جمع ہوگئے یہ موبائل ٹیکنالوجی کا بہت مثبت پہلو ہے ،جو پہلے ممکن نہ تھا۔

دنیا: عید کا مقصد کیا تھا ،اسلام اورہماری ثقافت جو مقصد دیتی ہے کیا وہ زندہ ہے؟

شائستہ آپا :عیدتو عید ہوتی ہے جس شکل میں بھی منائی جائے، پہلے رمضا ن آتے ہی اہتمام شروع ہوجاتا تھا ،بچیاں اپنے دوپٹے گھروں میں رنگتی تھیں،ایک جوڑا بھی بڑی خوبصورتی اور اہتمام سے بنتا تھا ،آج ہم ان سب چیزوں سے محروم ہوچکے ہیں،آج بچوں کے پاس انجوائے کرنے کا وہ سامان نہیں ہوتا جو ہمارے پاس ہوتا تھا، لوگ رمضان پر صدقات اور خیرات بھی کرتے ہیں لیکن پہلے اس کا طریقہ مختلف تھا۔ رمضان شروع ہوتے ہی گھرکے بڑے اور بزرگ غریبوں کیلئے اچھے سے اچھے کپڑے ،جوتے اور دیگر سامان دینے کیلئے کوشاں رہتے تھے کہ وہ بھی ہماری طرح چیزوں کو استعمال کریں انہیں کمتر نہیں سمجھتے تھے ،آج راشن کے بیگز میں وہ چیزیں ہوتی ہیں جو ہم استعمال نہیں کرتے ،مجھے اس بات سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ جو ہم خود کھاتے ہیں وہ دوسروں کو کیوں نہیں کھلاتے؟،میرا سوال ہے کہ کیاہم اسلام اور معاشر ے سے پیچھے چلے گئے ہیں،

ہمارا دین کہتا ہے جو خود کو پسند ہے وہی دوسروں کیلئے بھی پسند کرو بدقسمتی سے آج معاملات برعکس ہیں۔ جس طرح عید منانا چاہیے اس کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے،رمضان کا مہینہ ہمارے لیے نعمت ہے ، ہمیں رب کا شکر ادا کرتے ہوئے منانا چاہیے ،عید کی روایات جو پرانے زمانے یا اسلام میں تھی وہ ختم ہوتی جارہی ہیں آج خرافات شامل ہوگئی ہیں ہمیں ان سے بچنا ہے۔ پہلے ہمیں دادا یا بابا کی طرف سے چار آنے عیدی ملتی تھی وہ ہمارے لیے دولت تھی جو آج کے بچے جانتے بھی نہیں ہوں گے ،آج بچوں کو ہزار کا نوٹ بھی د یدیں تو ان کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کا فائدہ کیا ہے،آج تمام خوشیوں سے محروم ہوگئے ہیں جو چھوٹی چھوٹی کرکے ہمارے پاس تھیں، پہلے مائیں گھر وں میں بچوں کی تربیت اور بڑوں کا احترام سکھاتی تھیں،اب یہ چیزیں نظر نہیں آتیں جس سے فاصلے پیدا ہورہے ہیں، معاشرہ اچانک نہیں بدلتا،بدلتے صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ مائوں کو بھی خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔عید تہواروں میں اپنی روایات اور ثقافت کا بھی خیال رکھاجائے۔

دنیا: کیاہماری تعلیم نوجوانوں کو عید کا مقصد سمجھانے سے قاصر ہے؟

ڈاکٹر عائشہ : عید ہمارے لیے کوئی نیا تہوار نہیں یہ اسلام سے پہلے انبیا ء علیہ اسلام کی سنت میں بھی رہا ہے،کورونا کی صورت حال میں عید کے فلسفے کو سمجھ کر اپنی خوشیوں کو دوبالا کرسکتے ہیں،پہلے عید کارڈز کا تصور تھا جس میں محبت اور خلوص نظر آتاتھا ،موبائل نے عیدکی خوشیوں کو دوبالا نہیں ختم کیاہے، بحیثیت مسلمان ہمیں سب سے پہلے اس کے فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عید کا فلسفہ حقیقت شکرانہ ،اطاعت ، استغفار اور رمضان میں عباد ت ہے جو فلسفے کی روح ہے۔اللہ نے رمضان میں روزے رکھنے اور جائز ہ والی رات یعنی چاند رات میں عبادت کو عید کی خوشی رکھا ہے،عید کو اسلامی روایات کے مطابق منایا اوراسلامی روایات کو برقرار رکھا جائے اسی میں اسلام اور خاندان کی بقاء ہے۔آج موبائل نے بچوں کو عیدکی خوشیاں کیا والدین سے بھی دور کردیا ہے ،موبائل ان کا دوست اور رشتے دار بن گیا ہے جس نے ہماری روایات کو تباہ کردیا ۔ 

دنیا: بچپن میں عیدکیسے مناتے تھے ؟ آج کیا کچھ بدل گیا ؟

شکیل خان :عیدکیا بگڑی سب کچھ بگڑ گیا ہے،ہمارے ذہنوں سے کنبے اور خاندان کا تصورختم ہو گیا ہے،ہم ٹیکنالوجی سے لڑ نہیں سکتے اس کو شکست دینا ہوگی۔ اس نے ہمیں بچوں سے دور کردیاہے۔ہمیں ٹیکنالوجی سے محبت کرنی ہے،عید کے فلسفے کا بنیادی مقصد حضور ﷺ نے کہا اور یقیناً سچ کہا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ،اس فلسفے میں بھی خاندان او رکنبے کا تصور موجود ہے ،میرے نزدیک عیدکا تصور والدہ کی قبر پر جانا،بہن بھائی سے ملنے جانا تھا،میرا خاندان میرے لیے سب سے قیمتی ہے،اگر میرے خاندان میں کوئی خرابی ہے تو میری وجہ سے ہے مجھے بچوں کی صحیح تربیت کرنی ہے،آج رشتے داریاں ،دوستیاں بہت کچھ ہے صرف ان کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے،میری لوگوں سے بہت دوستیاں ہیں بہن کہتی ہیں بھائی تمہار ا بس چلے تو راستے میں چلنے والے بھنگی کو بھی گھر پرکھانے پر بلالو،عید کا تصور کنبے سے جڑا ہواہے، مذہب کا تصور بہت قوی او ر مضبوط ہوتا ہے جو ہمیں ٹیکنالوجی کی بہت سی خرافات سے بچا سکتا ہے، ڈنڈے کے زور پر بچوں کو مجبور نہیں کرسکتے لیکن دینی تربیت سے ان کو سمجھا سکتے ہیں، خاندان کا وہ تصور جوہماری روایات تھیں زندہ ہوسکتی ہیں۔ خوشیاں کشید کرنا ہوتی ہیں خیرات میں نہیں ملتیں۔ 

یہ نیا دور ہے ،اس نئے دور میں

 جتنی قدریں ہیں سب کا نیا نام ہے

نبض کے ڈوبنے کا لقب زندگی

ساز کے ٹوٹنے کا صدا نام ہے

اب تصور کہاں حسن کردار کا

 وقت ماتم کرے اپنی رفتار کا

سب کی نیت بری، ہر بغل میں چھری

قتل گاہوں کا اب الشفاء نام ہے 

دنیا: گھریلوں خواتین عیدکس طرح مناتی ہیں؟

شیریں ارشد : حضور ﷺ کے زمانے میں بھی مشرکانہ رویہ اور بہت ساری روایتیں تھیں ،آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیاہم روایتوں کو برقرار رکھیں ،آپ ﷺ نے فرمایا جس سے مشرکانہ بو آتی ہو اس کو ترک کردوا ور جس سے اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچتا ہو اس کو ترک کردو۔ہم برصغیر کی روایات کو لے کر چلتے ہیں لیکن ان روایات کو بھول جاتے ہیں جو حضور ﷺ نے ہمیں بتائیں ،ان پر عمل کیا جائے تو گھروں میں سکون اور عزت بھی ہوگی ، والدین بچوں کو بٹھا کر سمجھاتے نہیں ہیں ،ان کے پاس تربیت کا وقت نہیں ہوتا ،والدین کی خدمت ہماری روایات تھی ،آج عید پر والدین اور بڑوں سے صبح سویرے اٹھ کر نماز پر جانے سے پہلے سلام اور پیار لینا ختم ہوگیا ہے،افرا تفری مچی ہوئی ہوتی ہے بس اٹھو اور فوری طورپر نماز پڑھنے جاؤ ہم نے اپنے بزرگوں کو کہاں چھوڑ دیاہے؟جن بزرگوں نے ہمارے لیے اپنی زندگی گزار دی ہم نے ان کو تنہائی میں چھوڑ دیا جبکہ ہماری روایت تو یہ تھی کہ بزرگوں کے ہوتے ہوئے والدین تربیت کیلئے بے فکر ہوجایا کرتے تھے ،ماں اگر ڈانٹتی تھی تو دادی پیار سے بلا کر اس کو سمجھاتی تھی ،آج دادی بچے کو گود میں لے لے تو کہا جاتا ہے یہ بچے کو بگاڑ دیں گی ان کے قریب مت جانے دیں،روزوں کے متعلق کہا جاتا ہے روزے رکھوتاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو،اللہ نے جس چیز میں خوشی رکھی ہے اس کو ادا کرتے چلے جائیں گے توکوئی بعید نہیں ہمیں عیدکی وہ خوشی میسر ہو جسے سچی خوشی کہتے ہیں ۔

رمضان کے روزے اور عید کی خوشیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں،عیدکی خوشی اس وقت ملتی ہے جب روزے رکھے جائیں اور وہ کام کیے جائیں جس سے اللہ خوش ہو توہمیں ساری خوشیاں مل جائیں گی۔بدقسمتی سے ہم جائزے او ر انعام والی رات کو بازاروں کی زینت بنادیتے ہیں،کیاہم شاپنگ رمضان یا اس ے پہلے نہیں کرسکتے ؟،آج والدین بچوں کو گھروں پر چھوڑ کر رشتے داروں سے ملنے جاتے ہیں ہم جب بچوں کو خاندان کی شناخت نہیں دے رہے تویہ خاندان کیسے سنبھالیں گے ؟۔ایسا نہ کریں ان کو ساتھ لے کر جائیں تاکہ ان میں رشتے داروں کی اہمیت اور محبت پیدا ہو۔ہماری روایتوں میں یہ بات شامل تھی کہ محفل میں اگر کوئی بڑا آجائے توچھوٹا اپنی جگہ خالی کر دیتا تھا ،آج یہ احترام نظر نہیں آتا، عید کے جوڑے اور کھانے اپنے ساتھ ملازمین کیلئے بھی ہوتے تھے یہ روایتیں کہاں چلی گئیں ؟۔

دنیا: موبائل اور ٹیکنالوجی کادور ہے نئی نسل کو ڈراموں کے ذریعے روایات نہیں بتاسکتے ؟

گل رعنا : آج دیر سے آئی کافی باتیں مس کردی ،جب تک ہم وقت کے ساتھ نہیں چلیں گے بہت سی چیز وں کو مس کرتے رہیں گے اور پیچھے رہ جائیں گے ، عید ، رمضان کوئی بھی تہوار ہو اصل ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے جو روایات کی پاسداری کرتے ہیں، عیدکی روایات کو ماضی سے جوڑنا مناسب نہیں ،دین اور دنیا دونوں ساتھ ہیں سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے،ہم ساری ذمہ داری بڑوں پر ڈال دیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے ہم کیا کررہے ہیں،والدین کی ذمہ داری ہے بچوں کی تربیت کریں ،روایات اوپر سے نہیں اترتیں ہم خود بناتے ہیں ِ بچوں کی زمانے کے ساتھ چلنے کی تربیت کرنی چاہیے ،ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے اپنے معاملات میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے ،روایات کو برقرار رکھنے کیلئے میانہ روی ضروری ہے،میڈیا کردار ادا کرسکتاہے جو نہیں کررہا،پہلے رشتے دار بغیر بتائے ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے جو محبت کا حصہ ہوتاتھا اب ایسا نہیں ہے ،وقت کے ساتھ چیزیں بدلتی ہیں ہمیں خودکو بہتر اورتبدیل کرناہوگا۔جس طرح چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہیں ہمیں بھی بدلناچاہیے۔

دنیا فورم میں سوال و جوابا ت کے سیشن کے دوران فرح زید ی نے کہا کہ آج بدل تو بہت کچھ گیا ہے ،روزہ کشائی کا رجحان جو پہلے تھا جس سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی وہ کم ہوگیاہے،زیادہ تر بچوں کور وزہ کشائی کا معلوم بھی نہیں ہوتا ہمیں روایات کو بچانے کیلئے خو د کوشش کر نی ہوں گی، قصور ہمارے بڑوں کا ہے جو ان چیزوں کو پروان نہیں چڑھاتے ،پہلے عیدیں بہت اچھی اور مزیدار ہوتی تھی ،مہرانساء نے کہا کہ عید ی دراصل روزوں کا تحفہ ہوتا ہے ،عیدی اس خوشی کا نام ہے جو مسلمان کو عیدی کی شکل میں انعام ملتاہے ،ڈاکٹر عائشہ سعد نے کہا کہ روایتوں کو برقرار رکھنے کی بہت بڑی ذمہ داری والدین کی ہے ، والدین بچوں کے سامنے اس کے ذہن میں کیا ڈال رہے ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے،ہم بچوں کو بتارہے ہوتے ہیں کہ پھوپھی صحیح نہیں اور خالہ صحیح ہیں،دادی غلط ہیں نانی صحیح ہیں اس بچے کو ابھی رشتوں کے تقدس کا معلوم نہیں لیکن ہم اپنے منفی رویوں سے اس کی ذہن سازی کررہے ہوتے ہیں جو بڑا ہوکر ہمارے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے معاشرے اوراپنی روایتوں کو پروان نہیں چڑھا سکتے ،والدین میں سب سے بڑی ذمہ داری ماؤں کی ہے۔رخسانہ زیدی نے کہا کہ پہلے عید پر چھوارے اور گڑ ھ سے بنی ہوئی سویاں ہوتی تھیں جس سے عیدکا مزہ دوبالا ہوجاتا تھا اب یہ چیزیں کم ہوگئیں ہیں،عید کی خوشیوں میں عیدکارڈ بھی بہت خوبصورت اورہر عمر کے لوگوں کیلئے ہوتے تھے جو اب نظر نہیں آتے۔

مصفاء اشرف نے کہا کہ آج سے 500 سال پہلے اور آج بھی ویسے ہی عید منائی جارہی ہے،فرق یہ آگیا ہے پہلے عید کارڈز ہوتے تھے اب موبائل فون ہوتے ہیں،وہی رونقیں ہیں جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔

٭٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔