ماضی میں بچوں کے کھیل ذہن و جسم کیلئے مفید اب دنیا موبائل فون میں سمٹ کر رہ گئی

دنیا فورم

تحریر : میزبان مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:گل فراز احمد خان، چیئرمین کراچی ہاکی ایسوسی ایشن اور سابق اولمپین۔ پروفیسر ڈاکٹر سیماناز صدیقی چیئرپرسن شعبہ ارضیات وفاقی اْردویونیورسٹی۔ بابر سلیم ، ڈائریکٹر شعبہ اسپورٹس افیئرز محمد علی جناح یونیورسٹی(ماجو) ۔ شکیل خان، رکن گورننگ باڈی کراچی آرٹس کونسل۔ ڈاکٹر حنا خان،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی۔شبانہ شیخ ،شاعرہ آرٹس کونسل کراچی۔خالدہ صدیقی،سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی ۔ مہر جمالی ، شاعرہ اور سابق ڈپٹی ڈائریکٹرسوشل ویلفیئر حکومت سندھ۔ڈاکٹرشاہانہ زیدی،پبلسٹی سیکریٹری گل رعنا نصرت کمیونٹی سینٹر۔احمد علی راجپوت،سیکریٹری جنرل سندھ اولمپکس ایسوسی ایشن ۔منظر عباس ،ریسکیو ٹرینر سندھ بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن حمزہ مبین ،اسکائوٹ لیڈر و ریسکیو اسپیشلسٹ انسٹرکٹر جامعہ کراچی

دنیا فورم نے بچپن کی یادیں تا زہ کر دیں،پہل دوج کوبلوچستان میں ’’اسٹاپو‘‘ کہا جاتا تھا:   پروفیسر سیما 

 پہلے گلی محلے کے سارے بچے یہ کھیل کھیلتے تھے جس سے معاشرے میں محبتیں اور برکتیں تھی:   گلفراز خان

 یہ ہماری غربت کے کھیل تھے او ر غربت میں ہم بہت امیر تھے، ان سے محبت بڑھتی تھی:   شکیل خان

پرانے کھیل دوبارہ لانے کیلئے ٹورنامنٹ کرائے جائیں، محمدعلی جناح یونیورسٹی تعاون کریگی:  بابر سلیم

پہلے کھیلوں میں چھوٹی چھوٹی شرارتیں ہوتی تھیں، جو بے ایمانی نہیں بلکہ ’’بے مانٹی‘‘ ہوتی تھی:  ڈاکٹر حنا

 

موضوع:’’ ماضی کے کھیل کہاں کھو گئے ؟‘‘

میرا بچوں سے سوال ہے کہ بیٹا ، بیٹی ۔ ۔ کیا کبھی آپ نے بھائی بہنوں اور کزنوں کے ساتھ مل کر چیل اڑی،اکڑ بکڑ بمبے بو ،کوڑا جمال شاہی ،چھپن چھپائی کھیلی ہے؟ 15 سال کی عمر تک کے بچے شاید نہ کھیلے ہوں، میں کہونگا بچوں آج ہی اپنے والدین کیساتھ بیٹھ جائو اور پوچھو کہ جب گلی محلے میں بجلی جاتی تھی تو بچے کتنی خوشیاں مناتے تھے،کیونکہ بجلی بھی تو کم ہی جاتی تھی،جب عصر کے بعد مغرب تک گھر سے باہر صرف گلی تک ہی رہنے کی اجازت ملتی اور سب دوست سکھیاں اکھٹے ہوتے تو وقت کتنی تیزی سے گزرجاتا تھا،جب پٹو باری،پکڑم پکڑائی ، پہل دوجھ اور چھم چھم کھیلا کرتے تھے تودنیا مافیا سے بے خبر ہوجاتے تھے،جب لڑکیاں گڑیا کی شادی کرتیں تو کیسے ہر رسم نبھائی جاتی تھی حتٰی کے بعض جگہوں پر کھانے بھی کھلائے جاتے تھے اور پھر جس کی گڑیا ہوتی اور وہ رخصت ہوجاتی تو پھر بچی کیسے روتی تھی۔یہ تھا بچپن ،ہنسنا اور ہنستے ہی چلے جانا، بقول شکیل خان غربت میں امیری تھی، جب بقول پروفیسر سیما دوست کے کھانے کی فکر ہوتی تھی جب باتوں میں گھنٹوں بیت جاتے تھے اور وقت کا پتا ہی نہ چلتا تھا،

آج بیٹھ جائو اپنے والدین اور دادادادی ،نانانانی کے ساتھ دنیا فورم نے یہی تو کوشش کی ہے کہ آج کی نسل کو ماضی سے ملایا جائے،وہ ماضی جب کھیل کود محض کھیل نہیں ہوتے تھے بلکہ تربیت کا ذریعہ ہوتے تھے،رحمت ہوتے تھے۔دنیا فورم میں آج عملی زندگی میں اپنے آپ کو منانے والے ماضی کے کھیل کھیلتے،لٹو چلاتے اور کنچے کھیلتے یقیناً بچپن میں پہنچ گئے ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ قارئین ہمار ے موضوعات کو پسند کرتے ہونگے۔ہمیں آ پ کی رائے کا انتظار رہے گا۔دنیا فورم کیلئے تعاون پر کراچی ہاکی ایسوسی ایشن اور چیئر مین گلفراز خان کا شکریہ اداکرتے ہیں۔ آپ کے کمنٹس کا منتظر رہوں گا۔شکریہ

دنیا : پرانے کھیل کھیلتے ہوئے کیسالگا ؟

 پروفیسر سیما ناز صدیقی : سب سے پہلے تو کہنا چاہتی ہوں کہ دنیافورم کے موضوع بالکل الگ اور منفرد ہوتے ہیں جو دیگر میڈیا میں نظر نہیں آتے جو معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں’’ ماضی کے کھیل کہاں کھوگئے ؟موضوع بہت اچھا ہے اس کے ساتھ کیوں کھوگئے بھی ہوناچاہیے تھا تاکہ ہمیں وجوہات بھی معلوم ہوتیں،ماضی کے کھیل اتنے ہیں شمار کریں تو لمبی فہرست بن جائے گی ۔آج بہت اچھا لگ رہا ہے دنیا فورم نے بچپن کی یادیں تا زہ کر دیں۔ ماضی کے کھیلوں میں قواعدو ضوابط اور بڑوں کے ساتھ رہنے کی تربیت ملتی تھی۔ پہل دوج لڑکیوں کا پسندیدہ کھیل ہوتا تھا۔ میں بلوچستان میں پلی بڑھی ہوں، وہاں اس کھیل کو ’’اسٹاپو‘‘ کہا جاتا تھا۔ کھیل اخلاقی تربیت کا ذریعہ بھی ہوا کرتے تھے۔

گل فراز احمد خان : پہلے کھیلوں میں ایک دوسرے سے رابطہ ہوتا تھا، پرانے کھیلوں کی وجہ سے معاشرے میں ہم آہنگی ،ایک دوسرے سے تعلق ہوتا تھا،پہلے گلی محلوں کے سارے بچے یہ کھیل کھیلا کرتے تھے جس سے معاشرے میں محبتیں اور برکتیں تھی اب معاشرہ تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے،موبائل کی وجہ بچے اور والدین ایک دوسرے کو وقت نہیں دے پاتے ،دنیا فورم کے توسط سے کہنا چاہوں گا ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ نئی نسل کو پرانے کھیل اور میدانوں کی طرف لائیں ۔

بابر سلیم : دنیا فورم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے ماضی کی یادوں کے حوالے سے اچھے فورم کا انعقاد کیا۔فورم کے توسط سے اداروں کے نمائندوں سے گزارش کروں گا کہ پرانے کھیلوں کو دوبارہ لانے کیلئے یونیورسٹی اور کالجوں کے درمیان باقاعدہ ٹورنامنٹ کرایا جائے۔ محمدعلی جناح یونیورسٹی اپنا پلیٹ فارم دینے اور تعاون کیلئے تیار ہے۔ بیت بازی کھیل کے متعلق صرف ایک شعر یاد ہے ’’بکرے نے مارا ہے جو بکری کو سینگ تو بکری بھی مارے گی بکرے کو سینگ۔ معروف باکسر محمد علی سے کسی نے پوچھا آپ کو کون سی مہارت جتواتی ہے ۔ انہوں نے کہا انسان اپنی مہارت سے نہیں بلکہ خوداعتمادی اور قوت ارادی سے فتح پاتا ہے ۔ مہارت مجھے مکا لگنے کے بعد گراتی جبکہ میری خود اعتمادی مجھے اٹھاتی ہے۔آج ہمارے کھیلوں میں برداشت کا مادہ ختم ہوتاجارہاہے،غصے اور جذبات میں ہار کو برداشت نہیں کرپاتے، ہمارے بچوں میں یہ چیزیں ختم ہوتی جا رہی ہیں ان کو لانے کی ضرورت ہے۔

 شکیل خان : ماضی کے کھیل ختم ہونے کی بنیادی وجہ معاشرے سے خاندانی نظا م ،کنبہ اور محلے داری کا ختم ہوناہے۔ یہ ہماری غربت کے کھیل تھے او ر غربت میں ہم بہت امیر تھے۔ ان کھیلوں سے ہمارے درمیان محبت بڑھتی تھی۔ہماری نہاری میں بھی بہت مزہ تھا جسے ہم بہت انجوائے کرتے تھے،سادہ دور اور سادہ معاشرہ تھا سب کچھ بہتر انداز میں چل رہاہوتا تھا، یہ کھیل زندگی میں واپس آنے چاہئیں۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ آخری سانس تک زندہ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دنیا فورم کی اچھی کاوش ہے لیکن دنیا آگے نکل رہی ہے۔ اس کے مطابق بھی چیزوں کو دیکھنا ہو گا۔

دنیا:بچپن میں کیاکھیلا ،ہمارے کھیل ٹیم لیڈر پیدا کرتے تھے کہاں چلے گئے؟

 ڈاکٹر حنا خان : بہت کھیل کھیلے جو اب یاد بھی نہیں ہیں،ان کھیلوں کی وجہ سے سوسائٹی میں ایک تعلق تھا جو اب ختم ہوگیا ہے،یہ کھیل نہ ہونے سے بچے تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہماری اجتماعی سوچیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ بچے دادا ،نانا کے ساتھ خاص طور پر لوڈو بہت کھیلا کرتے تھے ،جس سے جنریشن گیپ نہیں تھا جو اب بہت نظر آرہا ہے۔ تاریخ کے شعبے سے وابستہ ہوں، آج موبائل کی وجہ سے بچے نظروں اور ہڈیوں کے مرض میں مبتلا اورذہنی دباؤ کا شکار ہورہے ہیں۔ بڑوں کے ساتھ بیٹھتے بھی نہیں ہیں،ہمیں جسمانی کھیلوں کی طرف آنا ہو گا۔ پہلے کھیلوں میں چھوٹی چھوٹی شرارتیں ہوتی تھیں، جو بے ایمانی نہیں بلکہ ’’بے مانٹی‘‘ ہوتی تھی۔ سب بچے ساتھ کھیلتے تھے۔ بہت مزہ آتا تھا،امیر غریب کا فرق نہیں ہوتا تھا، کھیلوں میں لڑائیاں بھی ہوتی تھی جسے سب مل کرختم کرتے تھے ،غلطیاں تسلیم کرتے تھے ، بڑوں کی طرف سے صبر اور ہارنے پر برداشت کی تربیت ہوتی تھی ،یہ چیزیں اب نظر نہیں آتیں ،آج ہم بہت بڑے ہوگئے ہیں کوئی چیز برداشت نہیں کرتے۔

شاعرہ شبانہ شیخ :پرانے کھیل بچپن میں بہت کھیلے جن کی یادیں آتی ہیں، اب روزمرہ کے معاملات میں مصروف ہوچکے ہیں لیکن 

 بچپن کا دور واقعی سنہرا تھا۔ جو بہت اچھا گزارہ، ہم نے کھیلوں میں بہت انجوائے کیا ،آج کے بچے ان چیزوں سے محروم ہیں،بچے تو بچے، اب بڑے بھی موبائل میں لگے رہتے ہیں۔بچوں کے ہاتھوں میں پیدا ہوتے ہی موبائل آجاتے ہیں ،بچے موبائل کی دنیا میں مصروف رہتے ہیں،جس کے نتیجے میں بچوں اور والدین میں فاصلے بڑھ رہے ہیں ،پہلے کھیلوں میں آپس میں محبتیں اور پیار ہوتا تھا، لوگوں میں محبت نظر آتی تھی اب دکھائی نہیں دیتی۔ 

پروفیسر خالدہ صدیقی : اْس وقت بچوں میں میراتیرا نہیں ہوتا تھا۔ پہلے کھیل گھر اور گھر کے باہر دونوں جگہ کھیلے جاتے تھے۔ گھر میں کھیل سے بچوں کی تربیت ہوتی تھی اور باہر کے کھیلوں سے بچے جسمانی طور پر فٹ رہتے تھے۔ کھیلوں میں بڑوں کا کردار بہت اہم ہوتا تھا۔ ہارنے والوں کا حوصلہ بڑھا کر صبر کی تلقین کی جاتی تھی۔ کھیلوں کے ساتھ تہذیب بھی اچھی ہوتی تھی ۔

مہر جمالی : یہ سارے کھیل چھٹی اور ساتویں جماعت میں بہت کھیلا کرتے تھے بہت مزہ آتاتھا، کھیلوں سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی تھی۔بچوں کو ہارنے پر بھی حوصلہ اور صبر سکھایا جاتا تھا۔ باقاعدہ تربیت ہوتی تھی کہ کھیل ہار جیت کا حصہ ہے ،ہارنے پر کبھی مایوس نہیں ہونا ہے،اور ہار کو جیت میں تبدیل کرنے کا حوصلہ دیا جاتا تھا۔

ڈاکٹرشاہانہ زیدی : پہلے کھیلوں کی سرگرمیوں میں تربیت کے ساتھ معاشرہ بھی صحت مند تھا،گھروں میں دھوپ چھاؤں ،اوچ نیچ او ر چھپن چھپائی کھیلتے تھے ،چاندنی راتوں میں جہاں چاند کی روشنی ہوتی تھی وہاں دھوپ اور جہاں اندھیرا ہوتا تھا وہاں چھاؤں بناکر رات میں بھی دھوپ چھاؤں کھیلا کرتے تھے، کھیلوں میں ہمارے ساتھ بڑے بھی شامل ہوتے تھے، جو حوصلہ دینے کے علاوہ تربیت بھی کرتے تھے۔ گھر میں شہتوت کا درخت تھا جس پر ہم بہن بھائی چڑھ کر شہتوت کھایاکرتے تھے۔

ڈاکٹرسیماناز صدیقی : آج ماضی کے کھیل کھیل کر بہت مزہ آیا،بنیادی طور پر ان کھیلوں کا مقصد بچوں کی اصلاح اور قواعدہ ضوابط کا بتانا ہوتا تھا،بڑے ہمیں سکھاتے تھے کہ اپنے وقت کو کیسے استعمال کرنا ہے،آج بچے صرف اپنی ذات میں مگن ہوتے ہیں برابر والے ساتھی کامعلوم نہیں ہوتا جبکہ ہمیں اپنے دوست کے کھانے پینے کی بھی فکر ہوتی تھی ،بچپن میں بہت ایماندار ی سے بے مانٹی کرتے اور انجوائے کرتے تھے، کوشش کریں گے یہ کھیل دوبارہ سے کھیلے جائیں ۔تعاون کیلئے تیار ہیں ،کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں ’’ شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر ہے۔اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائیں‘‘۔

احمد علی راجپوت:پہلے پرانے کھیل بہت کھیلے جاتے تھے آ ج بھی گاؤں دیہات میں بہت سے کھیل ہوتے ہیں لیکن کھیل وہی باقی رہتے اور آگے جاتے ہیں جن کے مقاصد اور قوانین ہوتے ہیں،جس کھیل کے قوانین اور طریقہ کار نہیں ہوتے وہ آگے نہیں چلتے ۔

گل فراز خان: پہلے کھیلوں میں قوانین نہیں تھے لیکن لوگ پھر بھی اصولوں کی پاس داری کرتے تھے۔اخلاقیات ہوتی تھی، اس کے نتیجے میں کھیل منظم انداز سے کھیلے جاتے تھے۔ آج قوانین ہونے کے باوجود کھیلوں میں مشکلات زیادہ ہیں۔ دنیا فورم کا مشکو ر ہوں جنہوں نے پرانے کھیلوں کو متعارف کرایا جسے بچوں سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے کھیلا اور بہت لطف ا ندوز ہوئے۔

رخسانہ زیدی :والد ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے ، ایک شعر بہت کہاکرتے تھے ’’ زندگی زندہ دلی کا نام ہے ۔مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘۔ ایک مرتبہ کھیل کے دوران بھائی کی گیند سے چوٹ لگ گئی والدکو بتایا انہوں نے بھائی کو ڈانٹا ،لیکن مجھے بہت دکھ ہوا لیکن ان شکایتوں میں اپنا ئیت ہوتی تھی جو آج بھی یاد آتی ہے۔

منظر عباس : میری زندگی کا آج بہت اہم دن ہے، مجھے ان کھیلوں کو دیکھ کر والد اور دادا کا زمانہ یاد آ گیا۔ میری آنکھیں نم ہو گئیں، ایک مرتبہ کھیل میں دادا نے والد صاحب کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کیا کہ خبر دار اب تم نہیں کھیلنا تم رولز سے ہٹ رہے ہو،پہلے کھیلو ں میں رولز اور محبتیں بہت تھی ،والدین مٹی کے کھلونے بنایا کرتے تھے ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے تھے اور سب کچھ دیکھ رہے ہوتے وہ زمانہ جب یاد آتاہے تو محبت میں آنسو نکل جاتے ہیں۔

 اسکاؤٹ طالب علم حمزہ مبین : ماضی کے کھیل ختم ہونے کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوگیا،آج انٹرنیٹ پر بچے وہ کھیل رہے ہوتے ہیں جن کا والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا ، جس کے معاشر ے پر منفی اثرات سامنے آرہے ہیں،پہلے والدین بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے جس میں بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال ہوتی ہے اب بچوں کے ساتھ والدین نہیں موبائل ہوتے ہیں، ہمیں ان چیزوں پر غور کرنا چاہیے آخر ہم کس طرف جارہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔