سائرن بجاتی ،چنگھاڑتی جعلی ایمبولینس سروسز۔۔عوام میں خوف کا باعث

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : ماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:مسرت نسرین ،ڈائریکٹر کراچی ڈویژن سوشل ویلفیئرڈپارٹمنٹ حکومت سندھ عبدالشفیق سولنگی ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئرڈپارٹمنٹ حکومت سندھ۔معین خان، سیکریٹری اطلاعات اور ٹرسٹی المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی۔ شہزاد آدم جی ٹرانسپورٹ انچارج المصطفیٰ ویلفیئرٹرسٹ۔مرتضیٰ عباس،ہیڈ آف مارکیٹنگ اینڈ کمیونی کیشن امن فائونڈیشن ۔انیل میر ،منیجر آپریشنز امن ہیلتھ کیئر سروس ۔سرفراز شیخ ، منیجر والنٹیراینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ الخدمت کراچی۔ کاشف انصاری ،انچارج ایمبولینس سروسز عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ۔کنور وسیم، صوبائی سیکریٹر ی ریڈکریسنٹ پاکستان سندھ ۔

2500جعلی این جی اوز منسوخ کیں،فلاحی ادارے کوآرڈینیشن بنائیں،ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ، ایمبولینس کے نام پر کاروبار ہورہا ہے،پولیس اور رینجرز چیک کیاکریں :  سیکریٹری اطلاعات المصطفیٰ ویلفیئر

حکومت رجسٹرڈ این جی اوز کی فہرست شائع کرے تاکہ جعلساز پکڑے جائیں،مارکیٹنگ ہیڈ امن فائونڈیشن، جعلی ایمبولینس کو نجی اسپتالوں سے کمیشن ملتا ہے ڈرائیور مریض کو اسی اسپتال لے جاتے ہیں:   منیجر الخدمت کراچی

حکومت تمام ایمبولینسز کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرے جہاں سب ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاسکیں :   انچارج عالمگیر ویلفیئر،بدقسمتی سے پاکستان میں مرکزی طورپر ایمبولینس کو رجسٹر کرنے کا کوئی ادارہ نہیں:   صوبائی سیکریٹری ریڈ کریسنٹ

موضوع:’’جعلی ایمبولینس سروسز کی روک تھام کیسے ممکن ہے ؟‘‘

 

جعلی ایمبولینس سروسز ایک کاروبار بن چکا ہے ،شہر قائد کی سڑکوں پر درجنوں ایسی ایمبولینس خوفناک سائرن بجاتی دوڑتی نظر آتی ہیں جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا،گلی محلوں میں ایمبولینس کے نام پر چندے جمع کئے جاتے ہیں،یہی نہیں بلکہ ماضی میں بعض ایمولینس میں اسلحہ تک سپلائی کیاگیا اور مجرموں ،قاتلوں تک کو فرار کرایاگیا ،گو اب حالات ایسے نہیں لیکن دیگر جرائم میں ملوث ہونے کیساتھ شہر میں خوف پھیلانے گلی گلی چندہ مانگنے ،ٹریفک جام اور حادثے کی صورت میں مسائل پیدا کرنے میں یہ جعلی ایمبولینس سروسز آج بھی ملوث ہیں،انہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے تعاون سے گلشن اقبال میں المصطفیٰ اسپتال میں دنیا فورم کا اہتمام کیا۔دنیا فورم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ حقیقی مسائل کی نہ صرف نشاندہی کرتا رہتا ہے بلکہ ان کا حل پیش کرتا ہے تاکہ حکام ایکشن لے سکیں،جعلی ایمبولینس کے حوالے سے دنیا فورم میں معروف فلاحی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جعلی ایمبولینس کیخلاف کارروائی کرے،پولیس اور رینجرز چیک کریں، جبکہ ساتھ ہی ایک تجویز بھی دی گئی کہ تمام ایمبولینس سروسز کو مرکزی ہیلپ لائن نمبرز کے تحت کیاجائے جس سے غیرقانونی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوسکے گا۔امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ دنیا فورم بھی معاشرے اور ملک کی فلاح میں اپنا کردار اداکرے گا،آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ

(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

 

 دنیا: ایمبولینس سروسز شروع کرنے کے کیا قواعدو ضوابط ہوتے ہیں، تحقیق کیسے کرتی ہیں؟

مسرت نسرین : ایمبولینس کی رجسٹریشن کیلئے این جی ا و زآتی ہیں توپہلے خود تحقیق کرتے ہیں۔ متعلقہ دفاتر سے انکوائری کرانے کے بعد پھراین او سی کیلئے محکمہ داخلہ بھیج دیتے ہیں وہاں سے کلیئرنس کے بعد رجسٹریشن کی جاتی ہے۔رجسٹریشن میں 3سے 4 ماہ لگ جاتے ہیں ۔حادثے کی صورت میں ایمبولینس کا ہجوم لگ جاتاہے بعض مرتبہ اتنی ایمبولینس کی ضرورت نہیں ہوتی اس بے ہنگم صور تحال سے ٹریفک کے مسائل بڑھ جاتے ہیں اور سائرن کی آوازوں سے عجیب ماحول ہوجاتاہے ۔این جی اوز میں آپس میں بھی رابطہ ہونا چاہیے کہ جہاں ایمبولینس کی ضرورت نہ ہو وہاں نہ جائے یہ چیزیں کنٹرول ہوں گی تو بہتری آئے گی۔ مسائل کے حل کیلئے ہمارے دروازے تمام این جی اوز کیلئے کھلے ہیں۔

دنیا: کورونا وباء کے دوران ایمبولینس سروسز نے اچھا کام کیا ،مزید بہتری کیلئے کیا تجاویز دیں گے ؟

 مرتضیٰ عباس :کورونا صورت حال میں حکومت سندھ کے پاس نرسنگ میں وہ سروسز نہیں تھیں جس سے کووڈ مریض کو اسپتال پہنچایا جاسکے ۔ خاص طورپر ایسا مریض جو زندگی اورموت کی کشمکش میں ہو،بعض حالت میں مریض کو سانس میں دشواری ہوتی اس کو پہلی فرست میں آکسیجن چاہیے ،اس کے بعد بھی حالت نہ سنبھلے تو اسے وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جاتاہے،کئی ایمبولینس میں آکسیجن کی سہولت ہے لیکن و ینٹی لیٹر نہیں ہے،کورونا میں اسپتالوں میں وینٹی لیٹر کم پڑگئے اور مریض ایمبولینس میں موجود ہوتے تھے۔اس صورتحال کے بعد حکومت نے ہمیں 10 پورٹیبل وینٹی لیٹر فراہم کیے جو10ایمولینس میں اسٹال کیے او ران ایمبولینس کو صرف وینٹ کی سروسز کیلئے مختص کردیا۔ہر ادارے نے اپنی اپنی ایس او پیز بنا رکھی ہے ۔حکومت کی طرف سے ایمبولینس سروسز کیلئے ایس او پیز ہونی چاہیے جو سب کیلئے ہو۔ حکومت این جی اوز کی فہرست شائع کرے ،ہمارے یہاں پانی ،ٹینکر اوربھتہ نہ جانے کون کون سے تنظیمیں ہیں نہیں ہے تو ویلفیئر کی کوئی مشترکہ تنظیم نہیں۔ہماری آواز مل کر بڑی آواز بن سکتی ہے،ہمارے پاس کوئی نیٹ ورک یا پلیٹ فارم نہیں جہاں سب ایک جگہ جمع ہوکر مسائل شیئر او رحل کر سکیں، جس کا جواب دیتے ہوئے ایڈیٹرفورم نے کہا کہ دوسال پہلے ایک فورم میں مسائل حل کرنے کیلئے کمیٹی بنائی گئی جس میں طے ہوا کہ این جی اوز کس طرح ایک دوسرے سے کوآرڈی نیشن کریں گی جس میں حاجی حنیف طیب کو کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا لیکن اس کام کوآگے نہیں بڑھایا گیا۔

دنیا فورم کے دوران الخدمت کے سرفراز شیخ نے کہا کہ جعلی ایمبولینس سروسز کو نجی اسپتالوں سے کمیشن ملتا ہے اور ڈرائیورز جہاں سے کمیشن ملتا ہے مریض کو اسی اسپتال لے کر جاتے ہیں۔ایمبولینس ڈرائیورز کو متوفی یا مریض کیساتھ تصویر بنانے اور اخبار میں آنے پر انعام بھی دیاجاتا ہے۔

دنیا: شہر میں کئی ایمبولینس چل رہی ہیں جس میں مریض نہیں ہوتے صرف اپنی موجودگی ظاہر کرنے کیلئے سائرن بجاتے گھومتی رہتی ہیں اور آخر میں اپنے اسپتال میں آکر کھڑی ہوجاتی ہیں کیا ایسی ایمبولینس کو چیک کرنے کیلئے حکومت یا ہمارے بڑے بڑے فلاحی ادارے کردار دار نہیں کرسکتے ؟

مسرت نسرین : کئی اسپتال والے ایمبولینس سروسز صرف اسپتال کیلئے استعمال کرتے ہیں عوام کیلئے نہیں ہوتیں لیکن ڈرائیور این جی اوز کے نام پر ایمبولینس غلط استعمال کررہا ہے تو این جی او زکے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ ویلفیئر آرگنائزیشنز جعلی ایمبولینس سروسز کی نشاندہی کریں ،کارروائی کرینگے۔ کراچی میں 2500 جعلی  این جی اوز منسوخ کی ہیں۔ایک این جی کی شکایت آئی تھی جس پر چیف سیکریٹر ی نے تحقیقات کے بعد رجسٹریشن منسوخ کردی ۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر سوشل ڈ پارٹمنٹ سندھ عبدالشفیق سولنگی نے کہا کہ شہری غیر قانونی کاموں میں مصروف اور گلی محلوں میں چندہ جمع کرنے والی ایمبولینس کی ڈی جی آفس میں شکایت کریں ۔

 انیل میر :سندھ ریسکیو میڈیکل سروسز ایمبولینس پرائمری اسسمنٹ کیلئے اچھی ہیں ،سیکنڈری اسسمنٹ کیلئے اسپتال ضروری ہے۔ہماری ایمبولینس میں وینٹی لیٹر،ڈیول آکسیجن سلنڈر،جدیدمیڈیکل کا سامان، لائف سیونگ ڈرگز،بیسک لائف سپورٹ (BLS)، ایڈوانس لائف سپورٹ (ACLS)، کارڈیک مانیٹر ،ای سی جی مشین اور تربیت یافتہ اسٹاف کی سہولت ہوتی ہے۔جو شہر بھر میں 24گھنٹے مفت میں سروسز فراہم کررہی ہوتی ہیں۔ ایمبولینس میں جدید سہولتوں کے ساتھ ٹریکنگ سسٹم بھی ہوتاہے جس سے کنٹرول اورمانیٹر کیاجاتاہے تاکہ ایمبولینس جعلی کاموں میں استعما ل نہ ہو۔حکومت ڈیزاسٹر کی صورت میں نظام بہتر بنائے تاکہ مریضوں کو فوری طبی امداد مل سکے۔حکومت سندھ کے مالی تعاون سے کراچی میں جتنا ممکن ہو رہا ہے مفت سروسز فراہم کررہے ہیں،ایمبولینس میں میڈیکل اسٹاف مریض کو طبی امداد دیتے ہوئے لے کرجائے گا،کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اسٹاف کی دیکھ بھال اور ٹریٹمنٹ سے مریض ایمبولینس میں ہی بہتر ہوگئے ،کورونا صورت حال میں سندھ حکومت نے تعاون کیا جس پر سندھ حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ہر ادارہ اپنی ایمبولینس میں ٹریکنگ سسٹم لگائے اس سے گاڑیوں کی غیرقانونی نقل و حرکت کنٹرول ہوسکتی ہے ۔ہمارا ادارہ باقاعدہ تربیت کے ساتھ مختلف کورسز بھی کراتا ہے جس میں فوری طبی امداد کے بارے میں بہت کچھ سکھایا جاتاہے۔

دنیا: کورونا میں آپ کے اسپتال نے بھی بہت کام کیا ایمبولینس میں کیا سہولتیں فراہم کرتے ہیں ؟

 معین خان :شہری حادثات سے اتنے خوفزدہ نہیں ہوتے جتنا ایمبولینس کے بے جا سائرن اور شور سے ہوجاتے ہیں،بعض ایمبولینس شہر میں آتے جاتے سائرن بجاتی رہتی ہیں جس سے شہر ی خوفزدہ اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں حکومت اور ادارے کنٹرول کریں،ہمارے ڈرائیوروں کی تربیت ہوتی ہے وہ ایسا نہیں کرتے ،لوگ ایمبولینس کے نام پر کاروبار کررہے ہیں یہ عوام میں اپنی موجود گی ظاہرکرنے کیلئے شہر میں سائرن بجاتی رہتی ہیں ، حکومت سندھ این جی اوز کے سسٹم کو چیک کرے۔ پولیس اور رینجرز ایمبولینس کو بھی روک کر چیک کیاکریں ۔ترکی نے المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کو جدید ایمبولینس جس میں آپریشن تھیٹربھی تھا کی پیشکش کی ا س کیلئے حکومت سے این او سی چاہیے تھی ،این او سی کیلئے چیف سیکریٹری اور وزارت داخلہ میں ایک سال تک فائل پڑی رہی ،3 سال سے پروسز میں ہے ابھی تک حکومت کی طرف سے این او سی نہیں ملی،کچھ روز قبل وزارت داخلہ کی طر ف سے فون آیا کہ اس کی دوبارہ نئی درخواست جمع کرادیں ، یہ ہمارے سرکاری اداروں کا حال ہے،حکومت کا آدھے سے زیادہ کام فلاحی اداروں نے اپنے ذمے لے رکھے ہیں ا سکے باوجود کاموں میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ ہمیں حکومت سے پیسے نہیں قانونی مدد چاہیے ، حکومت حقیقی فلاحی اداروں کے کاموں میں رکاوٹ نہ ڈالے ،ہم ایک این اوسی کیلئے کئی ماہ سے پریشان ہیں۔ حکومت ڈرائیوروں کی طبی تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی کرے۔ امن فائونڈیشن ہمارے ڈرائیورز کی بھی تربیت کرے۔

فورم کے دوران مسرت نسرین نے فلاحی اداروں کے نمائندوں سے سوال کیا کہ ایمبولینس کے معیار اور غیرقانونی سرگرمیاں کس طرح روکی جاسکتی ہیں،ڈرائیوروں کی ٹریننگ کیسے کی جائے ،این جی اوز کے پاس کتنے ڈرائیورز ہیں، ٹریننگ کا وقت اور طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ، سفارشات تیار کریں مل کر کام کریں گے تو بہتری آئے گی۔

دنیا: ڈرائیوروں کا مریضوں کے ساتھ رویہ کیسا ہونا چاہیے کیاان کو فرسٹ ایڈ کی تربیت ہوتی ہے ؟

 سرفرازشیخ :الخدمت سال میں 3 مرتبہ ڈرائیوروں کی باقاعدہ تربیت کرتی ہے۔خالی گاڑی میں سائرن بجانے کا جب بھی نوٹس میں آتاہے فوری طورپر ڈرائیور کے خلاف کارروا ئی کرتے ہیں،ہماری ایمبولینس عا م حالات کے ساتھ ڈیزاسٹر میں زیادہ کام کرتی ہیں، کراچی سے باہر بھی بہت کام ہیں۔ شہر میں بڑا حادثہ ہوجائے تو درجنوں ایمبولینس پہنچ جاتی ہیں جس سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے اور زخمی کو منتقل کرنا مشکل ہوجاتا ہے، گزشتہ ٹرین حادثے میں آپریشن کے دوران لاشوں کو اٹھانے کیلئے ایمبولینس کے دوگروپوں میں تصاد م ہوگیا تھا ۔جائے وقوع سے ایک کلومیٹر تک ایمبولینس کو کھڑی کرنے کی جگہ نہیں تھی جس سے ہلاک اور زخمیوں کو لے جانے میں کافی دشواریوں کا سامنا ہوا ۔ اسپتال تاخیر سے پہنچنے پر زخمیوں کو بہت تکلیف ہوئی ۔ حکومت ایسا سسٹم بنائے کہ ڈیزاسٹر کی صورت حال میں زخمیوں کو بروقت اسپتال پہنچایا جاسکے ، کراچی میں مزید ایمبولینس کی ضرورت ہے لیکن انہیں منظم کرنے کی بھی ضرورت ہے ،شہر میں دو تین بڑے اداروں کے علاوہ سیکٹروں پرائیویٹ ایمبولینس ایسی ہیں جو کاروباری مقاصد کیلئے استعمال ہورہی ہیں،حکومت ا ن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی ؟ان کو مانیٹرکرنے کی ضرورت ہے۔ ایمبولینس ڈرائیورزجن اسپتالوں سے کمیشن لیتے ہیں مریضوں کو وہیں لے جاتے ہیں ، شہر میں ایمبولینس کاروبار کے طورپر استعمال ہورہی ہیں ا ن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ان کو چیک کیا جائے،

ایمبولینس سروسز سے جرائم بھی بڑھتے ہیں عباسی ،جناح اور سول اسپتال میں سیکٹروں گاڑیاں ایمبولینس کی شکل میں نظر آئیں گی ۔انہوں نے بتا یا کہ میرے رشتے دار کے ساتھ واقعہ پیش آیا کہ مریض کوعباسی اسپتال لے کر گئے وہاں جگہ نہیں تھی اسپتالوں والوں نے کہا پرائیویٹ اسپتال لے جائیں،ڈرائیور مریض کو پرائیویٹ اسپتال میں لے گیا ،اسپتال نے مریض کے علاج کے ساتھ بل بنانے شروع کردیے اور مریض کی طبیعت بھی بہتر نہیں ہورہی تھی ، اچانک اسپتال میں موجود انتظامیہ کے افراد او ر ایمبولینس والے میں جھگڑ ا شروع ہوگیا اس دوران انکشاف ہوا کہ ڈرائیور اور اسپتال انتظامیہ کے درمیان کمیشن پر جھگڑا ہورہا ہے، بدقسمتی سے یہ کام بڑے منظم انداز میں ہورہے ہیں ،معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ایسے اسپتالوں میں روزانہ درجنوں کیس آتے ہیں ۔المیہ ہے ان جرائم کی روک تھام نہیں ہورہی،د نیافورم کے توسط سے کہنا چاہوں گا کہ حکومت اور اداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ۔اس موقع پر معین خان نے بتایاکہ مرحوم عبدالستار ایدھی کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ ایمبولینس غیرقانونی کاموں میں استعمال ہورہی ہیں انہوں نے سب سے پہلے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ ہماری ایمبولینس کو چیک کیا جائے ،اس سے تما م ایمبولینس کو چیک کرنے کی بات اٹھی ۔

دنیا: فلاحی اداروں نے حکومت سے غیرقانونی این جی اوز کے خلاف کارروائی کی شکایت کی ؟

 کاشف انصاری : کچھ عرصے پہلے حکومت کی سوشل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی جس میں فیصلہ ہوا تھا کہ فلاحی اداروں کا نظام بہتر کیا جائے گا اور تمام ایمبولینس کیلئے ایک سینٹرل (Helpline) نمبر جاری کیا جائے گا جس پر آج تک عمل نہیں ہوا،ا س پر کام ہونا چاہیے۔ حکومت ایمبولینس سروسز کو بہتر بناسکتی ہے۔ ہماری ایمبولینس سروسز زیادہ تر ادارے میں آنے والے مریضوں کو اسپتال منتقلی کیلئے استعمال ہوتی ہیں اس کے علاوہ شہر کے مختلف مقامات پر ریسکیو سینٹرز پر ایمبولینس موجود ہوتی ہیں جو کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار رہتی ہیں۔ ادارے میں ڈائیلیسز کیلئے بھی ایک ایمبولینس مختص ہے جو مریضوں کو گھر سے لانے اور لے جانے پر مامورہے، بدقسمتی سے شہر میں جعلی ا یمبولینس سروسز بغیر کسی روک ٹوک کے گھومتی پھرتی نظر آرہی ہیں جو مختلف پرائیویٹ اسپتالوں میں کمیشن کی بنیاد پر مریضوں کو پہنچا تی ہیں۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے  اداروں سے درخواست ہے ایسی ایمبولینس کیخلاف کارروائی کی جائے ،تجویز ہے حکومت شہر میں چلنے والی تمام ایمبولینس کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرے جہاں سب ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاسکیں تاکہ غیرقانونی ایمبولینس کا خاتمہ ہوسکے۔

دنیا:حکومت یا سوشل ویلفیئر کا ادارہ عوام کی رہنمائی کیلئے نمبر جاری کیوں نہیں کرتا ؟

مرتضیٰ عباس :حکومت عوام کی رہنمائی کیلئے رجسٹرڈ این جی اوز کی فہرست شائع کرے ۔ ایمبولینس پر رجسٹریشن نمبر اور مخصوص رنگ ہو تا کہ عوام کو آگہی ہو کہ جس ایمبولینس پر یہ چیزیں نہ ہو وہ غیر قانونی ہیں۔

معین خان : فورم کے توسط سے سندھ حکومت کاادارہ سوشل ویلفیئر کو تجویز دوں گا کراچی کی تما م فلاحی این جی اوز کے ساتھ میٹنگ بلائے جس میں مسائل کا حل نکالا جائے اور حکومت بتائے وہ فلاحی اداروں کی کیا مدد کرسکتی ہے۔

مسرت نسرین : حکومت کے ہر ضلع میں سوشل ویلفیئر کے دفاتر ہوتے ہیں، جہاں این جی اوز رابطہ کرتی ہیں لیکن اس کام کوبہتر کرنے کیلئے این جی اوز کا آپس میں کوآرڈینیشن ضروری ہے ۔رابطوں سے کئی مسائل حل ہوں گے۔این جی اوز کی طرف سے بھی مسائل کی نشان دہی او ر حل سامنے آنا چاہیے، کورونا صورت حال میں مسائل کے حل کیلئے کئی این جی او زکے ساتھ مل کر کام کیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔مل کر کام کریں تو مسائل حل ہوں گے۔

سرفراز شیخ: برطانیہ میں ایمبولینس سرکاری ، پرائیویٹ ،بینک خوا ہ انشورنس کمپنیوں کی ہوں یہ تمام ادارے اپنی ایمبولینس ایک ادارے میں لاتے ہیں،جنہیں سیٹ لائٹ نمبر جاری کیا جاتاہے عوام اسی نمبر پر فون کرتے ہیں جسے ایک اتھارٹی چلا تی ہے، ایڈیٹرفورم نے کہا کہ جس طرح شہر میں اوبر اور کریم ایک سسٹم کے ذریعے گاڑیوں کو مانیٹر کرتے ہوئے چلارہے ہیں اس میں گاڑی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتو معلوم ہوجاتاہے اسی طرح ایمبولینس سروسز کیلئے بھی نظام ہونا چاہیے ۔

 سرفراز شیخ: المیہ ہے ایمبولینس میں ڈرائیوروں کی ایک تعداد ہے جو پان گٹکے اور چھالیہ کا نشہ کرتے ہیں ،ڈرائیور مریضوں اور تیمارداروں کے ساتھ بدتمیزی اور غیر مہذب طریقے سے پیش آتے ہیں جو مناسب نہیں، کہیں جانے کیلئے اوبر یا کریم میں سہولت کے ساتھ سفر کروں تب بھی وہ ا تنا کرایہ نہیں لیتے جو ایمبولینس والا لیتا ہے حالانکہ فلاحی اداروں کو فنڈنگ بھی ہوتی ہے ا نکاکرایہ کم ہونا چاہیے۔ ایمبولینس کے معیار کو دبہتر کرنے اور ڈرائیوروں کی باقاعدہ تربیت کرنے کیلئے فلاحی اداروں کے نمائندے مل کر ایک لائحہ عمل بنائیں جس میں کمشنر کراچی کو بھی شامل کیاجائے اور قانون بنایا جائے تاکہ حقیقت میں مسائل حل ہوں ۔

مرتضیٰ عباس : ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تو شروع دن سے ایمبولینس ڈرائیوروں کی ٹریننگ کی ،اس وقت ہمارے پاس پاکستان کی سب سے بڑی ٹریننگ اکیڈمی ہے،دنیا فورم کے توسط سے ایک بات بتانا چاہوں گا کہ مرحوم عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں ہمارے ساتھ ایک ایم او یو سائن کیا تھا جس میں دو کام ہوئے ان کو اندازہ تھا کہ ان کے ڈرائیوروں میں وہ صلاحیت نہیں ہے جس سے وہ تشویشناک مریض کی حالت کو چیک کرسکیں تو انہوں نے ایسے مریضوں کیلئے ہمیں چنا جو ہم آج بھی کررہے ہیں اور انہوں نے اپنے ڈرائیوروں کو ٹریننگ کیلئے ہمارے پاس بھیجا جس پر آج بھی کام ہورہا ہے،اس دوران انہوں نے المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے ڈرائیوروں کو بھی ٹریننگ دینے کی پیش کش کی ،انہوں نے کہا بہتر ی کیلئے سب کو ایک صفحے پر آنے کی ضرورت ہے،ہماری خدمات سب کیلئے ہیں۔

شہزاد آدم جی :کراچی کے بڑے اسپتالوں میں ایمبولینس کھڑی کرنے میں کئی مسائل ہیں۔ اسپتالوں میں ایمبولینسز کھڑ ی کرنے کیلئے پیسے دیئے جاتے ہیں،پیسے کے بغیر بڑے فلاحی ادارے کی ایمبولینس بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ زیادہ تر کھڑی ہونی والی ایمبولینس رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتی پھر بھی کھڑی ہوتی ہیں، اسپتالوں میں آپریٹر کراچی سے باہر جانے کیلئے اسی ایمبولینس کو فون کریں گے جس کا آپریٹر کے پاس کمیشن جائے گا ۔ایک گاڑی پر00 5 سے ہزار روپے کمیشن چلتا ہے،جب سے نئی اورپرائیویٹ ایمبولینس آئی ہیں کئی اچھے فلاحی اداروں کی شہر سے باہر ایمبولینس سروسز ختم ہوگئی ہیں۔ حکومت اور ادارے کراچی کے تین بڑے اسپتالوں کو ٹارگٹ بناتے ہوئے کام شروع کردیں آدھے سے زیادہ غیر قانونی ایمبولینس کے مسائل حل ہوجائیں گے۔بعض ایمبولینس ڈرائیورز نجی اسپتالوں کے پیرول پر ہوتے ہیں،اسی اسپتال لے جاتے ہیں جہاں سے کمیشن ملتا ہے جبکہ مختلف این جی اوز کی ایمبولینس کے ڈرائیورز کو متوفی یا مریض کیساتھ تصویر بنانے اور اخبار میں آنے پر انعام بھی دیاجاتا ہے۔

 دنیا : جعلی ایمبولینس کی روک تھام کیسے ممکن ہے ؟

کنور وسیم : جس طرح بلڈ کو کنٹرول کرنے کیلئے بلڈ ٹرانزفیوژن اتھارٹی بنائی گئی تھی اسی طرح محکمہ صحت میں ایمبولینس کو کنٹرو ل کرنے کیلئے بھی اتھارٹی ہونی چاہیے تھی ۔بدقسمتی سے پاکستان میں مرکزی طورپر ایمبولینس کو رجسٹر ڈ کرنے کا کوئی ادارہ نہیں ،صرف نمبر پلیٹ جاری ہونے سے ایمبولینس نہیں بن جاتی ، پاکستان واحد ملک ہے جہاں ہڈ والی سوزوکی کو بھی ایمبولینس بنادیا جاتاہے،ایمبولینس کے معیار پر کوئی بات نہیں ہوتی ،ہر اداروں میں چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے تو ایمبولینس میں کیوں نہیں ہوتا؟۔پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی قانون تھا ،حکومت سندھ کتابیں نکالے اس میں بھی یہ چیزیں موجود ہیں،قانون میں واضح لکھاہے لال رنگ فائر کیلئے ،نیلا رنگ پولیس کیلئے اور پیلا رنگ ایمبولینس کیلئے ہے ،یہاں تو دکان پر جاؤ جو رنگ اچھا لگے لگا لو کون پوچھنے والا ہے؟،

حکومت سندھ کو رنگ پر چیلنج کیا تھا جواب ملا ہمیں ایسے کسی قانون کا پتہ نہیں خاموش ہوگئے،فورم کے توسط سے بات کہنا چاہوں گا حکومت ترجیح دے کہ سب ایمبولینس کا رنگ ایک جیساہو تاکہ رنگ کی بحث ختم ہو اور بین الاقوامی معیار کے مطابق چیزوں کو آگے لے کر چلا جائے ،ایمبولینس میں ایمرجنسی سروسز کے تما م قانو ن لاگو ہوتے ہیں ،چیکنگ کرنا پولیس کا کام ہے ایمبولینس آسمان سے نہیں اتری کہ اس کو کوئی چیک نہیں کرسکتا، دنیا بھر میں ایمبولیس کی چیکنگ اورمعیار کو دیکھا جاتا ہے اس کو آزاد نہیں چھوڑا یہ انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔ مرکزی معیار بنادیا جائے تو سب کو ایمبولینس کے متعلق آگہی ہوجائے گی جو نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔