انجینئرنگ جامعات کا نصاب صنعتکاروں کی مشاورت سے بنایاجائے

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء: انجینئر ڈاکٹر زبیر احمدشیخ ،وی سی اور صدر محمد علی جناح یونیورسٹی۔انجینئر مختاراحمد شیخ، کنسلٹنٹ اور سابق کسٹم آفیسر۔انجینئرمحفوظ الرحمن ،سی ای او یونائیٹڈ ٹیکنالوجی اورجنرل سیکریٹری پی ٹی آئی سندھ۔ انجینئر ہمایوں قریشی، ڈائریکٹر فرسٹ پیرامائو نٹ مضاربہ۔ انجینئر پروفیسر ولی الدین ، وائس چانسلر سرسید یونیورسٹی برائے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی ۔ انجینئر عبدالرحمن شیخ، ڈائریکٹر اورمنیجر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ۔ انجینئر صائمہ کھوڑو اورکوآرڈینیٹر ینگ انجینئر زپلواشہ خان(محمد علی جناح یونیورسٹی)

تعلیمی اداروں اور صنعتوں میں فاصلے ختم کئے اورجامع فورمز بنائے جائیں:   انجینئر ڈاکٹر زبیر شیخ،عملی میدان کیلئے انجینئرز کو ایک سال کی ہاؤس جاب یا انٹرن شپ کرائی جائے:   انجینئر مختار شیخ

 انجینئرز نوکری نہ ہونے سے ٹھیلہ تک لگانے اور دکان کھولنے پر مجبور ہیں :  انجینئر محفوظ الرحمن،بڑے عہدوں پر لوگ قابلیت نہیں سفارش پرآتے ہیں جوترقی میں رکاوٹ ہیں:   انجینئر ولی الدین

پی ای سی یونیورسٹیوں میں وہ نصاب لائے جو صنعتوں کی ضرورت ہے ،انجینئر ہمایوں قریشی، ہوٹل چلانے والے پی ٹی سی ایل چلارہے تھے، جس سے ادارہ تباہ ہوا:   انجینئر عبدالرحمٰن

 

موضوع:’’پاکستان میں انجینئرز کو درپیش مسائل ‘‘

 

 

 

 دنیا فورم میں یہ سن کر افسوس ہوا کہ ہمارے ایک لاکھ سے زائد انجینئرز بیروزگار ہیں،حتیٰ کہ بیروزگاری سے تنگ آکر دکان کھولنے اور ٹھیلہ تک لگانے پر مجبور ہیں،ماضی میں تو ایسا بھی ہواکہ اعلیٰ اور نامور یونیورسٹیوں سے انجینئرنگ کی ڈگری لینے والے نوجوان بیروزگاری سے تنگ آکر جرائم تک میں ملوث ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ذہین افراد کیوں ضائع ہورہے ہیں؟بس یہی سوال تھا کہ جس نے ہمیں انجینئرز کیساتھ بٹھادیا ،محمد علی جناح یونیورسٹی میں ہونے والے دنیا فورم میں ملک کے نامور اداروں سے وابستہ انجینئرز نے جہاں مسائل کی نشاندہی کی وہیں حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔جبکہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی بھی کارکردگی بہتر بنانے پر زور دیا۔واضح رہے کہ 8اگست کو پاکستا ن انجینئرنگ کونسل کے الیکشن بھی ہونے جارہے ہیں ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ اہم ادارہ ایسے افراد لانے میں کامیاب ہوجائے گا جو انجینئرز کے مسائل حل کرنے میں واقعی دلچسپی رکھتے ہوں۔کیا حکومت انجینئرز کے مسائل کو سمجھتے ہوئے کوئی سنجیدہ اقدام اٹھائے گی؟ہماری تو پارلیمنٹ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کمی ہے وہ انجینئرز کی بات کیا کریں گے، جامعات اور صنعتوں کو بھی فاصلے ختم کرنے پر زور دینا ہوگا،دنیا فورم میں نہایت اہم مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی تجاویز پیش کی گئیں جویقیناً انجینئرز اور طلباء کے لئے مفید ہونگی۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ شکریہ(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم )

ہم سے رابطہ کریں :  03444473215(فون یا واٹس ایپ)

ای میل کریں   mustafa.habib@dunya.com.pk

 

 دنیا: ہمارے انجینئرز بے روزگار کیوں ہے مسائل حل کیوں نہیں ہورہے ؟

 انجینئرڈاکٹر زبیر احمد شیخ : ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد انجینئرز بیروزگار ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں ۔ہمارے انجینئرز اپنی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں کرتے جبکہ انہیں خود کو پیش کرنا بھی نہیں آتا۔ انہیں باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے۔ انجینئرز کو مستقبل کے حوالے سے تربیت اور آگہی نہیں ہوتی نہ ہی سمت کا صحیح معلوم ہوتا ہے۔ انجینئرز کو صنعتی معاونت بھی حاصل نہیں ۔ہماری صنعت کبھی اوپر جاتی ہے توکبھی نیچے آجاتی ہیں جس سے سرمایہ داروں کا اعتمادکم ہوتاہے ۔چھوٹی انڈسٹریز پروان نہیں چڑھ رہی ۔پاکستان انجینئرنگ کونسل کردار ادا کرے توانجینئرز کے مسائل اور بے روزگار ی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ہمیں ایسے ماڈل بنانے ہوں گے جو مارکیٹ کی ضرورت ہوں۔پاکستان انجینئرنگ کونسل میں Right people Right Jobوالے لوگ ہی نہیں۔پی ای سی جیسے ادارے قانون بناتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہورہا۔نوجوان انجینئرز بھی اچھے لوگوں کو دیکھیں اور ان کو سامنے لے کر آئیں۔اس قسم کے فورم ہوتے رہنے چا ہیئیں تاکہ نوجوانوں کے مسائل حل ہوںاورانہیں آگہی بھی ہو۔طلباء کیلئے تربیتی پروگرام بھی ہونے چاہییں،تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے درمیان فاصلے ختم کئے جائیں۔انجینئرز کے مسائل کے حل کیلئے جامع فورمز بنائے جائیں۔ 4سال کی ڈگری میں3 سال پڑھایا جائے اور آخری سال انڈسٹری سے جوڑ کر عملی تربیت اورانٹرن شپ بھی کرائی جائے اس سے طلباء میں قابلیت سامنے آئے گی اور بے روزگاری کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔ کارپوریٹ سوشل ریسپانسپلٹی جو انڈسٹری کے پاس فنڈ ہوتا ہے اسے استعمال کیا جائے۔پی ای سی اپنے فنڈسے بھی انٹرن شپ کراسکتی ہے۔

دنیا:سرکاری عہدوں پر اثر و رسوخ استعمال ہوتا ہے جس سے قابل انجینئرز کا حق مارا جاتا ہے کیا یہ تاثر درست ہے؟

پروفیسر ولی الدین : عام طور پر بڑے اداروںاور عہدوں پر لوگ قابلیت نہیں سفارشوں پر بھرتی ہوتے ہیں،سفارشی لوگ کسی کو اوپر نہیں آنے دیتے جوترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔جس کے نتیجے میں ادارے تباہ ہوناشروع ہوجاتے ہیں جس کی ماضی میں کئی مثالیں ہیں کہ ہمارے بڑے اور اچھے اداروں کا سیاسی اثرروسوخ کی وجہ سے کیا حال ہوا ۔ترقی یافتہ ممالک میں انجینئرز کا اہم کردار ہوتاہے جبکہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ۔ ہماری حکومت سنجیدہ نہیں،حکومت کی طرف سے سی پیک پر باتیں تو بہت کی جارہی ہیں کہ نوجوانوں کو بے تحاشہ روزگار کے مواقع ملیں گے ،پاکستانیوںکو بہت فائدہ ہوگا کن لوگوں کو روزگار ملے گا ا س بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا ۔حکومت کی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ۔ کس تناسب سے نوکریاں د ی جائیں گی کچھ نہیں معلوم۔سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے حکومت کو سنجید گی کے ساتھ انجینئرنگ کمیٹی ،پی ای سی اور اداروں کے ساتھ بات کرنا ہوگی ۔سی پیک کے بارے میں ہمارے انجینئرز اور اداروں کو صحیح معلومات بھی نہیں ،کئی مرتبہ معلوم کیا کہ باہر سے کتنے لوگ آرہے ہیں مقامی لوگوں کیلئے کیا ترجیحات ہیں صحیح جواب نہیں ملتا۔ حکومت کی طرف سے کوئی گائڈ لائن جاری نہیں کی جارہی ۔اس وقت ٹیکنالوجی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے ہمیں ماہرا ور قابل لوگ درکار ہیں جوا س کو سمجھ اور فائدہ اٹھا سکیں۔پی ای سی سمیت تمام انجینئرز فورم اور اداروں میں فیصلہ ساز انجینئرز لائے جائیں۔ انجینئرز کے مسائل سمجھنے والے ہی عہدوں پر بیٹھنے کے حقدار ہیں۔سیاسی دبائو اور سفارشی بھرتیوں سے ادارے تباہ ہو گئے ۔

انجینئر ہمایوں قریشی : نجی تعلیمی اداروں میں طلباء اچھی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن کورسز مکمل کرنے کے بعدانہیں صنعتوں میں نوکریاں نہیں ملتیں ۔زیادہ ترانجینئرز نجی سیکٹر میں جاتے ہیں۔ہماری صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے درمیان بہت فاصلہ ہے جسے ختم کرنے کیلئے ایک برج ہوناچاہیے ۔جس طرح ڈاکٹر ہاؤس جاب کرکے پریکٹس کرتے ہیں اور اچھے اداروں میں بھرتی ہوتے ہیں اسی طرح حکومتی سطح پر انجینئر کیلئے بھی منصوبہ بندی ہونی چاہیے ۔ یونیورسٹیوں کا معیار بہتر کیا جائے ۔حکومت انجینئرز کے مسائل سمجھے اور ترجیح بنیاد پر حل کرے۔یونیورسٹی میں صنعتوں کو بھی شامل کیا جائے جو طلباء کی عملی تربیت کرسکیں، اس پر صنعتوں سے مشاورت کی جائے۔ اس سے صنعتوں کو تیار لوگ ملیں گے ا س میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کردار ادا کر سکتی ہے۔

تعلیمی اداروں میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کا اہم کردار ہے جوجامعات کی منظوری دیتی ہے۔ جامعات میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کی ٹیمیں دورہ کرتی ہیں اور اچھا کام کررہی ہیں۔پی ای سی جامعات کے نصاب میں تبدیلی لائے وہ نصاب پڑھایا جائے جو صنعتوں کی ضرورت ہے اس سے طلباء میں قابلیت او رصنعتوں میں روزگار کے مواقع ملیں گے۔ دنیا فورم کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں اہم موضوع پر متعلقہ لوگوں کو جمع کیا ۔امید ہے فورم کے توسط سے انجینئرز کے مسائل حل ہوں گے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل ا ن مسائل کو حل کرنے میں اپنا بھرپور کردار اداکرے گا۔

انجینئر مختار احمد شیخ:بے روزگار انجینئرز کیلئے منصوبہ بنارہے ہیں۔حکومت کا احساس پرگرام اور پاکستان انجینئرنگ کونسل دونوں مل کر اس پر کام کریں گے۔پاکستان میں سالانہ 22سے 25ہزار انجینئرز تیارہوتے ہیں،انجینئرز کو ایک سال کیلئے ہاؤس جاب یا انٹرن شپ کرائی جائے ۔ میں نے4 سا ل پہلے پی ای سی میں صنعتوں کو تعلیمی اداروں سے جوڑنے کیلئے انڈسٹریل لنک کمیٹی بنائی تھی جس پر آج تک عمل نہیں ہوسکا۔سی ایس ایس کی طر ز پر اکیڈمی بنائی جائے جو باقاعدہ ان طلباء کو تیار کر ے تاکہ جب طلباء عملی میدان میں قدم رکھیں ان کے معیار کے مطابق ہوں۔بدقسمتی سے جامعات سے فارغ طلباء کو عملی کام نہیں آتا۔ یونیورسٹیوں اور انڈسٹری میں بہت فاصلہ ہے۔دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں جدید تعلیم دی جارہی ہے جبکہ ہم ابھی بھی پرانا نصاب پڑھا رہے ہیں۔حکومت اور ادارے اس طرف توجہ نہیں دے رہے ۔ہم طلب سے زیاد ہ رسد پر توجہ دیتے ہیں جس سے مسائل حل نہیں ہورہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔سی پیک میں انجینئرز کی بہت ضرورت ہوگی جہاں اس وقت باہر کے انجینئرز کو ترجیح اور مقامی انجینئرز کو نظر انداز کیا جارہاہے۔باہرکی کمپنیوں کیساتھ جاب فیئرز کرائے جائیں ۔

دنیا: حکومت یا تعلیمی ادارے ایسا نظام نہیں بناسکتے جس سے طلباء کومستقبل کیلئے تیار کیا جاسکے ؟

انجینئرمحفوظ الرحمٰن :ترقی یافتہ ممالک میں 100افراد پر ایک انجینئر ہے ۔ہمارے ملک میں 7ہزا ر انجینئرز کی کمی ہے۔معیار پر بات کی جائے تو ملائیشیا ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے انجینئرز ہم سے زیادہ بہتر ہیں۔ہمارے انجینئرز دنیا کے ساتھ نہیں چل رہے ۔میٹرک اور انٹرکے بعد65فیصد بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انجینئر بنیں لیکن صحیح رہنمائی اور سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اچھے انجینئر نہیں بن پاتے ۔ہم ان بچوں کی صیحح تربیت کررہے ہیں نہ ہی آگہی دے رہے ہیں۔ہمارے انجینئرز کی معاشرے میں عزت نہیں۔ہمارا انجینئر خو دکو کمتر سمجھتا ہے جس کے نتیجے میں کسی ٹھیکیدار کو 70ہزار روپے میں ا نجینئرنگ کی ڈگری یا سر ٹیفکیٹ تک فروخت کر دیتا ہے ۔ کمپنی 20 ہزار کی بات کرکے 15ہزار ہاتھ میں تھما دیتی ہے یہ مجرمانہ عمل ہے ۔حکومت اس طرف توجہ دے اور بے روزگاروں کیلئے فنڈ قائم کرے ۔ ایک یا دو سال کیلئے وظیفہ مقرر کردے جب تک روزگار نہیں ملے اس کا گزارہ ہوتا رہے۔ ہماری پارلیمنٹ میں بہت کم لوگ ہیں جو ان مسائل کو سمجھتے ہیں ۔اس وقت 30ہزار سے زیادہ انجینئرز بیرون ملک ہیں،ہماری معیشت بیرون زرمبادلہ پر چل رہی ہے۔ سالانہ تقریبا ً32بلین ڈالر باہر سے آرہے ہیں ۔

ہمیں سوچنا ہے کہ ہمیں تعداد بڑھانی ہے یا معیار ، معیشت کی سست رفتاری کا یہ عالم ہے کہ 2لاکھ 60ہزار انجینئرز میں سے ایک لاکھ بے روزگار ہیں۔ہمار ے انجینئرز نوکری نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ٹھیلہ لگارہا ہے تو کوئی دکان کھولے بیٹھا ہے ۔المیہ ہے ہم اپنے ذہین نوجوانوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں ،حکومت اور اداروں کو سوچنے اور کچھ کرنے کا وقت ہے۔ تعلیمی اداروں میں دیگر ممالک کے ساتھ چلنے کیلئے جدید تعلیم نہیں ہے۔

دنیا: بے روزگار ا نجینئرز کے بارے میں حکومت کی پالیسی کیا ہے ؟

انجینئرمحفوظ الرحمٰن: بد قسمتی سے ہماری پارلیمنٹ میں انجینئرز کو سپورٹ کرنے کیلئے کوئی لابی نہیں۔پارلیمنٹ میں پہنچنے والے 60فیصدلوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں۔ وزراء بھی زیادہ پڑھے لکھے نہیں ۔گورنر بھی انٹر پاس ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل پر بھی ذمہ داری عائد ہو تی ہے وہ کس قسم کی لابنگ کررہی ہے ؟۔ حکومت پارلیمنٹ میں انجینئرز کے مسائل اجاگر کرے، پی ای سی اس طرف توجہ دے۔

انجینئر عبدالرحمٰن:سپلائی اور ڈیمانڈ میں بہت فرق ہے۔ہماری سپلائی بہت زیادہ ہے جس کا معیاراتنا اچھا نہیں۔ادارے تباہ ہونے کی بنیادی وجہ غیرتکنیکی لوگوں کا آنا ہے۔ کئی اداروں کاعروج اور زوال بھی دیکھا ۔ پی ٹی سی ایل کا عروج تھا،زوال بھی دیکھا ا ب دوبارہ عروج کی طرف جارہاہے۔پہلے جو انجینئر ڈی جی بن کر پہنچتا تھا وہ ہر چیز سے واقف ہوتا تھا،ٹیکنیکل طورپر چیزیں سمجھتااور شعبوں کو طریقے سے لے کر چلتا تھا جس سے ادارہ ترقی کرتا رہا جب ادارے میں غیر تیکنیکی لوگ آنا شروع ہوئے تو ادارہ تباہی کی طرف چلا گیا ۔ایک دور ایسا بھی آیا کہ ہوٹل چلانے والے لوگ آکر پی ٹی سی ایل چلارہے تھے ان کو لائن میں خرابی کی وجوہات کا معلوم تک نہیں ہوتا ،صرف زبانی حکم چلاتے تھے ۔وسائل اور مسائل کی طرف توجہ نہیں ہوتی تھی۔ایک مرتبہ افسر نے اپنے ماتحت سے کہا مجھے اس علاقے میں پی ٹی سی ایل کاکنکشن چاہیے ،ماتحت نے کہا اس علاقے میں نیٹ ورک نہیں کنکشن نہیں جاسکتا،افسر نے کہا میں کچھ نہیں جانتا چاہے رسیاں ڈالو لیکن مجھے کنکشن چاہیے ۔

جب اس قسم کے لوگ ادارے میں ہوں گے تو اداروں نے تباہ ہی ہونا ہے۔آج پی ٹی سی ایل میں باقاعدہ ڈیٹا اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کا م کیا جارہا ہے۔نظام دن بدن بہتر ہو ا ہے اب مزید بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ انجینئرز کیلئے باقاعدہ پلیٹ فارم مہیا کیاجائے تاکہ معیاری انجینئرز بن سکیں۔ نیشنل انجینئرنگ ویلفیئر ایسوسی ایشن 3 سال پہلے بنی تو اسوقت بھی انجینئرز کی تعلیم ، تربیت ،نوکری اور دیگر مسائل جو انجینئرز کو درپیش تھے ان کو حل کرنے کیلئے کوششیں کیں۔ 

 مختار احمد شیخ:کے الیکٹر ک کے ہر پول پر سرسید یونیورسٹی کا طالب علم اپنی ایک ڈیوائس بناکر لگا سکتا ہے جو ہر پول کا کرنٹ اورواٹس چیک کرکے وائی فائی سے جوڑ سکتے ہیں یہ پروپوزل کے الیکٹرک کے پاس آچکا ہے۔کے الیکٹرک اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائے تو کام بہت آسانی سے ہوسکتے ہیں۔لیکن ہمارے معاشرے میں موجود مافیا ان چیزوں کو آسانی سے نہیں ہونے دیں گی۔حکومت کوشش کرے تو ان چیزوں پر عمل ہوسکتا ہے۔

دنیا: سی پیک میں ہمارے انجینئر ز کیلئے کیا مواقع ہیں ؟

مختار احمد شیخ: سی پیک میں ہمارے انجینئرز کیلئے بہت مواقع ہیں۔پاکستان انجینئرنگ کونسل میں قانون بنایا تھا کہ سی پیک میں 70فیصد مقامی اور 30فیصد باہر کے انجینئر ز ہوں گے،ا ب صورت حال یہ ہے کہ تمام انجینئرز باہر سے لیے جارہے ہیںمقامی انجینئرز کونہیں لیا جارہا۔سی پیک میں پاکستانی کمپنیاں انجینئرز کو اچھی ملازمت اور تنخواہیں بھی نہیں د یتیں ، جب تک ہم بے روزگار انجینئرز کے حوالے سے منصوبہ بند ی نہیں کریں گے بے روزگاری ختم نہیں ہوگی ۔ 4 سال پہلے متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب، قطر اور دیگر ممالک کے جاب فیئرمیں گئے وہاں سے 22کمپنیوں کو پاکستان لائے ، 2014 میں کراچی ایکسپو میں 3 ہزار 700 انجینئر ز منتخب ہوکر باہر گئے ۔27 مقامی کمپنیاں بھی تھیں جنہوں نے باہر جانے والوں سے زیادہ انجینئرز کو نوکریاں دیں۔ ایکسپو میں لوگوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے ،کمپنیوں کے سی اوز اور سربراہ کہہ رہے تھے ان لوگوں کے انٹرویوز کیسے لیں توانہوں نے رابطہ نمبرز دیئے او ر بعد میں لوگوں کو انٹرویو کیلئے بلایا۔اسی طرح پشاو رایکسپو میں ا س سے زیادہ کمپنیاں آئیں اور زیادہ انجینئرز کو نوکریاں ملیں۔

اللہ کے فضل سے پاکستان میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ایک مرتبہ ایکسپو میں امریکی خاتون نے کہا کہ ہم انڈیا سے لوگ لیتے تھے پہلی مرتبہ پاکستان نے بلایا ۔انڈیا میں ایجنٹ کے ذریعے لو گ لیتے تھے انہیں پیسے بھی دیتے تھے اور ان لوگوں کو مکمل اسپانسر کرتے تھے ۔امریکی خاتون نے کہا اب انڈیا میں ٹیلنٹ نہیں ملتا ،قابل لوگ امریکا یا یورپ چلے جاتے ہیں تیسرے درجے کے لوگ ملتے ہیں۔ پاکستان میں بہت ٹیلنٹ ہے ۔ 2014 میں 40 ہزار انجینئرز بے روزگار تھے جواب بڑھ کر ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئے ہیں ۔ فورم کے توسط سے تجویز ہے پاکستان انجینئرنگ کونسل بڑے کنٹریکٹرزکے ساتھ ساتھ چھوٹے کنٹریکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی کرے تو بہت سے انجینئرز کی تربیت ہوگی اور کمپنیز کھلیں گی جو کئی انجینئرز کے روزگار کا سبب بن سکتی ہیں۔پی ای سی اور حکومت پاکستان میڈ ان پاکستان کوفروغ دے اس سے انڈسٹریز بھی پروان چڑھے گی ۔

محفوظ الرحمٰن :ہمیں اپنے ذہین طالب علموں اور انجینئرز کی تربیت کیلئے مرکزاور تما م صوبوں میں اکیڈ میاں بنانی ہوں گی۔حکومت کوئی ایسا نظام یا اکیڈمی بنائے جس میں اعلیٰ سطح کے تربیت یافتہ لوگ ہوں خواہ انہیں باہر سے بلایاجائے وہ ہمارے بچوں کی تربیت کریں ا سکے نتیجے میں دیگر ممالک سے معاہدے بھی کرسکتے ہیں یہ چیزیں ناممکن نہیں کوشش کریں تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔جب تک ہم سب مل کر کام نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ 

دنیا:انجینئر بننے میں گھر والوں نے سپورٹ کی؟

انجینئر صائمہ کھوڑو :انجینئر بننے کیلئے گھر والوں کی طرف سے بہت سپورٹ ملی ۔ہمارے نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ یونیورسٹی یا کالج سے فارغ ہو گئے اب کسی اچھے دفترمیں ملازمت مل جائے اے سی ہواور کمرہ ہو۔تنخوا ہ زیادہ ہو۔تنخواہ کم ملنے سے پریشان ہوجاتے ہیں ۔ باہر نکل کر کام کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جب تک ہم عملی میدان اور جذبے کے تحت کام نہیں کریں گے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ خواتین کیلئے گھر اور جامعات کے ماحول میں بہت فرق ہوتاہے۔اساتذہ اور والدین شعبے سے متعلق صحیح طرح رہنمائی اور آگہی دیں تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔

دنیا :نوجوان انجینئرز کو کن مسائل کا سامناہوتا ہے ؟

پلوشہ خان : زیادہ تر نوجوان اور طلباء اعدادو شمار پر توجہ نہیں دیتے ۔ ہمارے پاس انجینئرز کی تعداد تو ہے لیکن معیار نہیں ۔ کمپنی یا صنعتوں کو معیار کے لوگ نہیں ملتے جس کے نتیجے میں طلباء نوکری سے محروم او رمایوس ہوجاتے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔