عمارتیں بنائیں مگر دیکھ بھال بھی کریں

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء فیاض الیاس، چیئرمین ایسوسی ایشن بلڈرز اینڈ ڈیولپرز آف پاکستان (آباد) خواجہ محمد ایوب،سینئروائس چیئرمین آباد محمد عارف شیخانی،وائس چیئرمین آبادانجینئر دانش بن رئوف ،چیئرمین سائوتھ ریجن آبادانجینئرفرحان قیصر ، ڈائریکٹر اور ترجمان سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے )خالد ظفر ہاشمی ،ڈائریکٹر لینڈ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(کے ڈی اے )حبیب کھوکھر ڈائریکٹر میڈیا سیل سینئر صحافی نعیم کھوکھر

 قانونی تعمیرات میں مسائل سے غیر قانونی تعمیرات کا جال بچھ گیا:    فیاض الیاس

غیر قانونی کام کیلئے بہت دباؤ ہوتاہے ،شہری بدعنوان اہلکاروں کی شکایت کریں:   فرحان قیصر

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو کافی عرصے سے زمین نہیں مل رہی:   خالد ظفر ہاشمی 

 ایس بی سی اے مینٹی ننس کمپنیاں رجسٹرڈ کرے تاکہ پراجیکٹس کی دیکھ بھال ہوسکے :   خواجہ محمد ایوب

 موضوع :’’نئی عمارتیں بھی زبوں حالی کا شکار،اسباب کیا ہیں ؟‘‘

 

شہر قائد میں درجنوں ایسی عمارتیں ہیں جن کی عمریں 10،12سال ہیں لیکن وہ تباہ ہورہی ہیں،سیوریج کی لائینیں رسائو کا شکار ہیں جس کی وجہ سے پلستر اتر رہے ہیں، رنگ خراب ہوچکا،پینے کا پانی نہیں آتا،ٹینکر منگوائے جاتے ہیں ،اسی طرح کے سوالات لے کر ہم نے ایسوسی ایشن بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے تعاون سے ان کے دفتر میں دنیا فورم کا اہتمام کیا۔آباد کے چیئرمین فیاض الیاس سمیت دیگر عہدیداروں کے علاوہ ایس بی سی اے ترجمان ڈائریکٹر فرحان قیصر اور کے ڈی اے کے ڈائریکٹر لینڈ خالد ظفر نے شرکت کی جبکہ واٹر بورڈ کے ایم ڈی اسداللہ صاحب کو بذریعہ ڈاک دعوت نامہ بھیجاگیا جبکہ واٹس ایپ بھی کیا گیا تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اورنہ ہی واٹر بورڈ کے کسی ذمہ دار نے شرکت کی۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جن کے بارے میں دنیا فورم میں بات ہو وہ ادارے بھی موجود ہوں تاکہ اپنا جواب بھی دے سکیں ۔واٹر بورڈ پر کافی تنقید رہی لیکن ان کی طرف سے جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔

بہرحال دنیا فورم میں سوسائٹیز اور ہائی رائز پراجیکٹس کی دیکھ بھال کیلئے ایس بی سی اے کے قانون کے مطابق مینٹیننس کمپنیاں لازم کرنے کی تجویز دی گئی کیونکہ یونین یا چند مکینوں پر مشتمل کمیٹیوں سے عموماً معاملات نہیں سنبھل پاتے ۔شہر میں آبادی کے دبائو کے باعث نئے شہر بسانے کی بھی تجویز دی گئی جبکہ تیسر ٹائون ،سرجانی ٹائون اور دیگر کے ڈی اے کی اسکیموں کو سہولتیں دے کر بہتر کرنے کا بھی مشورہ آ یا۔امید ہے ہمیشہ کی طرح اس موضوع سے بھی شہریوں اور حکومت کو فائدہ ہوگا۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم دنیا اخبار کراچی) واٹس ایپ:03444473215ای میل mustafa.habib@dunya.com.pk:

 

دنیا: نئی عمارتیں جلد مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں کیا وجہ ہے ، ادارے کیا کررہے ہیں؟

فیاض الیاس :آباد کراچی سمیت پورے پاکستان میں تعمیراتی کام کر رہا ہے ۔ 25سال پہلے بننے والی عمارتوں کا معیار بہتر تھااب وہ معیار نظر نہیں آتا،پہلے بے ہنگم عمارتیں نہیں ہوتی تھیں ،ان مسائل کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک میں جہاں بھی تعمیراتی کام ہورہے ہیں وہاں کام کرنے والے ٹھیکیدار کون لوگ ہیں ۔تعمیرات کے کام میں زیادہ تر لوگ پیسوں کی وجہ سے آتے ہیں،یہ لوگ کا م میں آسانی کیلئے غیر قانونی طریقے اپنا کر اپنا کام سیدھا کرلیتے ہیں۔ کچی آبادیوں میں عمارتیں بن جاتی ہیں جن کا نقشہ اور نہ ہی بلڈنگ پلان ہوتاہے ۔ان کی تعمیر میں سستا اور غیر معیاری سامان استعمال ہوتاہے جس کی وجہ سے ان عمارتوں کی زندگی زیادہ نہیں ہوتی ۔آج شہر میں جہاں ہائی رائز عمارتیں بنانے پر پابندی ہے وہاں بھی بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں گی جو علاقے میں خطرے کی گھنٹی کے ساتھ شہر کی خوبصورتی میں بد نما داغ ہے ۔غیر قانونی عمارتیں بنانے والے بلڈرز نہیں بلکہ ٹھیکیدار مافیا ہے ۔ آباد کے ارکان کو بلڈر لائسنس لینے کیلئے ضروری ہے وہ آباد کی ممبر شپ لیں اس کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے ان کو بلڈنگ لائسنس دیاجاتاہے ۔ ہمیں عمارت بنانے کیلئے اداروں سے 18این او سیز لینی ہوتی ہیں اس کے بعد پروجیکٹ کی منظوری ملتی ہے جبکہ ٹھیکیدار مافیا این او سی کے بغیر اپنے سارے کام کرالیتی ہے ۔

شہری آباد کے پروجیکٹ کی تصدیق آباد اور متعلقہ اداروں سے بھی کراسکتے ہیں َ30سال پہلے تعمیر کا معیار محدود تھا ،بلند بالا عمارتوں کا رجحان نہیں تھا زیادہ سے زیادہ گراؤنڈ پلس فور بلڈنگ ہوتی تھیں ،یہ سلسلہ کئی سالوں سے ختم ہو چکاہے ، آبادی بڑھنے کی وجہ سے شہر میں بے تحاشہ اور بے ہنگم تعمیرات ہورہی ہیں جس کی بنیادی وجہ ماسٹر پلان کا نہ ہونا ہے ،جنہیں میڈیا بلڈر مافیا کہتا ہے ان کا بلڈرز سے تعلق نہیں ہوتا وہ ٹھیکیدار ہوتے ہیںَ شہر میں قانونی تعمیرات میں مسائل کی وجہ سے غیر قانونی تعمیرات کا جال بچھا ہواہے جو کراچی کو تباہی کے دہانے پر لے جارہاہے ۔دنیا فورم کے توسط سے سوال ہے کہ کیا ان اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ٹھیکیدار مافیا کام سکتی ہے ؟۔

دنیا: عمارت بنانے سے پہلے کیا مراحل ہوتے ہیں کیا باقاعدہ سروے کیا جاتا ہے ؟

فیاض الیاس:عمار ت بنانے سے پہلے مکمل ایکسرسائز اورکئی مراحل ہوتے ہیں۔ تمام قوائد وضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ایک اچھا بلڈ ر اپنے پروجیکٹ کو بہتر سے بہتر کرنے کیلئے جدید اور معیاری سہولتیں فراہم کرے گا تاکہ بعدمیں بھی حوصلہ افزائی ہوتی رہی اور عوام اچھے ناموں سے یاد رکھیں۔

 دنیا: تعمیر میں ایس بی سی اے کا کردار کیا ہوتاہے ؟نقشوں پر پابند ی کیوں لگائی جاتی ہے ؟

فرحان قیصر : سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے ) پہلے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے ) تھا ،ایس بی سی اے کے ریجنل دفاتر سکھر ،لاڑکانہ ،حیدرآباد میں بھی ہیں۔ کراچی میں ہمارے پاس صرف34فیصد زمین ہے باقی دیگر اداروں کے پاس ہیں۔ نقشوں پر پابندی کبھی نہیں لگائی گئی،آج بھی اجازت ہے ۔ صرف ان سوسائٹیز کے نقشے پاس نہیں ہوتے جو ما سٹرپلان کی منظوری کے بعد لے آئوٹ پلان تبدیل کرد یتے ہیں یعنی پارک ، مسجد یا اسکول کی جگہ کچھ اور بنایاجاتاہے انکے نقشے روک کر کارروائی کرتے ہیں۔ عدالت کا حکم ہے جہاں بھی ماسٹر پلان کے مطابق لے آؤٹ میں تبدیلی کی جائے وہاں کے نقشوں کی منظوری نہ دی جائے ۔ 

دنیا: ون ونڈو آپریشن اچھا کام ہے ، فیلڈ میں غیر قانونی کا م کرنے والوں کو کون پکڑے گا؟

فرحان قیصر:خراب لوگ ہر ادارے میں ہوتے ہیں ، ہمارے ادارے میں بھی ہیں ، تسلیم کرتاہوں سوسائٹی میں ایس بی سی اے کا منفی تاثر بہت ہے لیکن ہمیں حقائق کو بھی جاننا چاہیے کہ اس کی کیا وجوہات ہیں،لوگ خراب ہوسکتے ہیں ادارہ خراب نہیں ہوسکتا، رشوت مانگنے والے اہلکاروں کی شکایت ایس بی سی اے میں کریں۔شہری خود بھی نقشے کے مطابق گھر بنائیں تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔اہل محلہ نشاندہی کیاکریں۔ ہم نے کام آسان کردیئے ہیں ،کمرشل پروجیکٹس میں نقشے دوماہ اور گھروں کیلئے ون ونڈو آپریشن سے مل جاتے ہیں۔شہری قانون کی پاسداری کریں،ایس بی سی اے میں ون ونڈو آپریشن سے کافی سہولت ہوگئی ہے ۔

فیاض الیاس: بنیادی طورپر ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے ۔جن علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں وہاں متعلقہ ادارے ذمہ دار ہیں یہ کارروائی کیوں نہیں کرتے ؟ان اداروں کی ملی بھگت سے سارے کام ہو رہے ہوتے ہیں۔ماسٹر پلان پر عمل کرانا حکومت کا کام ہے ۔ کے بی سی اے کے بجائے ایس بی سی اے بنانے کا مقصد جاننے کی ضرورت ہے ۔ اداروں میں کرپشن موجود ہے ،کچھ ادارے بہت اچھے طریقے سے بھی کام کررہے ہیں ۔ آ ج بھی ایس بی سی اے میں کوئی پلان جو قانونی طورپر مکمل ہوتا ہے ا س کی منظوری کیلئے 6 ماہ سے ایک سال لگ جاتاہے ،کئی مشکلات کاسامنا ہوتاہے ۔ 17سے 18این او سیز لینے کے باوجود اداروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں انہیں مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے آباد نے ہی ورلڈ بینک کے تعاون سے ایس بی سی اے میں ون ونڈو آپریشن شروع کرایا تاکہ عوام کے مسائل ایک ہی چھت کے نیچے حل ہوجائیں اور ایس بی سی اے نے اس کی بنیاد رکھی مگر بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہورہا۔ ون ونڈو نظا م دنیا بھر میں آسانی پیداکرنے اور کرپشن کو ختم کرنے کیلئے ہوتاہے ،ایس بی سی اے میں نظام ہونے کے باوجود معاملات برعکس ہیں۔

فرحان قیصر:ہماری کتاب کراچی بلڈنگ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشن (کے بی ٹی پی آر)جس میں تعمیرا ت کے متعلق مکمل گائڈ لائن موجود ہے اسی کے مطابق تعمیرات ہوتی ہیں ایسا نہیں کہ گلی محلوں میں ہائی رائز عمارت بنا دی جائیں ۔

دنیا فورم میں سینئر صحافی نعیم کھوکھر نے سوال کیا کہ کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں بہت ہائی رائزعمارتیں بن رہی ہیں،وہاں پانی اور سیوریج کا وہی پرانا نظا م چل رہا ہے جس کی وجہ سے مکین پریشان ہیں ،ان مسائل کا کیا حل ہے ؟ جس کا جواب دیتے ہوئے ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر فرحان قیصر نے کہا کہ کراچی میں رہنے والے تمام لوگوں کو پانی مل رہا ہے ،کوئی فلیٹس میں منتقل ہوگا تو اسے بھی پانی ملے گا ایسا نہیں کہ وہ پانی سے محرو م رہے گا۔ایڈیٹر فورم نے کہا کراچی کے کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پانی کے بل باقاعدہ بھرے جاتے ہیں لیکن پانی نہیں ملتاجبکہ گھوٹھ یا قبضہ گروپوں کو پانی وافر مقدا رمیں مل رہا ہوتاہے ،علاقوں میں سروے کے دوران مکیں بل دکھا رہے ہوتے ہیں کہ ہرماہ بل جمع کراتے ہیں لیکن واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی نہیں ملتا،ڈائریکٹر فرحان قیصر نے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں ڈیفنس میں 25سال سے رہ رہا ہوں،ہرماہ 25ہزار روپے بل بھی جمع کراتا ہوں اس کے باوجود لائن سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں ملتا باقی پورے شہر کو ملتاہے ،اس دوران آباد کے چیئرمین فیاض الیا س نے کہا کہ ڈیفنس میں رہائش ہے گھرمیں لائن سے پانی نہیں آتا،ہرماہ ڈھائی سے تین لاکھ روپے کا پانی استعمال ہوتاہے ،واٹر بورڈ مافیا کی ملی بھگت سے سارے کام کررہا ہے ۔ ا س وقت جتنا پانی آرہا ہے اس میں سے 35فیصد پانی رساؤ اور چوری کی وجہ سے ضائع ہوجاتاہے ،کوئی بھی کام کسی بھی ادارے کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتا،آج عمارت بنانے کے دوران گھر کے سامنے چار بلاک اتروالیں فوری طورپر متعلقہ شعبے کے لوگ آکر کھڑے ہو جائیں گے ، جب تک ان لوگوں کو کچھ نہیں دو کام نہیں کروا سکتے ،یہ ہمار ا حال ہے ،کراچی کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں آج تک یہ نہیں سنا ہوگا کہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے کسی کی موت ہوئی ،شہر میں پانی کی کمی نہیں ہے ،جب ٹینکرز کو پانی مل سکتا ہے توواٹر بورڈ نلوں میں کیوں نہیں دے سکتا؟ ،کراچی میں سالانہ 0.5 بلین ڈالر تقریبا 75ارب روپے اس انڈسٹری میں استعمال ہوتے ہیں، کراچی میں ٹینکر مافیا منظم انداز میں سارے نیٹ ورک کو چلا رہی ہے ،واٹر بورڈ اپنے ہائیڈرینٹ سے عوام کو پانی مفت فراہم کیوں نہیں کرتا، یہ عوام سے بل کی مدمیں رقم لیتے ہیں پانی فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہے ، لوگوں میں مینٹینس چارجز دینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔بعض افرادذاتی مفادات کیلئے یونین میں آتے ہیں مگر کام نہیں کرتے ،مینٹی نینس نہ ہونے سے عمارتیں یا پروجیکٹس تباہ ہوجا تے ہیں۔نعیم کھوکھر نے کہا کہ ہاتھ وہاں ڈالے جاتے ہیں جہا ں کچھ آرہا ہوتاہے ، ہائیڈرینٹ کمائی کا ذریعہ ہے ،کراچی میں ہرچیز پیسے سے مل جاتی ہے ۔

دنیا: کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کافی عرصے سے کوئی اسکیم نہیں لارہا کیا وجوہات ہیں؟

خالد ظفر ہاشمی : کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے ) کو کافی عرصے سے زمین نہیں مل رہی ، آخری اسکیم ہاکس بے 42 تھی ۔ اس کے بعد کوئی اسکیم نہیں بنی،اب ہمارے پاس کراچی میں کوئی جگہ نہیں ساری جگہ ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے کے پاس ہے ۔ شہر میں بے ہنگم عمارتیں بننے کی بنیادی وجہ بلڈنگ پلان منظور کرنے والے ادارے ہیں۔

فرحان قیصر: اب ٹاؤن ختم اور7 ڈسٹرکٹ ہوگئے ہیں ۔یوسیز کے حوالے سے ایپ متعار ف کرائی ہے جو کچھ روز میں کام شروع کردے گی۔ ایپ میں یوسی کی سطح سے ڈیٹا جمع ہوگا جس میں کسی بھی غیرقانونی بلڈنگ کی تصویر بھیجی جاسکتی ہے ،ایپ کی مدد سے فوری طور پر متعلقہ یوسی آفیسر کے نام پر نشان دہی کردی جائے گی جس کاوہ ذمہ دار ہوگا، ہمارے پاس اتنا اختیار نہیں کہ ذمہ داروں کو پکڑ کر جیل بھجوا دیں ، کئی سالوں سے عدالت کیلئے جگہ کی درخواست کررہے ہیں مل جائے تو اپنے مسائل حل کرنے کیلئے کیسز فوری طورپر نمٹائے جاسکیں۔غیر قانونی کاموں کیلئے بہت دباؤ اور اثرورسوخ استعمال کیا جاتاہے ایک اکیلا آدمی کچھ نہیں کرسکتا۔

دنیا: عمارتیں بننے کے بعد دیکھ بھال نہیں کی جاتی کیا وجوہات ہیں ؟

فیاض الیاس:کسی بھی نظام کو چلانے کیلئے اس کی مکینزم اور ضروریات بہت ضروری ہیں۔ عمارت کو قائم اور صاف ستھر ا رکھنے میں سیوریج نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،ہر عمارت کی ایک زندگی ہوتی ہے اس کو برقرار رکھنے کیلئے مینٹی ننیس ضروری ہے ،بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کلائنٹ کے درمیان معاہدوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ چیزیں بہتر ہو سکیں،معاہدے میں یہ بات شامل ہونی چاہیے کہ بلڈنگ بننے کے بعد اس کی مینٹی نینس کی ذمہ داری کون سنبھالے گا؟

 خواجہ محمد ایوب : 2016میں قانون سازی ہوچکی کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے مینٹی نینس کمپنیاں رجسٹرڈ کرنی ہیں جواب تک نہیں ہوئیں، ہونی چاہییں تھیں،ایس بی سی اے کی طرف سے اجازت تھی کہ کوئی بلڈر مینٹی نینس کمپنی رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا۔ 1979ء کے قوائد وضوابط میں گھر گراؤنڈ پلس ون منظور ہوتے تھے ،2002ء کے بائی لاز میں یہ گھر گراؤنڈ پلس ٹو ہوگئے جو آہستہ آہستہ کاروبار کیلئے استعمال ہونے لگے اور پورشن کے حساب سے فروخت ہونے لگے ۔ اس کے بعد گراؤنڈ پلس تھری اور فو ر بھی بننے لگ گئے ،ایسی عمارتیں جو راتوں رات تعمیر ہوتی ہیں ان میں غیر معیاری مٹیریل استعمال ہوتاہے ایسی ہی عمارتیں گرتی یا گرائی جاتی ہیں ،غیرقانونی ٹھیکیدار قانون کی پاسداری نہیں کرتے ۔ آباد کے رکن غیر قانونی تعمیرات نہیں کرتے ،دنیا فورم کے توسط سے کہنا چاہوں گاکہ عمارتوں کی دیکھ بھال کیلئے ضروری ہے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مینٹی نینس کمپنیوں کو رجسٹرڈ کرے تاکہ کمپنیز پروجیکٹس کی صحیح دیکھ بھال کرسکیں جبکہ اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے اور رہائشی پلاٹس پر گراؤنڈ پلس ون سے زیادہ نہیں ہونے چاہیے ،رجسٹرار آفس میں سب لیز پرپابندی ہونی چاہیے ۔

فیاض الیاس:دنیا بھر میں جو بھی بڑے پروجیکٹ بنائے جاتے ہیں ا ن میں کام کرنے والے منیجمنٹ کے تحت کام کرتے ہیں اور یہ بات ان کے قانو ن میں شامل ہوتی ہے اور رہائشی مینٹی نینس کی فیس دیتے ہیں۔ سہولتوں کو برقرار رکھنے کیلئے مینٹی ننیس کمپنیاں ہوتی ہیں ہمارے یہاں اس کا رجحان نہیں، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے رولز میں یہ بات شامل ہونی چاہیے کہ عمارت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بلڈر اور رہائشیوں پر ہونی چاہیے ،بلڈرز اور کلائنٹس کے درمیان معاہدوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔

فرحان قیصر:عوام میں آگہی کیلئے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ عمارت مکمل ہونے کے بعد کمپلیشن سر ٹیفکیٹ لینا ضروری ہوتا ہے ۔کچھ بلڈر لیتے ہیں ،60فیصد ٹھیکیدار یہ سرٹیفکیٹ ہی نہیں لیتے ، سر ٹیفکیٹ کے بعد سوسائٹی ایکٹ کے تحت مینٹی نینس سوسائٹی رجسٹر ڈ ہوتی ہے جو عمارت کی دیکھ بھال کرتی ہے ،ان چیزوں پر عمل شروع ہوجائے تو 40فیصد شہر کا ماحول بہتر ہوسکتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے اداروں کے پاس کوئی سلیبس نہیں ہوتا۔

فیاض الیاس: 1960میں کراچی کی آبادی 40لاکھ تھی آج 2 کروڑ 40لاکھ ہے ، شہر پھیلتا رہا اور پھیل رہاہے لیکن آج تک اس پر ماسٹر پلان کے تحت کام نہیں ہوا جس میں تمام سہولیات فراہم کی جاسکیں۔جتنے بھی لوگ کراچی میں رہ رہے ہیں انہیں رہنا یہیں ہے اوررہنے کیلئے گھر بھی چاہیے ،جب گھر نہیں ملے گا تو کچی آبادیاں بنیں گی ۔ نالوں پر گھر بنیں گے اور ان علاقوں سے جرائم کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتاہے ۔ا س وقت شہر میں سستی رہائش اسکیم کی اشد ضرورت ہے ،لوگ سپرہائی وے پر پرائیویٹ اسکیموں میں جانے کو اس لیے ترجیح دے رہے ہیں وہاں پہلے سے انفرااسٹرکچر موجود ہے ،کیا یہ کام حکومت کیلئے مشکل ہے ،دنیا فورم کے پلیٹ فارم سے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ کراچی کو بہتر کرنے اورشہری علاقوں کادباؤ کم کرنے کیلئے ماسٹر پلان 2020 پر عمل کیا جائے ۔ ناردرن بائی پاس پر تقریباً 150 اسکیموں کا اعلان ہو چکا ، پلان منظور ہوچکے ہیں وہاں سڑکوں کو بڑا اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے ، ٹرانسپورٹیشن اور بجلی فراہم کی جائے تو یہ علاقے آباد ہو جائیں جس سے شہر پر دباؤ کم ہوجائے گا۔

آباد کی طرف سے سندھ حکومت کو لکھا ہے کہ حکومت سندھ کی 25ہزار ایکڑ زمین جو آباد کو آباد کرنے کیلئے دی جارہی ہے ،وہ ہمیں نہ دیں اس کونیلام کرد یں،اس سے جمع ہونے والے اربوں روپے انفرااسٹرکچر پرلگائے جائیں، شروع دن سے ماسٹر پلان موجود ہوناچاہیے ،آباد تعاون کرنے کیلئے تیار ہے ،وہاں ایک نیا شہر بنایا جائے جو کراچی سے جڑا ہو ا ہو،سندھ حکومت پروجیکٹ کو ہیڈ کرے ،نئے شہر کراچی سے منسلک کیئے جائیں جو وقت کی ضرورت ہے ۔

دنیا: آباد ،کے ڈی اے ،ایس بی سی اے مل کر کراچی کی بہتری کیلئے کوئی نظام نہیں بناسکتے ؟

عارف شیخانی : کراچی میں ایس بی سی اے ، کے ڈی اے اور آ باد مل کر بہتر انداز میں کام کرسکتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے آپس میں تعاون کریں۔جب ایک پرائیویٹ ادارہ بحریہ ٹاؤن اتنا بڑا پروجیکٹ بناسکتا ہے تو حکو مت یہ کام کیوں نہیں کرسکتی۔

انجینئردانش بن رؤف:کراچی سینٹرل میں غیر قانونی تعمیرات زیادہ ہورہی ہیں،ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے ذمہ داری ادا نہیں کررہے ۔حکومت سندھ اداروں کو بہتر چلائے ۔ناردرن بائی پاس پر بہت زمین ہے ،حکومت تیسر ٹاؤن کو آباد کرنا چاہتی ہے توسنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے ،ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے نے آج تک زمینوں کو آباد نہیں کیا، تیسر ٹاؤن میں انفرا اسٹرکچر نہیں، وہاںابھی تک کے الیکٹر ک کا گرڈ اسٹیشن نہیں، گرڈ اسٹیشن کیلئے 4 سال سے کوشش کررہے ہیں جو اب تک نہیں لگا،ایم ڈی اے کے الیکٹرک سے مل کر گرڈ اسٹیشن بنوادے تو یہ علاقے بہت جلد آباد ہو جائینگے ۔ تیسر ٹاؤن میں بورنگ کے پانی اورگیس سلنڈرسے گزارہ ہورہا ہے ، لوگوں کے پلاٹس موجود بجلی نہیں ہے ، آباد کی طرف سے تجاویز دی گئی ہیں کہ ایم ڈی اے کے پاس فنڈز نہیں ہیں تو ایم ڈی اے اپنی کمرشل زمینوں کو مارکیٹ میں لا کر نیلام کرے ، کراچی میں لوگوں کے پاس گھر نہیں، انہیں گھر چاہیے آپ سہولتیں فراہم کریں لوگ آئیں گے ، سندھ حکومت تیسر ٹاؤن میں جن اسکیموں کا اعلان کرچکی اس کو ترقی دی جائے اور نئی اسکیموں کیلئے کمرشل زمینوں کو نیلام کیا جائے ۔دنیا بھر میں سمندر کے ساتھ موجود زمین نہایت مہنگی ہوتی ہیں جبکہ ہمارے ہاکس بے اورساحل کے ساتھ زمینوں پر حکومت نے کوئی ترقیاتی کام ہی نہیں کرایا جس کی وجہ سے زمین کی قیمتیں نہیں بڑھ رہیں اور علاقے بہتر انداز میں آباد بھی نہیں ہورہے ۔ کوئی بھی نظام چلانے کیلئے ایک اتھارٹی ہوتی ہے ، بدقسمتی سے کراچی میں کئی ادارے کام کررہے ہیں ان کے درمیان رابطے کا فقدان ہے جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں جب تک سارے ادارے ایک اتھارٹی کے ماتحت نہیں ہوں گے کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔

سینئر صحافی نعیم کھوکھر : کراچی میں زمین بے تحاشہ ہے ان کو تحفظ کیوں نہیں دیا جاتا، ان زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں حکومت توجہ دے ۔

 واٹر بورڈ کو بل دیتے ہیں پانی پھر بھی نہیں ملتا۔۔۔!

 ڈائریکٹر ایس بی سی اے فرحان قیصر : 25سال سے ڈیفنس میں رہائش پزیر ہوں،واٹر بورڈ کو ہرماہ 25ہزار روپے پانی کا بل بھی جمع کراتا ہوں مگرلائن سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں ملتا ۔

 چیئرمین (آباد)فیاض الیا س:ڈیفنس میں رہائش ہے گھرمیں لائن سے پانی نہیں آتا،ہرماہ ڈھائی سے 3 لاکھ روپے کا پانی استعمال ہوتاہے ،واٹر بورڈ مافیا کی ملی بھگت سے سارے کام کررہا ہے ۔ ا س وقت جتنا پانی آرہا ہے اس میں سے 35فیصد پانی رساؤ اور چوری کی وجہ سے ضائع ہوجاتاہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔