افغانستان میں امن ،پاکستان وخطے کیلئے ضروری،حالات تشویشناک ہیں
شرکاء: بریگیڈیئر(ر) حارث نواز معروف دفاعی تجزیہ کار۔پروفیسر ڈاکٹر طہٰ چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ کراچی۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنا خانشعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی۔ اسسٹنٹ پروفیسر آفاق علی خان ، شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔
امریکی جانے کیلئے نہیں آئے تھے ، طالبان نے نکلنے پر مجبور کردیا: بریگیڈیئر(ر)حارث نواز،ہمیں تحقیق اور ترقی کی طرف دیکھنا ہوگا، انسانیت کا احترام کرناچاہیے: ڈاکٹر طہٰ
پاکستان نے قربانیاں دیں ، افغانستان سے منشیات اور اسلحہ آیا: پروفیسر حناخان ،امن سے چین کیلئے وسطی ایشیا کی مارکیٹ کھلے گی ، پاکستان کی تجارت بڑھے گی : پروفیسر آفاق
2001ء کے بعد بھارت کی افغانستان میں زیادہ دلچسپی رہی، آج اسے شکست ہو گئی: پروفیسر نوشین
موضوع:’’افغانستان سے امریکی انخلاء ۔پاکستان پر ممکنہ اثرات ؟‘‘
پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت میں ہے،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں افغانستان میں افغانیوں کی مرضی کی حکومت ہی تسلیم کرینگے۔یہ الفاظ جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے تعاون سے ہونے والے دنیا فورم میں شرکاء نے ادا کئے۔ ’’افغانستان سے امریکی انخلائ،پاکستان پر ممکنہ اثرات‘‘ کے عنوان کو لے کر ہونے والے دنیا فورم میں طلبہ وطالبات کی کثیر تعداد شریک تھی جس سے اندازہ ہوا کہ ہمارے نوجوان افغانستان کی بدلتی صورتحال پر سخت تشویش اور حالات پر مکمل نظر رکھے ہیں۔دنیا فورم میں دفاعی ،تاریخی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے جہاں افغانستان میں بدامنی کے بعد پاکستان میں پناہ گزینوں کی یلغار اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خدشات کااظہار کیا وہیں یہ توقع بھی ظاہر کی کہ پاکستان کی بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے اب حالات اچھے رہیں گے،مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پاکستان کے بڑھتے اثررسوخ ملکی معیشت کیلئے نوید سحر ثابت ہوں گے ،سی پیک کی تکمیل جلد ممکن ہوسکے گی ،مشرقی سرحد محفوظ ہوجائے گی جبکہ طالبان سے پاکستان کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں اس لئے امید ہے کہ اب بھی بہتر ہی ہونگے،ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کسی بھی ملک کی سرد جنگ اپنے ملک میں لڑنے کی پالیسی بالکل ختم کرے اور ملک وقوم کی ترقی کو ہی اولیت دے۔
وزیراعظم عمران خان کے اقدامات کو جہاں سراہا گیا وہیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور زخموں پر مرہم رکھنے پر بھی زور دیاگیا۔ دنیا فورم میں اس اہم قومی اور بین الاقوامی مسئلے پر بحث کا مقصد جہاں تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علموں کی رہنمائی کرنا ہے وہیں اپنے قارئین کو حالات کی درست تصویر بھی دکھانا ہے۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔مصطفیٰ حبیب "صدیقی(ایڈیٹر فورم)
،ہم سے رابطہ کریں۔
واٹس ایپ03444473215،ای میل mustafa.habib@dunya.com.pk
دنیا: طالبان کی پیش قدمی جاری ہے ، دفاعی نقطہ نظر سے پاکستان کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے؟
بریگیڈیئر (ر)حارث نواز : امریکاکا افغانستان میں آنے کا مقصد طالبان کو مارنا نہیں بلکہ وہاں سے چین اورایران خاص طورپر پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں نظر رکھنا تھا ۔مرحوم حمید گل نے بہت اچھی بات کہی تھی ’’9\11 بہانہ،افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ،امریکا کا مقصدہے‘‘،حقیقت بھی یہی ہے ۔امریکی یہاں سے جانے کیلئے نہیں آئے تھے لیکن افغان طالبان نے انکا جس طرح مقابلہ کیا وہ نکلنے پر مجبور ہوگئے۔پہلے افغانستان میں روس آیا تھا تو پاکستان نے امریکا کی مدد سے ان کو نکالا جس کے بعد طالبان نے حکومت بنائی ۔قدرتی طور پر پاکستان کی جیو اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے کوئی بھی ملک پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا، اللہ کاپاکستان پر خصوصی کرم ہے ۔پاکستان امن کا خواہاں ہے افغانستان میں دخل اندازی نہیں بلکہ تعاون کریگا۔ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کرکے حالات خراب کرتا ہے جس کا مقصد ہمارا سی پیک منصوبہ ناکام بنانا ہے۔پاکستان ایک اسلامی اور نیوکلیئر ملک ہے ہم سی پیک سے معاشی طورپر ترقی کریں گے ،امریکا چاہتا ہے ہم ہمیشہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں میں پھنسے رہیں اور عوام پر اپنی مرضی کی معاشی پالیسیاں لاتے رہیں ،امریکا پاکستان میں دہشت گردی اوربلوچستان کے حالات خراب رکھنا چاہتا ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کا مقصد ہی یہی ہے کہ پاکستان سی پیک منصوبہ وقت پر مکمل نہ کرسکے۔اس وقت معیشت کی جنگ ہے۔ چین کو سمندر کے راستے مشرق وسطیٰ سامان او ر تیل لانے میں 60دن لگتے ہیں۔سی پیک بننے کے بعد چین 7دن میں گوادر پہنچ جائے گا جبکہ ان راستوں میں مشکلات ہیں اور سی پیک منصوبے بننے کے بعد مشکلات نہیں بلکہ بہت زیادہ تحفظ ملے گا۔ مشرق وسطیٰ کا سارا تیل پائپ لائن کے ذریعے چین جائے گا۔ یہ راستے اکنامک فری زون ہوں گے جس سے سامان کی ترسیل حفاظت سے ہوگی ۔سی پیک سے روزگار کے بہت مواقع ہوں گے،گوادر اتنا گہرا سمندر ہے جس کے سامنے یو اے ای کچھ نہیں۔گوادر میں 150جہاز کھڑے ہوسکتے ہیں۔اللہ نے پاکستان کو بہت بڑی سہولت دی ہے،بھارت امریکا کے ساتھ مل کر ہماری فوج اور عوا م کو لڑانے کی کوشش کرتارہتا ہے۔ لڑائی صرف فوج ہی نہیں پوری قوم لڑتی ہے۔عراق ،لیبا اور شام میں تباہی کی بنیادی وجہ وہاں کی کمزورفوج تھی جس کی وجہ سے بیرونی طاقتیں کامیاب ہوئیں ۔اللہ کے فضل سے ہماری فوج بہت مضبوط ہے۔ہماری فوج نے مہارت کے ساتھ ملک میں خاص طورپر فاٹا سے دہشت گردی ختم کی ۔
نیٹو میں شامل51ممالک کی فورس افغانستان میں حالات کنٹرول نہیں کرسکی،ہم نے اپنے ملک میں امن قائم کردیا ۔اس وقت امریکا افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے، طالبا ن نے افغانستا ن کے 400 اضلاع میں سے 200 سے زائد پر قبضہ کرلیا ہے۔بھارت کے 3 جہاز افغانستان سے اپنے لوگوں کو لے گئے اور ہتھیار وہیں چھوڑ دیئے۔ خداناخواستہ افغانستان میں امن نہیں ہو تا اور حالات خراب ہوئے تو پاکستان میں دوبارہ دہشت گردی بڑ ھ سکتی ہے ،امریکا پھر’’ این ڈی ایس ‘‘ اور ’’را‘ کے ساتھ مل کر د ہشت گردی کرے گاجس سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ افغان مہاجرین جو پہلے ہی کئی ملین ہیں او ر آجائیں گے تو مسائل بڑھیں گے ۔ ان کے ساتھ کئی دہشت گرد بھی آسکتے ہیں، ان ہی مسائل کے حل کیلئے پاکستان نے اسلام آباد میں افغانستان سے افغان گروپوں کی کانفرنس بلائی ۔
دنیا: طالبان حکومت آنے سے پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟ تاریخ کیابتاتی ہے ؟
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرحنا خان : تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو افغانستان ہمیشہ سورش زدہ علاقہ رہا ہے۔19ویں صدی میں افغانستا ن اسو قت بھی بین الاقوامی سیاست کا مرکز تھا، شمال مغربی سرحدکی حد بندی 1893ء میں ایک معاہد ہ تھا جس میں سلطنت برطانیہ ،انڈیا اور افغانستان کے درمیان سرحد کی حد بندی ہوئی تھی۔جس کا مقصد اپنا دفاع کرنا تھا۔1947ء میں افغانستان ظاہر شاہ کے دور میں مضبوط ملک تھا، اس وقت افغانستا ن نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ا سو قت سے پاکستان اور افغانستا ن کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں،1955 میں پاکستان ا ور افغانستان آمنے سامنے کھڑے تھے ایسا لگتا تھا شاید جنگ ہوجائے گی ، افغانستان کے وزیراعظم سردار داؤد او ر ظاہر شاہ بادشاہ تھے اس وقت بھی پختونستا ن اور حد بندی کے مسائل بہت کھڑے ہوئے۔کچھ ممالک کی وجہ سے امن قائم ہوا اور دوبارہ سفارتی تعلقات بحال ہوئے ۔1978میں افغانستا ن میں انقلاب آتا ہے جسے سوشلزم انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے پیچھے سویت یونین کی مدد ہوتی ہے جس کے بعدافغانستان میں ایک وہ افغان گروپ جو اس کے خلاف تھے وہ ایک مذمتی تحریک شروع کردیتے ہیں جو آگے چل کر جہاد بن جاتاہے۔
ان معاملات میں پاکستان بھی شامل رہا جس کے نتیجے میں 30لاکھ افغانی سرحد پار کرکے پاکستان آئے ۔یہ حقیقت ہے پاکستان کو ہر حال میں افغانستان سے متاثرہونا تھا۔پاکستا ن کی افغانستان میں دلچسپی یا مذمت ، ان ساری چیزوں میں امریکا شامل ہوتا ہے جس کے بعد سرد جنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے، 1979ء میں سویت یونین افغانستان میں داخل ہوتی ہے جو افغانستان میں سوشلز حکومت کو سپورٹ کرتی ہے ۔جس کے بعدایک جنگ شروع ہوجاتی ہے جس میں کئی ممالک شامل ہوجاتے ہیں اس جنگ کو امریکا نے جہاد کا نام دیا جس کے پاکستان پر بڑے گہرے اثرات پڑے ۔ساری صورت حال میں پاکستان نے بڑی قربانیاں دیں جس کے نتیجے میں افغانستان سے منشیات اور اسلحہ کی بھرمار پاکستان میں آ گئی ۔1988ء میں جنیوا معاہدہ میں یہ بات منظور ہوجاتی ہے کہ افغانستان سے روسی افواج واپس چلی جائیں ،روسی افواج کے واپس جانے کے بعد امریکا کی افغانستان میں دخل اندازی ختم ہوجاتی ہے،ا س کے بعد 1995ء میں طالبان آجاتے ہیں جو افغانستان کے 98فیصد علاقوں پر قابض ہوگئے،شروع میں طالبان کو امریکا کی سپورٹ تھی بعد میں مخالف ہوگئے۔آج امریکی افواج دوبارہ افغانستان سے واپس گئے جس طرح 1986ء میں گئے تھے ،آج افغان حکومت ، طالبان اور دیگر گروپ میں کوئی معاہد ہ نہیں ہوا کیا ایسی صورت حال میں امن قائم ہوسکتا ہے؟
اگر نہیں ہوا تو کیا امریکی دوبارہ افغانستان آسکتے ہیں۔پاکستان کو اپنے ملک کے مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے۔افغانستان میں امن پاکستان اور خطے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ حالات پاکستان کیلئے کافی حساس اور مشکل ہیں۔ ہمیں پناہ گزینوں کے سیلاب کا سامنا ہوسکتا ہے ۔خواہش ہے افغانستان میں امن قائم ہو۔
ڈاکٹر طحہٰ: امن صر ف انسانی ترقی اور انسانی حقوق سے وابستہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی صرف پاکستانی عوام کی خوشحالی سے وابستہ ہے۔اگر ہماری عوام بد حال رہی تو کوئی خارجہ پالیسی کامیاب نہیں ہوگی ۔ عوام کو خوشحال کیا جائے تو پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔ ہم کب تک انسانی ترقی کو ریاست اور شہری کے ساتھ جوڑے رکھیں گے،ریاست میں کوئی شہری کسی کو ماردے تو قتل اور اگر ریاست لوگوں کو ماردے تو قومی مفاد کہا جاتاہے۔ملک میں انتخابات اور عدلیہ منیج ہوسکتیں ہیں توامن کیوں نہیں ہوسکتا؟۔ قومی مفاد کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک معاشرے میں تنقیدی سوچ نہیں ہوگی آگے نہیں بڑھ سکتے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے،بھارت میں خون بہے اس میں خوش ہونے کی بات نہیں،شنکر کوگولی لگے گی شنگر کا بچہ یتیم ہوگا،عبداللہ کو گولی لگے گی عبداللہ کا بچہ بھی یتیم ہوگا۔شنکر کی بیوی اور عبداللہ کی بیوی بھی بیوہ ہوگی ،،1965ء کی جنگ میں 6ہزار سے زائد عورتیں بیوہ ہوئیں ۔کسی نے آج تک معلوم کیا ان کے ساتھ کیا ؟،ان کے بچوں کا کیا حال ہے؟ ہمیں تحقیق اور ترقی کی طرف دیکھنا ہوگا۔ انسانیت کا احترام کرنا چاہیے۔
دنیا: معاشی طورپر پاکستان میں کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟
اسسٹنٹ پروفیسر آفاق علی خان :افغانستا ن میں امن نہ ہونا امریکا کے مفاد میں ہے۔وہاں بدامنی سے سینٹر ل ایشیا کے ممالک کے لیے تجارت کا راستہ متاثرہوگا۔ آئل اور دیگر قدرتی ذرائع پر امریکا کا کنٹرول رہا ہے وہ نہیں چاہتا کہ ان پر پاکستان کا اثرورسوخ بڑھے۔امن ہونے سے چین کیلئے وسطی ایشیا کی مارکیٹ کھل جائے گی ، پاکستان کی تجارت بڑھ جائے گی جس سے پاکستان پر مثبت اثرات آئیں گے۔ سی پیک میں روس بھی شامل ہونا چاہتا ہے، سی پیک کے کامیاب ہونے سے پاکستان اسپیشل اکنامک زون بن سکتاہے، جس سے بے روزگاری کاسیلاب کنٹرول ہوسکتاہے۔امن کی بنیاد پر پاکستان کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے، مہنگائی کنٹرول ہوسکتی ہے۔ بدامنی کی صورت میں پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو معاشی صورت حال بگڑسکتی ہے، حکومت کی کاروبار کی پالیسی کے حوالے سے ایف ڈی آئی بڑھ رہا ہے حالات خراب ہوئے تو ایف ڈی آئی کم ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں بدامنی ہوئی تو خدشہ ہے کہ 10لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان آئیں گے جس سے پاکستان کی جی ڈی پی ایک فیصد کم ہوسکتی ہے اور ایک فیصد کا مطلب ہے کہ پاکستان کو سالانہ 500ارب کا نقصان ہوسکتاہے۔ افغان جنگ سے پاکستان کو 100ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ۔ پاکستان وسطی ایشیائی ممالک میں تجارتی حجم بڑھاسکتا ہے۔پورے خطے ،روس ،چین ،پاکستان ،ایران سینٹرل ایشیا کے تمام مما لک چاہتے ہیں افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو، تاکہ پور اخطہ گلوبلائیزیشن کے بعد ترقی کرے۔
دنیا :جنگ ختم ہونے کے بعد بھی اطراف کے ممالک میں اثرات رہتے ہیں ، پاکستان میں کیا صورت حال ہے؟
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی : پاکستان اور افغانستان میں شروع سے اندرونی اور بیرونی معاملات میں دخل اندازی رہی ہے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے 1947ء سے 1970ء تک پاکستان کو افغانستان کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہیں،بھارت سے بھی یہی صورت حال رہی پاکستان کو ایسٹ اور ویسٹ دونوں طرف سے مشکلات تھیں،امریکا کا روس کے خلاف لڑنے کا مقصد کمیونسٹ نظام کو ختم کرنا تھا ۔ان ادوار میں ہمیشہ افغانستان کی صورت حال خراب رہی ۔ 2001ء کے بعد بھارت کی افغانستان میں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔موجودہ صورت حال میں بھارت کو شکست نظرآرہی ہے۔2001 سے پاکستان مستقل یہ بات کہہ رہا تھا کہ افغانستان میں ایک وسیع بنیاد پر حکومت ہونی چاہیے ، جس میں طالبان اور تمام گروپس کو شامل کیا جائے جس سے افغانستان میں امن ہوگا لیکن امریکا اس کو تسلیم نہیں کررہاتھا۔
پاکستان نے اس صورت حال میں بہت اچھی پالیسی اپنائی ہے کہ حکومت میں طالبان کو شامل کیا جائے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو۔افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میزپر بیٹھادینا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی جیت ہے۔ پاکستانی حکومت صرف اور صرف مذاکرات پرکوشش کررہی ے۔دشمن ہماری سرزمین پر اس وقت حملہ کرتا ہے جب اسے مواقع میسر ہوں گے۔ہم بین الاقوامی طورپر بارگیننگ پوزیشن پر ہیں۔امریکا جو کرنے جارہا ہے اس کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔پاکستان ماضی میں ایسے کئی تجربات سے گزرچکا ہے ان کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا۔ پاکستان کیلئے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان، چین اور روس یکجا ہو جائیں ۔امریکا کی کوشش ہو گی کہ ایسانہ ہو تاکہ افغانستان میں بدامنی رہے اور خطہ معاشی طورپر غیر مستحکم رہے۔سی پیک میں 65 ممالک کا عمل دخل رہے گا۔ 9\11 کے بعد امریکا نے عراق پر حملہ کرکے یہ بات ثابت کردی کہ ا س کے مقاصد خطے کے استحکام کو تباہ کرنا تھے ۔سی پیک 65 ممالک کو آپس میں جوڑ رہا ہے ، امریکا کا مفاد افغانستان یا پاکستان میں امن نہیں بلکہ سی پیک میں رکاوٹیں ڈالنا ہے تاکہ چین کو مشکلات ہوں،امریکا طالبان کے کچھ گروپس کو استعمال کررہا ہے تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی ہو۔
بہت سے طالبان گروپ امریکا کے دباؤ کی وجہ سے ان کے ساتھ کام کررہے ہیں۔2001ء سے 2010 ء کے دوران بھار ت کا افغانستان میں اثرورسوخ بڑھا تھا اور امریکا پاکستان کو سپورٹ نہیں کررہا تھا جس سے کافی مشکلات ہوئیں۔اس وقت مذاکرات کے حوالے سے پاکستا ن کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔پاکستان چاہتاہے اگر طالبان حکومت میں آئیں تو ایک فارمولے کے تحت وسیع بنیاد پر حکومت ہو تاکہ خطے کو استحکام ملے اور معاشی فائدے ملیں۔امیدہے ا س مذاکرات سے فائدہ ہو گا۔طالبان کی بظاہر پالیسی نظر آرہی ہے وہ تشدد کو Barganing power کے طور پراستعمال کرنا چاہتے ہیں،ہر ملک کو اپنے قومی مفادعزیز ہوتے ہیں،دنیا میں ہمیشہ سیاسی معاملات کی اہمیت رہی ہے ہمیں سمجھوتہ کرنا پڑتاہے۔امید ہے افغانستان کی پالیسی بھی یہی ہوگی ۔
اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی صحیح سمت میں جارہی ہے حکومت بلوچستان کا مسئلہ بھی حل کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اچھی بات ہے۔یہ بات بھی سامنے آرہی ہے اگر صورت حال بگڑی تو افغان مہاجرین کو اس طرح نہیں آنے دیں گے جیسے 1989 کے بعد آئے ۔۔ایک مسئلہ اور ہے کراس بارڈ رسے جولوگ آرہے ہیں ان کو روکنا اتنا آسان نہیں جس سے مسائل ہوسکتے ہیں۔ وسطی ایشیا کیلئے پاکستان ایک گیٹ وے ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اگر افغانستان میں امن ہوتاہے تو پاکستان معاشی اعتبار سے ابھرے گا جس سے پورے خطے کوفائدہ او رامن ہوگا۔
دنیا: بھارت میں کیا صورت حال ہے؟ ہمارے میڈیا کو بھی بھارتی شکست کا اظہار کرنا چاہیے ؟
نوشین وصی: بھارت کو شکست تو ہوئی ہے ۔ بھارت کی 2001 کے بعد افغانستا ن میں Soft Power بہت ہے،اسی بنیاد پر بھارت نے اپنا اثرورسوخ بڑھا یا،بھارت کو اس بات کا انداز ہ ہوا کہ امریکا افغانستان میں وسیع بنیاد حکومت کی بات کررہا ہے ۔طالبان کو ساتھ بٹھالیا ہے اور ہمیں چھوڑ دیاجس پر بہت مایوس ہوااور بھارتی اخبارات بھی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں،پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بھارت طالبان کے ساتھ بات چیت کیلئے تیا ہے جو اہم بات ہے۔بھارت امریکا کے پیچھے کھڑا ہے جب امریکا پچھے ہٹ گیا تو بھارت کیسے آگے آسکتاہے اور پاکستان چین کے سا تھ ہے اب دیکھنا ہے کہ ہم چین اور امریکا کے درمیان توازن کیسے قائم کرسکتے ہیں ،70 کی دہائی میں پاکستان نے اچھا کردار ادا کیا تھا،پاکستان کو اپنے قومی مفاد کوسامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چا ہئیں ،ہمارا مقصد صرف افغانستان میں امن نہیں بلکہ پورے خطے میں امن اور اچھے تعلقات ہونے چاہیے۔
دنیا فورم میں طلبہ وطالبات کے سوالات
دنیا فورم میں طلبہ وطالبات کی بہت بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے شرکاء سے سوالات کیے اور تجاویز بھی دیں۔طالب علم رضوان نے کہا کہ شرکاء نے کہا کہ افغانستان میں امن ہماری ضرورت ہے مجھے اس جملے سے اختلاف ہے ۔افغانستا ن میں امن ہماری ضرورت نہیں فرض ہے،کیوں کہ ضرورت وقت کے ساتھ تبدیل ہوسکتی ہے جیسے2001ء میں ہوا،میرا بریگیڈیئر صاحب سے سوال ہے کہ سی پیک بننے کے بعد غریب عوام کی زندگی پر کیا فرق پڑے گا؟کیا سی پیک سے بڑا منصوبہ سوئس کینال نہیں ؟ بریگیڈیئر(ر) حارث نواز نے جواب دیا کہ سی پیک منصوبے میں بہت زیادہ معاشی فوائد ہیں ۔ترقیاتی کام،بے شمار روزگار کے مواقع، حقیقت ہے کہ امریکا افغانستان میں امن نہیں چاہتا، ،افغانستا ن میں امن ہوگا تو خطے میں تجارت بڑھے گی ۔
امریکا نہیں چاہتا سی پیک منصوبے سے پاکستان معاشی طورپر بہت مضبوط ہو۔سی پیک سے پاکستان اور وسطی ایشیاء کو فائدہ ہوگا۔پاکستان کو رائلٹی ملے گی۔ مشرق وسطیٰ سے چین کو پائپ لائن کے ذریعے 80فیصد تیل سپلائی ہوگا،اندازہ ہے اس سے ایک ارب نوکریاں پیدا ہوں گی۔اس سے بلوچستان کی محرومی دور ہوگی ۔ بلوچستان میں این ڈی ایس ،را ،سی آئی اے غریب لوگوں کو پیسے دیتے ہیں یہ لوگ ان کی طرف چلے جاتے ہیں اس کے باوجود بلوچستان میں 98فیصد لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ہمارا موقف ہے افغان خود فیصلہ کرے پاکستان صرف افغان حکومت اور طالبان گروپوں کو ایک جگہ بیٹھانے کی کوشش کررہا ہے لیکن کچھ قوتیں ایسا نہیں چاہتیں، پاکستانی فوج نے تہیہ کیا ہوا ہے وہاں تحفظ دیا جائے تاکہ امن برقرار قائم رہے اور سی پیک منصوبہ جلد مکمل ہو۔ اگرافغانستان میں لڑائیاں ہوئی تو اس کے پاکستان پر منفی اثرات آئیں گے۔طالب علم نے بریگیڈیئر صاحب سے سوال کیا کہ افغان جنگ میں سویت یونین سے مقابلہ کرنے کیلئے پاکستانی فوج اور پاکستان نے طالبان بنائے لیکن 9\11 میں ان کے خلاف آپریشن کیا،آج وہی طالبا ن پاکستان کے کہنے پر مذاکرات کیلئے آمادہ ہوتے ہیں،مستقبل میں طالبان دوبارہ کھڑے ہوئے تو پاکستان کی کیا حکمت عملی ہوگی ؟۔
بریگیڈیئر (ر) حارث نوا نے کہا کہ 1979میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا توامریکا کی سی آئی اے نے افغانستان میں اسامہ بن لادن اور دیگر افغان لیڈر سب کو مجاہد بنادیا ان کو ٹریننگ دی ،پاکستان نے روس کو نکالنے کے لئے ساتھ دیا کیونکہ اگر روس افغانستان میں آجاتا ، مشرق میں بھارت ہے، ہم دونوں طرف سے دباؤ میں آجاتے دوسری طرف امریکا بھی نہیں چاہتا تھا کہ روس افغانستان پر قبضہ کرے۔اس وقت افغانستان میں جتنے بھی دہشت گر د تھے وہ مجاہدین بنادیئے گئے،امریکا نے روس کو نکالنے کیلئے ان کو اسلحہ اور میزائل بھی دیئے۔مرحوم جنرل حمید گل نے مذاق میں بڑی اہم بات کہی تھی ’’آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے روس کو افغانستان سے نکالا،اب آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے امریکا کو شکست دیدی ‘‘۔ یہ سمجھنے کی باتیں ہیں۔پاکستان کے طالبان کے ساتھ ہمیشہ سے تعلقات اچھے رہے ہیں خواہ کوئی بھی گروپ ہو اس لیے امریکا ہم سے ناراض ہے۔ہم نے کبھی افغان طالبان کو نہیں مارا ، صرف تحریک طالبان جو پاکستان کے طالبا ن ہیں، ان لوگوں کے خلا ف سوات اوربلوچستان میں آپریشن کیے،یہ لوگ پاکستان میں دہشت گردی کرتے اور پاکستانیوں کا خون بہا تے تھے ۔افغان طالبان کے پاکستان سے اچھے تعلقات ہیں یہ پاکستان کی بہت عزت کرتے ہیں۔اسی لیے پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان دو حہ میں مذاکرات کی میز پر بیٹھے جبکہ افغان حکومت کو بھی مذاکرات کی میز پر لائے۔
پاکستان نے کبھی بھی ان کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا۔ہم چاہتے ہیں افغانستان میں وسیع بنیاد حکومت بنے۔افغانستان میں پختون طالبا ن 48فیصد،جن کی مدد کرتے ہیں،پشاور میں ہمارے سارے پختون بھائی ہیں،اگر طالبان کی حکومت آتی ہے توا ن کو سمجھارہے ہیں کہ زبردستی کابل پر قبضہ نہ کریں حل نکالیں۔امریکا کا طالبا ن پر دباؤ ہے وہ ان کو مذاکرات پر آمادہ نہیں ہونے دے رہا۔پاکستان کوشش کررہا ہے مذاکرات کے ذریعے حکومت بنائی جائے۔فائنل ایئر کی طالبہ حفصہ خان نے کہا کہ پاکستانی فوج نے سوات اور دیگر علاقوں میں بڑی کامیابی سے آپریشن کیے میرا سوال ہے تحریک طالبان پاکستان بنانے اورآپریشن کی کیاوجوہات تھیں؟ اور افغانستان کی دونوں جنگوں میں پاکستان کی سویلین حکومت کافیصلہ تھا یا اسٹیبلشمنٹ کا،اس فیصلے سے آج تک پاکستان مشکلات کا سامنا کررہا ہے ،ان کا ذمہ دار کون ہے؟ ۔بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ پاکستان کی پہلے پالیسی تھی کہ افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت بنائیں تاکہ ہمیں مغربی اور مشرقی سرحدوں سے دباؤ کاسامنا نہ ہو۔لیکن اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ہے کہ افغانستان میں افغانیوں کی مرضی کی حکومت ہو وہ جسے چاہیں لے کر آئیں جو بھی حکومت آئے گی پاکستان اس کو تسلیم اور سپورٹ کریگا۔طالب علم عبدالرحمٰن نے سوال کیا کہ سی پیک منصوبے میں زیادہ تر حصہ قرضے کی مد میں 28فیصد سود پر دیا جاتاہے،اگر افغانستان میں جنگ شروع ہوئی تو پاکستان پر لازمی اثرات پڑیں گے اس صورت حال میں سرمایہ کاری آئے گی ؟
اس حوالے سے حکومت کی کیاپالیسی ہے؟۔ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے واضح طورپر کہا ہے ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اورنہ ہی اپنی زمین دیں گے۔ طالب علم دریاخان نے کہا کہ افغانستان میں مذہبی لحاظ سے افغان حکومت اور طالبان کے نظریات مختلف ہیں ،طالب علم یحییٰ خان نے کہا کہ امریکیوں کی واپسی کے بعد پاکستان پر جو اثرات آئیں گے وہ پاکستان کے پیداکردہ ہیں،ہم خود دہشت گرد پیدا کرتے ہیں۔ ہم نے امریکا کواپنی جگہ استعمال کرنے کیلئے دی جس کا شکار خود ہوئے،جب تک ہم خود مضبوط نہیں ہوں گے حالات کنٹرول نہیں ہوں گے۔اس موقع پر شعبہ تاریخ کے ٹیچر افتخار قریشی نے کہا کہ وہ وقت کب آئے گا جب پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے والے اس بات کو تسلیم کریں گے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہماری ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ قومی مفاد کیلئے بننی چاہیے ،ہماری غلط پالیسی کی وجہ سے ہماری جان اورمال دونوں کو نقصان پہنچتاہے۔آخر ہم کب اس صورت حال سے باہر نکلیں گے۔بریگیڈیئر(ر) حارث نواز نے کہا کہ ہمارے دفتر امور خارجہ کو اداروں سے مشورہ کرکے اچھی خارجہ پالیسی بنانی چاہیے۔ سیاستداں جب عوام کیلئے کام کریں گے ،اچھی گورنس دینگے،فلاح بہبود کے کام کریں گے،غیر ملکی زرمبالہ لائیں گے ،کرپشن نہیں کریں گے اور بیرون ملک اثاثے نہیں بنائیں گے تو عوام ان کے ساتھ ہوں گے ہم ان کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے ۔اس وقت وزیراعظم عمران خان مضبوط شخص ہیں فوج ان کو سنتی ہے جو وہ کہتے ہیں کرتی ہے۔فوج حکومت کے طابع ہوتی ہے ۔
حکومت پالیسی بناتی ہے فوج سفارشات دیتی ہے۔ نوشین وصی نے کہا صرف افغانستان میں امن نہیں ہم پاکستان میں امن او ر خوشحالی چاہتے ہیں،ہمیں خطے کی سیاست اوربین الاقوامی سیا ست کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ہم آئسولیشن میں نہیں جاسکتے،ان مسائل کو سمجھیں گے تو حل نکال سکیں گے۔